درود بر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم - 46

رومی

لائبریرین
اللھم صل علی محمد وعلیٰ آل محمد کما صلیت علیٰ ابراھیم وعلیٰ آل ابراھیم انک حمید مجید۔
اللھم بارک علی محمد وعلیٰ آل محمد کما بارکت علیٰ ابراھیم وعلیٰ آل ابراھیم انک حمید مجید۔
 

رومی

لائبریرین
اللھم صل علی محمد وعلیٰ آل محمد کما صلیت علیٰ ابراھیم وعلیٰ آل ابراھیم انک حمید مجید۔
اللھم بارک علی محمد وعلیٰ آل محمد کما بارکت علیٰ ابراھیم وعلیٰ آل ابراھیم انک حمید مجید۔
 
اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی ابراہیم وعلی آل ابراہیم انک حمید مجید۔
اللھم بارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی ابراہیم وعلی آل ابراہیم انک حمید مجید۔
 
اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی ابراہیم وعلی آل ابراہیم انک حمید مجید۔
اللھم بارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی ابراہیم وعلی آل ابراہیم انک حمید مجید۔
 
اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی ابراہیم وعلی آل ابراہیم انک حمید مجید۔
اللھم بارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی ابراہیم وعلی آل ابراہیم انک حمید مجید۔
 
اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی ابراہیم وعلی آل ابراہیم انک حمید مجید۔
اللھم بارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی ابراہیم وعلی آل ابراہیم انک حمید مجید۔
 
اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی ابراہیم وعلی آل ابراہیم انک حمید مجید۔
اللھم بارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی ابراہیم وعلی آل ابراہیم انک حمید مجید۔
 

سیما علی

لائبریرین
محبت ِ رسولﷺ کا معیار اور کسوٹی


علامہ راغب اصفہانی لکھتے ہیں: ”محبت کا معنی ہے: کسی شخص کا اس چیز کی خواہش اور رغبت رکھنا، جسے وہ اپنے لیے بہتر سمجھتا ہو اور اس کی تین قسمیں ہیں: حصولِ لذت کے لیے محبت کرنا جیسا کہ مرد عورت کی باہم محبت، حصول ِنفع کی غرض سے مثلاً کسی نفع بخش چیزسے محبت کرنا، فضل وکمال کی وجہ سے محبت کرنا جیسا کہ اہل علم کا ایک دوسرے سے علم کی وجہ سے محبت کرنا اور اللہ تعالیٰ کی اپنے بندے سے محبت اس پر انعام فرمانا ہے اور بندے کی اللہ سے محبت اس کی بارگاہ کا قرب حاصل کرنا ہے، (مفردات:ص:215)‘‘۔
رسول اللہﷺ تمام مومنین کے محبوب ہیں اور مومن مرد اور مومن عورتیں آپؐ سے دل وجان سے محبت کرتے ہیں، آپﷺ کی ذات اَقدس ایک مومن کے لیے مال و دولت، جاہ ومنصب، اولاد، والدین یہاں تک کہ جان سے بھی زیادہ محبوب ہے، اگر اس میں کچھ کمی ہو تو ایمان نامکمل ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ”آپ کہیے: اگر تمہارے باپ دادا اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے رشتہ دار اور تمہارے کمائے ہوئے مال اور تمہاری تجارت جس کے گھاٹے میں جانے کا تمہیں خدشہ لگا رہتا ہے اور تمہارے پسندیدہ مکانات (الغرض یہ سب چیزیں) تمہیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں تو تم انتظار کرو حتیٰ کہ اللہ اپنا حکم لے آئے اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا، (التوبۃ:24)‘‘۔
اس آیت میں وہ تمام متعلقات بیان کر دیے گئے ہیں، جن کے ساتھ انسان کی محبت کا رشتہ قائم ہوتا ہے اور اسلام نے ان سب کی محبت سے منع نہیں فرمایا، ایسا کرنا فطرت کے خلاف ہوتا، کیونکہ ان چیزوں کی محبت انسان کی فطرت میں پیوست ہے۔لیکن معیار یہ بتایا کہ مومن کا محبوب کوئی بھی ہو سکتا ہے، مگر محبوب ترین صرف تین چیزیں ہونی چاہئیں، ایک اللہ تعالیٰ کی ذاتِ مقدّسہ، دوسری ذاتِ رسالت مآبﷺ اور تیسری اللہ کی راہ میں جہاد اور اگر کوئی اس معیارِ محبت پر پورا نہیں اترتا تو دعویٰ ٔ ایمان تو بہت دور کی بات ہے‘ اسے عذابِ الٰہی کا انتظار کرنا چاہیے۔
حدیثِ پاک میں ہے : نبی کریمﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا، جب تک میں اس کے نزدیک اس کے والدین، اس کی اولاد حتّٰی کہ تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جائوں، (بخاری: 15)‘‘۔ مُحدّثینِ کرام نے اس حدیث کی شرح میں فرمایا: ”جس کے دل میں نفسِ محبتِ رسول نہیں ہے، اُس کے دل میں نفسِ ایمان نہیں ہے اور جس کے دل میں کمالِ محبتِ رسول نہیں ہے، اُس کے دل میں کمالِ ایمان نہیں ہے، الغرض ایمان کے گراف کی بلندی اور پستی محبتِ رسول کے گراف پر موقوف ہے ‘‘۔


