محسن وقار علی
محفلین
درونِ خواب نیا اک جہاں ، نِکلتا ہے
زمیں کی تہہ سے کوئی آسماں ، نِکلتا ہے
بھلا نظر بھی وہ آئے تو کس طرح آئے
مرا ستارہ پسِ کہکشاں ، نِکلتا ہے
ہوائے شوق یہ منزل سے جا کے کہہ دینا
ذرا سی دیر ہے بس کارواں ، نِکلتا ہے
مری زمين پہ سورج بوقتِ صبح و مسا
نکل تو آتا ہے ليکن کہاں ، نِکلتا ہے
مقامِ وصل اک ایسا مقام ہے کہ جہاں
یقین کرتے ہیں جس پر گماں ، نِکلتا ہے
یہ جس وجود پہ تم ناز کر رہے ہو بہت
یہی وجود بہت رائگاں ، نِکلتا ہے
بدن کو چھوڑ ہی جانا ہے روح نے آزر
ہر اک چراغ سے آخر دھواں ، نِکلتا ہے
دلاور علی آزر
زمیں کی تہہ سے کوئی آسماں ، نِکلتا ہے
بھلا نظر بھی وہ آئے تو کس طرح آئے
مرا ستارہ پسِ کہکشاں ، نِکلتا ہے
ہوائے شوق یہ منزل سے جا کے کہہ دینا
ذرا سی دیر ہے بس کارواں ، نِکلتا ہے
مری زمين پہ سورج بوقتِ صبح و مسا
نکل تو آتا ہے ليکن کہاں ، نِکلتا ہے
مقامِ وصل اک ایسا مقام ہے کہ جہاں
یقین کرتے ہیں جس پر گماں ، نِکلتا ہے
یہ جس وجود پہ تم ناز کر رہے ہو بہت
یہی وجود بہت رائگاں ، نِکلتا ہے
بدن کو چھوڑ ہی جانا ہے روح نے آزر
ہر اک چراغ سے آخر دھواں ، نِکلتا ہے
دلاور علی آزر