واجدحسین
معطل
چھبیسواں باب
درست نیت کے بغیر جہاد کا اجر حاصل نہیں ہوتا
نیز مختلف نیتوں کا بیان
اللہ تعالی کا فرمان ہے : درست نیت کے بغیر جہاد کا اجر حاصل نہیں ہوتا
نیز مختلف نیتوں کا بیان
( 1 ) [arabic] أَلا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ [/arabic](الزمر ۔ 3)
" دیکھوخالص عبادت اللہ تعالی ہی کے لئے ( زیبا) ہے۔
اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے : ۔
(2 ) [arabic]وَمَا أُمِرُوا إِلا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ [/arabic](سورہ بینہ ۔ 5 )
""اور ان کو تو یہی حکم ہوا تھا کہ اخلاص عمل کے ساتھ اللہ تعالی کی عبادت کریں ۔ ""
٭ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور آدمی کو وہی کچھ ملتا ہے ۔ جس کی اس نے نیت کی ۔ جس کی ہجرت اپنی نیت کے اعتبار سے اللہ اور اس کی رسول کی طرف ہوگی تو [ اجر اور قبولیت کے اعتبار سے بھی ] اللہ اور اس کے رسول کے لئے ہوگی اور جس کی ہجرت دنیا یا کسی عورت سے نکاح کی عرض سے ہوگی تو اس کی ہجرت اسی طرف ہوگی جس کی اس نے نیت کی ۔ ( بخاری ۔ مسلم )
٭ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میری امت کے اکثر شہداء بستر والے ہوں گے اور بہت سے میدان جنگ میں قتل والوں کی نیت کو اللہ تعالی خوب جانتا ہے ( مسند احمد مرسلاً)
٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوہ تبوک سے واپسی پر مدینہ منورہ کے قریب پہنچے تو آپ نے ارشاد فرمایا : تم لوگ جتنا بھی [ جہاد میں ] چلے ہو اور تم نے جتنی وادیاں بھی عبور کی ہیں ۔ مدینہ میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو [ اس سب کے اجر میں ] تمھارے ساتھ تھے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول کیا مدینہ میں رہنے کے باوجود [ وہ اجر میں شریک تھے] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مدینہ میں رہنے کےباوجود [ وہ اجرمیں شریک ہیں کیونکہ ] انہیں عذر نے روک لیا تھا [ یعنی وہ جہاد میں نکلنے کی سچی نیت رکھتے تھے مگر عذر کی وجہ سے نہیں نکل سکے ] (بخاری )
علامہ قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ عذر کی وجہ سے پیچھے رہ جانے والے کو مجاہد جیسا اجر ملتا ہے ایک قول یہ ہے کہ بالکل مجاہد کے برابر اجر ملتا ہے جبکہ دوسرا قول یہ ہے کہ اسے مجاہد کا اجر ملتا ہے لیکن بڑھا چڑھا کر نہیں ۔ جبکہ مجاہد کو اس کا اجر بڑھا چڑھا کر ملتا ہے ( تفسیر قرطبی مختصرا ) اس بارے میں مزید تفصیلات ان شاء اللہ ستائیسویں باب میں آئیں گی ۔
٭ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ ایک اعرابی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ایک آدمی مال غنیمت کے لئے لڑتا ہے اور ایک آدمی لوگوں میں اپنا تذکرہ چھوڑنے کے لئے لڑتا ہے اور ایک آدمی اپنی حیثیت دکھانے کے لئے لڑتا ہے ان میں سے اللہ کے راستے میں کون ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو اللہ تعالی کے کلمے کو بلند کرنے کے لئے لڑتا ہے وہی اللہ کے راستے میں ہے ۔ ( بخاری ۔ مسلم )
٭ ایک اور روایت میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو [ طبعی ] بہادری کی وجہ سے یا غیرت کی وجہ سے یا ریاکاری کے لئے لڑتا ہے کہ ان میں سے اللہ کے راستے میں کون ہے ؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص اس لئے لڑے تاکہ اللہ کا کلمہ بلند ہو جائے ۔ بس وہی اللہ کے راستے میں ہے ۔ ( مسلم شریف )
٭ ایک اور روایت میں ہے کہ ایک شخص نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جہاد کے بارے میں پوچھا اور کہنے لگا ایک شخص اپنا غصہ نکالنے کے لئے لڑتا ہے اور ایک شخص [قومی] غیرت کی وجہ سے لڑتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف سر مبارک اٹھایا کیونکہ وہ کھڑا ہوا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص اس لئے لڑے تاکہ اللہ تعالی کا کلمہ بلند ہو جائے بس وہی اللہ کے راستے میں ہے ۔ (مسلم شریف )
