درست نیت کے بغیر جہاد کا اجر حاصل نہیں ہوتا

چھبیسواں باب
درست نیت کے بغیر جہاد کا اجر حاصل نہیں ہوتا
نیز مختلف نیتوں کا بیان
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
( 1 ) [arabic] أَلا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ [/arabic](الزمر ۔ 3)
" دیکھوخالص عبادت اللہ تعالی ہی کے لئے ( زیبا) ہے۔
اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے : ۔
(2 ) [arabic]وَمَا أُمِرُوا إِلا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ [/arabic](سورہ بینہ ۔ 5 )
""اور ان کو تو یہی حکم ہوا تھا کہ اخلاص عمل کے ساتھ اللہ تعالی کی عبادت کریں ۔ ""
٭ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور آدمی کو وہی کچھ ملتا ہے ۔ جس کی اس نے نیت کی ۔ جس کی ہجرت اپنی نیت کے اعتبار سے اللہ اور اس کی رسول کی طرف ہوگی تو [ اجر اور قبولیت کے اعتبار سے بھی ] اللہ اور اس کے رسول کے لئے ہوگی اور جس کی ہجرت دنیا یا کسی عورت سے نکاح کی عرض سے ہوگی تو اس کی ہجرت اسی طرف ہوگی جس کی اس نے نیت کی ۔ ( بخاری ۔ مسلم )

٭ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میری امت کے اکثر شہداء بستر والے ہوں گے اور بہت سے میدان جنگ میں قتل والوں کی نیت کو اللہ تعالی خوب جانتا ہے ( مسند احمد مرسلاً)

٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوہ تبوک سے واپسی پر مدینہ منورہ کے قریب پہنچے تو آپ نے ارشاد فرمایا : تم لوگ جتنا بھی [ جہاد میں ] چلے ہو اور تم نے جتنی وادیاں بھی عبور کی ہیں ۔ مدینہ میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو [ اس سب کے اجر میں ] تمھارے ساتھ تھے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول کیا مدینہ میں رہنے کے باوجود [ وہ اجر میں شریک تھے] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مدینہ میں رہنے کےباوجود [ وہ اجرمیں شریک ہیں کیونکہ ] انہیں عذر نے روک لیا تھا [ یعنی وہ جہاد میں نکلنے کی سچی نیت رکھتے تھے مگر عذر کی وجہ سے نہیں نکل سکے ] (بخاری )

علامہ قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ عذر کی وجہ سے پیچھے رہ جانے والے کو مجاہد جیسا اجر ملتا ہے ایک قول یہ ہے کہ بالکل مجاہد کے برابر اجر ملتا ہے جبکہ دوسرا قول یہ ہے کہ اسے مجاہد کا اجر ملتا ہے لیکن بڑھا چڑھا کر نہیں ۔ جبکہ مجاہد کو اس کا اجر بڑھا چڑھا کر ملتا ہے ( تفسیر قرطبی مختصرا ) اس بارے میں مزید تفصیلات ان شاء اللہ ستائیسویں باب میں آئیں گی ۔

٭ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ ایک اعرابی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ایک آدمی مال غنیمت کے لئے لڑتا ہے اور ایک آدمی لوگوں میں اپنا تذکرہ چھوڑنے کے لئے لڑتا ہے اور ایک آدمی اپنی حیثیت دکھانے کے لئے لڑتا ہے ان میں سے اللہ کے راستے میں کون ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو اللہ تعالی کے کلمے کو بلند کرنے کے لئے لڑتا ہے وہی اللہ کے راستے میں ہے ۔ ( بخاری ۔ مسلم )

٭ ایک اور روایت میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو [ طبعی ] بہادری کی وجہ سے یا غیرت کی وجہ سے یا ریاکاری کے لئے لڑتا ہے کہ ان میں سے اللہ کے راستے میں کون ہے ؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص اس لئے لڑے تاکہ اللہ کا کلمہ بلند ہو جائے ۔ بس وہی اللہ کے راستے میں ہے ۔ ( مسلم شریف )

٭ ایک اور روایت میں ہے کہ ایک شخص نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جہاد کے بارے میں پوچھا اور کہنے لگا ایک شخص اپنا غصہ نکالنے کے لئے لڑتا ہے اور ایک شخص [قومی] غیرت کی وجہ سے لڑتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف سر مبارک اٹھایا کیونکہ وہ کھڑا ہوا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص اس لئے لڑے تاکہ اللہ تعالی کا کلمہ بلند ہو جائے بس وہی اللہ کے راستے میں ہے ۔ (مسلم شریف )

٭ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے بارے میں آتا ہے کہ انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا اے اللہ کے رسول مجھے جہاد اور قتال کے بارے میں بتایئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اے عبداللہ بن عمرو اگر تم نے ڈٹ کر اللہ کی رضا کی نیت سے جہاد کیا تو اللہ تعالی تمھیں اسی حال میں اٹھائے گا ۔ اور اگر تم نے جہاد کیا ریاکاری اور مال بڑھانے کے لئے تو اللہ تعالی تمھیں اسی حال میں اٹھائے گا ۔اے عبداللہ بن عمرو تم نے جس حال [ یعنی نیت ] پر قتال کیا یا مارے گئے اللہ تعالی تمھیں اسی حالت [ اور نیت ] پر اٹھائے گا۔ ( ابوداؤد ، بہیقی ۔ المستدرک )

٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ایک شخص جہاد فی سبیل اللہ کا ارادہ کرتا ہے ۔ اور دنیا کا کچھ مال بھی چاہتاہے [ یعنی اس کی نیت جہاد کی بھی ہے اور مال کی بھی ] حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اس کے لئے کوئی اجر نہیں ہے ۔ لوگوں پر یہ بات بڑی بھاری گزری اور انہوں نے اس [ سوال کرنے والے ] شخص سے کہا جاؤ دوبارہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھو تم انہیں اپنی بات [ صحیح طرح سے ] سمجھا نہیں سکے ۔ اس شخص نے [ حاضر خدمت ہوکر ] عرض کیا ۔ اے اللہ کے رسول ایک شخص جہاد فی سبیل اللہ کا ارادہ کرتا ہے ۔ اور دنیا کا کچھ مال بھی چاہتاہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اس کے لئے کوئی اجر نہیں ہے ۔ لوگوں نے اس شخص سے کہا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پھر پوچھو۔ اس نے تیسری بار پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اس کے لئے کوئی اجر نہیں ہے ۔ ( ابوداؤد ۔ ابن حبان ۔ المستدرک )

٭ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے پوچھا [ یا رسول اللہ ] آپ کیا فرماتے ہیں اس شخص کے بارے میں جو جہاد میں اجر کی بھی نیت رکھتا ہے اور اس بات کی بھی کہ لوگوں میں اس کا تذکرہ کیا جائے۔ ایسے شخص کو کیا اجر ملے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ایسے شخص کے لئےکچھ [ بھی اجر ] نہیں ۔ اس شخص نے یہی سوال تین بار دھرایا اور ہر بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس کے لئے کچھ [ بھی اجر ] نہیں ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالی صرف ایسے خالص عمل کو قبول فرماتا ہے جو محض اس کی رضا جوئی کے لئے کیا جائے ۔ ( ابوداؤد ۔ نسائی )

[ تو جو شخص اپنے پروردگار سے ملنے کی امید رکھے چاہئے کہ نیک عمل کرے اوراپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے ۔ ]

٭ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا ۔ ایک شخص [ جہاد میں ] اجر بھی چاہتا ہے اور تعریف بھی [ یعنی اس کی نیت یہ ہے کہ اللہ تعالی سے اجر ملے اور لوگ میرے جہاد اور میری بہادری کی تعریف کریں ] حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اس کے لئے کوئی اجر نہیں ہے اگرچہ وہ اپنی تلوار سے اتنا لڑے کہ تلوار ٹوٹ جائے ۔ ( کتاب السنن لسعید بن منصور )

٭ عمر بن عبید اللہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے عرض کیا میں جہاد میں اللہ کی رضا کے لئے خرچ کرتا ہوں اور اسی نیت سے نکلتا ہوں لیکن جب لڑائی کا وقت ہوتا ہے تو میں چاہتا ہوں کہ میری جنگ اور میری بہادری دیکھی جائے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا : پھر تو تم ریا کار آدمی ہو ۔ ( کتاب السنن لسعید بن منصور )

٭ مرہ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ لوگوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے سامنے کچھ ایسے افراد کا تذکرہ کیا جو اللہ کے راستے میں مارے گئے تھے، اس پر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ایسا نہیں جیسا تم دیکھتے اور سمجھتے ہو [ بلکہ ] جب لشکر آپس میں ٹکراتے ہیں تو فرشتے اترتے ہیں اور ہر شخص کا مقام [ اور مرتبہ ] لکھا جاتا کہ فلاں دنیا کے لئے مارا گیا اور فلاں حکومت [ اور عہدہ] کے پانے کے لئے مارا گیا فلاں لوگوں میں اپنا تذکرہ چھوڑنے کے لئے مارا گیا اور فلاں اللہ کی رضا کے لئے مارا گیا ۔ پس جو شخص اللہ کی رضا کے لئے شہید ہوا اسی کے لئے جنت ہے ۔ ( کتاب الجہاد لابن المبارک )

٭ ابو عبیدہ بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ میرے والد [ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ] نے ارشاد فرمایا : تم لوگ یہ گواہیاں دینے سے پرہیز کرو کہ فلاں فلاں شہید ہوئے [ یعنی ہر کسی کو شہید کا لقب نہ دیا کرو] کیونکہ بعض لوگ قومی غیرت میں لڑتے ہیں ۔ بعض لوگ بہادری کی وجہ سے لڑتے ہیں ۔ [ یعنی ان کی طبعی بہادری انہیں لڑنے پر مجبور کرتی ہے ] ۔ [ یہ سارے لوگ جب مارے جاتے ہیں تو ان میں سے کوئی بھی شہید نہیں ہوتا ] لیکن میں تمھیں ایسے لوگوں کے بارے میں بتاتا ہوں جن کی [ شہادت ] پر تم گواہی دے سکتے ہو ایک بار حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سریہ بھیجا [ اس لشکر کو روانہ ہوئے ] زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کی حمد و ثناء کے بعد ارشاد فرمایا: تمھارے بھائیوں کے مشرکوں کے ساتھ مقابلہ ہوا ہے اور وہ سارے شہید ہو چکے ہیں اور انہوں نے کہا ہے اے ہمارے رب ہماری قوم کو یہ خبر پہنچا دیجئے کہ ہم راضی ہو چکے ہیں اور ہمارا رب ہم سے راضی ہو چکا ہے اور میں [ یعنی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ] ان کا پیغام پہنچانے والا ہوں کہ بے شک وہ راضی ہو گئے اور ان کا رب ان سے راضی ہو گیا۔ ( المستدرک )

