دل پرہمارے اپنا اب اختیار کب ہے

اساتذہِ کرام جناب محمد یعقوب آسی صاحب اور جناب الف عین صاحب اور دیگر صاحبانِ علم و محفلین سے غزل کو کوتاہیوں بارے راہنمائی کی ضرورت ہے راہنمائی فرما کر شکریہ کا موقع دیں
دل پرہمارے اپنا اب اختیار کب ہے
جب دیکھیے اسے تو مثلِ شرار تب ہے
واعظ کا نام لے کر مذہب پہ نقظہ چینی
ہے طرز شاعروں کی احباب کا ادب ہے
طرزِ دروغ گوئی یا وصفِ عیب جوئی
قوموں کی زندگی میں تفریق کا سبب ہے
مغرب کی پیروی میں بے خود ہے اس قدر تو
مسلم زوال کی تیری داستاں عجب ہے
محشر کے دن خدا کو کیا منہ دکھائے گا تو
احمدؔ طریق تیرا خود بینی یا عْجب ہے
 
لفاظی فن بھی ہے اور نقص بھی ہے؛ اسے جو بنا لیجئے۔ لفظ جتنا بھاری ہو گا، اس کے معانی اور نشست کا اہتمام بھی اتنا ہی زیادہ کرنا پڑے گا۔ کر سکتے ہیں تو ضرور کیجئے آپ کے کلام میں حسن پیدا ہو گا۔ اقبال ایک بہت بڑی مثال ہے۔
 
شعر اور وعظ میں بنیادی فرق اسلوب کا ہے۔ وعظ خشک ہو سکتا ہے؛ شعر خشک نہیں ہو سکتا۔
وعظ کے لئے بھی شیرینی وصف ہونا چاہئے۔ ایک اچھی بات، اچھی نصیحت کا انداز اچھا نہ ہو تو وہ بات وہ نصیحت ضائع ہو جاتی ہے۔ شعر میں تو یہ اہتمام اولیٰ ہونا چاہئے۔
اقبال آپ کو بھی پسند ہے مجھے بھی پسند ہے، اسی کو دیکھ لیجئے؛ کیسے کیسے مشکل اور دقیق نکات اور کیسی کیسی نکتہ چینیاں کس خوب صورت انداز میں کر گیا ہے!
 
جس فکری بلندی کا اشارہ آپ کے اشعار میں مل رہا ہے وہاں دین اور مذہب الگ ہو جاتے ہیں۔
دین وہ ہے جو اللہ کریم نے عطا فرمایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نافذ فرمایا، مذاہب وہ ہیں جو یار لوگوں سے اس دین میں بنا لیے۔
دونوں میں بہت فرق ہے۔ آپ کے ساتھ وہ مجبوری نہیں ہے کہ آپ (جو عجب اور عُجب میں فرق رکھ سکتے ہیں) دین کو بھی ریلیجن کہیں اور مذہب کو بھی ریلیجن کہیں۔
 
محترم استاد محمد یعقوب آسی ہم تو آپ کے شاگرد بننے آئے تھے آپ نے تو ہمیں اپنا دیوانہ بنا لیا :)
گستاخی معاف، آپ کی باتیں پڑھ کر بے ساختہ یہ جملے منہ سے نکلے ہیں ، ورنہ آپ اور استاد الف عین جیسے اساتذہ کے سامنے حدِ ادب سے تجاوز کرنا مقصود نہیں
 
یہ مصرع وزن میں ہوتے ہوئے بھی وزن سے خارج محسوس ہو رہا ہے۔ وجہ؟
بقیہ تمام مصرعے بہ لحاظِ ارکان ٹھیک نصف میں بٹ رہے ہیں، یہ نہیں بٹ رہا۔
اب یہ بات بھلا استاد کے بغیر کیسے سمجھ میں آتی۔ استادِ محترم بہت بہت شکریہ
شعر اور وعظ میں بنیادی فرق اسلوب کا ہے۔ وعظ خشک ہو سکتا ہے؛ شعر خشک نہیں ہو سکتا۔
وعظ کے لئے بھی شیرینی وصف ہونا چاہئے۔ ایک اچھی بات، اچھی نصیحت کا انداز اچھا نہ ہو تو وہ بات وہ نصیحت ضائع ہو جاتی ہے۔ شعر میں تو یہ اہتمام اولیٰ ہونا چاہئے۔
اقبال آپ کو بھی پسند ہے مجھے بھی پسند ہے، اسی کو دیکھ لیجئے؛ کیسے کیسے مشکل اور دقیق نکات اور کیسی کیسی نکتہ چینیاں کس خوب صورت انداز میں کر گیا ہے!
جی درست استادِ محترم بہت بہت شکریہ
جس فکری بلندی کا اشارہ آپ کے اشعار میں مل رہا ہے وہاں دین اور مذہب الگ ہو جاتے ہیں۔
دین وہ ہے جو اللہ کریم نے عطا فرمایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نافذ فرمایا، مذاہب وہ ہیں جو یار لوگوں سے اس دین میں بنا لیے۔
دونوں میں بہت فرق ہے۔ آپ کے ساتھ وہ مجبوری نہیں ہے کہ آپ (جو عجب اور عُجب میں فرق رکھ سکتے ہیں) دین کو بھی ریلیجن کہیں اور مذہب کو بھی ریلیجن کہیں۔
بہت بہت شکریہ استادِ محترم میں سمجھ گیا آپ کا اشارہ ایک دفعہ پھر بہت بہت شکریہ
 
محترم استاد محمد یعقوب آسی ہم تو آپ کے شاگرد بننے آئے تھے آپ نے تو ہمیں اپنا دیوانہ بنا لیا :)
گستاخی معاف، آپ کی باتیں پڑھ کر بے ساختہ یہ جملے منہ سے نکلے ہیں ، ورنہ آپ اور استاد الف عین جیسے اساتذہ کے سامنے حدِ ادب سے تجاوز کرنا مقصود نہیں

چپ کرو یار، مجھے ڈر ہے، تمہاری باتیں
اور لہجہ، نہ کسی اور کو کر دے پاگل
شہر کا شہر سمجھتا ہے تجھی کو جھوٹا
اتنا سچ بول گیا ہے، ارے پگلے! پاگل!
 
لفظ کے انتخاب کے حوالے سے اپنے تجربے کی ایک بات۔

میں نے سلمان باسط کی کتاب "خاکی خاکے" پر مضمون لکھا اور ایک تقریب میں پڑھ بھی دیا؛ عنوان تھا "سلمان باسط کی زیرک نظریاں"۔ مجھے اپنے طور پر یہ احساس رہا کہ مضمون کے عنوان میں کچھ بھاری پن ہے، مگر کہاں؟ بات کھل نہیں رہی تھی۔ بہت بعد میں کچھ سینئر دوستوں سے بات ہوئی (غالباً رؤف امیر، سید علی مطہر اشعر، حسن ناصر، اکمل ارتقائی جمع تھے)۔ ان میں سے کسی نے کہا: "زیرک نگاہیاں" کر لیجئے۔ یوں کہئے کہ بات آپ سے آپ کھل گئی۔ بعد ازاں میں نے عنوان بدل کر "سلمان باسط کی زیرک نگاہی" کر لیا۔
 
Top