دوری خدا سے ہم کو یہ دن دکھا رہی ہے---برائے اصلاح

الف عین
محمّد خلیل الرحمن
مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن
دوری خدا سے ہم کو یہ دن دکھا رہی ہے
مل کر ہمیں یہ دنیا ساری ستا رہی ہے
---------------
منزل مری تو تیرا ہی راستہ ہے یا رب
لے کر مجھے یہ دنیا کیوں دور جا رہی ہے
-----------
میرے تو راستے ہیں تجھ سے جدا اے دنیا
کیسے مجھے تو اپنا ساتھی بنا رہی ہے
---------------
میرا خدا ہے میرا تو آخری سہارا
مجھ کو اسی سے دوری دنیا سکھا رہی ہے
-----------
رمضان کا مہینہ آیا ہے بن کے رحمت
اس میں مجھے کیوں ایسے یہ نیند آ رہی ہے
-----------
رب تو پکارتا ہے آؤ قریب میرے
دنیا کا ظرف کم ہے جو دور جا رہی ہے
---------------
جانا ہے پاس رب کے تھوڑا ہے وقت باقی
میرے قریب میری جو موت آ رہی ہے
------------
سامان کچھ تو کر لیں جانے کا ہم یہاں سے
محشر کی وہ گھڑی بھی ہم کو بلا رہی ہے
------------
رمضان میں تو بخشش آسان ہو گئی ہے
رحمت خدا کی ارشد تجھ کو بُلا رہی ہے
 

الف عین

لائبریرین
کیا پرنٹ کر لیتے ہیں اپنی غزل؟ تو ورڈ وغیرہ میں کاپی پیسٹ کر کے ڈاکومنٹ بنا کر پرنٹ کیا کریں
مطلع سے ہی میرے ذہن میں وہی بات پھر آ رہی ہے جو اکثر کہتا رہتا ہوں، الفاظ بدل بدل کر دیکھا کریں کہ کون سی صورت بہترین ہے؟
دوری خدا سے ہم کو یہ دن دکھا رہی ہے
مل کر ہمیں یہ دنیا ساری ستا رہی ہے
--------------- پہلے مصرع کی متبادل صورتیں
دوری خدا سے ہم کو یہ دن دکھا رہی ہے
ہم کو خدا سے دوری یہ دن دکھا رہی ہے
دوری ہمیں خدا سے........
یہ دن خدا سے دوری ہم کو......
اپنے خدا سے دوری یہ سن.....
دوسرے مصرعے کے متبادل
دنیا ہمیں یہ ساری مل کر ستا....
مل کر یہ ساری دنیا ہم کو.....
ساری ہی دنیا مل کر ہم کو......
وغیرہ وغیرہ
اب خود پسند کر لیں کہ کیا بہتر ہے روانی کے اعتبار سے

منزل مری تو تیرا ہی راستہ ہے یا رب
لے کر مجھے یہ دنیا کیوں دور جا رہی ہے
----------- پہلے مصرع کے متبادل سوچیں

میرے تو راستے ہیں تجھ سے جدا اے دنیا
کیسے مجھے تو اپنا ساتھی بنا رہی ہے
--------------- کیسے یا کیونکر؟ کیا بہتر لگتا ہے؟
متبادل شکلیں دیکھیں دونوں مصرعوں کی

میرا خدا ہے میرا تو آخری سہارا
مجھ کو اسی سے دوری دنیا سکھا رہی ہے
----------- دوری کا ذکر بار بار نہیں ہو گیا؟ اس دہرانے سے بچا کریں

رمضان کا مہینہ آیا ہے بن کے رحمت
اس میں مجھے کیوں ایسے یہ نیند آ رہی ہے
----------- یہ نیند؟ یہاں 'یوں نیند' کا محل ہے
کیوں آج کل بھی مجھ کو یوں نیند آ رہی ہے
الفاظ بدل کر رواں صورتوں کی ایکسرسائز یہاں بھی کی جا سکتی ہے

رب تو پکارتا ہے آؤ قریب میرے
دنیا کا ظرف کم ہے جو دور جا رہی ہے
--------------- پھر وہی دوری! دنیا کی کم ظرفی سے دوری کا تعلق؟

جانا ہے پاس رب کے تھوڑا ہے وقت باقی
میرے قریب میری جو موت آ رہی ہے
------------ ٹھیک ہے، روانی بہتر ہو سکتی ہے

سامان کچھ تو کر لیں جانے کا ہم یہاں سے
محشر کی وہ گھڑی بھی ہم کو بلا رہی ہے
------------ گھڑی ' بھی'، بھرتی کا ہے

رمضان میں تو بخشش آسان ہو گئی ہے
رحمت خدا کی ارشد تجھ کو بُلا رہی ہے
... دونوں مصرعوں میں 'ہے' کے اختتام سے بچیں ۔ الفاظ بدل کر دیکھیں
 
