دل میں خیال یار کا رہنا تو چاہئے---برائے اصلاح

الف عین
خلیل الرحمن
عظیم
-----------------
مفعول فاعلاتُ مفاعیل فاعلن
---------
دل میں خیال یار کا رہنا تو چاہئے
اشکوں کو اس کی یاد میں بہنا تو چاہئے
---------------
دنیا سے تم کرو گے نہیں یار کا گلہ
ملتے ہیں غم جو پیار میں سہنا تو چاہئے
------------
دوری نہ سہہ سکے گا تری یار تو کبھی
نظروں میں تجھ کو یار کی رہنا تو چاہئے
---------------
شکوہ کرو نہ یا ر سے ہوتی ہے گر خطا
لیکن اسی کو پیار سے کہنا تو چاہئے
-------------
سارا جہان غیر ہے اپنا نہ کہہ سکیں
کوئی ہمیں جہان میں اپنا تو چاہئے
-------------------
رہنا ہے جب یہاں تو اداسی نہ چھا سکے
پانے کو کچھ سکون ہی سپنا تو چاہئے
-------------
کس کو ہے کس سے پیار یہ دیکھا نہ کیجئے
سب کو مزا یہ پیار کا چکھنا تو چاہئے
-------------
ارشد خدا سے پیار ہی تیری حیات ہے
تجھ کو خدا کی یاد میں رہنا تو چاہئے
----------------
 

الف عین

لائبریرین
اپنا سپنا چکھنا قوافی غلط ہیں اس غزل میں
پہلے چاروں اشعار میں یار کا لفظ دہرایا گیا ہے، یہ بھی اچھا نہیں لگتا
 
الف عین
-----------
دوبارا
دل میں خیالِ یار ہی رہنا تو چاہئے
اشکوں کو اس کی یاد میں بہنا تو چاہئے
---------------
دنیا سے اب کرو گے نہیں پھر کبھی گلہ
ملتے ہیں غم جو پیار میں سہنا تو چاہئے
------------
دوری نہ سہہ سکے گا تری اب تو وہ کبھی
نظروں میں تجھ کو یار کی رہنا تو چاہئے
---------------
رکھنا نہ چاہئے یوں خطاؤں کو یاد بھی
لیکن اسی کو پیار سے کہنا تو چاہئے
-------------
دل میں اگر ہے پیار تو اظہار بھی کرو
دینا اسے یوں پیار سے گہنا تو چاہئے
---------------
ارشد کبھی بھی پیار میں کرتا نہیں کمی
دل میں اسی کا پیار ہی رہنا تو چاہئے
----------------
 
الف عین
---------
دوسری غزل
-----------
دل میں خدا کو یاد بھی رکھنا تو چاہئے
اس کا زباں سے نام بھی جپنا تو چاہئے
--------------------
سارا جہان غیر ہے اپنا نہ کہہ سکیں
کوئی ہمیں جہان میں اپنا تو چاہئے
-------------------
دنیا میں سب حسین تو ہوتے نہیں کبھی
جس سے کرو گے پیار وہ جچنا تو چاہئے
------------
رہنا ہے جب یہاں تو اداسی نہ چھا سکے
پانے کو کچھ سکون ہی سپنا تو چاہئے
-------------
کس کو ہے کس سے پیار یہ دیکھا نہ کیجئے
سب کو مزا یہ پیار کا چکھنا تو چاہئے
-------------
ارشد خدا سے پیار ہی تیری حیات ہے
تجھ کو خدا کی یاد میں رہنا تو چاہئے
 

الف عین

لائبریرین
پہلے دوسری غزل
مجھے یاد آ رہا ہے کہ اس قسم کے قوافی پر بات کر چکا ہوں اور بتا چکا ہوں کہ غلط ہیں. ایک بار پھر
قوافی میں مشترکہ حروف سے پہلے متخرک حرف ضروری ہے۔ چلنا جلنا میں 'لنا' بہنا، سہنا میں 'ہنا' اور ان حروف سے قبل جَ چَ. متحرک یعنی مفتوح ہے، زبر کے ساتھ یا بِِ. سِ میں ب اور س بھی متحرک، مکسور یعنی زیر کے ساتھ ہیں، اور یہ قوافی درست ہیں کیونکہ حرکات بھی ایک ہی قسم کی ہیں
رکھنا سپنا رہنا میں صرف 'نا' مشترکہ ہے، اور اس سے قبل رکھ، سپ. یا رہ میں کوئی چیز مشترک نہیں اور آخری حرف متحرک بھی نہیں۔۔ نہ زیر، نہ زبر نہ پیش!
ثقہ عروض والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ مشترک حروف سے پہلے بھی با معنی لفظ ہونا چاہیے، لیکن میں اتنا متشدد نہیں
 

الف عین

لائبریرین
دل میں خیالِ یار ہی رہنا تو چاہئے
اشکوں کو اس کی یاد میں بہنا تو چاہئے
--------------- پہلے مصرعے میں 'ہی' بھرتی کا ہے
خیال یار کا' بھی تو کہا جا سکتا ہے، بغیر اضافت

دنیا سے اب کرو گے نہیں پھر کبھی گلہ
ملتے ہیں غم جو پیار میں سہنا تو چاہئے
------------ اگر یہ دوستوں کو مشورہ دیا جا رہا ہے تو الفاظ بدل دیں
یہ طے کرو کہ اب نہ کرو گے کوئی گلہ
یا
دنیا سے اب نہ کرنا کبھی/کوئی تم گلہ کوئی/کبھی

دوری نہ سہہ سکے گا تری اب تو وہ کبھی
نظروں میں تجھ کو یار کی رہنا تو چاہئے
--------------- تھیک

رکھنا نہ چاہئے یوں خطاؤں کو یاد بھی
لیکن اسی کو پیار سے کہنا تو چاہئے
------------- اسی کو؟ واضح نہیں

دل میں اگر ہے پیار تو اظہار بھی کرو
دینا اسے یوں پیار سے گہنا تو چاہئے
--------------- دینا گہنا اچھا نہیں لگتا، ویسے بھی محض قافیے کے لیے شعر کہا گیا ہے

ارشد کبھی بھی پیار میں کرتا نہیں کمی
دل میں اسی کا پیار ہی رہنا تو چاہئے
---------------- کبھی بھی؟ پیار ہی؟
 
Top