٭ حضرت عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ صحیح سند کے ساتھ روایت فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ مسجد نبوی میں بیٹھے ہوئے کچھ لوگوں کے پاس تشریف لائے وہ لوگ آپس میں اس لشکر کا تذکرہ کر رہے تھے جو اللہ کے راستے میں مارا گیا تھا ان میں بعض کہہ رہے تھے کہ وہ لوگ [ یعنی لشکر والے ] اللہ کے کام کے لئے نکلے اور اس کے راستے میں مارے گئے یقیناً ان کا اجر اللہ تعالی پر واجب ہو گیا ہے ۔ کسی اور نے کہا ان کے انجام کا علم اللہ تعالی کو ہے اور ان کو وہی کچھ ملے گا جس کی انہوں نے نیت کی ہوگی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھا تو فرمایا تم لوگ کیا بات کر رہے ہو انہوں نے اپنی پوری بات چیت سنائی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: اللہ کی قسم لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو دنیا کے لئے لڑتے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جو ریاکاری یعنی دکھلاوے کے لئے لڑتے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جن پر جنگ مسلط ہو جاتی ہےاور ان کے لئے لڑے بغیر کوئی چارہ نہیں ہوتا ۔ اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ تعالی کی رضا جوئی کے لئے لڑتے ہیں ۔ یہی لوگ شہیداء ہیں اور ان میں سے ہر شخص قیامت کے دن اسی نیت پر اٹھایا جائے گا جس پر مرا تھا اور اللہ کی قسم کسی کو پتہ نہیں کہ اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے اور ان میں سے کوئی ایسا شخص بھی نہیں جس کے بارے میں ہمیں بتا دیا گیا ہو کہ اس کے اگلے پچھلے گناہ معاف کر دیئے گئے ہیں ۔ ( کتاب الجہاد لابن المبارک ۔ المستدرک )

٭ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے اللہ کے راستے میں جہاد کیا اور سوائے ایک رسی [ پانے ] کے اور کسی چیز کی نیت نہیں کی تو اسے وہی کچھ ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہو گی۔ ( نسائی ۔ المستدرک )
[ یعنی اسے کوئی اجر و ثواب نہیں ملے گا بلکہ جس حقیر دنیا کی اس نے نیت کی ہے اسے وہی مل جائے گی ]

٭ حضرت یعلی بن منیہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جہاد کی اجازت مرحمت فرمائی ۔ میں بوڑھا آدمی تھا اور میرے پاس کوئی خادم بھی نہیں تھا ۔ میں نے ایک مزدور ڈھونڈا جو جہاد میں میرے کام آسکے اور میں اسے اپنے مال غنیمت میں سے کچھ حصہ دے دوں چنانچہ مجھے ایک شخص مل گیا ۔ جب روانگی کا وقت قریب ہوا تو وہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا مجھے کیا پتہ آپ کو کتنا حصہ ملے گا پھر اس میں میرا کتنا حصہ بنے گا آپ میرے لئے کچھ مقرر کر دیں ۔ غنیمت میں حصہ ملے یا نہ ملے [ مجھے میری مقرر مزدوری مل جائے ] میں نے اس کے لئے تین دینار مقرر کر دئیے۔ جب مال غنیمت مل گیا تو میں نے اس کے لئے حصہ نکالنا چاہا تو مجھے تین دینار والی بات یاد آگئی ۔ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سارا معاملہ پیش فرمایا [ کہ اس آدمی کو تین دینار ہی دوں یا مال غنیمت میں سے بھی اسے حصہ دوں ] حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : وہ تین دینار جو اس نے مقرر کئے تھے ان کے علاوہ اس شخص کے لئے اس جہاد میں کچھ بھی نہیں ہے نہ دنیا میں اور نہ آخرت میں [ یعنی اسے صرف تین دینا ہی ملیں گے اجر یا غنیمت میں سے کچھ نہیں ملے گا ( ابوداؤد ۔ بہیقی ۔ المستدرک )

٭ ابوالعجفاء السلمی کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا : تم لوگ جہاد میں قتل ہونے یا انتقال کر جانے والوں کے بارے میں کہتے ہو کہ فلاں شخص مارا گیا وہ شہید ہے فلاں شخص کا انتقال ہوا وہ شہید ہے حالانکہ ممکن ہے کہ اس شخص نے اپنی سواری کے پچھلے حصے پر سونا چاندی لاد رکھا ہو اور وہ تجارت کی نیت سے نکلا ہواس لئے تم یہ نہ کہا کرو کہ فلاں شہید ہے بلکہ تم کہا کرو جس طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص [ بھی ] اللہ کے راستے میں مارا گیا یا اس کا انتقال ہوا وہ جنتی ہے ۔ ( المستدرک صحیح الاسناد )

٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عمرو بن اقیش کے نام جاہلیت کا کچھ سود تھا [ جو لوگوں نے انہیں دینا تھا ] چنانچہ انہوں نے یہ سود وصول کرنے سے پہلے اسلام قبول کرنے کو اچھا نہ سمجھا یہاں تک کہ احد کی لڑائی کا دن آگیا انہوں نے لوگوں سے پوچھا میرے چچا زاد بھائی کہاں ہیں لوگوں نے کہا وہ احد کی لڑائی میں گئے ہیں انہوں نے پوچھا فلاں آدمی کہاں ہے ؟ لوگوں نے کہا وہ بھی غزوہ احد میں گیا ہے انہوں نے کچھ اور لوگوں کے بارے میں پوچھا تو وہی جواب ملا ۔ یہ سنکر انہوں نے زرہ پہنی اور گھوڑے پر سوار ہو کر احد کی طرف بڑھے ۔ مسلمانوں نے جب انہیں [ میدان جنگ میں اپنے ساتھ ] دیکھا تو کہنے لگے اے عمرو ہم سے دور رہو ۔ انہوں نے کہا میں ایمان لا چکا ہوں پھر وہ لڑتے رہے یہاں تک کہ زخمی ہو گئے اور اٹھاکر گھر لائے گئے ۔ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ [ جو ان کے رشتے دار تھے ] تشریف لائے اور انہوں نے اپنی ہمشیرہ سے کہا ان سے پوچھو کہ قومی غیرت کی وجہ سے نکلے یا اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے غیرت کھا کر نکلے تھے ؟ انہوں نےکہا میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے غیرت کھا کر نکلا تھا ۔ اس کے بعد ان کا انتقال ہوگیا اور وہ جنت میں داخل ہوگئے حالانکہ انہوں نے ایک نماز بھی نہیں پڑھی تھی ( ابوداؤد ۔ المستدرک )

[ یعنی درست نیت سے انہوں نے جہاد جیسا عظیم عمل سر انجام دیا اور کامیاب ہو گئے حالانکہ انہیں نماز تک کا موقع نہیں ملا تھا ]

٭ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جہاد دو طرح کا ہے ۔ جس شخص نے اللہ کی رضا کی نیت کی اور امیر کی اطاعت کی اور قیمتی مال خرچ کیا اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ حسن سلوک کیا اور فساد سے بچا تو ایسے مجاہد کا سونا اور جاگنا سب اجر ہے اور جس نے فخر اور ریاکاری کے لئے جہاد کیا اور امیر کی نافرمانی کی اور زمین میں فساد پھیلایا تو وہ برابر کا حساب لے کر بھی نہیں لوٹے گا ۔ ( ابوداؤد ۔ نسائی ۔ المستدرک )
[ برابر سے مراد یہ کہ اسے نہ نفع ہوا نہ نقصان ، نہ ثواب ملے گا نہ گناہ لیکن اس شخص کو برابر کاحساب بھی نہیں ملے گا یعنی وہ گھاٹے میں رہے گا اور گناہگار ہو گا ] ۔

٭ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : قیامت کے دن سب سے پہلے اس شخص کا فیصلہ کیا جائے گا جو دنیا میں شہید ہوا تھا ۔ اسے حاضر کیا جائے گا پھر اللہ تعالی اسے اپنی نعمتیں گنوائیں گے وہ ان کا اعتراف کرے گا اللہ تعالی فرمائیں گے تم نے ان نعمتوں کا کیا کیا وہ کہے گا میں نے آپ کے راستے میں جہاد کیا یہاں تک کہ شہید ہو گیا ۔ اللہ تعالی فرمائیں گے تم جھوٹے ہو تم نے تو اس لئے جہاد کیا تھا تاکہ تمھیں بہادر کہا جائے اور وہ [ دنیا میں تمہیں ] کہا گیا پھر اللہ تعالی اس کے بارے میں حکم دیں گے چنانچہ اسے منہ کے بل گھسیٹ کر دوزخ میں ڈال دیا جائے گا ۔ یہی معاملہ اس عالم اور سخی کے ساتھ بھی کیا جائے گا جنہوں نے ریا کاری کے لئے عمل کیا ہوگا ۔ ( مسلم و نسائی مختصراً)
[ یعنی قیامت کے دن دوزخ کی آگ سب سے پہلے انہیں تین افراد سے بھڑ کائی جائے گی جنہوں نے جہاد علم اور سخاوت جیسی عبادات کو اللہ تعالی کے لئے اداء کرنے کی بجائے لوگوں کو دکھانے کے لئے کیا ہوگا ۔ العیاذ باللہ ]۔

٭ ترمذی کی روایت میں ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہی روایت حضرت شفی الاصبحی کو سنائی اور سنانے سے پہلے کئی بار ان پر بے ہوشی کا دورہ پڑا اس روایت کے آخر میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے گھٹنے پر ہاتھ مار کر فرمایا : اے ابو ہریرہ مخلوق میں سے یہ تین آدمی [ یعنی ریا کار شہید ، ریا کار عالم اور ریاکار سخی ] وہ ہیں جن کے ذریعے سب سے پہلے دوزخ کی آگ کوبھڑکایا جائے گا ۔ شفی الاصبحی رحمہ اللہ جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے محافظ دستے کے رکن تھے جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے تو ان کو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی یہی روایت سنائی ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا جب ان تین کے ساتھ یہی معاملہ ہوگا تو باقی لوگوں کا کیا حال ہوگا پھر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ رونے لگے اور اتنا سخت روئے کہ لوگوں نے سمجھا کہ شاید جان دے بیٹھیں گے اور لوگ کہنے لگے یہ شخص برائی لے کر آگیا ۔ پھر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو افاقہ ہوا تو آپ رضی اللہ عنہ نے اپنا چہرہ صاف کیا پھر کہا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا اور یہ آیت پڑھی:
[arabic]مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْحَيَوةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لا يُبْخَسُونَ أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الآخِرَةِ إِلا النَّارُ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوا فِيهَا وَبَاطِلٌ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ [/arabic]( سورہ ھود ۔ 15۔ 16 )
جو لوگ دنیا کی زندگی اور اس کی زیب و زینت کے طالب ہوں ہم ان کے اعمال کا بدلہ انہیں دنیا ہی میں دیتے ہیں اور اس میں ان کی حق تلفی نہیں کی جاتی یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش (جہنم ) کے سوا اور کچھ نہیں اور جو عمل انہوں نے دنیا میں کئے سب برباد اور جو کچھ وہ کرتے رہے سب ضائع ہوا ۔ ( ترمذی )
 