ہم کو خدا سے دوری یہ دن دکھا رہی ہے
مل کر یہ ساری دنیا ہم کو ستا رہی ہے
---------------
یا رب مجھے چلانا اپنے ہی راستے پر
کیوں دور تجھ سے دنیا لے کر یہ جا رہی ہے
-----------
مجھ کو نہ راس آئے میرے خدا یہ دنیا
جھوٹی چمک سے مجھ کو اپنا بنا رہی ہے
-------------
مدْت ہوئی ہے دیکھے یا رب مجھے مدینہ
محبوب کی گلی پھر مجھ کو بُلا رہی ہے
-----------------
میرے تو راستے ہیں تجھ سے جدا اے دنیا (رستے پہ تیرے مجھ کو ہرگز نہیں ہے چلنا )
کیونکر مجھے تو اپنا ساتھی بنا رہی ہے
---------------
آساں نہیں ہے جینا یہ زندگی کٹھن ہے
الفت خدا کی لیکن رستہ دکھا رہی ہے
-------------
رمضان کا مہینہ آیا ہے بن کے رحمت
کیوں آج کل بھی مجھ کو یوں نیند آ رہی ہے
--------------
رب تو پکارتا ہے آؤ قریب میرے
دنیا کا ظرف کم ہے جو دور جا رہی ہے
---------------
سامان کچھ تو کر لیں جانے کا ہم یہاں سے
یہ زندگی کی مہلت گھٹتی ہی جا رہی ہے
----------
کیوں کھینچتی ہے دنیا اپنی طرف مجھے بھی
جانے قریب اپنے کیوں مجھ کو لا رہی ہے
-------------
رمضان کا مہینہ بخشش لئے ہے آیا
رحمت خدا کی ارشد تجھ کو بُلا رہی ہے
---------------
 

الف عین

لائبریرین
کچھ اور اشعار کا اضافہ!
ہم کو خدا سے دوری یہ دن دکھا رہی ہے
مل کر یہ ساری دنیا ہم کو ستا رہی ہے
--------------- درست

یا رب مجھے چلانا اپنے ہی راستے پر
کیوں دور تجھ سے دنیا لے کر یہ جا رہی ہے
----------- درست

مجھ کو نہ راس آئے میرے خدا یہ دنیا
جھوٹی چمک سے مجھ کو اپنا بنا رہی ہے
------------- 'راس آئے ' دعائیہ ہے؟ دوسرے مصرعے سے تعلق نہیں پیدا ہو سکا۔ رابطے کے لیے 'جو' ضروری ہے

مدْت ہوئی ہے دیکھے یا رب مجھے مدینہ
محبوب کی گلی پھر مجھ کو بُلا رہی ہے
----------------- یا رب معنی خیز نہیں لگتا
اک عرصہ ہو گیا ہے دیکھے مجھے مدینہ
بہتر ہو گا

میرے تو راستے ہیں تجھ سے جدا اے دنیا (رستے پہ تیرے مجھ کو ہرگز نہیں ہے چلنا )
کیونکر مجھے تو اپنا ساتھی بنا رہی ہے
--------------- پہلے مصرع کی پہلی صورت بہتر ہے مفہوم میں لیکن روانی چاہتی ہے، اے کے ے کے اسقاط کے باعث، محض دنیا کہہ کر دیکھیں الفاظ بدل کر جیسے
دنیا! ہیں تیری راہیں....

آساں نہیں ہے جینا یہ زندگی کٹھن ہے
الفت خدا کی لیکن رستہ دکھا رہی ہے
------------- دونوں مصرعوں کا 'ہے' پر اختتام! پہلے مصرع میں ترتیب الٹ دیں

رمضان کا مہینہ آیا ہے بن کے رحمت
کیوں آج کل بھی مجھ کو یوں نیند آ رہی ہے
-------------- درست

رب تو پکارتا ہے آؤ قریب میرے
دنیا کا ظرف کم ہے جو دور جا رہی ہے
--------------- اس شعر کو نکال ہی دیں

سامان کچھ تو کر لیں جانے کا ہم یہاں سے
یہ زندگی کی مہلت گھٹتی ہی جا رہی ہے
---------- یہ زندگی؟ یہ بھرتی کا لگ رہا ہے

کیوں کھینچتی ہے دنیا اپنی طرف مجھے بھی
جانے قریب اپنے کیوں مجھ کو لا رہی ہے
------------- یہ شعر بھی نکال دیں، بہت دنیا دنیا ہو گئی!

رمضان کا مہینہ بخشش لئے ہے آیا
رحمت خدا کی ارشد تجھ کو بُلا رہی ہے
--------------- ٹھیک
 
Top