دلِ نا صبور میرا

اساتذہ کرام جناب محمد یعقوب آسی صاحب ، جناب الف عین صاحب، اور دیگر صاحبانِ فن اور محفلین سے نظم پر آرا پیش کرنے کی درخواست ہے۔

کوئی راہبر نہیں ہے کوئی راہ بھی نہیں ہے
مِرے ذہن و دل کو شاید کوئی جستجو نہیں ہے
نہ زوال پا رہا ہے نہ عروج پا رہا ہے
اسے منزلوں کی ضد ہے بھلے ہو کہیں بسیرا
کسے ڈھونڈتا ہے جانے دلِ نا صبور میرا
مجھے پیاس تو لگی ہے ابھی تشنگی نہیں ہے
یہ رکوع و سجدہ میرا نہیں بندگی نہیں ہے
مِرا عشق نا مکمل مِرا ہوش بھی خطا ہے
یہ اڑان بھی نئی ہے ،ہو کہاں پہ جانے ڈیرا
کسے ڈھونڈتا ہے جانے دلِ نا صبور میرا
مجھے ناقدو نہ روکو مجھے حاسدو نہ ٹوکو
مِرے دل کی بے کلی کو کسی آگ میں نہ جھونکو
مِرے دل کی دھڑکنوں میں کوئی حشر سا بپا ہے
مجھے کہنے بھی دو سب کچھ دم گٹھ رہا ہے میرا
کسے ڈھونڈتا ہے جانے دلِ ناصبور میرا
یہ جو روشنی سی کچھ ہے درِ نیم وا کے پیچھے
اسے اور راستہ دو مِری التجا کے پیچھے
اسے ڈھونڈتا ہوں شاید یہی جستجو مِری ہے
مِرے چارسو تو جیسے کوئی تیرگی کا گھیرا
کسے ڈھونڈتا ہے جانے دلِ نا صبور میرا
 
یہ نظم، گیت کے انداز میں لکھی گئی ہے۔ جس طرح ظاہر ہے کہ ہر انترے کے پہلے دو مصرعے پابند ہیں، یعنی یہ ہم ردیف، ہم قافیہ اور ہم وزن ہیں۔ لیکن پہلے ہی انترے میں اس کی رعایت نظر نہیں آتی (کوشش ضرور کی گئی ہے رعایت کرنے کی):
کوئی راہبر نہیں ہے کوئی راہ بھی نہیں ہے
مِرے ذہن و دل کو شاید کوئی جستجو نہیں ہے
یعنی یہ دو سطور مقفیٰ نہیں۔
 
ماشاء الله بہت اچھی ہے نظم اپنے خیال کی وجہ سے بہت اچھی ہے -
فن کی باریکیوں پر حجاز بھائی نے گفتگو کا آغاز کیا ہے امید ہے اساتذہ کرام بھی توجہ دیں نظم پر - میں رات کو اگر دوبارہ آن لائن ہوا تو انشاء الله ضرور اپنا تاثر نقل کرونگا
 
دوبارہ پڑھنے پر یہ انکشاف ہوا کہ تیسرے انترے کے پہلے دو مصرعے بھی، جو ہیئت کے اعتبار سے مقفیٰ ہونے بھی چاہیے ہیں، اور کوشش بھی یہی کی گئی ہے؛ مقفیٰ نہیں ہیں۔
مجھے ناقدو نہ روکو مجھے حاسدو نہ ٹوکو
مِرے دل کی بے کلی کو کسی آگ میں نہ جھونکو
اس عیب کو ایطا بھی کہتے ہیں۔ جھونکو اور ٹوکو میں ”کو“ کو ردیف فرض کر لیجیے، رہ جاتے ہیں ”ٹو“ اور ”جھوں“ جو کہ کسی طور قافیے نہیں۔ ٹوکو کے قوافی ہو سکتے ہیں، روکو، لوکو وغیرہ، اور بھونکو جیسے الفاظ جھونکو کے قافیے ہیں۔
 
دوبارہ پڑھنے پر یہ انکشاف ہوا کہ تیسرے انترے کے پہلے دو مصرعے بھی، جو ہیئت کے اعتبار سے مقفیٰ ہونے بھی چاہیے ہیں، اور کوشش بھی یہی کی گئی ہے؛ مقفیٰ نہیں ہیں۔

اس عیب کو ایطا بھی کہتے ہیں۔ جھونکو اور ٹوکو میں ”کو“ کو ردیف فرض کر لیجیے، رہ جاتے ہیں ”ٹو“ اور ”جھوں“ جو کہ کسی طور قافیے نہیں۔ ٹوکو کے قوافی ہو سکتے ہیں، روکو، لوکو وغیرہ، اور بھونکو جیسے الفاظ جھونکو کے قافیے ہیں۔
حضور کیا اس نظم کو معری (بلا قافیہ ) کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا؟
 
