فارسی شاعری در حلقۂ فقیراں، قیصر چہ کار دارد؟ - شیخ فخرالدین عراقی کی ایک غزل

محمد وارث

لائبریرین
در حلقۂ فقیراں، قیصر چہ کار دارد؟
در دستِ بحر نوشاں، ساغر چہ کار دارد؟

فقیروں کی مجلس میں قیصر (و کسریٰ، بادشاہوں) کا کیا کام، دریا نوشوں کے ہاتھ میں ساغر کا کیا کام۔

در راہِ عشق بازاں، زیں حرف ہا چہ خیزد؟
در مجلسِ خموشاں، منبر چہ کار دارد؟

عشاق کی راہ میں، یہ الفاظ سے کیا اٹھتے ہیں ( ان کو عقل و دانش و وعظ و پند سے کیا واسطہ) کہ خاموشوں کی مجلس میں منبر کا کیا کام۔

جائے کہ عاشقاں را درسِ حیات باشد
ایبک چہ وزن آرد؟ سنجر چہ کار دارد؟

اس جگہ جہاں عاشقوں کو درس حیات ملتا ہے، ایبک کا کیا وزن اور سنجر (یعنی بادشاہوں) کا کیا کام۔

جائے کہ ایں عزیزاں جامِ شراب نوشند
آبِ زلال چبود؟ کوثر چہ کار دارد؟

اور یہ عزیز (عشاق) جہاں جامِ شراب پیتے ہیں وہاں آب حیات کیا اور (آبِ) کوثر کیا۔

در راہِ پاکپازاں، ایں حرف ہا چہ خیزد؟
بر فرقِ سرفرازاں، افسر چہ کار دارد؟

پاکبازوں کی راہ میں یہ الفاظ سے کیا اٹھتے ہیں (انکی بے سر و سامانی پر) کہ کامیاب لوگوں کے سر پر تاج کا کیا کام ہے۔

دائم تو اے عراقی، می گوئی ایں حکایت
با بوئے مشکِ معنی، عنبر چہ کار دارد؟

اے عراقی تو ہمیشہ ہی ایسی حکایتیں کہتا رہ، کہ تیرے کلام کے معنی میں جو خوشبو ہے اسکے آگے عنبر کی خوشبو کیا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ نظامی صاحب توجہ دلانے کیلیے۔

میں نے جس ایرانی سائٹ سے یہ غزل لی وہاں دایم تھا، خیال نہیں رہا کہ دیگر الفاظ کی طرح اسکی املا بھی برصغیر کی املا کے مطابق کر دیتا، بہرحال اب کر رہا ہوں۔ نوازش۔
 

محمد وارث

لائبریرین
منظوم پنجابی ترجمہ از جناب محمد یعقوب آسی صاحب

در حلقۂ فقیراں، قیصر چہ کار دارد
در دستِ بحر نوشاں، ساغر چہ کار دارد

حال مست فقیراں دی ایس پرہیا وچہ قیصراں دا بھلا کم کیہ اے
اک ڈِیک دی مار دریا جتھے، اوتھے ٹھوٹھیاں دا بھلا کم کیہ اے


در راہِ عشق بازاں، زیں حرف ہا چہ خیزد
در مجلسِ خموشاں، منبر چہ کار دارد

عشق والیاں تئیں کیہ دسدا ایں، دس کیہ سمجھاویں گا جھلیاں نوں
دَڑ وٹ کے بیٹھ جا اوئے میاں، ایتھے واعظاں دا بھلا کم کیہ اے


جائے کہ عاشقاں را درسِ حیات باشد
ایبک چہ وزن آرد، سنجر چہ کار دارد

جتھے پیار دی کتھا بیان ہوندی، جتھے جِین دا سبق پڑھان ہوندا
اوتھے کیہ اوقات ہے ایبکاں دی، اوتھے سنجراں دا بھلا کم کیہ اے


جائے کہ ایں عزیزاں جامِ شراب نوشند
آبِ زلال چبود، کوثر چہ کار دارد

جتھے جام ہے پریم دا دَور اندر، جتھے سانجھ کمال دی بنی ہوئی اے
اوتھے آبِ حیات نوں کون جانے، اوتھے کوثراں دا بھلا کم کیہ اے


