دل پشوری۔۔۔۔۔ تحریر ڈاکٹر ظھور اعوان

Dilkash

محفلین
http://dailyaaj.com.pk/Columns-New-Details.php?ColumnistId=4&ColumnId=1081

ڈاکٹر گوپی چند نارنگ


ڈاکٹر گوپی چند نارنگ برصغیر کے سب سے بڑے اردو ادبی نقاد سمجھے جاتے ہیں‘ اتنے بڑے کہ ان کو بت بنا کر پوجا جا رہا تھا‘ ان کی ایک کتاب ساختیات پس ساختیات اور مشرقی شعریات (1994ئ) کو جدید اردو ادبی تنقید کا میگنا کارٹا مانا جاتا رہا مگر پھر اچانک جرمنی و برطانیہ سے ان کے خلاف ایک تحریک کا دروازہ کھلا اور یہ بات کھلی کہ یہ کتاب تو خود انہوں نے لکھی ہی نہیں بلکہ فرانسیسی‘ یورپی و امریکی نقادوں کی کتابوں کے پورے چربوں کو بغیر حوالہ دیئے ترجمہ کر کے ایک کتاب بنا دی‘ کافی برسوں تک اردو دنیا کو اس کا پتہ نہ چلا اور ڈاکٹر گوپی چند کو مولانا حالی کے بعد اردو ادبی تنقید کا ایک امام مانا جانے لگا‘ جس نے ایک نیا ڈسکورس شروع کر کے دامن تنقید کو موتیوں سے بھر دیا۔

ساختیات نے اس بت کو دھڑام سے زمین پر گرا کر پاش پاش کر دیا اور یہ ثابت کیا کہ یہ بزعم خویش معرکتہ الآراء کتاب پوری کی پوری سرقہ شدہ ہے۔ اس کتاب کا یہ کارنامہ ہے کہ اس نے اردو دنیا کو ساختیات کے تصورات سے ترجمہ کی صورت ہی میں سہی روشناس کرایا اور ایک نئے ڈسکورس و پیراڈائم کا آغاز کیا۔ جب یورپ کے اردو نقادوں نے جناب نارنگ صاحب کے سرقوں کو دریافت کر کے پکڑ لیا اور ان مسروقہ کتابوں کے صفحات و پیراگراف و الفاظ کو گوپی صاحب کے رشحات قلم کے آمنے سامنے رکھ کر کھولا تو ڈاکٹر گوپی چند کا سارا بھرم کھل گیا اور طرئہ افتخار اور کلاہ تتری دار کے سارے پیچ و خم کھل کر بیچ بازار کے ان کی ادبی ہنڈیا کو پھوڑ گئے۔

بلاشبہ نارنگ صاحب بہت پڑھے لکھے آدمی ہیں‘ وہ بنیادی طور پر کوئٹہ کے رہنے والے تھے یہیں پیدا ہوئے‘ پاکستان بننے کے بعد یہاں سے رخصت ہوئے اور دلّی جا کر اپنی علمیت و ذہانت و خطابت کے جھنڈے گاڑ دیئے‘ بڑے بڑے سرکاری و غیر سرکاری اعزازات پائے‘ یورپ و امریکہ میں وہ سب سے زیادہ بلائے اور بکنے والے نقاد بن کر ابھرے‘ ان کی مسحور کن خطابت نے ان کے باقی عیوب کو چھپا دیا اور وہ دو تین عشروں تک اس دنیائے نقد و نظر اور ادب و شعر پر چھائے رہے مگر وہ جوکہتے ہیں ہر کمالے را زوالِ‘ ان پر چہار اطراف سے ایسے پے درپے حملے ہوئے کہ ان کی سٹی گم ہو گئی۔

اگر وہ بھرم کھلنے پر پہلے دن اعتراف کر لیتے کہ انہوں نے یہ تمام مواد فلاں فلاں کتاب سے لے کر ترجمہ کر دیا ہے تو بطور مترجم ان کی عزت بڑھ جاتی۔گوپی صاحب سب کچھ سامنے آنے کے باوجود اب بھی سرقوں کے بارے میں کچھ کہنے کی بجائے ان نقادوں کی مخالفت میں ذاتیات پر اتر آئے اور اپنے شاگرد پیشوں اور ہمنواؤں کے ذریعے اصل معاملے پر مٹی ڈال کر مخالف لکھاریوں کی پگڑیاں اچھلوانی شروع کر دیں۔ان کے سرقوں کے بارے میں عمران شاہد بھنڈر نے سب سے پہلے ان کا پول کھولا‘ جسے جرمنی کے شاعر و ادیب و مدیر حیدر قریشی نے اپنے آن لائن رسالے جدید ادب میں ایک خالص علمی و ادبی بحث کے طور پرجگہ دی مگر نارنگ صاحب نے سب کو چھوڑ کر حیدر قریشی کو پکڑ لیا