باقی کی نظم پر بھی آپ کی آرا کا بے چینی سے انتظار ہے
گنجلک نظم ہے۔ بیانیہ کمزور، خیال عنقا اور روانی گھدے کے سر سے سینگ! (مزاحاً عرض ہے)
ہمارے خیال میں زبان اور شعر پر ابھی خاصی محنت کرنی ہوگی۔ کلام کو ضعفِ بیاں کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ شعر دو لخت ہو رہے ہیں۔
ترکیب سازی اور لفظ گری کمزور ہے۔ زوالِ پا ، عروجِ پا؛ رکوع و سجدہ؛ تیرگی کا گھیرا! مزیدار نہیں! بلکہ غلط ہیں۔
کلام میں محاورے کی زبان کا استعمال احسن ہے۔ روزمرہ کا بھی خیال از حد ضروری ہے۔
تعقید لفظی و معنوی کا عیب بھی جا بہ جا موجود ہے۔ کوئی راہ بھی نہیں ہے؛ بھلے ہو کہیں بسیرا؛ مِرے چارسو تو جیسے؛ لفظ اپنی ٹھیک جگہ پر نہیں ہیں۔
جب بحر دو مساوی ٹکڑوں میں تقسیم ہو رہی ہو تو احسن یہ کہ معنی بھی ان دو ٹکڑوں میں اس طرح بٹ جائیں کہ معیوب نہ لگیں۔ اس نظم کی بحر ہے: فَعِلات فاعلاتن فَعِلات فاعلاتن۔ اور یہ مصرع دیکھیے: یہ رکوع و سجدہ میرا ،نہیں بندگی نہیں ہے۔ یہ نہیں جو دوسرے بخش میں ہے در اصل پہلے حصے سے منسوب ہے۔ (امید ہے بات سمجھا سکا ہوں)
مزید جو عیب بہت عیاں ہے وہ یہ ہے کہ وزن کو نبھانے کے لیے بھرتی کے الفاظ کثرت سے برتے گئے ہیں!

مجموعی طور پر نظم بہت کمزور ہے۔
 
حضور کیا اس نظم کو معری (بلا قافیہ ) کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا؟
نظم کی ہیئت یہ بتا رہی ہے کہ آپ نے ترتیب ایسی رکھی ہے کہ نظم کے ہر انترے میں پہلے دو مصرعے مقفیٰ ہوں گے، اور چوتھا مصرع مکھڑے (یعنی وہ مصرع جو بار بار دہرایا جاتا ہے گیت میں) اس کا ہم قافیہ ہوگا!
 
گنجلک نظم ہے۔ بیانیہ کمزور، خیال عنقا اور روانی گھدے کے سر سے سینگ! (مزاحاً عرض ہے)
ہمارے خیال میں زبان اور شعر پر ابھی خاصی محنت کرنی ہوگی۔ کلام کو ضعفِ بیاں کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ شعر دو لخت ہو رہے ہیں۔
ترکیب سازی اور لفظ گری کمزور ہے۔ زوالِ پا ، عروجِ پا؛ رکوع و سجدہ؛ تیرگی کا گھیرا! مزیدار نہیں! بلکہ غلط ہیں۔
کلام میں محاورے کی زبان کا استعمال احسن ہے۔ روزمرہ کا بھی خیال از حد ضروری ہے۔
تعقید لفظی و معنوی کا عیب بھی جا بہ جا موجود ہے۔ کوئی راہ بھی نہیں ہے؛ بھلے ہو کہیں بسیرا؛ مِرے چارسو تو جیسے؛ لفظ اپنی ٹھیک جگہ پر نہیں ہیں۔
جب بحر دو مساوی ٹکڑوں میں تقسیم ہو رہی ہو تو احسن یہ کہ معنی بھی ان دو ٹکڑوں میں اس طرح بٹ جائیں کہ معیوب نہ لگیں۔ اس نظم کی بحر ہے: فَعِلات فاعلاتن فَعِلات فاعلاتن۔ اور یہ مصرع دیکھیے: یہ رکوع و سجدہ میرا ،نہیں بندگی نہیں ہے۔ یہ نہیں جو دوسرے بخش میں ہے در اصل پہلے حصے سے منسوب ہے۔ (امید ہے بات سمجھا سکا ہوں)
مزید جو عیب بہت عیاں ہے وہ یہ ہے کہ وزن کو نبھانے کے لیے بھرتی کے الفاظ کثرت سے برتے گئے ہیں!

مجموعی طور پر نظم بہت کمزور ہے۔
آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے اپنی گراں قدر آرا سے نوازا آرا کو میں نے محفوظ کر لیا ہے بہت کچھ سیکھنے کو ملا امید ہے اسی طرح توجہ فرمانے سے بندہ نا چیز جلد بہت کچھ سیکھ جائے گا
 
Top