دفاعِ پاکستان اور مذہبی اقلیتیں

حاتم راجپوت

لائبریرین
6-september-minorities.jpg


پاکستان کی تاریخ کے اولین دنوں سے اب تک مذہبی اقلیتیں ہماری قومی زندگی کا ایک اہم حصہ رہی ہیں۔ تعلیم، علوم و فنون اور سماجی خدمات سے لے کر دفاعِ وطن تک کے فریضے میں غیرمسلم پاکستانی اپنی عددی کم تری کے باوجود کارکردگی میں کسی طور مسلمان اکثریت سے کم نہیں۔ زیرِنظر تحریر میں ہم دفاعِ وطن میں مذہبی اقلیتوں کے اس اہم کردار پر روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے جس پر وقت کی ہوا نے تعصب کی گرد چڑھا نا شروع کردی ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ مذہبی شناخت اور تشخص کا مسئلہ پاکستانیوں میں مِن حیث القوم ایک ایسا سنجیدہ معاملہ بنتا جا رہا ہے کہ اب شاید ہمیشہ سے زیادہ اس امر پر روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے کہ بحیثیت قوم، لفظ پاکستانی کا مطلب فقط مسلمان ہرگز نہیں ہے اور اس مٹی کی کوکھ سے جنم لینے والا اور وطن سے محبت کا دم بھرنے وال ایک عیسائی، ہندو، پارسی ، احمدی اور سکھ بھی اتنا ہی پاکستانی ہے جتنا کہ اس کے برابر محبِ وطن مسلمان شہری جو کہ قانونِ شہریت کے تحت پاکستانی کہلاتا ہے۔

پاکستان کی مسلح افواج کو ان کے ابتدائی سالوں میں ایک نیم تربیت یافتہ، ناپختہ کار ، نامکمل طور پر مسلح اور معمولی فوجی گروہوں سے اٹھا کر خطے کی اہم فوجی تنظیموں میں شمار کرنے کے پیچھے جہاں اُس وقت کے ہراولین (Pioneer) پاکستانی فوجی افسر کی انتہائی مخلس اور بے لوث محنت کا عمل دخل ہے وہاں اس میں کئی غیر مسلم افسران کی پیشہ ورانہ لیاقت اور جذبہ حب الوطنی کا بھی ایک ناقابلِ فراموش حصہ شامل ہے۔ قیامِ پاکستان کے فوری بعد پاک فوج میں رضاکارانہ طور پر شامل ہونے والے انگریز افسران کے علاوہ کئی اینگلو انڈین ، کرسچن، پارسی اور ہندو افسران نے پاک فوج میں شمولیت اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ بری فوج چونکہ تعداد میں ایک بڑی سپاہ تھی جس کا ایک بڑا حصہ پہلے ہی راولپنڈی، جہلم، چکوال اور اٹک کے پنجابی مسلمانوں پر مشتمل تھا، اس لئے بری فوج میں مسلم افسران کی تعداد بھی بحریہ اور فضائیہ سے زیادہ تھی۔ تاہم بحریہ اور فضائیہ میں انگریز، اینگلوانڈین اور غیرمسلم افسران کی تعداد کافی زیادہ تھی۔ 1965 اور 1971 کی پاک بھارت جنگوں میں نمایاں کارکردگی کامظاہرہ کرنے والے پیشہ ور اور بہادر افسران میں چند کرسچن اور احمدی افسران اور جوان اہم مقام رکھتے ہیں۔