ایک موقع پر حضرت عمرؓ نے عرض کی : ”یارسول اللہ ! اللہ کی قسم اپنی جان کے سوا آپ مجھے ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں، رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو گا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کی جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جائوں، پھر حضرت عمرؓ نے عرض کی: یارسول اللہ ! اللہ کی قسم اب آپ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں، تورسول اللہﷺ نے فرمایا :اے عمر! اب ایمان کا تقاضا پورا ہوا، (مسند احمد:18047)‘‘۔ جس مومن کے دل میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت نقش ہو جائے، اللہ تعالیٰ اس کو ایمان کی حلاوت عطا فرماتا ہے اور وہ ایمان کی لذت کو پا لیتا ہے، حدیثِ پاک میں ہے: نبی اکرمﷺ نے فرمایا:جس شخص میں تین خصلتیں ہوں وہ ایمان کا مزہ پالے گا: اللہ اور اس کا رسول اس کو سب سے زیادہ محبوب ہوں، کسی سے محبت کرے، تو محض اللہ کی رضا کے لیے کرے، کفر سے نجات پانے کے بعد دوبارہ کفر میں لوٹنا اس کو آگ میں ڈالے جانے سے زیادہ ناپسند ہو، (مسلم:43)‘‘۔
رسول اللہﷺ سے محبت کرنا کامل ایمان کی علامت ہے، تاریخ کے ہر دور میں آپ سے محبت کرنے والوں نے جریدہ عالم پر اپنی حقیقی محبت کے اَنمٹ نقوش ثبت کیے ہیں اوران کی محبت کی تابانیاں آج تک محبین کے لیے مَشعَلِ راہ کا کام دیتی ہیں، ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
ہر گز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است بر جریدۂ عالَم دوامِ ما

