دنیا کی عمرکتنی اور قیامت کب آئے گی؟

رضا

معطل
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔

دنیا کی عمرکتنی اور قیامت کب آئے گی؟
p211.gif

p212.gif

p213.gif

p214.gif

p215.gif
 

شمشاد

لائبریرین
سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ چند تصویری صفحے لگا کر آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟ اس سے بہتر تھا کہ کتاب کو حوالہ دے کر یونیکوڈ میں ارشاد فرماتے۔
 

arifkarim

معطل
اس سوال کے جواب کےلئے احادیث میں پھلورا پھلاری کی بجائے اگر جدید فلکیات سے مدد لے لی جاتی تو زیادہ بہتر جواب آتا۔
ہمارے نظام شمسی کو صرف سورج کی ضرورت ہے۔ اور یہ سورج چند صدیاں نہیں بلکہ ابھی کئی ارب سال اور جل سکتا ہے۔ ہاں اگر اس دوران اچانک کوئی بلیک ہول، شہاب ثاقب ٹکرا جائے یا از خود حضرت انسان کوئی ہتھیار بنا کر اپنے آپکو ختم کر لے تو قیامت کہیں جلدی آسکتی ہے۔ جیسا کہ 2012ء میں متوقع ہے!
 

خرم

محفلین
بہت شکریہ شمشاد بھائی۔
دُنیا کی عمر کتنی ہے اس بارے میں کافی باتیں ہوتی رہیں۔ عیسائی علماء نے انجیل کے اپنے فہم کو بنیاد بنا کر نا صرف ایک تاریخ متعین کردی بلکہ اس سے انحراف کو دین سے انحراف بھی قرار دینا شروع کردیا۔ یہ نظریہ کچھ عرصہ تک تو مانا جاتا رہا لیکن پھر بہرحال سائنسی طریق سے زمین کی پیدائش کے متعلق اندازہ لگانے کا آغاز ہوا اور گزشتہ صدی کے دوران زمین کے اپنے اندر ملنے والے ثبوتوں سے یہ اندازہ لگایا گیا کہ زمین کی عمر قریباَ ساڑھے چار ارب سال ہے۔ پڑھنے میں یہ یقیناَ چھوٹا سا ہندسہ ہے لیکن ایک انتہائی طویل مدت ہے۔ اگر ساڑھے پانچ ارب سال کو دو دنوں‌میں تقسیم کیا جائے تو اس کا ایک سیکنڈ قریباَ چھبیس ہزار اکتالیس برس پر مشتمل ہوگا۔ یعنی حضرت موسٰی علیہ السلام سے لیکر آج تک کا دور ایک سیکنڈ کا ہزارواں حصہ یا اس سے بھی کم کا دورانیہ ہوگا۔ ساڑھے چار ارب سال کی اس مدت میں زمین پر ممالیہ جانوروں کی آمد صرف سولہ کروڑ سال قبل ہوئی جو زمین کی موجودہ عمر کے حساب سے دوسرے دن کے اختتام سے صرف ایک گھنٹہ اور قریباَ بیالیس منٹ پہلے کا عرصہ بنتا ہے۔ اس میں بھی ممالیہ جانوروں کا ارتقاء صرف پانچ کروڑ برس قبل ہوا جو زمین کی دو روزہ زندگی کے حساب سے قریباَ بتیس منٹ کا عرصہ بنتا ہے جب زمین ڈائنوسار سے خالی ہو گئی تھی۔ اور پھر ان پانچ کروڑ برس میں ممالیہ جانور زمین کے حکمران بن گئے۔ لیکن اگر دیکھا جائے توممالیہ جانوروں کی حکمرانی کا عرصہ بہت قلیل ہے۔ مثال کے طور پر ڈائنو سار نے زمین پر سولہ کروڑ برس حکومت کی یعنی ممالیہ جانوروں سے قریباَ تین گنا زیادہ عرصہ۔ ان پانچ کروڑ برس میں جب ممالیہ جانور زمین کی حکمرانی سنبھال رہے تھے انسان کی آمد آج سے قریباَ دو لاکھ برس قبل ہوئی۔ یعنی جب دُنیا اپنی موجودہ دو روزہ عمر کے وجود کے آخری گھنٹے کے بھی آخرمنٹ سے گزر رہی تھی۔ اور زمین کی عمر کے حساب سے پلک جھپکتے ہی یعنی صرف دو لاکھ برس کے اندر جو زمین کی دو روزہ عمر کا آٹھ سیکنڈ‌سے بھی کم عرصہ بنتا ہے، انسان اس زمین کا مالک بن گیا یعنی قرآن کے الفاظ میں زمین پر اللہ کا خلیفہ بن گیا۔ یہ تو ہے مختصر تعارف۔ بات ابھی جاری رہے گی انشاء اللہ۔
 

