حسان خان
لائبریرین
دنیا کے مخمصوں سے کب اس کو واسطہ تھا
نا آشنا تھا سب سے جو تیرا آشنا تھا
ناوک میں اس کے کوئی کیا جانے کیا مزا تھا
ہر زخمِ دل سے پیدا اک شورِ مرحبا تھا
کس کس ادا سے ظالم مقتل میں آ رہا تھا
تیور چڑھے ہوئے تھے خنجر تُلا ہوا تھا
کل میکدے میں اس کی رندوں سے خوب ہوتی
اچھا ہوا جو زاہد غصے کو پی گیا تھا
اللہ رے شوقِ شیریں جاں کوہکن نے دے دی
وہ جلوہ حُسن کا تھا یہ سحر عشق کا تھا
سائے سے بھی وہ اپنے تھا بدگماں یہاں تک
ہر ہر قدم پہ ظالم پھر پھر کے دیکھتا تھا
اک تم کہ ابتدا سے آمادۂ جفا تھے
اک میں کہ جو ازل سے دلدادۂ وفا تھا
چلتے ہو کس لیے تم دامن جھٹک جھٹک کر
کیا کوئی فتنہ زیرِ دامن چھپا ہوا تھا
معدوم تھا وہ قطرہ دریا سے جو الگ تھا
برباد تھا وہ دانہ خرمن سے جو جدا تھا
دنیا میں ہم نے رہ کر اچھا برا نہ جانا
آنکھوں پہ بیخودی کا پردہ پڑا ہوا تھا
تسکینِ دل کی خاطر کافی تھا یہ بھی جوہر
وہ کاش پوچھ لیتے کیا تیرا مدعا تھا
(سید جرار حیدر زیدی 'جوہر')
۱۹۲۸ء