ترجمہ:”جس کا دل حرارتِ عشق سے زندہ ہو جائے، وہ کبھی مرتا نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ کتابِ کائنات پر ہماری تاریخ کے نقوش ثبت ہیں‘‘۔ رسول اللہﷺ سے براہ راست تربیت پانے والے صحابہ کرام کو آپؐ سے مثالی محبت تھی، آپﷺ کا ہر صحابی آپ پر دل وجان سے فدا تھا، مگر چند صحابہ کرام نے محبت کی وہ لازوال تاریخ رقم کی ہے کہ سن کر انسان انگشت بدنداں رہ جاتا ہے، رسول کریمﷺ کے معیار محبت پر پورا اترنے والے ان غلاموں میں سے ایک حضرت زیدؓ بن دَثِنہ تھے، جب کفار نے رسول اللہﷺ سے اُن کی محبت کو جانچا، تو آپﷺ کے سخت ترین مخالفین بھی یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہو گئے کہ رسول اللہﷺ کے غلام آپؐ سے بے حد محبت کرتے ہیں ۔
روایت میں ہے :جب اہل مکہ حضرت زیدؓ بن دَثنہ کو قتل کرنے کے لیے حرم سے باہر لے جانے لگے تو ابوسفیان نے کہا: اے زید !میں تم کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں، بتائو کہ کیا تم یہ بات پسند کرتے ہو کہ اس وقت ہمارے پاس تمہاری جگہ محمدﷺ ہوتے؟ حضرت زیدؓ نے کہا: خدا کی قسم، مجھے تو یہ بھی گوارا نہیں ہے کہ میں اپنے گھر میں عافیت سے رہوں اور رسول اللہﷺ کے پیر میں کانٹا چبھ جائے، ابوسفیان نے کہا: میں نے جتنا اَصحابِ محمدﷺ کو اُن سے محبت کرتے ہوئے دیکھا ہے، اتنا کسی اور کو نہیں دیکھا، (الشفاء، ج:2ص:17)‘‘۔
ان وفا شِعار غلاموں میں سے ایک حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ بھی تھے، جنہوں نے غزوئہ احد کی افراتفری کے عالم میں رسول اللہﷺ کا دفاع کیا، حضورﷺ کی طرف آنے والے تیروں کو اپنے ہاتھوں اور جسم پر روکتے رہے اور کوئی تیر رسول اللہﷺ تک پہنچنے نہ دیا، حدیث ِ پاک میں ہے : جب مشرکین نے نبی اکرمﷺ پر تیر برسانے شروع کیے، تو حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھ آگے کر دیے، حضرت ابوبکرؓ بیان کرتے ہیں: ہم غزوئہ احد کے دن حضرت طلحہ کے پاس آئے تو ہم نے ان کے جسم پر ستر سے زیادہ زخم پائے اور ان کی انگلیاں کٹ چکی تھیں، (عمدۃ القاری: ج:14 ص:313 تا 314)‘‘۔
انسؓ بن مالک بیان کرتے ہیں :غزوہ ٔاحد کے دن رسول اللہﷺ سات انصار اور دو مہاجر صحابہ کرام کے ساتھ اکیلے رہ گئے تھے، جب اسلام دشمنوں نے آپؐ کو گھیر لیا تو آپﷺ نے فرمایا: جو شخص ان کو ہم سے دور کرے گا، وہ جنت میں میرا رفیق ہو گا، پس انصار میں سے ایک مرد آگے بڑھا، اور دشمنوں سے لڑتے لڑتے شہید ہو گیا، دشمنوں نے آپﷺ کو دوبارہ گھیر لیا، پس آپ نے فرمایا : جو شخص ان کو ہم سے دور کرے گا، وہ جنت میں میرا رفیق ہو گا، پھر انصار میں سے ایک شخص آگے بڑھا اور وہ بھی دشمنوں سے لڑتے لڑتے شہید ہو گیا، یہ سلسلہ جاری رہا، حتیٰ کہ ساتوں انصاری صحابہ شہید ہو گئے۔ (مسلم: 1789)‘‘۔
حدیثِ پاک میں ہے: جب احد کے دن مشرکین سے دوبدو جنگ شروع ہوئی اور دشمنان ِاسلام نے رسول اللہﷺکو گھیر لیا تو حضرت مصعبؓ بن عمیر رسول اللہﷺ کے دفاع میں لڑتے ہوئے شہید ہو گئے، حضرت ابودُجانہؓ آپ کی مدافعت میں لڑے حتیٰ کہ شدید زخمی ہو گئے اور رسول اللہﷺ کا چہرہ مبارک زخمی ہوا، آپؐ کے دانت مبارک کا کچھ حصہ ٹوٹ گیا، نچلا ہونٹ زخمی ہو گیا اور آپ کا رخسار مبارک خون آلود ہو گیا، اس دن رسول اللہﷺ نے دو زرہیں پہنی ہوئی تھیں، پس رسول اللہﷺ نے فرمایا : ہمارے لیے کون اپنی جان کا سودا کرے گا، تب انصار کے پانچ جوان آپ کی طرف بڑھے، ان میں حضرت زیادؓ بن السَّکن بھی تھے، وہ سب رسول نبی کریمﷺ کی مدافعت میں لڑتے لڑتے شہید ہو گئے، آخر میں حضرت زیادؓ بن السَّکن لڑتے رہے، پھر دوسرے مسلمان بھی آپ کی طرف دوڑ کر آئے، حتیٰ کہ انہوں نے دشمن کو بھگا دیا، تب رسول اللہﷺ نے فرمایا : زیاد بن السَّکن کو میرے پاس لائو، وہ اس وقت بہت شدید زخمی ہو چکے تھے، رسول اللہﷺ نے اپنا قدم مبارک ان کے سر کے نیچے رکھا حتیٰ کہ اسی حالت میں انہوں نے جاں‘ جانِ آفریں کے سپرد کر دی، (الاستیعاب:ج:2:ص: 106)‘‘۔
حضرت زیاد بن السَّکن اس حال میں فوت ہوئے کہ ان کا سر آپ کے قدم مبارک پر تھا، ایک محبت کرنے والے کے لیے اس سے بڑا اعزاز اور کیا ہو سکتا ہے کہ دنیا سے رخصت ہوتے وقت اس کا سر محبوب کے قدموں میں ہو، شاعرنے کیا خوب کہا ہے:
بہ چہ ناز رفتہ باشد، زِ جہاں نیاز مندے
کہ بہ وقتِ جان سپردن بَسرش رسیدہ باشی
”آپ کا نیازمنداس شان سے دنیا سے رخصت ہوا کہ جان دیتے وقت اس کا سر آپ کے قدم ِمبارک پر پہنچ گیا‘‘۔

