دل کا دروازہ وا کرے کوئ

صابرہ امین

لائبریرین
اب درست ہو گئی، لیکن میں نے تو عقل پر زور دئے بغیر مصرعے تجویز کئے تھے، تم نے خود محنت کئے بغیر قبول کرلئے! جس طرح ظہیر میاں کی تجاویز قبول کرتے وقت اپنی عقل بھی استعمال کی تھی( گو مجھے پسند نہیں آئے تھے وہ مصرعے) اسی طرح اپنی عقل بھی استعمال کیا کرو کبھی کبھی
متبادل بھی اچھے ہیں، جو چاہو، رکھ لو
جی بہتر۔ آئندہ خیال رکھوں گی ۔
اصل میں آپ سے بہتر متبادل ذہن میں نہیں آئے تو سوچا یہی رکھ لوں ۔ شکریہ
ویسے آپ کے اشعار کچھ برکت شَرکت کے لیے بھی ڈال دیے جاتے ہیں۔:D
 
آخری تدوین:

یاسر شاہ

محفلین
یاسر شاہ بھائی، استادِ محترم کی کی گئی اصلاح کو سمجھ کر جو تبدیلیاں کی ہیں آپ ایک نظر ان کو دیکھ لیجئے ۔ شکریہ
السلام علیکم

صابرہ بہن ابتدائی کچھ اشعار پہ متبادل دے رہا ہوں مقصود آپ کو غزل لکھ کے دینا نہیں اسے محض امکانات تلاش کرنے کی ایک مشق سمجھیے اور ایک ادبی فضا کے قیام کی کوشش ۔
ہم نے تین اشعار لکھے تھے ۔ دو تو اوپر ہو چکے جبکہ تیسرا یہ تھا

دل کا دروازہ وا کرے کوئ
مجھ میں آکر رہا کرے کوئی

ان گنت در ہیں، وا کرے کوئی
دل میں آ کر رہا کرے کوئی
اب دونوں ہی ٹھیک معلوم ہو رہے ہیں۔

ایک تحقیق کے مطابق دل وہ گھر ہے جس کا دروازہ خود صاحب خانہ اندر سے کھول سکتا ہے باہر سے کوئی لاکھ کوشش کرے بے سود ہے۔ہاں دروازہ کھٹکھٹایا جا سکتا ہے ۔ایک متبادل دیکھیں:

جب در _دل نہ وا کرے کوئی
خاک دل میں رہا کرے کوئی

"خاک " سے نفی بھی ہو گئی دل میں رہنے کی۔ایک نکتہ یہ بھی نکل سکتا ہے کہ جس دل میں انسان نہیں وہاں خاک اڑا کرتی ہے ۔
دل شکستہ ہے، بے قرار ہوں میں
میرے حق میں دعا کرے کوئی

دل شکستہ ہوں بے قرار ہوں میں
میرے حق میں دعا کرے کوئی

اس غزلیہ اسلوب پہ میر کا شعر یاد آگیا::)

میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دعا لیتے ہیں


چاہتا ہے وہ سب اسے چاہیں
اور نہ چاہے تو کیا کرے کوئی
یا
چاہتا ہے جو، سب اسے چاہیں
اور نہ چاہے تو کیا کرے کوئی

سب کو چاہے جو سب اسے چاہیں
جو نہ چاہے تو کیا کرے کوئی

داستاں عشق کی رقم ہو گی
ہائے ہم سے وفا کرے کوئی


داستاں عشق کی رقم ہو جائے
کاش ہم سے وفا کرے کوئی

مصرع اول میں "ہو جائے" بھی اس وزن میں درست ہے۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
السلام علیکم

صابرہ بہن ابتدائی کچھ اشعار پہ متبادل دے رہا ہوں مقصود آپ کو غزل لکھ کے دینا نہیں اسے محض امکانات تلاش کرنے کی ایک مشق سمجھیے اور ایک ادبی فضا کے قیام کی کوشش ۔
جی اسی لئے آپ کی بھی صلاح لینے کی کوشش کی۔ کئی قابل دماغ ایک مبتدی کو سوچ کے نئے زاویے سے متعارف کروا دیتے ہیں جب تک کے پختگی نہ آجائے ۔

ایک تحقیق کے مطابق دل وہ گھر ہے جس کا دروازہ خود صاحب خانہ اندر سے کھول سکتا ہے باہر سے کوئی لاکھ کوشش کرے بے سود ہے۔ہاں دروازہ کھٹکھٹایا جا سکتا ہے ۔ایک متبادل دیکھیں:

جب در _دل نہ وا کرے کوئی
خاک دل میں رہا کرے کوئی
بس بے بسی کا اظہار ہے۔ ویسے عشق نہ کیا جا سکتا ہے نہ زبردستی کرایا جاسکتا ہے، یہ تو ہو جاتا ہے۔ ہے نا!