حیدر صاحب نے ان کے بارے میں جو کچھ لکھا ردعمل کے طور پر لکھا‘ انہوں نے ازخود کسی بحث کا آغاز نہیں کیا اور اب حیدر صاحب کی کتاب ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اور مابعد جدیدیت سامنے آئی ہے جو اس وقت میرے سامنے کھلی رکھی ہے۔ حیدر صاحب لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر نارنگ کی شہرئہ آفاق تصنیف کے بارے میں شاہد بھنڈر کا ایک مضمون کسی رسالے میں شائع ہوا جسے دو سال کے بعد حیدر صاحب نے اپنے رسالے میں نقل کر دیا‘ اس پر بھنڈر صاحب نے اس موضوع پر تین چار مزید مضمون لکھ کر گویا ایک دستاویز مرتب کر ڈالی۔ بھنڈر صاحب اور اب حیدر صاحب کا یہ دعویٰ ہے بادلیل و ثبوت و حوالہ جات مع انگریزی اصل متن کہ ان کی کتاب کے صفحہ 33 سے لے کر 334 تک میں صرف 20 صفحات انگریزی سے ترجمہ شدہ شاید نہ ہوں باقی سب نقل و ترجمہ ہے۔

رامن سیلڈن کی کتاب معاصر ادبی تھیوری Contemporary literary theory سے 60 صفحات اڑائے گئے ہیں بلاحوالہ اسی طرح ٹیری ہاکس کی کتاب ساختیات Structuralism & semiontics کے پورے کے پورے ابواب معمولی رد و بدل کے ساتھ پوری کتاب اپنی کتاب میں شامل کر دی گئی ہے۔ نارنگ صاحب نے زندگی میں اور بھی بڑے گل کھلائے ہیں‘ وہ اسلام و پاکستان کے بارے میں بہت نچلے درجے کے خیالات رکھتے ہیں۔ پروفیسر مسعود حسین خان کی تحریروں میں آدھ گھنٹے دورانیہ کی ایک ایسی ٹیپ کا بھی ذکر ہے جو نارنگ صاحب کی ایک طالب علم رہتاس کے ساتھ گفتگو پر مشتمل ہے اور جس میں مسلمانوں کے خلاف انتہائی زہریلی زبان استعمال کی گئی ہے

یہ ٹیپ بعد میں جامعہ ملیہ دہلی میں لاؤڈ سپیکرز کے ذریعے نشر کی جاتی رہی ہے اس لئے مشفق خواجہ صاحب نے نارنگ صاحب کو ساختیات کی جگہ خود ساختیات کا ماہر کہا ہے۔ گوپی چند نے کسی زمانے میں دوسری شادی ایک مسلمان لڑکی سے نام نہاد مسلمان بن کر کی تھی اور نام رکھا تھا جمیل تابش ڈاکٹر نارنگ کو آن لائن پڑھنے کے لئے www.urdudost.com/ library/ index_ mutafarriqat.php سے ڈاؤن لوڈ کیا جا سکتا ہے۔ یہ ادبی مجادلہ بڑے زوروں سے جاری ہے‘ کتابوں پر کتابیں اور رسالوں پر رسالے نکل رہے ہیں

سب اہداف تنقید (از نارنگ کیمپ) حیدر قریشی ہی ٹھہرتے ہیں‘ اس لئے حیدر قریشی نے جملہ معلومات مع حوالہ جات اپنی کتاب میں درج کر دیئے ہیں۔ اس کالم میں ان تمام کتابوں کے انگریزی اقتباسات درج کرنے کی گنجائش نہیں‘ جو لوگ کمپیوٹر استعمال کر سکتے ہیں اور ادب سے دلچسپی رکھتے ہیں وہ کتاب کو ڈاؤن لوڈ کر کے پڑھ سکتے ہیں‘ شاید حیدر قریشی بھی وہ انگریزی کے تین چار سو صفحات اپنی کتاب میں درج نہ کر سکے۔ اس سلسلے میں عمران بھنڈر صاحب نے بڑا کام کیا ہے‘ حیدر صاحب کی کتاب دو سو صفحات پر مشتمل ہے اسے پڑھ کر تصویر کے سارے رخ سامنے آ سکتے ہیں۔

نارنگ صاحب کے بارے میں یہ باتیں پڑھ کر دکھ اور افسوس ہوتا ہے۔ نارنگ سے میری دو چار ملاقاتیں دلّی‘ لندن‘ امریکہ وغیرہ میں ہوئی ہیں‘ ان کی چرب زبانی اپنی جگہ مگر مجھے وہ کبھی دل کے قریب محسوس نہ ہوئے حالانکہ اس وقت مجھے ان کے سرقوں کے بارے میں کچھ علم نہ تھا۔ میں نے ساختیات پس ساختیات پر ایک مضمون بھی لکھا تھا جو میری ایک کتاب میں شامل بھی ہے مگر اس مضمون میں اپنی بے خبری کے عالم میں نارنگ صاحب کی توصیف بھی کی تھی جس کا مجھے افسوس نہیں ہے۔ 1997ء میں دلّی میں غالب آڈیٹوریم کے ایک جلسے میں وہ میرے ساتھ سٹیج پر بیٹھے تھے