حضرت علیؓ سے پوچھا گیا: رسول اللہﷺکے ساتھ آپ کس طرح محبت کرتے تھے، تو انہوں نے فرمایا: اللہ کی قسم! آپﷺ ہمیں، اولاد، ہمارے ماں باپ، اموال اور سخت گرمی میں ٹھنڈے پانی سے زیادہ محبوب تھے، (شرح البخاری للسفیری:ج:1:ص:408 )‘‘۔
محبت اور وفا کا یہ جذبہ صرف مرد صحابہ تک محدود نہیں تھا، خواتین صحابیات بھی آپﷺ کے رُخِ انور پر خود کو قربان کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتی تھیں اور اُن کی آنکھوں کا نور اور دل کا سرور حضورﷺ کی سلامتی سے وابستہ تھا اور وہ دنیا کے ہر رشتے سے بڑھ کر آپ سے محبت کرتی تھیں، علامہ محمد بن یوسف صالحی لکھتے ہیں : ایک انصاری صحابیہ کو بتایا گیا کہ تمہارے والد، بھائی اور شوہر جنگ میں شہید ہو گئے ہیں، اُس نے کہا : اِن سب کا ذکر چھوڑو، یہ بتاؤ کہ رسول اللہﷺ کا کیا حال ہے، صحابہ نے کہا: اللہ کا شکر ہے، آپؐ خیریت سے ہیں، اس نے کہا: مجھے رسول اللہﷺ کے پاس لے جاؤ تاکہ میں آپﷺ کو دیکھ کر سکون حاصل کر سکوں، جب وہ آپﷺ کی زیارت سے مُشرّف ہوئیں تو فرطِ مسرت سے کہا : آپ کو سلامت دیکھنے کے بعد ہر مصیبت کو برداشت کرنا آسان ہے، اب مجھے کسی چیز کی پروا نہیں، (سُبُل الہُدیٰ والرشاد، ج:4 ص:228)‘‘۔ یعنی حضور سلامت ہیں تو ہر مصیبت آسان ہے، خواتین توعموماً نرم دل ہوتی ہیں، دور کا رشتہ دار بھی مر جائے تو صدمے سے بے حال ہو جاتی ہیں اور چیخنا چلانا اور رونا شروع کر دیتی ہیں، جبکہ اُن صحابیہ کے والد، بھائی اور شوہر شہید ہو چکے تھے، لیکن وہ آپﷺ کو سلامت دیکھ کر اپنے سب غم بھول گئیں ۔
محبت اور وفا کے راستے میں صرف محبوب پر جان قربان کرنا ہی محبت کرنے والوں کا شیوہ نہیں ہوتا، بلکہ جو اس کے محبوب سے عداوت رکھیں اور محبوب کو تکلیف پہنچانے کا باعث بنیں، اُن سے لاتعلقی بھی لازم ہے، خواہ وہ رشتے میں کتنے ہی قریب کیوں نہ ہوں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”آپ ایسی قوم نہیں پائیں گے کہ جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں (لیکن ساتھ ساتھ) اللہ اور اس کے رسول کے مخالفین سے بھی محبت رکھیں، خواہ وہ ان کے باپ، بیٹے، بھائی یا ان کے قریبی رشتہ دار ہوں، یہ وہ لوگ ہیں، جن کے دلوں پر اللہ نے ایمان ثبت فرما دیا ہے اور اپنی طرف کی روح سے ان کی مدد فرمائی، اللہ ان کو ایسے باغات میں داخل فرمائے گا، جن کے نیچے نہریں جاری ہیں، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے، یہ اللہ کی جماعت ہے، سنو! اللہ کی جماعت ہی کامیاب ہونے والی ہے‘‘۔ المجادلہ:22