فصل
ہم نے پڑھ لیا کہ عبادات کے قبول ہونے اور اللہ تعالی کا قرب پانے کے لئے اخلاص نیت شرط ہے پھر وہ عبادت جس میں ریا کاری اور نفاق شامل ہو ضائع ہو جاتی ہے فرق اتنا ہے کہ دوسری عبادات میں اگر ایک بار ریا کاری ہو گئی تو اگلی بار انسان مکمل اخلاص کے ساتھ اس عمل کو سر انجام دے کر پچھلی غلطی کی بھی تلافی کر سکتا ہے لیکن جہاد میں اگر ریا کاری اور نفاق شامل ہو گیا اور انسان کی جان چلی گئی تو اب تلافی کا بھی موقع نہیں ملے گا ۔
اس لئے جہاد میں خصوصی طور پر نیت کو درست اور خالص رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ اگر خدانخواستہ اس میں کوئی نقصان ہو گیا تو پھر وہ نقصان ہمیشہ کا عذاب اور وبال جان بن جائے گا ۔ آئیے جہاد کی مختلف نیتوں اور ان کی احکامات کو مختصر مگر جامع طور پر بیان کرتے ہیں ۔
جہاد کی نیتیں بہت زیادہ ہیں کیونکہ لوگ مختلف نیتوں اور مختلف مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے جہاد کرتے ہیں ۔ ان سب نیتوں کو ذکر کرنا توممکن نہیں ہے البتہ وہ نیتیں اور مقاصد جو عام طور پر لوگوں میں پائے جاتے ہیں ہم ان کے احکام کے ساتھ ذکر کرتے ہیں ؛
( 1 ) بعض لوگ جہاد اس لئے کرتے ہیں کہ یہ اللہ تعالی کا حکم ہے اور بندہ ہونے کی حیثیت سے ہم پر اس کا حکم ماننا لازم ہے یعنی یہ لوگ بندگی کے لئے جہاد ضروری سمجھتے ہیں اور ان کے ذہن کی آخرت میں ملنے والے اجر و ثواب یا عذاب کی طرف توجہ ہی نہیں جاتی ۔ یہ نیت بہت اعلی درجہ کی ہے مگر یہ بہت کم لوگوں میں پائی جاتی ہے ۔
واقعہ : اس نیت سے جہاد کرنے والے ایک مجاہد کا واقعہ علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ نے عباس بن یوسف رحمہ اللہ سے نقل فرمایا ہے وہ کہتے ہیں کہ مسیرۃ الخادم نے ہمیں بتایا کہ ہم جہاد میں مشغول تھے ہم نے صفوں کے درمیان ایک نوجوان کو دیکھا جس نے دشمن کے میمنہ [ دائیں بازو ] پر حملہ کیا اور اسے پیس ڈالا پھر اس نے میسرہ [ یعنی لشکر کے بائیں جانب ] پر حملہ کیا اور اسے بھی کچل دیا۔ اس نوجوان نے سر پر لوہے کا خود پہن رکھا تھا ۔ پھر اس نے لشکر کے قلب پر حملہ کیا اور اسے بھی الٹ دیا ۔ پھر اس نے اشعار پڑھے ۔ [ جن کا مفہوم یہ ہے ]

اے خوش نصیب تو اپنے رب سے اچھا گمان کر
یہ وہ ہے جس کی تو اس کے لئے تمنا کرتا ہے
اے جنت کی حوروں ہم سے دور ہٹ جاؤ
ہم نے نہ تمھارے لیے جہاد کیا ہے اور نہ تمھارے لیے کسی کو قتل کیا ہے
ہم تو بس اپنے آقا کے مشتاق ہیں
جو ہمارے ظاہر کو بھی جانتا ہے اور پوشیدہ کو بھی
پھر اس نے دشمنوں پر حملہ کیا اور اشعار پڑھے [ جن کا مفہوم یہ ہے ]
میں امید رکھتا ہوں اور میری امید ناکام نہیں ہوئی
کہ آج کے دن کی محنت اور تھکاوٹ ضائع نہ ہو
اے وہ [ اللہ] جس نے جنت کے محلات کو خوبصورت حوروں سے بھر دیا
تیرے بنا نہ تو یہ مرغوب ہیں اور نہ کسی عیش والی چیز میں لطف ہے
پھر اس نے حملہ کیا اور کافی تعداد میں کافروں کو قتل کرکے پھینگ دیا ۔ پھر اس نے اشعار پڑھے [ جن کا مفہوم یہ ہے ]
اے میری جنت کی حور رک جا اور سن
ہم نے تیری خاطر جہاد نہیں کیا تو واپس لوٹ جا
تو جلدی جنت کی طرف لوٹ جا اور
خواہش نہ کر خواہش نہ کر، خواہش نہ کر ۔​

اس کے بعد اس نے پھر حملہ کیا اور [ اللہ کا یہ سچا عاشق ] لڑتے لڑتے شہید ہو گیا ۔ ( جوہرۃ الزمان )
( 2 ) بعض لوگ "" اسلامی غیرت "" اللہ کے کلمے کو بلند کرنے اور اللہ کے دین کو عزت دلانے کے لیے جہاد کرتے ہیں ۔ یہ دونوں نیتیں [ یعنی پہلی اور دوسری ] بلا شبہ بہت اعلی درجے کی نیتیں ہیں اور ان کے درست ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے اور یہ دونوں نیتیں اللہ کے ہاں بڑی کامیابی کا ذریعہ ہیں لیکن مجاہد کو چاہئے کہ اپنے عمل کو چھپانے اور فخر نہ کرنے کی کوشش کرے اور اپنے تذکرے کے شوق میں مبتلا نہ ہو اور اپنے جہاد کو اللہ سے اجر پانے کا ذریعہ سمجھے اور اللہ تعالی سے اجر کی امید رکھے تب جا کر معلوم ہوگا کہ واقعی وہ ان دو نیتوں میں سے کسی ایک کے ساتھ جہاد کر رہا تھا ۔
( 3 ) بعض لوگ صرف جنت ، اس کی حوریں اور وہاں کی نعمتیں پانے اور دوزخ اور اس کے عذاب سے بچنے کے لیے جہاد کرتے ہیں اور ان کے دل و دماغ میں اس کے علاوہ اور کوئی ارادہ یا نیت نہیں ہوتی۔ یہ نیت عام طور پر مجاہدین میں پائی جاتی ہے ۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ صرف اتنی نیت شہادت کا مقام پانے کے لیے کافی نہیں ہے ۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ یہ نیت بھی بالکل درست ہے ۔ اور اس نیت سے جہاد کرنے والے بے شک کامیاب ہیں ۔ میں نے اس مسئلے کے بارے میں 795 ھ میں اپنے بعض مشائخ سےدریافت کیا تو انہوں نے بھی یہی فرمایا کہ یہ نیت بلا شبہ درست ہے ویسے بھی اگر دلائل پر غور کیا جائے تو خود اللہ تعالی نے جنت کا تذکرہ فرماکر جہاد کی ترغیب دی ہے جیسے ارشاد باری تعالی ہے :
[arabic]إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ[/arabic] ( سورہ توبہ ۔ 111)
بے شک اللہ تعالی نے مسلمانوں سے ان کی جانوں اور ان کے مالوں کو اس قیمت پر کہ ان کے لیے جنت ہے خرید لیا ہے ۔

اور ارشاد باری تعالی ہے :
[arabic]يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى تِجَارَةٍ تُنْجِيكُمْ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَيُدْخِلْكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الأنْهَارُ وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ [/arabic]( سورہ الصّف ۔ 10-11 -12)
اے ایمان والو! کیا میں تم کو ایسی تجارت نہ بتادوں جو تم کو ایک درد ناک عذاب سے بچا لے ۔ تم لوگ اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور جان سے جہاد کرو یہ تمھارے حق میں بہت بہتر ہے اگر تم سمجھ رکھتے ہو ۔ ( جب ایسا کرو گے تو ) اللہ تعالی تمھارے گناہ معاف کر دے گا اور تم کو جنت کے ایسے باغات میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور عمدہ مکانوں میں ( داخل کرے گا ) جو ہمیشہ رہنے کے باغوں میں ( بنے ) ہوں گے یہ بڑی کامیابی ہے ۔
اس طرح کی آیات بہت زیادہ ہیں ۔ پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جنت کا تذکرہ فرما کر جہاد کی ترغیب دی ہے۔ جیسا کی کئی احادیث پیچھے گزر چکی ہیں ۔