٭ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے بارے میں آتا ہے کہ انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا اے اللہ کے رسول مجھے جہاد اور قتال کے بارے میں بتایئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اے عبداللہ بن عمرو اگر تم نے ڈٹ کر اللہ کی رضا کی نیت سے جہاد کیا تو اللہ تعالی تمھیں اسی حال میں اٹھائے گا ۔ اور اگر تم نے جہاد کیا ریاکاری اور مال بڑھانے کے لئے تو اللہ تعالی تمھیں اسی حال میں اٹھائے گا ۔اے عبداللہ بن عمرو تم نے جس حال [ یعنی نیت ] پر قتال کیا یا مارے گئے اللہ تعالی تمھیں اسی حالت [ اور نیت ] پر اٹھائے گا۔ ( ابوداؤد ، بہیقی ۔ المستدرک )
٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ایک شخص جہاد فی سبیل اللہ کا ارادہ کرتا ہے ۔ اور دنیا کا کچھ مال بھی چاہتاہے [ یعنی اس کی نیت جہاد کی بھی ہے اور مال کی بھی ] حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اس کے لئے کوئی اجر نہیں ہے ۔ لوگوں پر یہ بات بڑی بھاری گزری اور انہوں نے اس [ سوال کرنے والے ] شخص سے کہا جاؤ دوبارہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھو تم انہیں اپنی بات [ صحیح طرح سے ] سمجھا نہیں سکے ۔ اس شخص نے [ حاضر خدمت ہوکر ] عرض کیا ۔ اے اللہ کے رسول ایک شخص جہاد فی سبیل اللہ کا ارادہ کرتا ہے ۔ اور دنیا کا کچھ مال بھی چاہتاہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اس کے لئے کوئی اجر نہیں ہے ۔ لوگوں نے اس شخص سے کہا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پھر پوچھو۔ اس نے تیسری بار پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اس کے لئے کوئی اجر نہیں ہے ۔ ( ابوداؤد ۔ ابن حبان ۔ المستدرک )
٭ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے پوچھا [ یا رسول اللہ ] آپ کیا فرماتے ہیں اس شخص کے بارے میں جو جہاد میں اجر کی بھی نیت رکھتا ہے اور اس بات کی بھی کہ لوگوں میں اس کا تذکرہ کیا جائے۔ ایسے شخص کو کیا اجر ملے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ایسے شخص کے لئےکچھ [ بھی اجر ] نہیں ۔ اس شخص نے یہی سوال تین بار دھرایا اور ہر بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس کے لئے کچھ [ بھی اجر ] نہیں ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالی صرف ایسے خالص عمل کو قبول فرماتا ہے جو محض اس کی رضا جوئی کے لئے کیا جائے ۔ ( ابوداؤد ۔ نسائی )
[ تو جو شخص اپنے پروردگار سے ملنے کی امید رکھے چاہئے کہ نیک عمل کرے اوراپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے ۔ ]
٭ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا ۔ ایک شخص [ جہاد میں ] اجر بھی چاہتا ہے اور تعریف بھی [ یعنی اس کی نیت یہ ہے کہ اللہ تعالی سے اجر ملے اور لوگ میرے جہاد اور میری بہادری کی تعریف کریں ] حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اس کے لئے کوئی اجر نہیں ہے اگرچہ وہ اپنی تلوار سے اتنا لڑے کہ تلوار ٹوٹ جائے ۔ ( کتاب السنن لسعید بن منصور )
٭ عمر بن عبید اللہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے عرض کیا میں جہاد میں اللہ کی رضا کے لئے خرچ کرتا ہوں اور اسی نیت سے نکلتا ہوں لیکن جب لڑائی کا وقت ہوتا ہے تو میں چاہتا ہوں کہ میری جنگ اور میری بہادری دیکھی جائے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا : پھر تو تم ریا کار آدمی ہو ۔ ( کتاب السنن لسعید بن منصور )
٭ مرہ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ لوگوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے سامنے کچھ ایسے افراد کا تذکرہ کیا جو اللہ کے راستے میں مارے گئے تھے، اس پر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ایسا نہیں جیسا تم دیکھتے اور سمجھتے ہو [ بلکہ ] جب لشکر آپس میں ٹکراتے ہیں تو فرشتے اترتے ہیں اور ہر شخص کا مقام [ اور مرتبہ ] لکھا جاتا کہ فلاں دنیا کے لئے مارا گیا اور فلاں حکومت [ اور عہدہ] کے پانے کے لئے مارا گیا فلاں لوگوں میں اپنا تذکرہ چھوڑنے کے لئے مارا گیا اور فلاں اللہ کی رضا کے لئے مارا گیا ۔ پس جو شخص اللہ کی رضا کے لئے شہید ہوا اسی کے لئے جنت ہے ۔ ( کتاب الجہاد لابن المبارک )
