دل تڑپتا ہے شب و روز برائے کعبہ - تعشق لکھنوی (قصیدہ)

حسان خان

لائبریرین
دل تڑپتا ہے شب و روز برائے کعبہ
پھر وہ دن ہو کہ خدا ہم کو دکھائے کعبہ

آپ کے شوق کو بس دیکھ لیا واہ خلیل
جائے دل سینے میں لازم تھی بنائے کعبہ

طوف میں ہوتی ہیں دو کیفیتیں ساتھ حصول
سنگِ اسود کے نثار اور فدائے کعبہ

جبکہ زد پر ہو نشانہ تو خطا کیا معنی
تیر سی عرش پہ جاتی ہے دعائے کعبہ

منہ مرا گور میں قبلے کی طرف کو ہو گا
مر کے بھی سر سے نہ جائے گی ہوائے کعبہ

جو ہے دنیا میں اسی سمت کھنچا جاتا ہے
کتنی مرغوب ہے، دلچسپ ہے جائے کعبہ

اپنے اللہ کی صنعت کے ہیں عاشق بندے
طوف کے نام سے ہوتے ہیں فدائے کعبہ

اے زہے لطف خوشا بندہ نوازی تیری
مجھ سے عاصی کی زباں اور ثنائے کعبہ

منہ لگائیں گے ترے جام کو اے جم کیونکر
تجھ کو کم ظرف سمجھتے ہیں گدائے کعبہ

طوف کرنے میں بدن کانپتے ہیں صورتِ بید
اے زہے عزت و اجلالِ خدائے کعبہ

آبِ زمزم کی وہ ٹھنڈک وہ ہوا صحن کی سرد
یاد آتی ہے بہت آب و ہوائے کعبہ

تو مرے جسم سے اے روح نکل جا سو بار
پر کہیں دل سے نکلتی ہے ولائے کعبہ

ہے دعا جامۂ احرام کفن ہو میرا
اپنے ذرے پہ کرے مہر خدائے کعبہ

میری تربت کا فرشتوں نے کیا آ کے طواف
بن گئی کعبۂ مقصود ولائے کعبہ

دوسرا کوئی مکاں آنکھ میں ٹھہرے نہ کبھی
چشمِ وحدت سے جو مجھ کو نظر آئے کعبہ

حج سے پھر بندۂ عاصی ہو مشرف مالک
دے مرے دل کو یہ توفیق برائے کعبہ

کیا کہوں آنکھوں نے کیا نور وہاں دیکھا ہے
خلد میں رونے لگوں یاد جو آئے کعبہ

جسمِ خاکی ہے یہاں اور مری روح وہاں
جان آ جائے جو آ جائے ہوائے کعبہ

اے تعشق یہی مصرع ہے وظیفہ اپنا
پھر وہ دن ہو کہ خدا ہم کو دکھائے کعبہ
(تعشق لکھنوی)
 
Top