بھٹودورکے بعد جب ملک کےتمام شعبوں میں بالعموم اورافواج میں بالخصوص اسلامائزیشن کا عمل شروع ہواتواس وقت تک اینگلوپاکستانی افسران کی آخری کھیپ بھی ریٹائر ہونے والی تھی جب کہ کرسچن اور احمدی افسران کے لئے یہ دور اس تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوا جس کے تحت پاک فوج نے سیکولر اقدار کو چھوڑ کر ایک اسلامی شناخت اپنانا شروع کی ۔ وقت کے ساتھ ملٹری سوسائٹی میں پیشہ وارانہ اقدار کی بجائے مذہبی تفریق کا عمل شروع ہو گیا۔ ترقی اور فرائض کی تفویض کے شفاف نظام نے اگرچہ غیر مسلم افسران کے ساتھ نمایاں امتیازی سلوک روا نہ ہونے دیااور غیرمسلم افسران کو نچلے اور متوسط رینکس (Ranks) تک کسی قسم کی قابلِ ذکر رُکاوٹوں اور الجھنوں سے بچائے رکھا لیکن اُوپر کی سطح پر کافی حد تک مذہب کا عنصر بھی پیش ِ نظر رہنے لگا۔ کئی موقعوں پر ، سننے میں آیا ہے کہ غیر مسلم افسران بالخصوص احمدی افسران کی خدمات اور سنیارٹی کو نظر انداز کر کے ان کی وفاداریوں پر سوال تک اُٹھائے گئے ۔ راقم نے اپنی باوردی زندگی کے لگ بھگ ایک عشرے میں کسی احمدی کرنیل یا جرنیل کو نہیں دیکھا۔یہ کوئی قابلِ فخر بات نہیں ہے کہ تمام سرکاری اداروں میں احمدیوں کے ساتھ اس درجہ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہےکہ وہ اپنےکیرئیر اور معاشرتی زندگی کو پُر سکون بنانے کے لئے اپنے تئیں مسلم ظاہر کرنے یا مذہبی شناخت کو خفیہ رکھنے کی حتی الوسع کوشش کرتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہم دورِحاضر کے کسی احمدی فوجی افسر کے بارے میں معلومات حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں یا پھر اس کا اظہار کرنے سے اس لئے گریزاں ہیں کہ یہ اُس کے لئے مضر ہوسکتا ہے۔

جنرل پرویز مشرف کے دورِحکومت میں روشن خیالی اور کسی حد تک سیکولر فوج کا ویژن عملی طور صورت اختیار کرتا دیکھا گیا جب پاک فوج میں 1سکھ اور 2ہندو افسران جب کہ پاک بحریہ میں ایک معمولی تعداد میں ہندو رنگروٹ بھرتی ہوئے۔ یہ سلسلہ شاید جنرل مشرف کی حکومت کے ساتھ ہی ختم ہوگیا تھا۔ اب جب کہ مذہبی شناخت اور تشخص کا معاملہ ہمارے ہر شعبہ زندگی پر اثرانداز ہو رہا ہے ، یہ ضروری ہے کہ ہم رواداری کا ثبوت دیتے ہوئے وطن عزیز کی مذہبی اقلیتوں کے احساسِ اجنبیت اور محرومی کو ختم کریں اور پاکستان کے خوش نما رُخ پر اِن بُھلائے ہوئے حسین رنگوں کی پچی کاری بھی کریں جو عالمی اُفق پر آزادی ، روشن خیالی اور امن پسندی کی قوسِ قزح بن کر ابھرنے کے لئے ضروری ہے۔
ماضی کے جھروکوں میں ہمارے غیر مسلم شہداء، غازیوں اور مُحسن سپاہیوں کےکئی ایسے فراموش کردہ چہرے ہیں جو اپنی بے لوث خدمتوں کے عوض کچھ ستائش، کچھ التفات اور کچھ صلہ مانگتے ہیں۔

1۔ ائیر کموڈور بلونت کمار داس
بی-کے داس فضائیہ کے واحد سینئر ہندو افسر تھے جوکہ تقسیم کے وقت پاک فضائیہ میں شامل ہوئے اور پاکستان ائر فورس میں مختلف عہدوں پر خددمات سر انجام دیتے رہے۔ ان کے علاوہ فلائنگ آفیسرولیم ستیش چندر وسواس کا نام بھی پاک فضائیہ کے اولین افسران میں شامل ہے لیکن اِن کا تفصیلی ریکارڈ دستیاب نہیں ہو سکا۔

2۔ میجر جنرل جیولین پیٹر
راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے جیولین پیٹر نے 1965اور 1971 کی پاک بھارت جنگوں میں حصہ لیا۔1990 میں اُنہیں پاک فوج کے پہلے پاکستانی کرسچن جنرل ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ اِنہیں اوکاڑہ میں ایک ڈویژن کی کمان ملی۔ اُنہوں نے ڈائریکٹر جنرل لاجسٹکس اور دیگر اہم کمانڈ اور اسٹاف ڈیوٹیوں پر فرائض سرانجام دئیے اور 2004میں ریٹائر ہوئے۔

