دریا بنا دیا کبھی صحرا بنا دیا

یاسر علی

محفلین
الف عین
محمّد احسن سمیع :راحل:


دریا بنا دیا کبھی صحرا بنادیا
تم نے ہماری ذات کو کیا کیا بنا دیا

سارے جہاں کا حسنِ سراپا سمیٹ کر
رب نے فقط وجود تمھارا بنا دیا

پوچھا کسی نے میری اداسی کا جب سبب
کاغذ پہ میں نے آپ کا چہرہ بنا دیا

مفلس امیرِ شہر میں فاقے سے مر گئے
دولت نے شہر والوں کو اندھا بنا دیا

چہرے سے لگ نہیں رہا پر نوجوان ہوں
فکرِ معاش نے مجھے بوڑھا بنا دیا

خوشیاں تو زندگی میں سدا غیر ہی رہیں
لیکن خدا نے درد کو میرا بنا دیا

پہلے نہیں تھا ایسا، کہ جیسا تو آج ہے
کس نے ترے مزاج کو ایسا بنا دیا
 

الف عین

لائبریرین
باقی تو درست ہیں لیکن
چہرے سے لگ نہیں رہا پر نوجوان ہوں
فکرِ معاش نے مجھے بوڑھا بنا دیا
.. پہلا مصرع بدلو، روانی اچھی نہیں

خوشیاں تو زندگی میں سدا غیر ہی رہیں
لیکن خدا نے درد کو میرا بنا دیا
.. میرا کی جگہ 'اپنا' کہو، غیر کے مقابلے میں یہ بہتر رہے گا
 

یاسر علی

محفلین
باقی تو درست ہیں لیکن
چہرے سے لگ نہیں رہا پر نوجوان ہوں
فکرِ معاش نے مجھے بوڑھا بنا دیا
.. پہلا مصرع بدلو، روانی اچھی نہیں

خوشیاں تو زندگی میں سدا غیر ہی رہیں
لیکن خدا نے درد کو میرا بنا دیا
.. میرا کی جگہ 'اپنا' کہو، غیر کے مقابلے میں یہ بہتر رہے گا
شکریہ سر!
دوبارہ دیکھیں۔
الف عین

لگتا نہیں ہوں چہرے سے، پر نوجوان ہوں
فکرِ معاش نے مجھے بوڑھا بنا دیا
 

یاسر علی

محفلین
اس کا کیا مطلب ہے۔
مفلس امیرِ شہر میں فاقے سے مر گئے
شہر میں تو فاقے سے مر سکتے ہیں۔
امیرِ شہر میں کیسے؟

امیر شہر میں تمام امیر تھوڑی رہتے ہیں۔۔
وہاں کچھ نہ کچھ غریب بھی ہوتے ہیں۔۔
تعداد میں کم سہی لیکن ہوتے ہیں۔۔

اسی طرح غریب شہر میں تمام غریب تھوڑی ہوتے ہیں۔۔
تعداد میں کم سہی لیکن امیر ہوتے ہیں۔۔
 
امیر شہر میں تمام امیر تھوڑی رہتے ہیں۔۔
وہاں کچھ نہ کچھ غریب بھی ہوتے ہیں۔۔
تعداد میں کم سہی لیکن ہوتے ہیں۔۔

اسی طرح غریب شہر میں تمام غریب تھوڑی ہوتے ہیں۔۔
تعداد میں کم سہی لیکن امیر ہوتے ہیں۔۔
اضافت کی وجہ سے ابہام ہوا۔ یہاں اضافت نہیں آئے گی۔
امیر کے نیچے زیر نہیں لکھا جائے گا
 

الف عین

لائبریرین
نوجوان والا شعر درست ہو گیا ہے
الیرِ شہر پر میں نے بھی غور نہیں کیا تھا۔ امیر لفظ ہی بدل دو، کہ کنفیوژن نہ ہو کسی کو۔ جیسے
کتنے غریب...
 
Top