٭ امام تقی الدین ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے اسی مسئلے میں بطور دلیل وہ روایت پیش فرمائی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اٹھو اس جنت کی طرف جس کی چوڑائی آسمان و زمین جیسی ہے تو ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر ہاتھ سے کھجوریں پھینک دیں اور لڑتے ہوئے شہید ہوگئے ۔ ظاہر بات ہے کہ وہ جنت پانے کے لیے آگے بڑھے تھے ۔ [ یہ روایت بحوالہ صحیح مسلم پہلے گزر چکی ہے ]
علامہ ابن دقیق العید رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ شریعت نے یہ بات کھل کر سمجھا دی ہے کہ جنت کی خاطر کئے جانے والے اعمال بلا شبہہ اللہ کے نزدیک مقبول ہوتے ہیں کیونکہ خود اللہ تعالی نے لوگوں کو اعمال کی ترغیب دینے کے لیے جنت اور اس کی نعمتوں کا بار بار تذکرہ فرمایا ہے ۔ اور یہ محال ہے کہ اللہ تعالی خود کسی چیز کی ترغیب دے اور پھر اس چیز کی نیت کو غلط قرار دیا جائے ۔ ہاں اگر کوئی یہ کہے کہ بعض نیتیں اس سے افضل درجے کی ہیں تو یہ بات مانی جاسکتی ہے لیکن اس نیت کو غلط کہنا کسی طرح درست نہیں ہے ۔ ( احکام الاحکام) [ اس نیت کے درست ہونے پر مزید کچھ دلائل ملاحظہ فرمائیے ]
٭ حضرت شداد الہاد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر ایمان لے آئے اور انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اختیار فرمائی پھر انہوں نے کہا میں آپ کے ساتھ ہجرت کروں گا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کے ساتھ اچھا معاملہ کرنے کی تلقین فرمائی۔ جب خیبر کی لڑائی ہوئی تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مال غنیمت ملا تو اپ نے اسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں تقسیم فرمایا اور ان [ اعرابی ] کے لیے بھی حصہ رکھا اور وہ اس وقت اونٹ چرانے گئے ہوئے تھے ان کا حصہ ان کے ساتھیوں کو دے دیا گیا جب وہ واپس لوٹے تو ساتھیوں نے انہیں ان کا حصہ دیا تو انہوں نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ ساتھیوں نے بتایا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے لیے حصہ نکالا ہے ۔ وہ یہ مال لے کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یہ کیا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مال غنیمت میں سے تمھارا حصہ ہے ۔ انہوں نے کہا میں اس کے لیے تو آپ کے ساتھ نہیں آیا بلکہ میں تو اس لیے آیا ہوں کہ مجھے یہاں حلق میں تیر لگے اور میں شہید ہو کر جنت میں داخل ہو جاؤں ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم سچ کہتے ہو تو اللہ تعالی بھی تمھیں سچا کر ے گا تھوڑی دیر بعد دشمنوں سے لڑائی شروع ہو گئی ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان کو اٹھا کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے انہیں اسی جگہ تیر لگا تھا جہاں انہوں نے اشارہ کیا تھا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا یہ فلاں ہیں ۔ صحابہ نے عرض کیا جی ہاں ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس نے اللہ سے سچ بولا ۔ اللہ نے اسے سچا کر دیا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے جبے میں کفن دیا پھر آپ نے ان کی نماز جنازہ اداء فرمائی اور نماز کے دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاء میں یہ الفاظ سنے گئے ۔ اے میرے پروردگار یہ تیرا بندہ تیرے راستے میں ہجرت کرکے نکلا اور شہید ہوا میں اس کے لیے گواہی دیتا ہوں ۔ ( مصنف عبدالرزاق )
مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان صحابی نے جنت کی نیت فرمائی تھی اگر یہ نیت غلط ہوتی تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی اصلاح فرماتے جبکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ان کے لیے گواہی دے کر اس نیت کے درست ہونے پر مہر لگا دی ہے ۔
٭ حضرت عتبہ بن عبدالسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مقتول ہونے والے تین طرح کے ہیں ( 1 ) وہ مرد مؤمن جو اپنی جان اور مال سے اللہ کے راستے میں جہاد کرتا ہے جب اس کا دشمن سے سامنا ہوتا ہے تو ان سے لڑتے ہوئے شہید ہو جاتا ہے ۔ یہ وہ چنا ہوا شہید ہے جو عرش کے نیچے اللہ کی جنت میں ہو گا اور انبیاء کرام اپنے درجہ نبوت کی وجہ سے ہی افضل ہوں گے ( 2 ) وہ شخص جس نے علطیاں اور گناہ کئے [پھر ] اس نے اللہ کے راستے میں اپنی جان اور مال سے جہاد کیا جب اس کا دشمن سے سامنا ہوا تو وہ لڑتے ہوئے مارا گیا یہ قتل اس کے لیے پاکی ہوگی اور اس کے سارے گناہ مٹ جائیں گے بے شک تلوار گناہوں کو دھونے والی ہے ۔ یہ شخص جنت کے جس دروازے سے چاہے گا داخل کیا جائے گا بے شک جنت کے دروازے آٹھ ہے جبکہ جہنم کے سات اور ان میں سے بعض دروازے [ اور درجے ] بعض سے بڑھ کر ہیں ۔ ( 3 ) وہ منافق شخص جو اپنی جان اور مال کے ساتھ جہاد کرتا ہے اور جب دشمن سے سامنا ہوتا ہے تو لڑتے ہوئے مارا جاتا ہے یہ دوزخ میں جائے گا کیونکہ تلوار نفاق کو نہیں دھوتی ۔ ( کتاب الجہاد لابن المبارک ۔ مسند احمد )