صحابہ کرامؓ کی زندگیاں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت میں رشتہ داریوں کو قربان کرنے کی مثالوں سے بھری پڑی ہیں، جو بھی رسول اللہﷺ کے مقابلے میں آیا، ان مردانِ وفا شعار نے ان سے ہر رشتہ ناتا توڑ لیا، جنگ کے میدان میں رسول اللہﷺ کے مقابلے میں نکلنے والے اپنے قریبی رشتوں کو اپنے ہاتھوں سے کاٹ کے رکھ دیا، چشمِ فلک نے شاید ایسے مناظر کہیں اور نہ دیکھے ہوں، یہ وہ لوگ تھے جن کی محبت کا محور صرف رسول اللہﷺ کی ذات تھی، علامہ علی القاری لکھتے ہیں: ”جنگ بدر میں حضرت ابوعبیدہ نے اپنے باپ کو قتل کیا، حضرت مصعب بن عمیر نے اپنے بھائی کو قتل کیا، حضرت عمر نے اپنے ماموں کو قتل کیا، حضرت علی نے اپنے کئی رشتہ داروں کو قتل کیا اور حضرت ابوبکر نے اپنے بیٹے کو مقابلے کے لیے للکارا (رضی اللہ عنہم)‘‘۔ شرح الشفا ء:ج:3ص:368
کوئی محبوب کی شان میں ادنیٰ سی بے ادبی کر دے، محبت کرنے والے تڑپ اٹھتے ہیں اور جب تک اس کا ازالہ نہیں کرتے‘ آرام سے نہیں بیٹھتے، خواہ وہ بے ادبی کرنے والا کوئی بھی ہو۔ علامہ آلوسی لکھتے ہیں:غزوئہ بنی المصطلق میں رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی نے ایک گستاخانہ کلمہ کہا، جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا : ”وہ (منافقین) کہتے ہیں :اگر ہم مدینہ کی طرف لوٹ کر گئے تو ضرور وہاں سے عزت والا ذلت والے کو نکال دے گا‘‘۔ (المنافقون:8) متعدد سندوں سے روایت ہے: عبداللہ بن ابی کے بیٹے حضرت عبداللہؓ ایک مخلص صحابی تھے، اُن کو جب علم ہوا کہ ان کے والد نے یہ گستاخانہ کلمہ کہا ہے، تو انہوں نے مدینہ کے قریب پہنچ کر اپنے باپ پر تلوار سونت لی اور کہا: خدا کی قسم! میں اس تلوار کو اس وقت تک میان میں نہیں ڈالوں گا، جب تک تم یہ نہیں کہو گے کہ محمدﷺ عزت والے ہیں اور میں ذلت والا ہوں، جب تک باپ نے یہ نہ کہا، بیٹے نے اسے نہ چھوڑا ایک روایت میں ہے: انہوں نے اپنے باپ عبداللہ بن ابی کو مدینہ میں داخل ہونے سے روک دیا اور کہا: جب تک تم رسول اللہﷺسے مدینہ میں داخل ہونے کی اجازت حاصل نہیں کرو گے میں تم کو شہر میں آنے نہیں دوںگا تاکہ تم کو معلوم ہو جائے کہ عزت والا کون ہے اور ذلت والا کون، حتیٰ کہ اس نے رسول اللہﷺ سے اجازت حاصل کی تب حضرت عبداللہؓ نے اس کو مدینہ میں داخل ہونے دیا‘‘۔ تفسیر روح المعانی : جز:14:ص:210
حضرت عبداللہؓ نے رہتی دنیا تک کے لیے ایک پیغام دیا کہ رشتوں کی حرمت کی بنیاد رسول اللہﷺ کی ذات سے وابستگی ہے، جس کی وابستگی اس ذات سے نہ رہے، اس رشتے کی حرمت ختم ہو جاتی ہے، خواہ وہ باپ ہی کیوں نہ ہو اور عزتیں رسول اللہﷺ کے دَر سے ملتی ہیں، جو اُن کے در سے پھر گیا، اس کی کوئی عزت نہیں، امام احمد رضا قادری نے کہا ہے:
جو تیرے در سے یار پھرتے ہیں
دربدر یوں ہی خوار پھرتے ہیں

