حفیظ جالندھری دریا

میں اور دریا دونوں راہی ، راستہ دور ِ زمانہ ہے
جاں کے سفر میں اپنے اپنے سمندر تک ہمیں جانا ہے
جو گزرے سو سہنا ہے ، جو آن پڑے سو نبھانا ہے

اس دریا کی جڑیں کہیں پیچھے کوہِ کہن کی برف میں ہیں
اپنی جڑوں سے کٹا ہوا دریا دشت ہے یا ویرانہ ہے

سبزہ ، بادل ، پھول ، پرندے
سینے کے آئینے جن کے
رنگ اور روپ سے بھر جاتے ہیں
سارے گزرنے والے منظر
چھب دکھلا کے گزر جاتے ہیں
یہ ہونی دریا سہتا پے
لہر لبوں سے وہ کہتا ہے
اتنی مجھے توفیق نہیں پیچھے مُڑ کر دیکھ سکوں

دریا کے برعکس مرا دل
آتے جاتے ہوئے بھی اکثر
ماضی میں کھویا رہتا ہے
گھر، دیواریں اور دروازے
گزرے منظر یاد آئیں تو
رگوں میں بہنے والا دریا
آنکھوں کے رستے بہتا ہے

پیچھے ، بہت ہی پیچھے کہیں اک جھلمل جھلمل چہرہ تھا
برف سے بال تھے اس کے سر پر ، برف سا اُس کا دوپٹّہ تھا
اور بدن پر پیراہن بھی برف کی مانند اُجلا تھا
صبح سویرے جب کبھی میری آنکھ کھلی تو دیکھا تھا
مجھ پہ جھکا تھا وہ مشفق چہرہ اور آنکھوں میں نم سا تھا
(میرے سرہانے اس کا اجالا' سر پر اس کا سایہ تھا)
وہ مشفق چہرہ کچھ پڑھ کر مجھ پر پھونکتا جاتا تھا
اور افلاک سے خاک تلک اک نکہت و نور کا دریا تھا
 
Top