arifkarim

معطل
یہ کیا محفل پر سیاسی سسٹم چل رہا ہے؟ میری پوسٹ کے بعد ناظم صاحب نے دھاگہ مقفل کر دیا اور آج دیکھ رہا ہوں کہ انکی پوسٹ تدوین شدہ اور دھاگہ دوبارہ اوپن ہے؟ :confused:
ہمیں‌اسکی وجہ بتائیں یا ہم بتائیں :)
 

شمشاد

لائبریرین
عارف بھائی دھاگہ مقفل کرنا یے غیر مقفل کرنے میں کوئی سیاست نہیں ہے، اور یہ دھاگہ آپ کے پیغام کی وجہ سے مقفل نہیں کیا گیا تھا۔

اب ایک رکن کی درخواست تھی کہ دھاگہ غیر مقفل کر دیں اور انہوں نے وجہ بھی بیان کی تھی، جس کی بنا پر اسے غیر مقفل کیا گیا ہے۔
 

خرم

محفلین
اب آتے ہیں مذہب کی جانب۔ احادیث سے ہمیں یہ بات ملتی ہے کہ دُنیا کی عمر دو دن ہے۔ اب یہ دو دن زمین کی پیدائش سے قیامت کے وقوع تک ہیں یا انسان کی پیدائش سے قیامت کے وقوع تک؟ پھر عموماَ ان دو دونوں کے لئے یہ مثال لی جاتی ہے کہ ایک دن ایک ہزار سال کے برابر ہے۔ لیکن قرآن میں ایک دن کے پچاس ہزار سال کے برابر ہونے کا بھی ذکر ہے۔ پھر ہزار عربی محاورہ میں ان گنت کے لئے بھی آتا ہے۔ اور اگر دُنیا کی عمر دو ہزار برس کی لگا دی جائے تو اس سے زیادہ عرصہ تو حضرت عیسٰی علیہ السلام کی آمد سے آج کے وقت تک گُزر چُکا ہے۔ میرے خیال میں تو صحیح یہی ہے کہ سائنس کی بیان کردہ عمر اور اندازے زیادہ درست اور احادیث و قرآن کے زیادہ قریب ہیں۔ جیسے کہ اوپر بیان کیا کہ انسان کی آمد کے دولاکھ برس زمین کی عمر کے حساب سے آٹھ سیکنڈ سے بھی کم بنتے ہیں۔ اب اگر انسان کی تخلیق سے آج تک کے وقت کو دو دن کے حساب سے رکھا جائے تو نبی کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کا زمانہ آج سے اکیس منٹ سے کچھ قبل بنتا ہے۔ سو دونوں‌صورتوں میں یہ بات ثابت ہے کہ دنیا اپنی عمر کا زیادہ حصہ گزار چُکی ہے اور اختتام کے قریب ہے اور سائنس کے اندازے احادیث کی مخالفت میں نہیں بلکہ اس کی موافقت میں ہیں۔ عمومی طور پر دُنیا کی عمر کو دس ہزار برس بتایا جاتا ہے لیکن ان میں سے ساڑھے نو سو برس تو حضرت نوح علیہ السلام کا زمانہ ہے۔ پھر قریباَ ایک ہزار برس حضرت آدم علیہ السلام کا زمانہ ہے اور پھر اس بات پر کئی احادیث شاہد ہیں کہ اگلی امتوں کی عمریں انتہائی زیادہ ہوا کرتی تھیں تو دس ہزار سال میں ان کی کتنی نسلیں سما سکتی ہیں؟ ہاں‌اگر پیدائش آدم علیہ السلام سے آج تک کا زمانہ دو لاکھ برس کا ہو تو پھر یقیناَ یہ اس قدر طویل مدت ہے کہ سینکڑوں برس کی عمر کی کئی سنگتیں آکر کھپ جائیں‌اور عمریں بتدریج گھٹتی ہوئی اس معیار کو پہنچ جائیں جہاں‌پر وہ آج ہیں۔ اور اسی حساب سے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر تشریف لائیں‌تو بھی اوسط قریباَ ڈیڑھ برس میں ایک پیغمبر کی بعثت کی بنتی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔
 

