دل سلگنے لگا دعا بن کر،اسلم کولسری

دل سلگنے لگا دعا بن کر
پھر وہ گزرا، مگر ہوا بن کر
مضمحل تھے مرے خیالوں میں
لفظ مر ہی گئے صدا بن کر
خود فریبی سی خود فریبی ہے
باہر آنا بہت بھلا بن کر
بوجھ صدیوں کا ڈال دیتے ہیں
ایک دو پل کا آسرا بن کر
اب کہاں تک، تمہی کہو، کوئی
ٹوٹ کے بنتا، ٹوٹتا بن کر
پتھروں میں بدل گئیں آنکھیں
کیا ملا دل کو آئینہ بن کر
بن پڑے گر، تو دیکھنا اسلم
خود کبھی اپنا آشنا بن کر
 
Top