رسول اللہﷺ کی محبت کے لیے زمان ومکان کی قید نہیں ہے، ہر عہد میں آپﷺ کی محبت کا دم بھرنے والے موجود رہے ہیں اور ہر آنے والا لمحہ آپﷺ کی محبت کی شدت میں اضافہ کرتا ہے، حدیث ِپاک میں ہے : ”رسول اللہﷺنے فرمایا: میری امت میں مجھ سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے وہ لوگ ہوں گے جو میرے بعد آئیں گے، اُن میں سے ہر شخص یہ خواہش کرے گا کہ وہ اپنی جان ومال الغرض سب کچھ قربان کر کے میرے دیدار کی ایک جھلک دیکھ لے‘‘۔ (مسلم: 2832) بیکل اُتساہی نے کہا ہے:
جب حُسن تھا اُن کا جلوہ نما انوار کا عالم کیا ہو گا
ہر کوئی فدا ہے بن دیکھے، تو دیدار کا عالم کیا ہو گا

رسول اللہﷺ کی محبت وہ نعمت ہے، جو عمل میں کمی کے باوجود محبت کرنے والے کو آپﷺ کی معیت کا شرف عطا کرتی ہے، حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں : ”میں اور نبی کریمﷺ مسجد سے باہر جارہے تھے، مسجد کے دروازے کے پاس ایک شخص ہم سے ملا، اس نے کہا: یارسول اللہﷺ! قیامت کب واقع ہو گی، نبی اکرمﷺ نے فرمایا: یہ بتاؤ قیامت کے لیے تمہاری تیاری کیا ہے؟ وہ شخص ڈر کر خاموش ہو گیا، پھر اس نے عرض کی: میرا ذخیرہ اعمال تو بہت زیادہ نہیں ہے، لیکن اتنی بات ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسولﷺ سے محبت کرتا ہوں، آپﷺ نے فرمایا : تم اسی کے ساتھ ہو گے جس کے ساتھ تم محبت کرتے ہو‘‘۔ (بخاری:7153)
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں تو وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے، جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا ہے جو انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں اور یہ سب کیا ہی عمدہ ساتھی ہیں‘‘۔ (النساء :69) علامہ بغوی اس آیت کا شانِ نزول بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : یہ آیت نبی کریمﷺ کے آزاد کردہ غلام ثوبان کی شان میں نازل ہوئی، وہ رسول اللہﷺ سے شدید محبت کرتے تھے اور آپﷺ کو دیکھے بغیر ان کو قرار نہیں آتا تھا، ایک دن بارگاہِ نبوی میں آئے، ان کا رنگ متغیر تھا اور چہرے سے اداسی نمایاں تھی، رسول اللہﷺ نے ان سے فرمایا: تیرا رنگ پھیکا کیوں پڑ گیا ہے، انہوں نے کہا: یارسول اللہ! نہ مجھے کوئی بیماری ہے اورنہ کوئی تکلیف ہے، سوائے اس کے کہ میں جب تک آپ کو دیکھ نہیں لیتا اور آپ سے ملاقات نہیں ہو جاتی، مجھے سخت وحشت لاحق ہوتی ہے، پھر مجھے آخرت کا خیال آیا تو مجھے اندیشہ ہوا کہ میں وہاں آپ کو دیکھ نہیں سکوں گا، کیونکہ آپﷺ تو انبیاء کرام کے ساتھ اعلیٰ مقامات پر ہوں گے اور اگر میں جنت میں داخل بھی ہوا تو میرا مقام جنت میں آپ کے مقام سے بہت نیچے ہو گا اور اگر خدا نخواستہ میں جنت میں نہ جا سکا، تو آپ کو ہمیشہ کے لیے نہیں دیکھ سکوں گا، تو یہ آیت نازل ہوئی‘‘۔ تفسیر بغوی:ج:۱:ص:659