3۔میجر جنرل افتخار جنجوعہ
راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے میجر جنرل افتخار جنجوعہ مذہبااحمدی تھے۔ وہ دوسری جنگِ عظیم میں سسلی ، اٹلی اور شمالی افریقہ کے محاذوں پر خدمات سر انجام دے چکے تھے۔ 1965میں اُنہوں نے رن کچھ میں بھارتی فوج کے خلاف ایک بریگیڈ کی کمان کرتے ہوئے قوم سے فاتحِ رن کچھ کا لقب حاصل کیا۔ اُنہیں پاکستانی فوج کی تاریخ کا پہلا آرمرڈ حملہ بطورِ بریگیڈ کمانڈر بیار بیٹ کی لڑائی میں کمان کرنےکا اعزاز حاصل ہے۔ انہیں ان خدمات کے صلے میں بہادری کا دوسر اعلیٰ ترین اعزاز ہلالِ جرات دوبار عطا کیا گیا۔ 1971میں وطن پر جان قربان کرنے والے ہماری تاریخ کے پہلے جرنیل کا اعزاز بھی انہی کے حصے میں آیا۔ 71میں کشمیر کے محاذ پرایک پرواز کے دوران بھارتی فوج کے حملے میں شہید ہوئے۔

4۔ لیفٹننٹ جنرل عبدالعلی ملک
1965 میں چونڈہ کی لڑائی میں 24انفنٹری بریگیڈ کی کمان کرنے والے عبدالعلی ملک راولپنڈی کے علاقے پنڈوری سے تھے اوران کا تعلق جماعتِ احمدیہ سے تھا۔ وہ بنیادی طور پر انجنئیر تھے اور لیفٹننٹ جنرل کے عہدے تک پہنچے۔

5۔ ائر وائس مارشل ایرک گورڈن ہال

پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے بانی چئیرمین اور 65 کی جنگ میں پاک فضائیہ کے ڈرامائی ایڈونچر “ہرکولیس بمبار “کے منصوبہ ساز ایرک گورڈن ہال برمی کرسچین والدین کے ہاں پیدا ہوئے اور پاک فضائیہ میں شمولیت کے بعد اُنہوں نے پاکستانی شہری کی حیثیت سے زندگی گزاری۔ 1965کی جنگ میں وہ گروپ کیپٹن تھے جب اُنہوں نے بمبار طیاروں کی کمی اور کچھ تکنیکی مسائل کے پیشِ نظر رن کچھ کے محاذ پر بمباری کے لئے پہلی بار C-130 مال بردار طیارے کو بطور بمبار استعمال کرنے کا خیال پیش کیا۔ اِس مقصد سے C-130 طیارہ اڑاتے ہوئے اُنہوں نے ایک دلچسپ بمبار مشن کرتے ہوئے دُنیا بھر کے ہوابازوں کو حیران کردیا۔ اِنہیں اِن کی جنگی خدمات کے صلے میں ستارہ جرات کا اعزاز ملا۔ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے سربراہ کے طور پر ایک عرصے تک یورینیئم کی افزودگی کے منصوبوں کی نگرانی کی۔

6۔ ائر وائس مارشل مائیکل جان اوبرائن

لاہور کے کرسچین خاندان سے تعلق رکھنے والے اوبرائن پاک فضائیہ کے اولین افسران میں ایک نمایان شخصیت ہیں۔ اُنہیں پاک فضائیہ میں جنگی اور انتظامی خدمات کے صلے میں تمغہ جرات اور ستارہ بسالت جیسے بہادری کے جبکہ نشان امتیاز جیسااعلیٰ کارکردگی کا اعزاز ملا۔ بطور ڈپٹی ائر چیف ریٹائر ہونے کے بعد وہ پاکستان کے جوہری پروگرام سے منسلک ہو گئے۔کڑانہ مین موجود ایٹمی تنصیب (KATS) کی کمان کرتے ہوئے اُنہوں نے پاکستان کے جوہری پروگرام کے آغاز میں اہم کردار ادا کیا۔