اس روایت میں دوسرے نمبر والا شخص وہی ہے جو گناہوں اور خطاؤں کے ڈر سے جہاد میں نکلا اور اللہ تعالی نے اس کو بخشش فرما دی ۔
[ مصنف رحمہ اللہ نے اس موضوع پر اور بھی کچھ احادیث ذکر فرمائی ہیں جو پہلے بھی گزر چکی ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالی کے اجر و ثواب اور جنت کی امید میں اور اللہ تعالی کے عذاب اور اور دوزخ کے خوف سے جہاد کرنا حقیقی جہاد ہے اور اس نیت کے بارے میں کسی طرح کے شک و شبہے کی کوئی گنجائش نہیں ہے جو شخص جنت کی طلب میں جہاد کرتا ہے یقینی بات ہے کہ وہ اللہ پر یقین رکھتا ہے تبھی تو جنت کو مانتا ہے ورنہ اس نے خود تو جنت نہیں دیکھی اسی طرح اسے اللہ سے محبت ہے تبھی تو وہ اللہ کی بنائی ہوئی جنت پانے کے لیے جان و مال کا نذرانہ لے کر نکلتا ہے۔ اسی طرح وہ بندگی کے بھی اعلی مقام پر فائز ہے کیونکہ اللہ تعالی نے جنت حاصل کرنے ڈھونڈنے اور پانے کا حکم دیا ہے اور اس کے لیے محنت کرنے کی ترغیب دی ہے چنانچہ ایک سچا بندہ جنت کی جستجو کو اپنی بندگی کے لیے لازم سمجھتا ہے اسی طرح دوزخ سے ڈرنا اور اللہ کے عذاب سے بچنے کی کوشش کرنا بھی اللہ پر یقین اللہ سے محبت اور اللہ کی بندگی کی نشانی ہے ۔ یہ مسئلہ اتنا واضح ہے کہ اس میں کسی طرح کی دلائل یا بحث کی گنچائش نہیں ہے جہاں تک بعض مغلوب الحال اور نشہ توحید میں غرق صوفیہ اور مجاہدین کے ان اقوال کا تعلق ہے ۔ جن میں وہ جنت اور اس کے حوروں سے بے رغبتی اور اللہ تعالی کی رضا میں رغبت کا اظہار کرتے ہیں تو وہ ایک خاص کیفیت ہے جو کسی کسی پر طاری ہوجاتی ہے اور یہ بھی ضروری نہیں کہ یہ کیفیت بہت اعلی درجے کی ہو کیونکہ بعض لوگوں کا نفس حوروں اور جنت کے تذکرے کے بعد اللہ تعالی سے غافل ہونے لگتا ہے ایسے لوگ اپنی اصلاح کے لیے حوروں اور جنت سے بےرغبتی اور اللہ کی رضا میں رغبت کا اظہار کرتے ہیں ۔ ہاں بعض لوگوں کی یہ کیفیت بہت اعلی درجے کی بھی ہوتی ہے ۔ کیونکہ وہ اپنے اور محبوب حقیقی کے درمیان کسی طرح کا حجاب برداشت نہیں کرتے۔ بہر حال شریعت کے احکام کا تعلق کیفیات سے قطعاً نہیں ہے ۔ قرآن وحدیث جنت و جہنم کے تذکرے سے بھرے پڑے ہیں اور مقصد یہ ہے کہ انسانوں میں جنت کی طلب اور تڑپ اور جہنم کا خوف پیدا ہو چنانچہ جن کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر یقین ہوتا ہے ان میں جنت کی طلب اور جہنم کا خوف پیدا ہو جاتا ہے اور جنہں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر یقین ہی نہیں ہوتا وہ اس سے محروم رہتے ہیں معلوم ہوا کہ جنت کا شوق اور اسکی طلب پیدا کرنا مقصود ہے چنانچہ اس کی نیت سے کئے جانے والے اعمال بلا شبہ مقبول اعمال ہوتے ہیں ] ۔
مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان تین نیتوں کے درست ہونے میں کسی طرح کا کوئی شہبہ نہیں ہے البتہ پہلی دو نیتیں تیسری نیت کی بنسبت زیادہ افضل ہیں [ چنانچہ مجاہدین کو پہلی دو نیتیں کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ]۔
( 4 ) کچھ لوگ وہ ہیں جن پر اگر جنگ مسلط ہو جائے تو پھر وہ سینہ تان کر لڑتے ہیں اور پیٹھ نہیں پھیرتے اور ان کی نیت اپنی دفاع کرنے کی ہوتی ہے یہ شخص بھی اگر مارا گیا تو شہید ہوگا کیونکہ جب ڈاکوؤں سے اپنا دفاع کرتے ہوئے مارا جانے والا شہید ہے تو اس کے شہید ہونے میں کیا شبہہ ہے جسے دشمنان اسلام نے قتل کیا ہو لیکن اس صورت میں وہ آدمی جو جانتا ہو کہ گرفتار ہونے کی صورت میں وہ قتل نہیں کیا جائے گا اگر پھر بھی وہ گرفتار ہونے کی بجائے لڑتے ہوئے شہید ہو جائے اس آدمی سے افضل ہے جسے معلوم ہو کہ گرفتاری کی صورت میں وہ مارا جائے گا لیکن وہ آدمی جس کے لیے میدان سے فرار جائز نہ ہو اگر فرار ہوتے ہوئے مارا جائے تو وہ شہید نہیں ہے اگرچہ دنیاوی طور پر شہید کے احکام اس پر جاری ہوں گے [ یعنی غسل وغیرہ نہیں دیا جائے گا ] چونکہ میدان سے بھاگنا کبیرہ گناہ ہے اور اس سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پناہ مانگتے تھے اس لیے جو اس کا مرتکب ہو گا وہ شہادت کا مقام نہیں پائے گا ۔
( 5 ) کچھ لوگ جہاد میں صرف مجاہد کی تعداد بڑھانے کی نیت سے نکلتے ہیں ان کی نیت قتل ہونے یا قتل کرنے کی نہیں ہوتی ۔ یہ شخص بھی اگر مارا گیا تو شہید ہوگا کیونکہ جو کسی قوم کی جماعت بڑھاتا ہے وہ انہی میں سے ہوتا ہے ۔
٭ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : شہداء تین طرح کے ہیں ( 1 ) وہ شخص جو جان و مال کے ساتھ اللہ کے راستے میں نکلتا ہے وہ نہ لڑنے کی نیت رکھتا ہے نہ مارے جانے کی ۔ بس وہ مسلمانوں کی تعداد بڑھانا چاہتا ہے ۔یہ شخص اگر [ جہاد] میں انتقال کر گیا یا مارا گیا تو اس کے سارے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے اور اسے عذاب قبر سے بچا لیا جائے گا اور قیامت کے خوف سے محفوظ رہے گا اور حور عین سے اس کی شادی کر دی جائے گی اور اسے کرامت کا جوڑا پہنایا جائے گا اور اس کے سر پر ہمیشگی اور وقار کا تاج رکھ دیا جائے گا ۔ یہ مکمل حدیث ان شاء اللہ آگے آئے گی ( البزار ۔ بیہقی فی الشعب ۔ الترغیب والترہیب )
( ( 6 وہ شخص جو جہاد کرتا ہے اور اس کی نیت اللہ تعالی کی رضا بھی ہے اور غنیمت حاصل کرنا بھی ۔ اور اگر کہیں پر صرف جہاد کے لیے نکلنا پڑے اور غنیمت کا امکان نہ ہو تو وہ گھر نہیں بیٹھتا بلکہ جہاد میں نکل کھڑا ہوتا ہے ۔ البتہ اگر اسے ایسی دو جگہوں پر جہاد کا اختیار دیا جائے جن میں ایک جگہ زیادہ مال غنیمت ملتا ہے تو وہ زیادہ مال غنیمت والی جگہ کو اختیار کرتا ہے ۔ اس طرح کے نیت کے بارے میں ائمہ کرام کا اختلاف ہے ۔ بعض حضرات کے نزدیک یہ نیت فاسد اور غلط ہے اور ایسی نیت کرنے والا سزا کا مستحق ہو گا کیونکہ اس نے آخرت کے عمل میں دنیا کی نیت شامل کر لی ہے ۔
جبکہ دوسرے حضرات کے نزدیک یہ نیت درست ہے اور یہی قول صحیح ہے اور امام غزالی رحمہ اللہ نے بھی یہی قول اختیار فرمایا ہے اور وہ اپنی کتاب احیاء العلوم الدین میں لکھتے ہیں ؛
""عام طور پر مجاہدین جہاد اور غنیمت کے درمیان فرق نہیں کر سکتے کیونکہ جہاد میں بکثرت غنیمت ملتی ہے چنانچہ ان کا مقصود تو اعلاء کلمۃ اللہ ہوتا ہے جبکہ غنیمت کا خیال بطور تابع کے ہوتا ہے اسی لیے اگر اسے غنیمت نا بھی ملے تب بھی جہاد نہیں چھوڑتا ہاں اتنا ضرور ہے کہ ایسے آدمی کا ثواب اس آدمی سے کم ہوتا ہے جو بالکل غنیمت کی طرف التفات ہی نہیں کرتا کیونکہ غنیمت کی طرف تھوڑا سا دھیان جانا بھی بہر حال ایک نقصان کی بات ہے "" ۔ ( احیاء العلوم الدین)
امام غزالی رحمہ اللہ کے اس قول سے یہی ثابت ہوا کہ یہ نیت بھی درست ہے اور جو اس نیت سے نکل کر مارا جائے وہ شہید ہو گا لیکن اس کا رتبہ پہلی تین نیتوں والوں سے کم ہو گا ۔
امام قرطبی رحمہ اللہ نے بھی اس نیت کو درست قرار دیا ہے ۔ اور انہوں نے بطور ثبوت غزوہ بدر کا واقعہ پیش فرمایا ہے کہ اس دن ابو سفیان کی تجارتی قافلے پر حملے کا اردہ تھا اور یہ بھی کہ مال غنیمت ایک حلال مال ہے ۔ اور جن احادیث میں دنیا کی طلب کے لیے لڑنا منع ہے ان کی مراد یہ ہے کہ اگر صرف مال غنیمت ہی کی نیت ہو اور کوئی دینی مقصد نہ ہو تب وہ جہاد درست نہیں ہوگا ۔ ( تفسیر القرطبی )
٭ مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام قرطبی کی دلیل بہت اچھی [ اور سمجھ میں آنے والی ] ہے ۔
اسی طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو قریش کے ایک قافلے پر حملے کے لیے بھیجا تھا ۔ اس قافلے میں صفوان بن امیہ ، حاطب بن عبدالعزی اور عبداللہ بن ابو ربیعہ تھے اور ان کے ساتھ بہت زیادہ مال اور تیس ہزار درہم کی مقدار چاندی تھی اور ان کا رہبر فرات بن حیان تھا۔ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے نجد میں قرد نامی مقام پر اس قافلے پر حملہ فرمایا آپ اس قافلے کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے لیکن دشمن کے بڑے بھاگ گئے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم غنیمت لے کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے آپ نے اس میں بیس ہزار درہم خمس نکالا اور باقی مال [ اسی ہزار درہم ] مجاہدین میں تقسیم فرما دیا فرات بن حیان جو گرفتار ہوئے تھے وہ مسلمان ہو گئے۔ (طبقات ابن سعد )
اسی طرح یہ بات بھی اس نیت کی درستگی کے ثبوت میں پیش کی جاسکتی ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں کئی جگہ پر ایمان والوں کو خود مال غنیمت کی ترغیب دی ہے مثلاً ارشاد باری تعالی ہے :
[arabic]وَعَدَ کُمُ اللہُ مَغَا نِمَ کَثِیۡرَ ۃ تَا خُذُوۡنَھَا۔ [/arabic]( الفتح ۔ 20 )
اللہ تعالی نے تم سے ( اور بھی ) بہت سی غنیمتوں کا وعدہ فرمایا ہے جن کو تم لوگے ۔
اس نیت کے درست ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کے اموال ، مویشی اور تجارتی قافلوں پر حملے کے لیے باقاعدہ کئی بار سریے روانہ فرمائے صحابہ کرام کی یہ جماعتیں اللہ تعالی کے کلمے کی بلندی کے لیے اور مشرکین سے ان کے اموال چھیننے کے لیے حملہ کرتی تھیں بعض اوقات انہیں فتح ملتی تھی اور وہ مال و دولت پر قبضہ کر لیتے تھے جبکہ بعض اوقات اس کے برعکس معاملہ ہوتا تھا اور ان میں سے کئی حضرات شہید ہو جاتے تھے جیسا کہ سیر اور مغازی کی کتابوں میں تفصیلی واقعات مذکور ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جب مشرکوں پر حملہ فرماتے تھے اور مشرک شکست کھا کر بھاگ جاتے تھے تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ان کا پیچھا کرنے کی بجائے ان کے اموال لے کر واپس آجاتے تھے ۔
امام ابوداؤد نے [ اپنی مشہور کتاب ] سنن ابی داؤد میں باب باندھا ہے ۔ "" باب اس شخص کے بارے میں جو اجر اور غنیمت دونوں کی نیت سے جہاد کرتا ہے "" اس کے بعد انہوں نے یہ روایت فرمائی ہے ۔
٭ حضرت عبداللہ بن حوالہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں روانہ فرمایا تاکہ ہم مال غنیمت حاصل کریں [مگر ] ہم بغیر غنیمت حاصل کئے واپس آگئے اور مشقت کے آثار ہمارے چہروں پر نظر آ رہے تھے ۔ ( ابوداؤد)
اس حدیث شریف میں یہ الفاظ کہ ہمیں غنیمت پانے کے لیے بھیجا ہمارے موقف کی دلیل بنتے ہیں جہاں تک حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ والی روایت کا تعلق ہے جس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے لیے جو جہاد میں دنیا کمانے کی نیت سے نکلے ارشاد فرمایایا لا اجر لہ کہ اس کے لیے کوئی اجر نہیں ۔ امام ابوداؤد نے یہ ارشاد حضرت عبداللہ بن حوالہ والی روایت سے پہلے ذکر فرمایا ہے جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ وعید اس شخص کے لیے ہے جو جہاد میں صرف دنیا کمانے کی نیت سے نکلتا ہے اور اللہ کی رضا کی نیت نہیں کرتا ۔ اس کے بعد حضرت عبداللہ بن حوالہ کی روایت لاکر ثابت کر دیا کہ جو شخص اللہ کی رضا کی نیت بھی رکھے اور غنیمت بھی چاہتا ہو تو یہ نیت درست اور عنداللہ مقبول ہے۔
امام بیہقی نے بھی اسی طریقے سے ان دونوں احادیث کو ذکر فرمایا ہے اور اس سے بھی ہمارے موقف کی تائید ہوتی ہے ۔ [ اس نیت کے درست ہونے پر مزید دلائل ملاحظہ فرمائیے]۔
٭ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تم لوگ جہاد کرو غنیمت پاؤ گےروزے رکھو صحت پاؤ گے، اور سفر کرو مستغنی ہو جاؤ گے ۔ [ الطبرانی فی الاوسط)
٭ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی روایت پہلے گزر چکی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں قریش کے قافلے پر حملے کے لیے بھیجا۔ ہم تین سو افراد تھے اور ہمارے امیر حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ تھے اور ہم ساحل سمندر پر پندرہ دن پڑے رہے اور شدید بھوک کی وجہ سے پتے کھانے پر مجبور ہوئے ۔ ( مسلم )
٭ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتےہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تم پر تاریکی کے ٹکڑے کی طرح فتنے چھا جائیں گے اور لوگوں میں سب سے زیادہ ان فتنوں سے بچنے والا وہ شخص ہو گا جو پہاڑ کی چوٹی پر اپنے مویشیوں سے حاصل شدہ روزی کھائے گا اور وہ شخص ہو گا جو راستوں کے پیچھے اپنے گھوڑے کی لگام پکڑے ہوگا اور اپنی تلوار کی روزی [ مال غنیمت میں سے ] کھاتا ہو گا ۔ ( المستدرک)
 
٭ حضرت زیدبن اسلم رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تم جہاد کرو گے صحت اور غنیمت پاؤ گے ۔ ( مصنف ابن ابی شیبہ)
٭ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالی نے اس امت کی روزی ان کے گھوڑوں کے سموں اور نیزوں کی سروں میں رکھی ہے جب تک وہ کھیتی باڑی میں مشغول نہیں ہو جائیں گے اور جب کھیتی باڑی میں مشغول ہو جائیں گے تو عام لوگوں کی طرح ہو جائیں گے۔ ( مصنف ابن ابی شیبہ ، ہذان الحدیثان مرسلان و اسناد الثانی جید)

٭ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اک بار اپنے صحابہ کرام رضوان للہ علیہم اجمعین کے ساتھ جہاد میں نکلے تو آپ کا گزر ایک اعرابی کے خیمے کے پاس سے ہوا ۔ اعرابی نے خیمے کا ایک کونہ ہٹا کر پوچھا یہ کون لوگ ہیں ۔ جواب ملا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ جہاد میں جا رہے ہیں ۔ اس نے پوچھا کہ انہیں دنیا کا کچھ مال ہاتھ لگے گا جواب ملا ہاں انہیں غنیمت ملے گی جو مسلمانوں کے درمیان بانٹ دی جائے گی اس نے اپنے اونٹ کو لگام ڈالی اور لشکر کے ساتھ چل پڑا اور وہ اپنے اونٹ کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب لاتا تھا تو صحابہ کرام رضوان اللہ اس کے اونٹ کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دور ہٹاتے تھے ۔ اس پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اس نجدی کو میرے طرف آنے دو ۔ قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے یہ تو جنت کے بادشاہوں میں سے ہے ۔ راوی فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کا دشمن کے ساتھ مقابلہ ہوا تو یہ اعرابی [ لڑتا ہوا ] شہید ہوگیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع دی گئی تو آپ تشریف لائے اور اسکے سر کے پاس خوشی سے مسکراتے ہوئے بیٹھ گئے پھر اچانک آپ نے چہرہ مبارک پھیر لیا ہم [ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم ] نے عرض کیا ہم نے آپ کو خوشی سے مسکراتے دیکھا پھر آپ نے چہرہ مبارک پھیر لیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میرا مسکرانا اور خوش ہونا تو اللہ تعالی کے ہاں اس کے اعزاز و اکرام کو دیکھ کر تھا اور چہرہ میں نے اس لیے پھیر لیا کہ اس کی بیوی حور عین اس وقت اس کے سر کے پاس ہے ۔ ( بیہقی فی شعب الایمان)

