دل سے نکل نہ جائے تیرا خیال ، آ جا----برائے اصلاح

الف عین
محمد خلیل الرحمٰن
محمّد احسن سمیع :راحل:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دل سے نکل نہ جائے تیرا خیال ، آ جا
بھولا نہیں ہوں اب تک تیرا جمال ،آ جا
------------
یہ دوریاں ہماری ہم کو نہ مار ڈالیں
کوئی ہے بدگمانی اس کو نکال ،آ جا
------------یا
جو بھی ہے بدگمانی اس کو نکال ، آ جا
---------
تجھ سے بچھڑ کے میرے دل نے سکوں نہ پایا
اس بات کا ہے مجھ کو اب تک ملال ، آ جا
---------
میرے بغیر خوش ہو مجھ کو یقیں نہیں ہے
اپنا بغیر تیرے ابتر ہے حال ، آ جا
------------
آئی نہ راس مجھ کو تیری کبھی جدائی
تیرے بغیر جینا اب ہے محال ، آ جا
------------
ارشد نے دل دکھا کر اچھا کیا نہ تم سے
اس کا نہ ہو گا پھر سے اب احتمال ،آ جا
------------
 
دل سے نکل نہ جائے تیرا خیال ، آ جا
بھولا نہیں ہوں اب تک تیرا جمال ،آ جا
موجودہ ہئیت میں مطلع دولخت معلوم ہوتا ہے کہ دونوں مصرعوں میں الگ الگ باتوں کا بیان ہے۔ اس طرح سوچ کر دیکھیں
دل میں بسا ہے اب تک تیرا خیال، آ جا
بھولا کہاں میں ہمدم تیرا جمال، آ جا

یہ دوریاں ہماری ہم کو نہ مار ڈالیں
کوئی ہے بدگمانی اس کو نکال ،آ جا
------------یا
جو بھی ہے بدگمانی اس کو نکال ، آ جا
بدگمانی کہاں سے نکالے؟؟؟

تجھ سے بچھڑ کے میرے دل نے سکوں نہ پایا
اس بات کا ہے مجھ کو اب تک ملال ، آ جا
ملال اگر بچھڑنے کا ہے تو پہلے مصرعے کی وجہ سے بیان کنفیوز ہو رہا ہے۔ اگر اس بات کا ہے کہ سکون نہیں مل سکا تو یہ تو مبنی بر خود غرضی ہوا!!!

میرے بغیر خوش ہو مجھ کو یقیں نہیں ہے
اپنا بغیر تیرے ابتر ہے حال ، آ جا
شترگربہ در آیا ہے ۔۔۔ بیان بھی مربوط نہیں۔ یوں سوچیے
میرے بغیر کیسے تو خوش ہے، یہ بتا دے
میرا تو تیرے پیچھے، ابتر ہے حال، آ جا

آئی نہ راس مجھ کو تیری کبھی جدائی
تیرے بغیر جینا اب ہے محال ، آ جا
پہلے مصرعے میں غیر ضروری تعقید ہے۔
آئی نہ راس ہم کو تیری جدائی ہمدم
تیرے بغیر اب ہے جینا محال، آجا

ارشد نے دل دکھا کر اچھا کیا نہ تم سے
اس کا نہ ہو گا پھر سے اب احتمال ،آ جا
بیان بہت زیادہ گنجلک ہے۔ مقطع دوبارہ کہیں۔
 
Top