وہ صدر تھے اور میں مہمان خصوصی۔ میں نے ان سے کہا تھا کہ حضور آپ کی کتاب سر کے اوپر سے گزر جاتی ہے تو موصوف نے فرمایا کہ میں نے پندرہ سال میں لکھی ہے‘ آپ پندرہ ماہ تو اسے پڑھیں۔ امریکہ میں میں نے ان کو ایک نثری شاعر کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے پایا جس کے لئے ان کو باقاعدہ رغبت افروز مہمان نوازی سے بھی نوازا گیا تھا تو مجھے بڑا دکھ ہوا۔ نارنگ صاحب اس نثری شاعر کو غالب و میر و اقبال کے پائے تک لے جانے میں نہیں چوک رہے تھے۔

میں نے اس کا ذکر بھی اپنے امریکی سفرناموں میں کیا ہے پھر وہ میری نظروں سے گر گئے اور لندن کی عالمی اردو کانفرنس میں ان سے میری معمول کی علیک سیلک بھی نہیں ہوئی اور اب چند ماہ سے حیدر قریشی اور عمران بھنڈر کی تحریریں پڑھنے کے بعد تو دل اردو تنقید اور بڑے بڑے نقادوں کی بے خبریوں اور چوریوں پر ماتم کرنے کو چاہتا ہے۔

مجھے اس وقت منٹو کی ایک گفتگو یاد آ رہی ہے جس میں وہ کہتے ہیں میٹرک میں اردو میں تین بار فیل ہونے والے منٹو کو جب اردو کا سب سے بڑا افسانہ نگار کہا جاتا ہے تو اسے ہنسی آتی ہے اور پھر جب اس کو چیخوف و موپاساں سے ملایا جاتا ہے اور اس کے اندر سے پتہ نہیں کتنے افلاطونوں و ارسطوؤں کو دریافت کیا جاتا ہے تو منٹو کہتا ہے میں نے ان لوگوں کے بارے میں نہ کچھ پڑھا ہے نہ مجھے انگریزی زبان آتی ہے‘ پھر یہ نقاد کس طرح میرا رشتہ ہیگل و کانٹ و فشٹے سے ملانے کے درپے ہو گئے ہیں۔

Dated : 2009-11-12 00:00:00
 

Dilkash

محفلین
السلام علیکم ساجد بھائی
اللہ پاک کا شکر ہے کہ ابھی تک زندہ ھوں
میں اس پر دھماکہ دور میں پشاور میں مقیم ہوں
اپ یقین کریں کہ کل جب گھر سے نکلا تو 200-300 گز کے فاصلے پر دھماکہ ھوا۔
اور مجھے اللہ نے بچایا۔
جبکہ خیبر ایجنسی سے میرے عزیز پشاور ارھے تھے وہ بھی اسی چوک کے قریب پہنچ گئےتھے انہیں بھی اللہ جل شانہ نے بچالیا ۔
اسکے علاوہ اسی چوک کے دوسری طرف بھائی کا گھر ھے وھاں سے بتھیجا سودا لینے نکلا تو انکے سامنے یہ سب کچھ ھوا۔

باڑہ خیبر ایجنسی والا گھر سیکورٹی فورسز نے بلڈوز کیا ھے۔ دوران اپریشن گھر سے ھم لوگ نکلے تھے مگر وھان سے کچھ سرپسند فورسز پر فائیرنگ کرھے تھے ۔فورسز نے سمجھا کہ یہ گھر شائید شرپسندوں کا ھے۔۔ھاھاھاھاھاھا
پھر سارا کا سارا ملیا مٹ کردیا ۔
جس کے نتیجے میں کئی ایک جانور(گائیں بکریاں) بھی ھلاک ھوئے۔
خیر اپ سنائیں اج کل آپ کہاں ھیں۔

گوپی چند نارنج کو میں نے پہلے بھی ڈسکس کیا تھا جس پر کئی دوست ناراض ھوگئے تھے۔
انکے بارے میں میری رائے وھی ھے کہ وہ ایک محب وطن ھندوستانی ھے، او وطن کے لئے پاکستانیوں اور مسلمانوں کے اندر بہت کچھ ٹھیک کررھا ھے۔
کرنا بھی چاھئے کہ اپنے وطن کی حفاظت اور خدمت ھر محب وطن شھری پر فرض ھے۔
 
Top