فارسی شاعری در شناختِ موجودیِ حضرتِ اقدس - یہودی فارسی شاعر مولانا عمرانی

حسان خان

لائبریرین
یہودی فارسی شاعری «عِمرانی» نے ۱۵۰۸ء میں «واجبات و ارکانِ سیزده‌گانهٔ ایمانِ اسرائیل» کے نام سے ایک مثنوی منظوم کی تھی، جس میں اُنہوں نے دینِ یہودیت کے تیرہ اُصول بیان کیے تھے۔ مثنوی کے بابِ اوّل میں وہ لِکھتے ہیں:

(بابِ اوّل در شناختِ موجودیِ حضرتِ اقدس)
واجب است این که قومِ ایسرائل
می‌بدانند خوش به صدقِ دل
که خداوندِ قادرِ دوران
هست موجود و قایم و یزدان
حیِّ بی‌چون و بی‌چرا است او
نه چو ما آلتِ فنا است او
صانِعِ آب و آتش و باد است
خَلقِ عالَم ز رحمتش شاد است
عالَم و آدم و زمین و زمان
چرخِ افلاک و گُنبدِ گردا‌ن
مِهر و ماهِ سِپِهر و اختر و نور
کَوکب و بُرج و قصر و جنّت و حور
این همه بود در ازل نابود
شد به موجودی‌اش همه موجود
غیرِ او نیست کِردگارِ جهان
هست از امرِ او زمین و زمان
قادرِ جُمله بُود و نابُود است
قُدرتِ اوست هرچه موجود است
نیست جُز او مُسبِّبُ‌الاسباب
دست‌گیر و رحیم در هر باب
گر همه کائنات گردد نیست
هیچ نُقصان به ذاتِ پاکش نیست
او بِمیراند او کند زنده
اوست قایم و حیّ و پاینده

(مولانا عمرانی)