7۔ ائر مارشل ظفر احمد چوہدری

پاک فضائیہ کمانڈر ان چیف ، ظفر احمد چوہدری کا تعلق جماعتِ احمدیہ سے تھا۔ وہ دوسری جنگِ عظیم کے آخری سال میں فضائیہ میں شامل ہوئے۔ 1971کی شکست خوردہ فضائیہ کی کمان ملنا ظفر چوہدری کے لئے ایک چیلنج تھا جسے قبول کرتے ہوئے اُنہوں نے اِس دلبرداشتہ اور ہاری ہوئی سپاہ کواز سرِنو مستقبل کے دفاعی فرائض کے لئے پوری تندہی سے تیا ر کیا۔ بھٹو حکومت سے، اپنے پیشہ ورانہ معاملات میں مداخلت پر ان کے تعلقات کشیدہ ہوئے تو انہوں نے فضائیہ کو خیرباد کہہ دیا۔ اس کے بعد اُنہوں نے پاکستان میں انسانی حقوق کے موقر ادارے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (Human Rights Commission of Pakistan) کی داغ بیل ڈالنے میں اہم کردار ادا کیا۔

8۔ ائر کموڈور نذیر لطیف

1965 اور1971 کی پاک بھارت جنگوں کے غازی نذیر لطیف کا تعلق راولپنڈی کے کرسچین خانوادے سے تھا۔ اُنہیں بہادری کا تیسرا اعلیٰ ترین اعزاز دو بار عطا کیاگیا۔

9۔ سکواڈرن لیڈر پیٹر کرسٹی

ملتان کے ایک کرسچین فائر فائٹر مولا بخش کرسٹی کے بیٹے سکواڈرن لیڈر پیٹر کرسٹی پاک فضائیہ میں فائر ماسٹر کے نام سے مشہور تھے۔ وہ پاک فضائیہ کے نمبر7 بمبار سکواڈرن کے ایک دلیر نیوی گیٹر (Navigator) تھے ۔ 1965 کی جنگ میں B-57 طیاروں کے بہادرانہ مشن اُڑانے پر اُنہوں نے تمغہ جرات کا اعزاز حاصل کیا۔وہ 1971 کی جنگ میں شہید ہوئے۔ اُنہیں بعد از شہادت ستارہ جرات کا اعزاز دیا گیا۔

10۔ ونگ کمانڈر میروِن لیزلی مڈل کوٹ
“کمانڈر لیزلی” کانام پاک فوج کے کرسچین افسران میں ایک دمکتا ستارہ ہے۔ لیزلی لاہور کی ایک کرسچین فیملی کے چشم وچراغ تھے جنہیں پاک فضائیہ میں پیار سے کمانڈرلیزلی کے نام سے یاد کیا جاتاتھا۔ اُنہوں نے 1965 کی پاک بحارت جنگ میں دُشمن کے حملہ آور لڑاکا طیاروں کو شکار کرنے کے صلے میں ستارہ جرات کا اعزاز حاصل کیا۔ 1968 کی عرب جنگ میں پاکستان کی طرف سے وہ اسرائیلی فضائیہ سے لڑے اور اُردن کا اعلیٰ اعزاز حاصل کیا ۔ 1971 کی جنگ میں اُن کی شہادت پر اُردن کے بادشاہ حُسین نے جو کہ خود بھی ایک ماہر پائلٹ تھے، اُن کی بیوہ کو خط میں لکھا،”بہن!کمانڈر لیزلی کی موت میرا ذاتی نقصان ہے۔ میری خواہش ہے کہ اگر شہید کے جسدِخاکی کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر دفن کرنے لگو تو اس کے سر کے نیچے اُردن کا پرچم ضرور لپیٹ کر رکھنا۔ “کمانڈر لیزلی نے مادرِوطن کے ساتھ وفاداری کاحق ادا کرنے کی خاطر ایک اور مسلم ملک کو بھی تاابد اپنا شکرگزار اور ممنون کر دیا۔

