دودھ دہی کی مہنگائی ۔۔۔۔۔۔---از دکتور ظہور احمد اعوان۔۔روزنامہ اج پیشور

Dilkash

محفلین
کہا جاتا ہے کہ پاکستان دنیا میں دودھ پیدا کرنے والا چوتھا پانچواں ملک ہے‘ سبحان اللہ! نئیں ریساں اپڑے پاکستان دیاں مگر دودھ دہی کے نرخ آسمان سے باتیں کرنے لگے ہیں۔ مجھ سے ایک دودھ بیچنے والے برخوردار نے فون پر کہا سر! اس پر کچھ لکھیں میں نے کہا تمہیں تو خوش ہونا چاہئے‘ اس کے دل میں انسانیت کا درد تھا وہ روہانسی آواز میں بولا سر! میں بھی غریب گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں‘ ایک دودھ فروش کی دکان کا مزدور ہوں‘ پڑھا لکھا ہوں مگر مجبور ہوں‘ غربت اور بے روزگاری کے ہاتھوں مگر حساس دل رکھتا ہوں‘ جب کوئی بزرگ مائی اپنی چادر کے کونے سے دس روپے مجھے نکال کر دودھ طلب کرتی ہے تو میرا کلیجہ پھٹ اور آنکھیں آبدیدہ ہو جاتی ہیں۔

اس برخوردار نے میری منت سماجت کرتے ہوئے اور کالموں کو ہر درد کا مداوا سمجھتے ہوئے میرے در پر دہائی دی۔ رونا تو مجھے آیا کہ یہ گھر گھر کی کہانی ہے سوائے ایک فیصد سرمایہ داروں کے باقی 99 فیصد غریبوں اور سفید پوشوں کو ان خاموش خشک آنسوؤں کی ندی ہر روز ہر شے کی مہنگائی پر پار کرنی پڑتی ہے۔

میں نے برخوردار سے کہا آپ کی درخواست حق بجانب اور میں حکم کی تعمیل بھی کروں گا مگر ہو گا کچھ نہیں‘ یہ دنیا اسی طرح چلتی رہے گی‘ غریب لوگ روتے روتے چیختے چیختے مر جائیں گے اور ملک کا فیوڈل نظام یوں جشن مناتا رہے گا۔ مجھے یاد ہے جب میں 70ء کی دہائی میں مانسہرہ کالج میں تھا تو دودھ بارہ آنے سیر تھا‘ ایک دن گوالے نے دو آنے نرخ بڑھا دیا تو ہم نے اس کا بائیکاٹ کر دیا جب تک اس نے دودھ کے نرخ بارہ آنے تک نہ پہنچائے ہم نے اس سے دودھ لینا چھوڑ دیا۔ اب دودھ 60 روپے اور دہی 70 روپے کلو کر دیا گیا ہے مگر کوئی احتجاج نہیں‘ کوئی شور ہنگامہ نہیں سوموٹو ایکشن اور نہ حکومت ان چھوٹی چیزوں کی طرف مڑ کے دیکھتی ہے‘ اسے قرضے مانگنے اور پھر انہیں ہڑپ کرنے سے فرصت نہیں۔ آزاد عدلیہ کو سیاستدانوں کے مقدمات سننے سے فراغت نہیں‘ دودھ‘ دہی‘ چینی‘ آٹا اور دوسری اشیائے صرف ان کے نوکروں کے نوکر لے آتے ہیں

یہ لوگ کھانا جا کر فائیو سٹار ہوٹلوں میں کھاتے ہیں‘ ان کو کیا پتہ غریب کے دل اور گھر پر کیا گزر رہی ہے۔ کس طرح غریب کا بچہ ایک بوند دودھ کو اس ملک میں ترس گیا ہے جو دنیا کا چوتھا بڑا دودھ پیدا کرنے والا ملک ہے۔ جو بزرگ خاتون اپنے آنچل سے دس روپے کھول کر دودھ لے جاتی ہے اس سے تو ایک وقت کی آبدیدہ چائے نہیں پکتی مگر اسے چائے کا رنگ بدلنے کے لئے اس دودھ کو صبح و شام استعمال کرنا ہوتا ہے‘ اس کے سوا اور کوئی چارہ بھی نہیں‘ سارے مل کر خودکشی کر نہیں سکتے البتہ ہر شہر اور قصبے سے ہر روز دو چار لوگوں کے زہر کھانے کی خبریں آتی رہتی ہیں۔

میں نے اس برخوردار سے کہا کہ دنیا کی کوئی طاقت اب دودھ کو یا کسی بھی چیز کو سستا نہیں کر سکتی‘ زیادہ وقت کی بات نہیں‘ یہی دودھ سو روپے سیر بکے گا پھر آج کا زمانہ سنہرا نظر آئے گا۔ جب چھوٹا گوشت ڈیڑھ روپے سیر بکتا تھاغریب آدمی نہیں کھا سکتا تھا اب کھانے والے 350 روپے سیر کے حساب سے کھا رہے ہیں‘ کڑاہی گوشت کی دکانیں بڑھتی جا رہی ہیں۔ ایک ستم ظریف کا کہنا ہے کہ اس کا دل کڑاہی گوشت کھانے کے لئے ترستا ہے تو وہ شام کے بعد نمکمنڈی کا چکر لگاتا اور صرف خوشبوئیں سونگھ سونگھ کر واپس آ جاتا ہے۔ اب دودھ کا بھی یہی عالم ہو گا‘ دکانوں پر جا کر صرف دودھ کی زیارت کرنی ہو گی اور ان خوش نصیبوں کی طرف رشک سے دیکھنا ہو گا‘ جو دودھ خرید کر گھر لے جا رہے ہوں گے۔

برخوردار دودھ فروش دل اپنا دکھا نہ ہمارا‘ پورا جسم زخم زخم ہے‘ کہاں کہاں پھاہا رکھا جائے گا۔ دودھ والے فارم والوں کو ملزم ٹھہراتے ہیں‘ فارم والے ملکی نظام اور سپلائی ڈیمانڈ کا رونا روتے ہیں‘ قصور عوام کا بھی ہے ہر سال پچاس لاکھ دودھ اور چائے پینے والے بچے ہم پیدا کریں گے تو یہی کچھ ہو گا جو ہو رہا ہے۔

Dated : 2010-07-20 00:00:00
 
Top