خرم

محفلین
سو اگر اگلی تین چار صدیوں میں بھی قیامت آجاتی ہے تو دنیا کی عمر یا انسان کی عمر کے لحاظ سے احادیث میں دئیے گئے اشاروں میں کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ اسی تناظر میں اس سوال کو سامنے رکھئے جب اللہ کریم انسان سے پوچھیں گے کہ دُنیا میں کتنا عرصہ رہا تو وہ کہے گا کہ ایک لمحہ یا اس کا بھی کچھ حصہ۔ متذکرہ بالا اعداد سے اس جواب کی حقانیت پوری طرح واضح ہوجاتی ہے۔ سائنس اگرچہ ابھی تک اس بات کو نہیں جانچ پائی کہ اول وقت کے انسانوں کی عمریں بہت لمبی ہوتی ہیں لیکن انشاٗ اللہ ایک وقت آئے گا جب وہ اس حقیقت کو بھی پا لیں گے اور قرآن و حدیث کی حقانیت پوری طرح واضح ہو جائے گی۔ جہاں تک وقوع قیامت کا تعلق ہے، ایک انسان کے لئے تو اس کا آغاز اس کی موت سے ہی ہوجاتا ہے کہ جب اعمال منقطع ہو گئے تو پھر صبح آئے کہ ہزار برس بعد کیا فرق پڑتا ہے۔ نبی پاک صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث مبارک کے مطابق حضرت اسرافیل نے سور کو اپنے ہونٹوں کے قریب کر لیا ہے اور کان اذن کے لئے چوکنے کر لئے ہیں۔ لیکن یہ آفاق کا وقت ہے، اس ایک لمحہ میں زمین کے ہزاروں برس بیت سکتے ہیں۔ قیامت کے آنے کا اصل وقت تو صرف اللہ کو معلوم ہے اور اس نے اس راز پر اپنے حبیب صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مطلع فرمایا سو نبی پاک حضرت محمد مصطفٰے صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قیامت کی نشانیوں کی واضح نشاندہی فرما دی۔ لیکن فی الحال قیامت کی بڑی نشانیوں کا ظہور باقی ہے اور وہ بہت ابتلا کا وقت ہوگا۔
وقوع قیامت کے جو اشارے ملتے ہیں ان کی بھی سائنس کی ساتھ حد درجہ مطابقت ہے۔ ایک حوالہ یہ آتا ہے کہ سورج سوا نیزے پر آجائے گا۔ ایک ستارہ جب اپنی عمر کے اختتام پر ہوتا ہے تو انتہائی پھیل جاتا ہے۔ سائنس یہ مانتی ہے کہ سورج جب اپنی عمر کے اختتام پر پہنچے گا تو اس کا حجم بے انتہا بڑھ جائے گا اور مریخ اور زمین کے مدار کے قریب آجائے گا۔ اس وقت سورج کی کشش پہاڑوں پر یقیناَ وہ اثر ڈال سکتی ہے کہ وہ دھنکی ہوئی اون کی طرح اُڑتے پھریں گے۔ پھر کچھ کروڑ برس میں سورج بتدریج ٹھنڈا ہوتا ہوا بالآخر مر جائے گا۔ غالباَ یہی وہ وقت ہوگا جب حشر برپا ہوگا۔ سائنس کا اندازہ ہے کہ سورج کوئی پانچ ارب سال بعد مرنا شروع ہوگا لیکن بہرحال یہ ایک اندازہ ہے اور اس کی بنیاد سب کچھ کے معمول کے مطابق چلنے پر ہے۔
قصہ مختصر قیامت کب آئے گی یہ تو ہم نہیں جان سکتے اور شائد ہمارے گزر جانے کے بھی سینکڑوں برس بعد آئے لیکن اصل بات یہ ہے کہ اس قیامت کے لئے ہم نے کیا تیاری کی ہے اور اسی پر غور رہنا چاہئے۔
 

dxbgraphics

محفلین
پلید "اسرائیل جو کہ 1967 میں وجود میں آیا " ریاست کے وجود میں آنے کے پینتالیس سال بعد حضرت عیسیٰ علیہ سلام زمین پر اتارے جائینگے جس سے 2012 میں ان کی آمد متوقع ہے (واللہ اعلم (
 
Top