11۔ گروپ کیپٹن سیسل چوہدری
لاہور کے نامی گرامی کرسچین فوٹوگرافر ایف –ای چوہدری کے صاحب زادے سیسل چوہدری کا وطنِ مالوف سپاہیوں کی سرزمین چکوال ہے۔ مرحوم سیسل چوہدری 1965کی جنگ میں بھارتی فضائیہ کے خلاف فضائی لڑائیوں میں اعلیٰ ترین شہرت حاصل کرنے والے کرسچین افسر ہیں۔ اُنہیں ان کی جنگی خدمات کے صلے میں ملک کے تیسرے اور چوتھے اعلیٰ ترین بہادری کے اعزازات ستارہ جرات اور تمغہ جرات سے نوازا گیا۔ وہ اپنی پیشہ ورانہ لیاقت کے مطابق ترقی سے تو محروم رہ گئے اور اُنہیں گروپ کیپٹن ہی ریٹائر ہونا پڑا جس پر مبینہ طور پر وہ غیر مسلم افسران کے ساتھ پروموشن بورڈ کے رویے کے شاکی بھی رہے۔لیکن سویلین زندگی میں اُنہوں نے انسانی حقوق اور فروغِ تعلیم میں اُنہوں نے جو سرگرم اور عملی خدمات سرانجام دیں وہ انتہائی قابلِ قدر ہیں۔ وہ تاحیات ایک سماجی رہنمااور ماہرِتعلیم رہے اور2012میں وفات پاگئے۔

12۔ میجرجنرل کیزاد سپاری والا

کیزاد مانک سپاری والا پاک فوج کے پہلے پارسی جرنیل تھے ۔ اُن کے والد لیفٹننٹ کرنل میک پسٹن جی سپاری والا نے 1965میں بلوچ رجمنٹ کی ایک بٹالین کمان کی اور اعلیٰ کارکردگی پرصدر ایوب خان سے تعریفی سند وصول کی۔ کیزاد سپاری والا نے 1986 میں امریکہ سے کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کورس کیا۔ انہیں ان کی نمایاں عسکری خدمات پر نشانِ امتیاز (ملٹری)عطا کیا گیا۔ جنرل کیزاد پاک فوج سے ریٹائر ہو چکے ہیں۔
ان کے علاوہ ائر کموڈور پرسی ویر جی ، کمانڈر ایف۔ ڈی ہریکر (نیوی)، اورکیپٹن نوشیر جہانگیر کوپر (نیوی) جیسے کئی پارسی افسران مختلف سالوں میں مسلح افواج میں خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔

13۔ میجر جنرل نوئیل اسرائیل کھوکھر

لاہور سے تعلق رکھنے والے کرسچین افسر نوئیل اسرائیل کھوکھر کا تعلق توپ خانے سے ہے۔ انہوں نے منگلا چھاونی میں ایک لڑاکاڈویژن کی قیادت کی اور پی-ایم-اے کاکول ، کمانڈ اینڈ سٹاف کالج کوئٹہ اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد میں تدریسی عہدوں پر فائز رہے۔ 2011میں انہیں ہلالِ امتیاز (ملٹری) سے نوازا گیا اور 2012 میں وہ پاکستان آرمی سے ریٹائر ہو گئے۔

14۔ فلائٹ لیفٹننٹ الفریڈ جگ جیون

1948 میں کشمیر کے محاذ پر بھارتی اور پاکستانی فضائیہ کے درمیان تاریخ کی پہلی فضائی لڑائی ہوئی جس میں بھارتی ہاکر ٹمپسٹ لڑاکا طیارہ نے پاک فضائیہ کے مال بردار ڈیکوٹا طیارے پر حملہ کیا جسے فلائٹ لیفٹننٹ مختار ڈوگر (اَئر کموڈور ،ستارہ جرات) اورایک کرسچین افسر، فلائنگ افسر جگ جیون نے کمال بہادری سے ناکام بنا دیا۔

