دعا سے متعلق چند خیالات۔۔۔۔

کچھ عرصہ پہلے کچھ دوستوں سے بات ہوئی، جو بہت مایوس دِکھے۔ ان کی ایک شکائت دعا کے پورا نہ ہونے کی تھی۔ انھی کے ساتھ کی گفتگو کا ایک حصہ آپ کی خدمت میں لے کے آیا ہوں۔ مہربانی کر کے توجہ کیجیے گا، غلطی کی نشاندہی ضرور کیجیے گا، بہتری کے لیے نصیحت بھی مل جائے، تو ممنون ہوں گا۔ تحریر مختصر اور نامکمل لگے، تو معاف کیجیے گا۔ وقت کی قلت کی وجہ سے میں اس کے "بناؤ سنگار" پہ توجہ نہ دے پایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"۔۔۔ٹھیک کہتے ہیں کہ دعا کا ہر دفعہ پورا ہونا ضروری نہیں۔ لیکن، ایک صحتمند دعا رد بھی نہیں ہوتی۔ اب یہاں یہ تخصیص کر لیں کہ ایک وہ دعا ہے جو صرف زبان سے(یا دل کی خواہش سے) کی جاتی ہے اور ایک وہ دعا ہے، جو آدمی زبان سے نہ بھی ادا کرے، لیکن اپنے اعمال سے کرتا رہتا ہے۔ پہلا عمل وہ ہے جو ہم میں سے اکثر کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہمارا فرض پورا ہوا۔ دوسرا وہ ہے، جو ہم میں سے بہت کم کر پاتے ہیں۔ دعا کی حقیقت اسی دوسرے والے طریقے میں مخفی ہے۔ دعا کا زبان سے اظہار بالکل بھی ضروری نہیں۔ بہت سے کامیاب انسان ہمیشہ اپنے عمل سے دعائیں مانگتے رہتے ہیں۔ ان کی سوچ اور عمل ہی ان کی دعا ہوتے ہیں۔ یہ وہ مقام ہوتا ہے، جہاں وہ دعا نہیں بھی کرتے لیکن ان کا وجود سراپا دعا بن چکا ہوتا ہے۔ یہ بہت مرتبے کا مقام ہوتا ہے۔ رب سے دعا ہونی چاہیے کہ وہ ایسا مقام سب کو دے اور جب دے تو کی جانے والی دعا صحتمند ہو (آمین)۔
دعا جو نیک نیتی سے کی جائے، کے رد نہ ہونے کے بارے میں مندرجہ ذیل حوالہ جات دیکھئے۔
سورةالمؤمن، آیت 60
سورةالبقرة، آیت 186
سورة الشوریٰ، آیت 26
اور احادیث تو بیشمار ہیں!
ہاں کبھی کبھی ایسا ہوتا بھی دکھتا کہ بندہ بہت محنت کرتا ہے، لیکن کوئی چیز اسے نہیں بھی ملتی۔ ایسی دعا کے رد ہونے کی کچھ وجوہات بتائی گئی ہیں۔ ان میں حرام رزق (یہ بہت وسیع مضمون ہے۔ رزق کی بیشمار اقسام ہیں۔ ہم عام طور پر اس کے بارے احتیاط نہیں کر پاتے)، بے صبری و ناشکری کرنا یا کسی کے حق میں بددعا کرنا چند اہم وجوہات ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی چیز بندے میں آ جائے، تو دعا، دعا نہیں رہتی۔ تو صحتمند دعا کا رد ہونا بہت ہی شاذونادر ہوتا ہے۔ دیکھیں ہمیں اپنے اعمال کا جواب خود دینا ہے۔ اگر رب جگہ جگہ، ہماری زندگی میں intervene کرے، تو ان اعمال کا ہم سے وہ کیا حساب لے گا؟ تو دینا نہ دینا اسی کے اختیار میں ہے۔۔۔۔یہ یقین ناصرف اس کے مطلق العنان ہونے کا اعتراف ہے بلکہ ہمارے ایمان کی مضبوطی کی نشانی بھی ہے۔ لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ بیٹھا ہماری کوششوں اور دعاؤں پر پانی پھیرتا رہتا ہے۔ وہ داتا ہے، جو مانگیں (اوپر والی وجوہات میں سے نہ ہو) گے، مل جائے گا۔ تو مانگنا آنا چاہیے، مل سب جاتا ہے۔ اور قدرت کی توسب سے بڑی خوبصورتی بھی یہی ہے۔ یہاں آدمی جو جستجو کرتا ہے، اسے وہ مل ہی جاتا ہے۔
تو بات یہ ہے کہ بندہ صبر سے، حدود میں رہتے ہوئے، محنت کرتا جائے تو انشاءاللہ رب دینے والا ہے، دے ہی دے گا۔ بس ہم ہی تھک جاتے ہیں، راستے سے بھٹک جاتے ہیں، ورنہ اس کے ناموں میں سے ایک نام’داتا‘ ہے۔۔۔۔۔کوئی نام ایسا نہیں جس کا مطلب ’نہ دینے والا‘ کے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحتمند دعا ئیں کرنے کی ہمت دے اور ہماری سب مشکلات کو ہمارے لیے آسان کرے (آمین)"۔
 
آخری تدوین:
Top