دن ڈھلے صبر کے دریا میں بہا آتا ہوں

اساتذہء کِرام
محترم جناب الف عین صاحب
محترم جناب محمد یعقوب آسی صاحب
دیگر اسا تذہ اور احباب محفل :

ایک غزل اصلاح کی درخواست کے ساتھ پیش ہے

بحر ۔۔۔۔۔
فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن
بحر رمل مثمن مخبون محذوف
------------------------------------------
بن کے محبوسِ شبِ غم کی ندا آتا ہوں
میں ترے لب پہ بہ اندازِ دعا آتا ہوں

آہِ آوارہ، دبی سسکی، چھلکتی آنکھوں
بن کے ہر خواب کی تعبیرِ وفا آتا ہوں

فرقت و ہجر نے، سب آس کے پتّے جھاڑے
اک بیاباں لیے اس دل میں، چلا آتا ہوں

پھر وہی خواب، لٹی شامِ تمنّا لے کر
نخلِ امّید! میں مایوسِ دعا، آتا ہوں

چن کے رکھ لیتا ہوں دشنام کے پتھر سارے
دن ڈھلے صبر کے دریا میں بہا آتا ہوں

اس تخیّل کے بھی پر نوچ دوں کاشف اب تو
فکر کے دام میں جو کچھ ہے، اڑا آتا ہوں

سید کاشف

---------------------------------
 
آپ زبان کا خیال نہیں رکھتے بھائی۔
بھاری بھرکم تراکیب مشاعرہ لُوٹنے میں بہت ممد ہوتی ہیں، مگر جب لکھا ہوا پڑھا جائے تو اُن کا طلسم جاتا رہتا ہے۔ "محبوسِ شبِ غم کی ندا" یہ سادہ تر الفاظ میں ہوتا تو دور رس ہوتا۔ "مایوسِ دعا" اس کو کیا مفہوم دیا جائے؟ دعا سے مایوس؟ دعا کی قبولیت سے مایوسی ہو سکتی ہے، دعا تو عمل ہے؛ یا پھر شاید "تارکِ دعا" ہوتا؟ آپ کا ذہن پڑھنے میں یہ شعر کوئی مدد نہیں کر رہا۔ اسی شعر میں تمنا بھی ہے خواب بھی ہے نخلِ امید بھی ہے تو مایوسی کیا ہوئی پھر؟
دشنام کے پتھر والا شعر البتہ کچھ بن رہا ہے، اور فرقت و ہجر والا بھی۔
آخری شعر کے دونوں مصرعے ایک دوسرے کا ساتھ نہیں دے رہے یا پھر میں اس کو نہیں پا رہا؟ فکر کے دام میں کیا ہے؟ کس کو "اڑا دینا" مقصود ہے؟ کیا تخیل کو؟ تخیل ہی تو فکر ہے۔ دام کس کا ہوا اور جس کے پر نوچ دیے گئے اس کو آزاد کرنا نہ کرنے سے بھی گیا۔ یہاں ایک لسانی مسئلہ "اڑا آتا ہوں" کو اس نہج پر دیکھئے "چلا آتا ہوں"، "بھاگا آتا ہوں"، "اُڑا آتا ہوں" یعنی میں اُڑتا ہوا آ رہا ہوں۔ کسی دوسرے کو یا کسی چیز کو، کسی غم کو "اُڑا دینا" ہوتا ہے۔
"دبی سسکی" اس میں سسکی کی ی بھی دب گئی! ترکیب کا مسئلہ "خواب کی تعبیرِ وفا"؟ وفا کی تعبیر؟ خواب کی تعبیر؟ وفا کی تو کوئی تعبیر نہیں ہوتی وفا کا تو بدلہ ہوتا ہے جیسا بھی ملے۔ آپ خود خواب کی تعبیر بن کر آ رہے ہیں تو اوپر والا مصرع کیا کسی سے خطاب ہے؟ یا خود کلامی ہے؟
 
کہنا یہ ہے کہ ۔۔۔
شعر کی زبان کو جس قدر آسان، مفاہیم کو جتنے سادہ اور عام فہم، اور زبان کو جس قدر واضح اور صاف رکھ سکیں اسی قدر شعر اور قاری کی سانجھ بڑھے گی۔ قاری الجھاووں میں پڑنا پسند نہیں کرتا۔ مطالب کی گہرائی اور بات ہے، الجھاوا اور بات ہے؛ ذو معنی ہونا اور بات ہے غیر واضح ہونا اور بات ہے۔
اور وہی بہت بار کی کہی ہوئی بات کہ شعر کا مقصد بحر کو نبھانا ہی نہیں، بحر تو ایک تقاضا ہے؛ آپ کے کلام کو کلامِ منظوم سے آگے نکل کر شعر کے درجے کو پہنچنا ہے۔ شاعر، شِعر، شعور، اس میں شَعر کو بھی شامل کر لیجئے (باریکی) تو لطف دوبالا ہو جائے۔
 
بہت بہت شکریہ استاد محترم ۔۔۔ جزاک اللہ ۔۔
میں دوبارہ کوشش کرتا ہوں ۔۔ زبان کی غلطیوں پر اب خصوصی نظر رکھوں گا ۔۔ انشا اللہ ۔۔۔
 
Top