15۔ شہید سیکنڈ لیفٹننٹ ڈینئل عطارد

ڈینئل لاہور کے ایک کرسچین گھرانے سے تعلق رکھتے تھے جن کی عسکری روایات بہت اعلیٰ تھیں۔ ان کے والد میجر آرتھر عمانوئیل عطارد، چچا لیفٹننٹ کرنل فلپ عطارد اور لیفٹننٹ کرنل اولیور آئزک بھی پاک فوج میں خدمات سر انجام دے چکے تھے۔ سیکنڈ لیفٹننٹ ڈینئل کا تعلق پنجاب رجمنٹ سے تھا۔ وہ 1971 میں مشرقی پاکستان میں شہید ہوئے اور وہیں کسی نامعلوم مقام پر دفن ہیں۔ انہیں بہادری کا اعزاز ستارہ جرات دینے کی سفارش کی گئی تھی۔ اُنیس سالہ سیکنڈ لیفٹننٹ ڈینئل کا نام پنجاب رجمنٹ سنٹر مین یاد گارِ شہداء پر کندہ ہے۔

16۔ کیپٹن ہرچرن سنگھ

پاک فوج کے پہلے سکھ افسر ہرچرن سنگھ کا تعلق ننکانہ صاحب سے ہے۔ وہ 1986میں وہاں کے ایک غریب سکھ آیا سنگھ کے ہاں پیدا ہوئے۔ 2007میں پاک فوج میں کمیشن ملا، تو کیپٹن سنگھ کے والد یہ خوشی دیکھنے کے لئے زندہ نہ تھے لیکن یہ خوشی پاکستان کے تمام ہندو اور سکھ نوجوانوں کی خوشی تھی کیونکہ پہلی بار ہندو اور سکھ پاکستانیوں کو بھی پاک فوج میں شمولیت کی اجازت ملی تھی۔ ان کی تقلید میں کیپٹن پرکاش اور کیپٹن دنیش نے پاکستان آرمی میڈیکل کورمیں شمولیت اختیار کی جو کہ بلاشبہ ایک تاریخی واقعہ تھا۔ اس کے بعد پاک بحریہ میں بھی چند ہندو نوجوانوں نے رینکس (Ranks) میں شمولیت اختیار کی۔کیپٹن ہرچرن سنگھ کو آرڈیننس کور میں کمیشن ملالیکن حال ہی میں وہ پاک فوج کی سینئر اور تاریخی لڑاکا رجمنٹ ، بلوچ رجمنٹ میں شامل ہو گئے ہیں۔

ہماری مسلح افواج اپنے پیشہ ورانہ قدوقامت کی بلندی کے لئے ایسے لاتعداد غیر مسلم افسران ، جوانوں، شہیدوں اور غازیوں کی ممنون ہے جنہوں نے دفاعِ وطن کا فریضہ کسی بھی محبِ وطن پاکستانی مسلمان کی طرح انجام دیا۔
رئیر ایڈمرل لیزلی نارمن منگاوِن، جو کہ نسلا پولش (Polish) تھے اور پاک بحریہ کے محسن افسروں میں سے ایک تھے، جب فوت ہوئے تو وصیت کر گئے کہ بعد از مرگ ان کے جسدِخاکی کو جلا کر راکھ پاک بحریہ کے حوالے کر دی جائے تاکہ وہ اسے سمندر میں بہا کر ہمیشہ کے لئے انہین پاکستان کے سمندروں کے حوالے کر دے۔
قائدِ اعظم کا پاکستان اور پاک فوج یہی ہے جس میں ہر مذہب اور ہر صوبائی و علاقائی پس منظر کا فرد ایک ہی پہچان رکھتا ہے؛ وہ محبِ وطن پاکستانی ہے!



از ذکی نقوی۔
ربط۔
 

قیصرانی

لائبریرین
ذمہ داران کے تعین نہ ہونے کی صورت میں بھی تو کوئی نہ کوئی ذمہ دار تو ہو گا ناں۔
اس بارے کچھ نہیں کہہ سکتے کہ فورم اتنا بڑا ہے کہ فی الوقت تین ذمہ داران ہر ممکن کوشش کر کے بھی اس پر پوری توجہ نہیں دے سکتے۔ امید ہے کہ جلد ہی ذمہ داری اٹھانے کے لئے کوئی نہ کوئی مل ہی جائے گا :)
 
Top