(خُدائے اقدس کے وُجود کی معرِفت کے بارے میں)
واجب ہے کہ قومِ اسرائیل (قومِ یہود) بہ خوبی و بہ صِدقِ دل جانے کہ خداوندِ قادرِ دَوراں موجود و قائم و یزداں ہے۔۔۔ وہ حیِّ بے چُون و چرا ہے۔۔۔ وہ ہماری طرح آلۂ فنا نہیں ہے (یعنی اُس کو فنا نہیں ہے)۔۔۔ وہ آب و آتش و باد کا آفرینِش گر ہے۔۔۔ خَلقِ عالَم اُس کی رحمت سے شاد ہے۔۔۔ عالَم، آدم، زمین، زمان، چَرخِ افلاک، گُھومنے والا گُنبد، آسمان کا خورشید و ماہ، ستارہ، نُور، کَوکب، بُرج، قصْر، جنّت، حُور، یہ تمام چیزیں ازل میں نابُود تھیں۔۔۔ یہ چیزیں خُدا کی موجودگی سے وُجود میں آئیں۔۔۔ اُس کے بجز کِردگارِ جہاں نہیں ہے۔۔۔ زمین و زماں اُس کے فرمان سے ہے۔۔۔ وہ جُملہ بُود و نابُود کا قادِر ہے۔۔۔ جو بھی چیز موجود ہے، وہ اُس کی قُدرت ہے (یعنی اُس کے دستِ قُدرت سے ہے)۔۔۔ اُس کے بجز مُسبِّبُ الاسباب نہیں ہے۔۔۔ وہ [ہی] ہر امْر و مسئلہ میں دست گیر و رحیم ہے۔۔۔ خواہ کُل کائنات نیست و معدوم ہو جائے، اُس کی ذاتِ پاک میں کوئی نَقص و عَیب نہیں [آئے گا]۔۔۔ وہ مارتا ہے اور وہ زندہ کرتا ہے۔۔۔ وہ قائم و زندہ و پایندہ ہے۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
مولانا عمرانی کی مثنویوں کے تصحیح کُنندہ آمنون نتضر کا کہنا ہے کہ اِس مصرعے میں 'صدق' کے دال کو تشدید کے ساتھ خوانا جائے گا۔
کیا اس کی کوئی خاص وجہ ہے خان صاحب؟ کیونکہ وزن کے لیے صدق بغیر دال کی تشدید کے بھی درست ہے اور تشدید کے ساتھ بھی وزن درست ہی رہتا ہے کہ اس بحر میں یہ اوزان اکھٹے ہو جاتے ہیں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
کیا اس کی کوئی خاص وجہ ہے خان صاحب؟ کیونکہ وزن کے لیے صدق بغیر دال کی تشدید کے بھی درست ہے اور تشدید کے ساتھ بھی وزن درست ہی رہتا ہے کہ اس بحر میں یہ اوزان اکھٹے ہو جاتے ہیں۔
«عِمرانی» نے اپنی مثنویاں عِبرانی رسم الخط میں لِکھی تھیں - فارسی گو یہود قبلِ جدید دور میں عبرانی رسم الخط استعمال کرتے تھے، کیونکہ وہ نظم و نثر بُنیادی طور پر یہودی قارئین و سامعین ہی کے لیے لکھتے تھے - جن کو آمنون نتضر نے تصحیح کر کے فارسی رسم الخط میں مُنتقِل کیا تھا۔ مُصحِّح نے «بصدق» کے لیے حاشیے میں لکھا ہے: "به تشدیدِ سوم باید خواند"۔ میں سمجھا کہ شاید اُنہوں نے اصل عِبرانی رسم الخطی متن میں حَروف کے اعراب کی بِنا پر ایسا کہا ہو گا۔ چونکہ میں علمِ عَروض سے آگاہ نہیں ہوں، اور چونکہ «۔۔۔به صدقِ دل» میں کسرۂ اضافت کا تلفُّظ ذرا کشیدہ ہو رہا ہے، اِس لیے مجھے گُمان ہوا کہ شاید قواعدِ عَروض کے رُو سے یہ صحیح نہ ہو۔ اگرچہ 'صِدّق' دُرُست تلفُّظ قطعاً نہیں ہے، لیکن چونکہ یہودی فارسی شاعروں کی شاعریوں میں زبانی و شعری عُیوب کا ہونا کوئی نادر چیز نہیں ہے، اِسی لیے میں نے سوچا کہ ہو سکتا ہے یہاں پر بھی شاعر نے لفظ کو وزن کی مجبوری کے تحت غلط ہی باندھا ہو۔
تاہم، چونکہ آپ نے فرما دیا ہے کہ دال پر تشدید کے بغیر بھی مصرعے کا وزن دُرُست رہے گا، تو پھر اِسی کو ترجیح دینی چاہیے، کہ یہاں 'صدق' کا دُرُست تلفُّظ دال پر جزْم کے ساتھ 'صِدْق' ہی ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
علماء و شیوخ ِ یہود کے لیے بھی مولانا کا لقب مستعمل رہا ہے فارسی میں ؟
جی، یہودیوں نے اپنے عُلَماء کے لیے 'مولانا' کا لقب استعمال کیا ہے۔ ایران و ماوراءالنہر میں فارسی گو یہود صدیوں سے ایک کثیر مُسلمان اکثریت کے درمیان ایک بِسیار قلیل دینی اقلیت کے طور پر رہتے آئے ہیں، اِس لیے مُسلمان مُعاشرے اور اُن کی زبان و افکار و ادبیات کا یہودیوں پر اثر پڑنا بدیہی تھا۔ مثلاً اِنہی 'مولانا عِمرانی' نے اپنی ایک دیگر مثنوی میں بتایا ہے کہ اُن کے پِسر کا نام 'جلال‌الدین' تھا، جو ایک مسلمان نام ہے۔ مندرجۂ بالا حمد میں بھی اگر مصرعِ اوّل میں 'ایسرائل' کے لفظ سے قطعِ نظر کر لیا جائے، تو زبان و ذخیرۂ الفاظ و مفاہیم کے لحاظ سے کسی مُسلِم فارسی شاعر کی شاعری ہی معلوم ہوتی ہے۔ (ویسے بھی توحید سے متعلق عقائد یہودیت و اسلام میں یکساں ہیں۔)
یہودیان اپنے عالِمانِ دین و شریعت کو عِبرانی میں احتراماً 'ربّی' پُکارتے ہیں، جس کا معنی 'میرے مَولا و آقا' ہی ہے۔
 
آخری تدوین:
Top