ہنگامی حالات کے علاوہ عام حالات میں بھی صحابہ کرام رسول اللہﷺ سے محبت اور تعظیم کے رشتے میں بندھے ہوئے تھے اور آپ کا بے انتہا ادب کرتے تھے اور حد درجے کی محبت کرتے تھے، جس کی گواہی آپﷺ کے سخت ترین دشمنوں کو بھی دینا پڑی، صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہﷺ کے ساتھ مذاکرات کے لیے قریش کا جو وفد آیا اس میں عروہ بن مسعود بھی تھے، امام بخاری لکھتے ہیں : وہ (عروہ بن مسعود) کن انکھیوں سے نبیﷺ کے اصحاب کی طرف دیکھ رہے تھے جب بھی رسول اللہﷺ تھوکتے تو وہ کسی نہ کسی صحابی کے ہتھیلی پر آجاتا وہ اس لعاب مبارک کو اپنے چہرے اور بدن پر ملتا اور جب آپ کوئی حکم دیتے تو وہ سب اس کی تعمیل میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے اور جب آپ وضو کرتے تو وہ آپ کے وضوکے بچے ہوئے پانی کو لینے کے لیے اس طرح جھپٹتے تھے کہ گویا ایک دوسرے کو مار دیں گے اور جب آپ بات کرتے تو سب آپ کے سامنے اپنی آوازوں کو پست کر لیتے، آپ کی تعظیم کی وجہ سے وہ آ پ کو جی بھر کر دیکھ نہیں پاتے تھے۔ پھرعروہ اپنی قوم کے پاس واپس گئے اور کہا: اے لوگو! میں بادشاہوں کے پاس گیا ہوں، میں قیصر و کسریٰ اور نجاشی کے پاس گیا ہوں، اللہ کی قسم میں نے کہیں نہیں دیکھا کہ کسی بادشاہ کے لوگ اُس کی اتنی تعظیم کرتے ہوں جتنی تعظیم (سیدنا) محمدﷺ کے اصحاب آپ کی کرتے ہیں، اُن کے لعابِ دہن کو اپنے چہرے اور ہاتھوں پر ملتے ہیں، جب وہ ان کو کسی کام کا حکم دیتے ہیں تو وہ سب اس کی تعمیل میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں اور جب وہ وضو کرتے ہیں تو وہ ان کے وضو کا بچا ہوا پانی لینے کے لیے اس طرح جھپٹتے ہیں گویا ایک دوسرے کو مار دیں گے اور جب وہ بات کرتے ہیں تو وہ سب ان کے سامنے اپنی آوازوں کو پست کر لیتے ہیں اور وہ ان کی عظمت وجلالت کے سبب ان کوجی بھر دیکھ نہیں پاتے‘‘۔ بخاری : 2731
شدت ِتعظیم جبکہ ظاہری وحقیقی دونوں صورتوں پر مشتمل ہو، شدتِ محبت کی علامت ہے، صحابہ کرام رسول اللہﷺ کی حد درجہ تعظیم کرتے، جس سے اُن کی محبت کی شدت کا اندازہ ہوتا ہے، حضرت عبد اللہؓ بن بریدہ بیان کرتے ہیں :”ہم جب نبیﷺ کی مجلس میں بیٹھے ہوتے، تو ہم آپ کی تعظیم کی وجہ سے سر نہیں اٹھاتے تھے‘‘۔ (مستدرک للحاکم: 415) حضرت براءؓ بن عازب بیان کرتے ہیں: ہم رسولﷺ کے ساتھ ایک جنازہ کے لیے باہر نکلے، جب ہم قبرستان پہنچے، تو ابھی لحد نہیں بنی تھی، نبی اکرمﷺ بیٹھ گئے اور ہم آپ کے گرد اس طرح بیٹھ گئے گویا ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں (یعنی آپ کے سامنے حرکت کرنا بھی ان کو گوارا نہ تھا)‘‘۔ نسائی:2001)
صحابہ کرامؓ آپﷺ کے تبرکات سے بھی بے حد محبت کرتے تھے اور آپ کے موئے مبارک کو اپنے لیے باعث سعادت سمجھتے تھے اور ان کے حصول کے لیے کوشش کرتے تھے، حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں :”میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا کہ نائی آپ کے بال مونڈ رہا تھا اور صحابہ آپ کے گرد گھوم رہے تھے، ان میں سے ہر ایک کی خواہش تھی کہ کوئی بال ان کے ہاتھ لگے‘‘۔ (مسلم:2325) صحابہ کرامؓ کی محبت کا یہ عالم تھا کہ نماز میں بھی ان کی نگاہیں صرف اور صرف آپﷺ کی طرف ہوتی تھیں، ایامِ علالت میں جب آپ باہر تشریف لائے، صحابہ نے حضرت ابوبکرؓ کی اقتدا میں نماز کے دوران آپ کے رخِ انور کا دیدار کیا۔ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں :آپ کا چہرہ قرآن کے ورق کی طرح لگتا تھا، آپ مسکرائے تو آپ کے چہرہ انور کو دیکھ کر ہم اس قدر خوش ہوئے کہ خدشہ تھا ہم نماز توڑ ڈالیںگے‘‘۔ بخاری:680
مفتی منیب الرحمٰن
 