٭ ان روایات سے یہ بات توثابت ہو گئی کہ اگر جہاد میں مقصود اللہ تعالی کی رضاء ہو اور اس کے ساتھ غنیمت کا بھی اردہ ہو تو یہ نیت درست ہے لیکن یہ بات بھی ثابت ہے کہ غنیمت کو پانے یا اس کا ارادہ رکھنے سے جہاد کے اجر میں کمی آجاتی ہے جیسا کہ پہلے صحیح احادیث گزر چکی ہیں کہ جسے مال غنیمت مل جاتا ہے اسے اپنے اجر کا دو تہائی حصہ دنیا میں مل جاتا ہے اور جن کو مال غنیمت نہیں ملتا وہ اپنا پورا اجر پا لیتے ہیں ۔ ( بحوالہ صحیح مسلم )

یہی وجہ ہے کہ ماضی میں ہمارے اسلاف میں سے کئی حضرات مال غنیمت سے بچنے کی کوشش کرتے تھے ان میں حضرت ابراھیم بن ادھم بھی تھے وہ جہاد کرتے تھے مگر مال غنیمت نہیں لیتے تھے۔ جب ان سے کہا جاتا تھا کہ کیا آپ کو اس کے حلال ہونے میں شک ہے تو فرماتے تھے زہد تو حلال ہی میں ہوتا ہے ۔ اسی طرح کے کسی مجاہد نے اشعار کہے [ جن کا مفہوم یہ ہے ]۔

اے مالک کی بیٹی اگر تو نہیں جانتی تو لشکر والوں سے کیوں نہیں پوچھتی
وہ تجھے بتائیں کہ میں جنگ کے وقت لڑائی پر چھا جاتا ہوں لیکن مال غنیمت
سے بچتا ہوں۔​
مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ مال غنیمت کو دنیا سے بے رغبتی اور آخرت کا اجر پانے کے لیے چھوڑ دینا ایک افضل عمل ہے اسی طرح اپنے دل سے مال کی لالچ نکالنے کے لیے مال غنیمت سے بچنا بھی اچھاہے البتہ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ بعض اوقات میں بعض افراد کے لیے مال غنیمت نہ لینا افضل ہوتا ہے تو بعض اوقات میں بعض افراد کے لیے غنیمت لے لینا زیادہ افضل ہوتا ہے چونکہ اس مسئلے کی تفصیلات بہت زیادہ ہیں اور حالات اور افراد کے اعتبار سے یہ مسئلہ بدلتا رہتا ہے اس لیے ہم اسے ذکر نہیں کر رہے اسی طرح یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ بعض اوقات مال غنیمت نہ لینے کے پیچھے دکھاوے اور ریاکاری کا دسیسہ چھپا ہوا ہوتا ہے اس لیے اپنی نیت کو اچھی طرح جانچنے اور درست کرنے کی سخت ضرورت ہے ۔
( 7 ) بعض لوگ جہاد کرتے ہیں اور ان کی نیت صرف دنیا کمانا ہوتا ہے چنانچہ اگر انہیں ایسی جگہ جہاد کے لیے بلایا جائے جہاں مال غنیمت ملنے کا امکان نہ ہو تو وہ تیار نہیں ہوتے ایسے لوگ اگر جہاد میں مارے گئے تو وہ شہید نہیں ہوں گے اور انہیں جہاد کا اجر بالکل نہیں ملے گا اس کے بارے میں کئی احادیث پیچھے گزر چکی ہیں ۔
( 8 ) بعض لوگ ریاکاری اور فخر کے لیے لڑتے ہیں اور ان کے دل میں عبادت اور اللہ تعالی سے اجر کا خیال تک نہیں ہوتا بلکہ وہ صرف مجاہد یا بہادر کہلانے کے لیے جہاد میں نکلتے ہیں یہاں تک کہ اگر انہیں معلوم ہو جائے کہ ان کی تعریف نہیں کی جائی گی تو وہ جہاد ہی چھوڑ دیں ایسے لوگ بھی اگر جہاد میں مارے گئے تو وہ ہر گز شہید نہیں ہوں گے بلکہ یہی مقتول ان تین میں سے ایک ہے جن کے ذریعے سب سے پہلے دوزخ کی آگ بھڑ کائی جائے گی ایسا شخص اللہ کے غصے اس کی ناراضگی اور درد ناک عذاب کا مستحق ہے کیونکہ وہ ایک عبادت والا کام اللہ کے لیے کرنے کی بجائے اپنی ذات کے لیے شہرت ناموری اور فخر کے لیے کرتا ہے چنانچہ وہ ایک طرح کے شرک میں مبتلا ہوتا ہے ۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تھوڑی سی ریا کاری بھی شریک ہے ۔ ( ابن ماجہ ۔ المستدرک)
جب تھوڑا سا دکھاوا شرک ہے تو پھر زیادہ دکھاوا اور وہ بھی مرتے وقت کتنا خطرناک ہو گا ؟ اے اللہ ہم تیری ناراضگی والے کاموں سے پناہ مانگتے ہیں ۔
( 9 ) اور اگر جہاد میں نیت یہ ہو کہ اللہ تعالی سے اجر بھی ملے اور لوگوں میں اس کے جہاد اس کی بہادری اور شجاعت کا تذکرہ بھی چنانچہ وہ ایسی جگہ جہاد نہ کرے جہاں شہرت ملنے کا امکان نہ ہو ایسا شخص بھی شہید نہیں ہے اس بارے میں روایات پہلے گزر چکی ہیں ۔ البتہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر اس کے دل میں اجر کی نیت زیادہ ہوگی تو اسے اجر ملے گا لیکن پہلا قول زیادہ درست ہے کیونکہ قیامت کے دن ریاکار کو کہہ دیا جائے گا کہ اپنے عمل کا اجر انہیں سے وصول کرو جن کے لیے تم نے یہ عمل کیا تھا ۔ ( ترمذی )
( 10 ) اگر کوئی شخص اس نیت سے جہاد کرے تاکہ اسے بے بسی قرضے محتاجگی یا کسی مصیبت سے نجات مل جائے [ یعنی وہ شخص کسی مصیبت بیماری یا قرضے میں مبتلا ہے اب وہ جہاد میں نکلتا ہے تاکہ شہید ہو کر اس کی جان چھوٹ جائے ] اور اس کے دل میں اللہ کی رضا جوئی یا اس کے کلمے کو بلند کرنے کی نیت ہر گز نہیں ہوتی ایسی نیت کے بارے میں بھی دو قول ہیں زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ ایسا شخص شہید ہوگا کیونکہ اس نے موت کے لیے غلط راستہ [خودکشی وغیرہ] چننے کی بجائے جہاد کو اختیار کیا اور اس کے دل میں جہاد پہلے سے موجود ہے بس یہی اس کی شہادت کے لیے کافی ہے ۔ لیکن ایسے شخص کو شہیداء اولین مخلصین کا مقام نصیب نہیں ہوگا ۔

مجاہد کے لیے اجرت یا وظیفے کا مسئلہ

[ چونکہ یہ مسئلہ بہت اہم ہے اس لیے ہم مصنف رحمہ اللہ کی تقریر کے علاوہ بعض دیگر کتب کے تعاون سے اس مسئلے کی تفصیلات کو ترتیب وار بیان کرتے ہیں ]
( 1 ) جُعل اسے کہتے ہیں کہ مسلمانوں کا امیر گھر بیٹھے ہوئے لوگوں کے ذمے مجاہدین کے تعاون کے لیے کچھ مال مقرر کر دے اور یہ اعلان کر دیا جائے کہ جو جہاد میں نکلنا چاہتا ہے نکلے اور جو نہیں نکلنا چاہتا وہ مجاہدین کے لیے اتنا مال دے ۔ عام حالات میں یہ مکروہ ہے لیکن اگر بیت المال خالی ہو یا بیت المال ہی نہ ہو اور مسلمانوں کو اس کی ضرورت ہو تو یہ جائز ہے کراہیت کی وجہ یہ ہے کہ یہ اجرت کے مشابہ ہے لیکن چونکہ جہاد کو قائم رکھنا ضروری ہے اس لیے بوقت ضرورت اس کی اجازت ہے جیسے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صفوان سے تیس زرہیں لی تھیں ۔ ( ابوداؤد ۔ نسائی )
( 2 ) اگر لوگوں پر مال کو لازم نہ کیا جائے بلکہ انہیں صرف ترغیب دی جائے تو اس میں کوئی کراہت نہیں ہے بلکہ اس کے فضائل مجاہدین کو سامان دینے کے باب میں گذر چکے ہیں ۔

٭ اسی طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ مجاہد کو اس کا اپنا اجر ملتا ہے جبکہ مال دینے والے کو اپنا اجر بھی ملتا ہے اور مجاہد کا بھی ۔ ( ابوداؤد)
(3 ) اگر کوئی شخص صرف وظیفے یا تنخواہ کے لیے جہاد میں نکلے اس طور پر کہ اگر اسے تنخواہ نہ دی جائے تو وہ جہاد نہیں کرے گا تو ایسا شخص نہ تو مجاہد ہے اور نہ وہ مرنے کی صورت میں شہید ہوگا ۔
( 4 ) وہ شخص جو اعلان کرے کہ میں اتنے پیسے لے کر جہاد میں نکلنے کے لیے تیار ہوں کون ہے جومیری خدمت حاصل کرے یا کون شخص ہے جو اتنی رقم دے کر اپنی طرف سے مجھے جہاد میں بھیجے ایسا شخص بھی مجاہد نہیں ہے اور اس کے لیے بھی کوئی اجر یا شہادت نہیں ہے ۔
( 5) اگر کوئی شخص فقیر ہے اور اس کے پاس جہاد میں خرچ کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے ایسے شخص کے لیے وظیفہ لینا جائز ہے بشرط یہ کہ اس کی نیت یہ ہو کہ اگر میرے پاس ذاتی رقم آگئی تو میں وظیفہ نہیں لوں گا بلکہ بغیر وظیفے کے جہاد کرتا رہوں گا ایسا شخص بہر حال مجاہد ہے اور اس کے لیے اجر بھی ہے اور شہادت بھی ۔
( 6 ) ایک آدمی جہاد میں محض اللہ تعالی کی رضا کے لیے نکلتا ہے مگر پھر امیر کی طرف سے اسے جہاد کے دوران خرچہ وغیرہ یا اس کے گھر والوں کا نقفہ وغیرہ دیا جاتا ہے تو اس کے لیے یہ خرچ لینا جائز ہے لیکن اگر خرچہ نہ ملنے کی صورت میں وہ جہاد چھوڑ دے تو پھر اس کی نیت مشکوک ہے اسی طرح مالدار آدمی کو اپنےلیے اور اپنے اہل و عیال کے لیے خرچہ لینے سے بچنا چاہیے کیونکہ جہاد تو محض اللہ تعالی کی رضا کے لیے کیا جاتا ہے اور جہاد کا مقصد جان و مال کی قربانی ہے نہ کہ مال کمانا اور جان کو پالنا۔
( 7 ) جو مجاہد ضرورت کی وجہ سے خرچہ لیتے ہیں ان کی مثال زبان نبوت سے ملاحظہ کیجئے:

٭ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : وہ لوگ جو میری امت میں سے جہاد کرتے ہیں اور وظیفہ لیتے ہیں اور اس وظیفے کے ذریعے دشمن کے خلاف طاقت حاصل کرتے ہیں ان کی مثال حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ جیسی ہے جو اپنے بیٹے کو دودھ پلارہی تھیں اور خرچہ بھی لے رہی تھیں [ کیونکہ فرعون نے ان کے لیے دودھ پلانے کا وظیفہ مقرر کر دیا تھا ]
( 8 ) اگر کوئی آدمی اجرت لے کر میدان جہاد میں پہنچا مگر وہاں اس کے دل میں اخلاص پیدا ہو گیا تو اسے لڑنے کا اجر اور مرنے کی صورت میں شہادت کا مقام ملے گا ۔
( 9 ) وہ شخص جسے جہاد کے کسی اور کام مثلاً سامان اٹھانے وغیرہ پر مزدور رکھا گیا مگر وہ اس کام کے علاوہ لڑائی میں بھی شریک ہو گیا تو اسے جہاد کا اجر اور شہادت کا مقام ملے گا ۔ یہی حکم تاجروں اور کاریگروں کا بھی ہے ۔
( 10 ) وہ مجاہد جو اخلاص کے ساتھ جہاد میں نکلا تھا مگر پھر مال ہی اس کا مقصود بن گیا اس طور پر کہ اگر اسے مال یا وظیفہ نہ ملے تو وہ جہاد چھوڑ دے یہ وہ بد قسمت شخص ہے جس نے اپنے عمل کو تباہ کر دیا ۔ اور جہاد جیسے عظیم عمل کو حقیر دنیا کے بدلے بیچ دیا ۔ اللہ تعالی ہم سب مسلمانوں کی حفاظت فرمائے ۔ [آمین ]
اہم فصل
وہ شخص جو اخلاص کے ساتھ نکلا تھا مگر پھر وہ دکھاوے ریا کاری [ اور شہرت پسندی] میں مبتلا ہو گیا تو اس کا کیا حکم ہے ؟ [ ہم اس مسئلے کو ترتیب سے عرض کرتے ہیں ]
( 1 ) اگر ریا کاری اور دکھلاوے کی نیت پیدا ہونے سے پہلے وہ کچھ جہادی اعمال اخلاص کے ساتھ کر چکا ہے تو ان سابقہ اعمال کا اجر اسے ملے گا ۔ لیکن اگر ان سابقہ اعمال کو بھی دکھلاوے اور شہرت کے لیے استعمال کر رہا ہے تو وہ اعمال بھی برباد اور موجود بھی برباد ہو جائیں گے۔
( 2 ) اگر کسی نے ریاکاری کی نیت سے پہلے کوئی عمل نہیں کیا بلکہ جیسےہی جہاد میں نکلا اور لوگوں کے اکرام کو دیکھا تو اسے لوگوں کو اپنے ماحول بتلانے سے خوشی محسوس ہونے لگی اور لوگوں کی تعریف سے اسے سکون ملنے لگا اور اس کی نظر اللہ تعالی کی رضا جوئی سے ہٹ گئی تو اس کا تمام عمل برباد ہوگیا اور وہ اللہ کی ناراضگی اور اس کے عذاب کا مستحق بن گیا ۔
( 3 ) اگر کسی کو ریاکاری کا خیال پیدا ہوگیا لیکن اس کی کار گزاری لوگوں کو معلوم نہ ہوسکی مگر پھر بھی وہ جہاد میں لگا رہا تو اس کا عمل ان شاء اللہ مقبول ہوگا کیونکہ حقیقت میں وہ اللہ تعالی کے لیے جہاد کر رہا ہے ۔اسی لیے لوگوں کو اطلاع نہ ہونے کے باوجود ڈٹا ہوا ہے ۔
( 4 ) اگر اللہ کی رضا کے لیے جہاد شروع کیاتھا مگر جب لڑائی شروع ہوئی تو اس کو یہ نیت یاد نہ رہی اور نہ ہی اسکے علاوہ کوئی اور غلط نیت پیدا ہوئی تو ایسے شخص کے لیے پہلی نیت ہی کافی ہے چنانچہ اسے اجر بھی ملے گا اور شہادت بھی ۔
( 5 ) اگر ایک شخص اخلاص کے ساتھ جہاد میں نکلا اور لڑائی شروع ہوتے وقت تک اس کی نیت یہی رہی مگر جب لڑائی شروع ہوئی تو وہ ڈر گیا اور اس کے دل میں بزدلی آگئی لیکن اب وہ لوگوں سے شرم کی وجہ سے پیچھے نہیں ہٹتا اگر اسے اندھیرا یا لوگوں کی نظروں سے بچ کر بھاگنے کا موقع مل جاتا تو وہ بھاگ جاتا لیکن وہ اس لیے نہیں بھاگتا کہ لوگ اسے بزدل اور شکست خوردہ بھگوڑا کہیں گے چنانچہ وہ لڑتا ہوا مارا گیا تو ایسے شخص پر افسوس کے آنسو بہانے چاہئیں کیونکہ اس نے محض لوگوں کی خاطر جان جیسا قیمتی سرمایہ قربان کر دیا ۔ پس ایک مجاہد پر لازم ہے کہ اپنے اندر اخلاص پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کرے اور اگر اس میں کچھ کمی ہے تو اسے اللہ تعالی کے سامنے اس طرح گڑگڑانا چاہئے جس طرح سے پانی میں دوڑتا شخص گڑگڑاتا ہے ممکن ہے اللہ تعالی اس پر رحم فرما دے اور اسے اخلاص کی دولت عطاء فرما دے۔
فصل
اگر ایک شخص نے اخلاص کے ساتھ جہاد کر لیا مگر بعد میں اسے یہ شوق پیدا ہوگیا کہ لوگ اس کے جہاد کو جانیں اور اس کی بہادری اور کارنامے لوگوں کو معلوم ہو جائیں۔
امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ چیز بھی خطرناک ہے بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حالت اس کے عمل کو ضائع کرنے والی ہے ۔
٭ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کے بارے میں سنا کہ وہ کہتا ہے میں نے رات کو سورۃ البقرہ پڑھی تھی فرمایا بس اسے یہی کچھ مل گیا [ یعنی لوگوں کو پتہ چل گیا یہی اس کی تلاوت کا بدلہ ہے ] ( احیاء علوم الدین )

٭ اسی طرح ایک شخص نے کہا کہ میں نے زندگی بھر روزہ رکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا : تونے نہ روزہ رکھا نہ افطار کیا [ یعنی تجھے کچھ اجر نہیں ملا ]۔ ( مسلم )
بہر حال چونکہ یہ ایک خطرناک بات ہے اس لیے ہر مسلمان کو چاہئے کہ جہاد اور اپنے دوسرے نیک اعمال کا تذکرہ نہ کیا کرے تاکہ اس کے عمل کے ضائع ہونے کا خطرہ نہ رہے ۔ لیکن اگر اپنے عمل کا تذکرہ کرنے سے مقصود یہ ہو کہ لوگ اس عمل کی طرف راغب ہوں اور دوسرے مسلمانوں کو بھی جہاد کی ترغیب ہو اور ان کے دل میں بھی قوت اور سخاوت پیدا ہو تو پھر تذکرہ کرنے میں حرج نہیں ہے ۔
ہمارے اسلاف کا واقعات بیان کرنے سے یہی مقصد ہوتا تھا اور اس صورت میں بھی زیادہ احتیاط والی بات یہ ہے کہ اپنے واقعات اپنے اوپر چسپاں کرنے کی بجائے یوں بیان کرے کہ ایک مجاہد کا واقعہ یوں ہے ایک شخص نے اپنا مال اتنا خرچ کیا وغیرہ وغیرہ ، اگر اس طرح واقعات سنانے سے ترغیب اور دعوت کا مقصد پورا ہو سکتا ہو تو پھر اپنا نام نہ لے بلکہ اسے مخفی رکھے ہمارے اکثر اسلاف کا طریقہ یہی رہا ہے کیونکہ ریاکاری کے بارے میں آیا ہے کہ وہ چیونٹی کی چال سے زیادہ چپکے سے انسان کے دل میں داخل ہو جاتی ہے ۔ ( مجمع الزوائد)
٭ ایک حدیث میں آیا ہے کہ جو لوگوں کو سنانے کے لیے عمل کرتاہے اللہ تعالی اس کی یہ نیت لوگوں پر ظاہر فرماکر اسے حقیر و ذلیل کر دیتا ہے ۔ ( الطبرانی فی الکبیر)