"خاک " سے نفی بھی ہو گئی دل میں رہنے کی۔ایک نکتہ یہ بھی نکل سکتا ہے کہ جس دل میں انسان نہیں وہاں خاک اڑا کرتی ہے ۔
یہ زردست نکتہ ہے۔ اس کو کہیں ضرور استعمال کرنے کی کوشش ہو گی ۔

دل شکستہ ہوں بے قرار ہوں میں
میرے حق میں دعا کرے کوئی
یہ ہمارے شعر سے زیادہ رواں ہے۔

اس غزلیہ اسلوب پہ میر کا شعر یاد آگیا::)

میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دعا لیتے ہیں
واہ کیا خوب جوڑا ہے۔

سب کو چاہے جو سب اسے چاہیں
جو نہ چاہے تو کیا کرے کوئی
سب کو کوئی کیسے چاہ سکتا ہے بھلا۔ کیا ایسا ممکن ہے؟

داستاں عشق کی رقم ہو جائے
کاش ہم سے وفا کرے کوئی

مصرع اول میں "ہو جائے" بھی اس وزن میں درست ہے۔
وزن کی بابت معلومات کا شکریہ۔ ان شاءاللہ یاد رکھوں گی۔ آپ کی رہنمائی کا بھی شکریہ۔
کاش زیادہ موزوں لگ رہا ہے ۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
معزز محترمین
آپ کی اصلاح سے غزل کی جو خوبصورت شکل نکلی ہے اس کے لیے آپ کی تہہ دل سے شکر گذار ہوں۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے آمین


دل کا دروازہ وا کرے کوئ
مجھ میں آکر رہا کرے کوئی

دل شکستہ ہوں، بے قرار ہوں میں
میرے حق میں دعا کرے کوئی

چاہتا ہے جو، سب اسے چاہیں
اور نہ چاہے تو کیا کرے کوئی

داستاں ہو گی داستانوں میں
کاش ہم سے وفا کرے کوئی

اور سہنے کی ہم کو تاب نہ ہو
درد اتنا دیا کرے کوئی

جب زمیں ہو نہ آسماں اپنا
خواہشِ زیست کیا کرے کوئی

ہم فنا ہو چکے محبت میں
اب تو محشر بپا کرے کوئی

دل تو گویا مرا سمندر ہے
اس میں دریا گرا کرے کوئی

جانے کیوں تم ہی یاد آئے ہو
جب بھی ہم سے ریا کرے کوئی

قہر بنتی ہے خامشی ، جب بھی
ظلم حد سے سوا کرے کوئی

کر کے برباد اپنی ہستی کو
کیسے خود پر ہنسا کرے کوئی

جس طرح زیست ہم نے کاٹی ہے
اس طرح حوصلہ کرے کوئی

دل میں گہری جڑیں ہیں یادوں کی
ان کو کیونکر جدا کرے کوئی

داستاں عشق کی رقم ہو گی
کاش ہم سے وفا کرے کوئی

میری حالت نہ پوچھنا اس سے
جب بھی تم سے ملا کرے کوئی

رنجشیں پاس بھی نہ پھٹکیں گی
دل ذرا سا بڑا کرے کوئی
 

فاخر رضا

محفلین
ایک سادہ سا مشورہ ہے کہ جب بہت لمبی غزل ہوجائے تو اس میں سے بہت سے شعر طباعت میں بھیجنے واجب نہیں ہوتے. میرے خیال میں غالب اور انیس بھی یہی کرتے ہوں گے. اس کے باوجود لوگ ان کی شاعری سے غلطیاں نکالتے ہوئے ملیں گے
 

صابرہ امین

لائبریرین
ایک سادہ سا مشورہ ہے کہ جب بہت لمبی غزل ہوجائے تو اس میں سے بہت سے شعر طباعت میں بھیجنے واجب نہیں ہوتے. میرے خیال میں غالب اور انیس بھی یہی کرتے ہوں گے. اس کے باوجود لوگ ان کی شاعری سے غلطیاں نکالتے ہوئے ملیں گے
فاخر بھیا ہم اس لیے سب پیش کر دیتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ سیکھ سکیں ۔ یعنی غلطیاں نکلتی ہیں تو پھر اس کے متعلق پڑھنا بھی پڑھتا ہے۔ کام کر کے ہی آتا ہے نا۔ یہ سب سینئرز اپنا قیمتی وقت دیتے ہیں تو اس نعمت کا جتنا شکر کیا جائے کم ہے۔ بحیثیت ایک استاد کے ہم واقف ہیں کہ اساتذہ جب غلطیاں نکالتے ہیں تو بس شاگرد کو بہت آگے دیکھنا چاہتے ہیں۔ بس آپ دعا دیجیے کہ سب ٹھیک ٹھیک سمجھ آ جائے۔ :redrose::redrose::redrose:
 
Top