شمشاد

لائبریرین
اللھم صل علی محمد و علی آل محمد کما صلیت علی ابراھیم و علی آل ابراھیم انك حمید مجید۔
اللھم بارك علی محمد و علی آل محمد کما بارکت علی ابراھیم و علی آل ابراھیم انك حمید مجید۔
 
اللھم صل علی محمد وعلیٰ آل محمد کما صلیت علیٰ ابراھیم وعلیٰ آل ابراھیم انک حمید مجید۔
اللھم بارک علی محمد وعلیٰ آل محمد کما بارکت علیٰ ابراھیم وعلیٰ آل ابراھیم انک حمید مجید۔
 

سیما علی

لائبریرین
اللھم صل علی محمد وعلیٰ آل محمد کما صلیت علیٰ ابراھیم وعلیٰ آل ابراھیم انک حمید مجید۔
اللھم بارک علی محمد وعلیٰ آل محمد کما بارکت علیٰ ابراھیم وعلیٰ آل ابراھیم انک حمید مجید۔
 
اللھم صل علی محمد و علی آل محمد کما صلیت علی ابراھیم و علی آل ابراھیم انك حمید مجید۔
اللھم بارك علی محمد و علی آل محمد کما بارکت علی ابراھیم و علی آل ابراھیم انك حمید مجید۔
 

رومی

لائبریرین
اللھم صل علی محمد وعلیٰ آل محمد کما صلیت علیٰ ابراھیم وعلیٰ آل ابراھیم انک حمید مجید۔
اللھم بارک علی محمد وعلیٰ آل محمد کما بارکت علیٰ ابراھیم وعلیٰ آل ابراھیم انک حمید مجید۔
 
اللھم صل علی محمد و علی آل محمد کما صلیت علی ابراھیم و علی آل ابراھیم انك حمید مجید۔
اللھم بارك علی محمد و علی آل محمد کما بارکت علی ابراھیم و علی آل ابراھیم انك حمید مجید۔
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
اللھم صل علی محمد و علی آل محمد کما صلیت علی ابراھیم و علی آل ابراھیم انك حمید مجید
اللھم بارك علی محمد و علی آل محمد کما بارکت علی ابراھیم و علی آل ابراھیم انك حمید مجید۔
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
اللھم صل علی محمد و علی آل محمد کما صلیت علی ابراھیم و علی آل ابراھیم انك حمید مجید
اللھم بارك علی محمد و علی آل محمد کما بارکت علی ابراھیم و علی آل ابراھیم انك حمید مجید۔
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
اللھم صل علی محمد و علی آل محمد کما صلیت علی ابراھیم و علی آل ابراھیم انك حمید مجید
اللھم بارك علی محمد و علی آل محمد کما بارکت علی ابراھیم و علی آل ابراھیم انك حمید مجید۔
 

شمشاد

لائبریرین
اللھم صل علی محمد و علی آل محمد کما صلیت علی ابراھیم و علی آل ابراھیم انك حمید مجید۔
اللھم بارك علی محمد و علی آل محمد کما بارکت علی ابراھیم و علی آل ابراھیم انك حمید مجید۔
 

شمشاد

لائبریرین
اللھم صل علی محمد و علی آل محمد کما صلیت علی ابراھیم و علی آل ابراھیم انك حمید مجید۔
اللھم بارك علی محمد و علی آل محمد کما بارکت علی ابراھیم و علی آل ابراھیم انك حمید مجید۔
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
اللھم صل علی محمد و علی آل محمد کما صلیت علی ابراھیم و علی آل ابراھیم انك حمید مجید
اللھم بارك علی محمد و علی آل محمد کما بارکت علی ابراھیم و علی آل ابراھیم انك حمید مجید۔
 
Top