در راہِ پاکبازاں، این حرف ہا چہ خیزد
بر فرقِ سرفرازاں، افسر چہ کار دارد

پاکبازاں دی نگہ وچہ گل تیری کسے کم دی نہیں کسے کار دی نہیں
جتھے ذات دا مان ودھان ہووے، اوتھے پگڑیاں دا بھلا کم کیہ اے


دائم تو اے عراقی می گوئی ایں حکایت
با بوئے مشکِ معنی، عنبر چہ کار دارد

جیوندا رہ عراقیا، بولدا رہ! گلاں تیریاں پھل گلزار، جیویں
تیریاں سوچاں دی مہک دے لگ بیبا، عطراں عنبراں دا بھلا کم کیہ اے
 
واہ کیا بات ہے اس کلام کی اور ترجمے کی بھی۔۔۔زبردست:)
ایک لفظ ‘سنجر‘ کے بارے میں پوچھنا تھا۔ یاد نہیں لیکن کہیں پڑھا تھا کہ اصل لفظ سنجر نہیں بلکہ سنجز یا کچھ اور ہے۔ واللہ اعلم۔ اگر آپ کو اسکا کوئی پس منظر معلوم ہو تو پلیز ضرور شئیر کریں:)
 

محمد وارث

لائبریرین
آپ نے یقیناً علامہ کے کلام میں ان کا نام دیکھا ہوگا

عجب نہیں کہ مسلماں کو پھر عطا کر دیں
شکوہِ سنجر و فقرِ جنید و بسطامی

علامہ نے ان کا ذکر اور بھی کئی اشعار میں کیا ہے، بارہویں صدی عیسوی (چھٹی صدی ہجری) کے پرشکوہ سلجوقی حکمران معزالدین سلطان احمد سنجر کا ذکر ہے۔ 
 
علّامہ کی مشہور نعت میں ہے
شوکتِ سنجر و سلیم تیرے جلال کی نمود
فقرِ جنید و بایزید، تیرا جمالِ بے نقاب۔ ۔۔ ۔ ۔​
اسکے علاوہ ایک رباعی بھی انکی یوں ہے۔ ۔
کرم تیرا کہ بے جوہر نہیں میں
غلامِ طغرل و سنجر نہیں میں
جہاں بینی مری فطرت ہے لیکن
کسی جمشید کا ساغر نہیں میں
 
واہ کیا بات ہے اس کلام کی اور ترجمے کی بھی۔۔۔زبردست:)
ایک لفظ ‘سنجر‘ کے بارے میں پوچھنا تھا۔ یاد نہیں لیکن کہیں پڑھا تھا کہ اصل لفظ سنجر نہیں بلکہ سنجز یا کچھ اور ہے۔ واللہ اعلم۔ اگر آپ کو اسکا کوئی پس منظر معلوم ہو تو پلیز ضرور شئیر کریں:)
علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ بال جبریل میں لکھتے ہیں
شوکت سنجر و سلیم تیرے جلال کی نمود
فقر جنید و بایزید تیرا جمال ہے نقاب
اب چونکہ آپ نے صرف سنجر کے بارے میں معلومات کی استدعا کی ہے اسی لیئے سنجر کے بارے میں میں معلومات فراہم کرتے ہیں
محمود غزنوی صاحب واضح ہو کہ خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بنیادی طور پر سجنرستان کے باسی تھے وہ آپ نے مشہور واقعہ سنا ہوگا کہ انگور کے باغ میں ابراہیم قندوزی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور آپ کی ملاقات ہوئی جنہوں نے آپ کی دل کی دنیا ہی بدل ڈالی۔

سنجر ممتاز سلجوقی فرمانروا ملک شاہ کا بیٹا اور الپ ارسلان کا پوتا تھا اس کا نام ناصرالدین تھا۔ معزالدین کے نام سے بھی مشہور ہوا۔ سنہ 1086 میں سنجار میں پیدا اس لئے سنجر کہلاتا تھا۔ اس کی حکومت خراسان، غزنہ، خوارزم اور ماوراء النہر تک پھیلی ہوئی تھی۔ مشرق میں حدود جرجان سے ماوراء النھر تک اس کے نام کا خطبہ پڑھا جاتا تھا۔ سنجر سلطان اعظم کے لقب سے مشہور تھا۔ سنہ 1106 میں اپنے چچا ارسلان ارغون کے قتل کے بعد بھائی برکیاروق کا نائب اور خراسان کا والی مقرر ہوا۔ سنہ 1118 میں مستقل فرمانروا ہوا۔
 
Top