ایسی ہی روایت بخاری اور مسلم میں بھی آئی ہے انہیں احادیث و روایات کو سامنے رکھتے ہوئے ہمارے بہت سارے اکابر ریاکاری کے خوف سے اپنے اعمال کو چھپانے کے لیے سخت محنت فرماتے تھے [ اس سلسلے میں بطور مثال دو واقعات ملاحظہ فرمائیے ]
واقعہ نمبر 1
عبداللہ بن سنان رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں طرسوس [نامی مقام ] پر جہاد میں حضرت عبداللہ بن مبارک اور معتمر بن سلیمان کے ساتھ تھا اچانک دشمن کے ساتھ لڑائی شروع ہو گئی تو حضرت عبداللہ بن مبارک اور حضرت معتمر بن سلیمان بھی لشکر میں نکل کھڑے ہوئے ۔ جب مسلمانوں اور دشمنوں کی صفیں آمنے سامنے آگئیں تو رومیوں کی طرف سے ایک شخص نے نکل کر مقابلے کی دعوت دی ایک مسلمان آگے بڑھا مگر رومی نے شدید حملہ کرکے اسے شہید کر دیا اور پھر اس نے مقابلے کی دعوت دی اسی طرح سے اس نے یکے بعد دیگرے چھ مسلمان شہید کر دئیے وہ رومی دونوں لشکروں کے درمیان اکڑ کر چل رہاتھا اور بار بار مقابلے کی دعوت دے رہاتھا مگر کوئی اس کے مقابلے میں نہیں نکل رہا تھا یہ دیکھ کر حضرت عبداللہ بن مبارک میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمانے لگے اگر میں شہید ہوگیا تو تم فلاں فلاں کام کر لینا پھر انہوں نے گھوڑے کو ایڑی لگائی اور اس رومی کے سامنے جا پہنچے۔ تھوڑی دیر تک مقابلہ ہوا اور حضرت نے اس رومی کو قتل کر دیا اور پھر مقابلے کی دعوت دی مگر رومی آپ سے سخت خوف زدہ ہو کر پیچھے ہٹ چکے تھے ۔ یہ دیکھ کر حضرت عبداللہ بن مبارک نے اپنے گھوڑے کو دوڑایا اور کہیں غائب ہو گئے اچانک میں نے انہیں اپنی سابقہ جگہ پر کھڑا ہوا پایا ۔ وہ مجھے فرما رہے تھے اے عبداللہ بن سنان اگر تم نے میری زندگی میں یہ واقعہ کسی کو سنایا تو پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عبداللہ بن سنان کہتے ہیں کہ میں نے ان کی زندگی میں یہ واقعہ کسی کو نہیں سنایا ۔ ( ابن عساکر )
واقعہ نمبر 2
مسلمہ بن عبدالملک نے دشمن کے ایک قلعے کا محاصرہ کیا مگر انہیں سخت مشقت اور تکلیف اٹھانی پڑی [ اور قلعہ فتح نہیں ہوا ] اچانک لوگوں نے قلعے میں ایک سوراخ دیکھ لیا مگر کوئی اس میں داخل نہیں ہو سکتا تھا لشکر میں سے ایک شخص [مثالی بہادری کا ثبوت دیتے ہوئے ] اس سوراخ میں داخل ہوگیا اور اس نے قلعے کا دروازہ کھول دیا اور مسلمانوں نے قلعہ فتح کر لیا [ جنگ کے بعد ] مسلمہ بن عبدالملک نے اعلان کر وایا کہ وہ شخص جس نے یہ کارنامہ سر انجام دیا ہے آگے آئے مگر تین بار اعلان کے باوجود کوئی نہیں آیا جب چوتھی بار منادی کرائی گئی تو ایک شخص آیا اور کہنے لگا امیر صاحب میں وہ شخص ہوں پھر وہ قسمیں دے کر کہنے لگا اللہ کے لیے میرا نام کار گزاری میں نہ لکھئے اور نہ مجھے کوئی انعام دیجئے اور نہ مجھے اپنے کام سے ہٹایئے۔ مسلمہ بن عبدالملک نے کہا ٹھیک ہے ہم ایسا ہی کریں گے پھر وہ شخص غائب ہو گیا اور اس کے بعد نظر نہ آیا اور مسلمہ بن عبدلملک ہر نماز کے بعد دعاء میں کہتے تھے اے میرے پروردگار مجھے اس شخص کے ساتھ شامل فرما دیجئے۔
مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اکابر کے اس طرح کے واقعات بہت زیادہ ہیں اور اللہ تعالی ہی اس کی توفیق عطاء فرمانے والا ہے ۔
[ یہ اس کتاب کا اہم ترین باب ہے بلکہ اگر اسے پوری کتاب کا مغز کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا ۔ حضرات مجاہدین کو کم از کم ہر مہینے اس باب کو اکھٹے بیٹھ کر پڑھنا چاہئے اور مجاہدین کی ٹریننگ کے دوران روزانہ بلا ناغہ اس باب کا کچھ حصہ پڑھ کر سنانا چاہئے مجاہدین کے دفاتر میں بھی اس کی تعلیم کرانی چاہئے اور جو مجاہدین حکومتی عہدوں پر فائز ہوں وہ بھی اپنے اجلاسوں کے دوران اس باب کو پڑھا کریں اس باب کو پڑھنے کی اتنی زیادہ تلقین اور تاکید اس لیے کی جا رہی ہے کہ یہی باب چند وجوہات کی بناء پر مجاہدین کی اہم ترین ضرورت ہے ۔
مجاہدین کی اہم ترین ضرورت
( 1 ) مجاہدین اللہ کے لیے اپنے گھر بار اور عیش و آرام کو چھوڑتے ہیں مگر شیطان کی کوشش ہوتی ہے کہ ان میں ریاکاری پیدا ہو جائے اور مجاہدین کی دنیا آخرت دونوں تباہ ہو جائیں اس باب کی تعلیم اور مطالعہ مجاہد کو یہ بات یاد دلائے گا کہ وہ اپنے عمل کو ان انسانوں کے درمیان عزت پانے کے لیے تباہ نہ کریے جو نہ نفع دے سکتے ہیں اور نہ نقصان اور جن کے ہاں عزت بھی عارضی ہوتی ہے کیونکہ جو لوگ عزت سے جوتے اٹھاتے ہیں وہی بد گمان ہونے کے بعد جوتے سر میں مارنے سے دریغ نہیں کرتے۔
( 2 ) اگر جہاد میں اخلاص نہیں ہوگا تو مجاہد سے غلطیاں ہوں گی وہ شہوت پرست لٹیرا بن جائے گا اور دشمنوں کو مسلمانوں پر ہنسنے کا موقع ملے گا اس باب کو بار بار پڑھنے سے امید ہے کہ ان شاء اللہ اخلاص پیدا ہو جائے گا ۔
( 3 ) آج کل کی بعض تنظیمیں اور دوسری پارٹیاں اپنی تشہیر کے لیے جھوٹ تک بولتی ہیں اور مجاہدین کی طرف جھوٹی کاروائیوں اور کارناموں کی نسبت کرتی ہیں اور واقعات بیان کرنے میں مبالغے سے کام لیتی ہیں ۔ ان کا یہ طرز عمل مجاہدین پر اثر انداز ہوتا ہے اور ان میں سے بعض جھوٹے اور مبالغہ پرست بن جاتے ہیں ۔ اس باب کا مطالعہ مجاہدین کی اس وباء سے حفاظت کر سکتا ہے ۔
(4) مجاہدین کی ریاکاری کی وجہ سے عسکری طور پر بھی بے حد نقصانات ہوتے ہیں اور دشمن کو تفتیش کرنے اور مجاہدین تک پہنچنے میں سہولت ہو جاتی ہے بلکہ مجاہدین کی طرف سے ریاکاری اور دکھلاوے والے بیانات دشمن کا آدھا کام سر انجام دے دیتے ہیں اس کی بجائے اگر اخفاء سے کام لیا جائے تودشمن کو سخت مشکلات پیش آسکتی ہیں اور مجاہدین کی نشاندہی کرنے میں اس کا بے شمار سرمایہ اور صلاحیت ضائع ہو سکتی ہے اس باب کا مطالعہ مجاہدین میں اخفاء کا جذبہ پیدا کرے گا جو ان کے عسکری اور جنگی اعتبار سے بھی سخت ضروری ہے۔
( 5 ) عام طور پر مسلمان مجاہدین کی مدد کرنے میں بخل سے کام لیتے ہیں اسی لیے عالباً بعض جہادی تنظیمیں مبالغہ آمیزی اور بعض جھوٹ بولنے پر مجبور ہوتی ہے تاکہ لوگوں کو متاثر کیا جاسکے لیکن اگر اس باب کی تعلیم کثرت سے کرائی جائے تو مجاہدین میں اللہ کی ذات پر اعتماد اور یقین بڑھے گا اور اللہ تعالی خود ان کی ضروریات کو پورا فرما دے گا اور انہیں کسی سے مانگنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی بلکہ اللہ تعالی مخلص لوگوں کے قلوب خود بخود ان کی طرف متوجہ فرما دے گا اور وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر مجاہدین تک خود مالی امداد پہنچائیں گے الحمد اللہ جو مخلص تنظیمیں اس اصول کو اپنائے ہوئے ہیں ان کو اللہ تعالی نے کبھی کسی کا محتاج نہیں ہونے دیا۔
( 6 ) آخری اور سب سے اہم گزارش یہ ہے کہ اس باب کو پڑھنےکے بعد دل تھام کر نہ بیٹھ جائیں کہ ہمارا جہاد تو قبول ہی نہیں ہوگا چنانچہ ریاکاری سے بچنے کے لیے خدا نخواستہ جہاد ہی چھوڑ دیں ۔
مصنف رحمہ اللہ کا مقصد ہر گز یہ نہیں ہے بلکہ ان کا مقصد مجاہدین میں اخلاص پیدا کرنا ہے تاکہ وہ اور زیادہ محنت اور جذبے کے ساتھ جہاد کر سکیں ۔ آج اگر کوئی ریاکاری کی وجہ سے جہاد چھوڑ دے گا تو پھر کونسا عمل ایسا ہے جس میں ریاکاری کا خطرہ نہیں ہے ۔ تو کیا اس طرح اعمال چھوڑ دینا ہی ریاکاری کا علاج ہے ؟ ہر گز نہیں بلکہ حضرات اکابر نے لکھا ہے کہ ریاکاری کے ڈر سے اعمال چھوڑ دینا خود سب سے بڑی ریاکاری ہے کیونکہ مخلوق کو دکھانے یا نہ دکھانے پر نظر گئی اور اللہ تعالی سے نظر ہت گئی اسی کو ریاکاری اور شرک خفی کہتے ہیں ۔ اخلاص تو تمام اعمال کی جان ہے اور جان کی حفاظت کی جاتی ہے ۔ اسی طرح نیت کی بھی حفاظت کرنی چاہئے۔ ریاکاری کے ڈر سے اعمال چھوڑنے والے کی مثال ایسی ہے جیسے کسی کا سانس اٹکنے لگے تو وہ سانس کو بحال کرنے والی دوائیاں کھانے کی بجائے سانس کو بالکل بند کرنے والی دوائی یعنی زہر کھانا شروع کر دے ۔ مجاہدین کو چاہئے کہ مخلصین اولیاء کرام کی صحبت میں بیٹھ کر نیت کو درست کرنے اور درست رکھنے کے طریقے سیکھیں اور ساری زندگی اہل حق علماء کرام کی رہنمائی میں گزاریں ۔ اور اس دنیا کی زندگی کو ہمیشہ عارضی اور فانی سمجھیں اور اپنے جہاد کی قیمت یا بدلہ دنیا میں وصول کرنے کا تصور بھی نہ کریں ۔ تب ان شاء اللہ دل میں اخلاص پیدا ہو جائے گا اور ان شاء اللہ تا دم شہادت محفوظ رہے گا ۔
یا اللہ تو اپنے فضل و کرم سے ہم سب مسلمانوں کو اخلاص کی دولت عطاء فرما اور ریاکاری کی غلاظت سے محفوظ فرما ۔ آمین ثم آمین ]
 
Top