حزیں صدیقی دل نے کسے حیات کا محور سمجھ لیا:‌حزیں صدیقی

محمد امین

لائبریرین
دل نے کسے حیات کا محور سمجھ لیا،
خود کو حصارِ‌مرگ سے باہر سمجھ لیا،

گردِ‌سفر میں ڈوب گیا کاروانِ شوق،
ریگِ رواں کو ہم نے سمندر سمجھ لیا،

ناکامیِ طلب کا گلہ کیوں، کہ ہم نے خود،
سنگِ نشاں کو راہ کا پتھر سمجھ لیا،

پروازِ عرش کا بھی دیا تھا سبق تجھے،
تو نے ہی اپنے آپ کو بے پر سمجھ لیا،

تیرے سپرد آج بھی ہے نظمِ کائنات،
تو نے ہی اختیار سے باہر سمجھ لیا،

روشن ہوں خاک تجھ پہ مقامِ دلِ حزیں،
عرضِ خرد کو تو نے تو جوہر سمجھ لیا۔۔۔
 

مغزل

محفلین
دل نے کسے حیات کا محور سمجھ لیا،
خود کو حصارِ‌مرگ سے باہر سمجھ لیا،

گردِ‌سفر میں ڈوب گیا کاروانِ شوق،
ریگِ رواں کو ہم نے سمندر سمجھ لیا،

ناکامیِ طلب کا گلہ کیوں، کہ ہم نے خود،
سنگِ نشاں کو راہ کا پتھر سمجھ لیا،


پروازِ عرش کا بھی دیا تھا سبق تجھے،
تو نے ہی اپنے آپ کو بے پر سمجھ لیا،


تیرے سپرد آج بھی ہے نظمِ کائنات،
تو نے ہی اختیار سے باہر سمجھ لیا،

روشن ہوں خاک تجھ پہ مقامِ دلِ حزیں،
عرضِ خرد کو تو نے تو جوہر سمجھ لیا۔۔۔

بہت خوب امین ، مکمل غزل ہی کیا عمدہ ہے ، مگر سرخ کئے گئے اشعار کا جواب ہی نہیں۔ واہ واہ ۔ بہت خوب انتخاب ہے۔ واہ
 

نوید صادق

محفلین
گردِ‌سفر میں ڈوب گیا کاروانِ شوق،
ریگِ رواں کو ہم نے سمندر سمجھ لیا،



کیا کہنے ہیں،
حزیں صاحب کمال کے شاعر تھے۔
امین صاحب!
ہو سکے تو ان کا مجموعہ کلام ٹائپ کر کے ای بک بنا دیں۔
 

محمد امین

لائبریرین
نوید بھائی بہت شکریہ آپ کے کمنٹس کا۔ میں یہ کام شروع کرنے پر غور کر رہا تھا۔۔۔ آپ نے ادشاد فرمایا اب شاید سنجیدگی سے غور کرنے لگوں۔
 
Top