٭ ابو عبیدہ بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ میرے والد [ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ] نے ارشاد فرمایا : تم لوگ یہ گواہیاں دینے سے پرہیز کرو کہ فلاں فلاں شہید ہوئے [ یعنی ہر کسی کو شہید کا لقب نہ دیا کرو] کیونکہ بعض لوگ قومی غیرت میں لڑتے ہیں ۔ بعض لوگ بہادری کی وجہ سے لڑتے ہیں ۔ [ یعنی ان کی طبعی بہادری انہیں لڑنے پر مجبور کرتی ہے ] ۔ [ یہ سارے لوگ جب مارے جاتے ہیں تو ان میں سے کوئی بھی شہید نہیں ہوتا ] لیکن میں تمھیں ایسے لوگوں کے بارے میں بتاتا ہوں جن کی [ شہادت ] پر تم گواہی دے سکتے ہو ایک بار حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سریہ بھیجا [ اس لشکر کو روانہ ہوئے ] زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کی حمد و ثناء کے بعد ارشاد فرمایا: تمھارے بھائیوں کے مشرکوں کے ساتھ مقابلہ ہوا ہے اور وہ سارے شہید ہو چکے ہیں اور انہوں نے کہا ہے اے ہمارے رب ہماری قوم کو یہ خبر پہنچا دیجئے کہ ہم راضی ہو چکے ہیں اور ہمارا رب ہم سے راضی ہو چکا ہے اور میں [ یعنی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ] ان کا پیغام پہنچانے والا ہوں کہ بے شک وہ راضی ہو گئے اور ان کا رب ان سے راضی ہو گیا۔ ( المستدرک )
٭ حضرت عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ صحیح سند کے ساتھ روایت فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ مسجد نبوی میں بیٹھے ہوئے کچھ لوگوں کے پاس تشریف لائے وہ لوگ آپس میں اس لشکر کا تذکرہ کر رہے تھے جو اللہ کے راستے میں مارا گیا تھا ان میں بعض کہہ رہے تھے کہ وہ لوگ [ یعنی لشکر والے ] اللہ کے کام کے لئے نکلے اور اس کے راستے میں مارے گئے یقیناً ان کا اجر اللہ تعالی پر واجب ہو گیا ہے ۔ کسی اور نے کہا ان کے انجام کا علم اللہ تعالی کو ہے اور ان کو وہی کچھ ملے گا جس کی انہوں نے نیت کی ہوگی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھا تو فرمایا تم لوگ کیا بات کر رہے ہو انہوں نے اپنی پوری بات چیت سنائی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: اللہ کی قسم لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو دنیا کے لئے لڑتے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جو ریاکاری یعنی دکھلاوے کے لئے لڑتے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جن پر جنگ مسلط ہو جاتی ہےاور ان کے لئے لڑے بغیر کوئی چارہ نہیں ہوتا ۔ اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ تعالی کی رضا جوئی کے لئے لڑتے ہیں ۔ یہی لوگ شہیداء ہیں اور ان میں سے ہر شخص قیامت کے دن اسی نیت پر اٹھایا جائے گا جس پر مرا تھا اور اللہ کی قسم کسی کو پتہ نہیں کہ اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے اور ان میں سے کوئی ایسا شخص بھی نہیں جس کے بارے میں ہمیں بتا دیا گیا ہو کہ اس کے اگلے پچھلے گناہ معاف کر دیئے گئے ہیں ۔ ( کتاب الجہاد لابن المبارک ۔ المستدرک )
٭ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے اللہ کے راستے میں جہاد کیا اور سوائے ایک رسی [ پانے ] کے اور کسی چیز کی نیت نہیں کی تو اسے وہی کچھ ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہو گی۔ ( نسائی ۔ المستدرک )
[ یعنی اسے کوئی اجر و ثواب نہیں ملے گا بلکہ جس حقیر دنیا کی اس نے نیت کی ہے اسے وہی مل جائے گی ]
٭ حضرت یعلی بن منیہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جہاد کی اجازت مرحمت فرمائی ۔ میں بوڑھا آدمی تھا اور میرے پاس کوئی خادم بھی نہیں تھا ۔ میں نے ایک مزدور ڈھونڈا جو جہاد میں میرے کام آسکے اور میں اسے اپنے مال غنیمت میں سے کچھ حصہ دے دوں چنانچہ مجھے ایک شخص مل گیا ۔ جب روانگی کا وقت قریب ہوا تو وہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا مجھے کیا پتہ آپ کو کتنا حصہ ملے گا پھر اس میں میرا کتنا حصہ بنے گا آپ میرے لئے کچھ مقرر کر دیں ۔ غنیمت میں حصہ ملے یا نہ ملے [ مجھے میری مقرر مزدوری مل جائے ] میں نے اس کے لئے تین دینار مقرر کر دئیے۔ جب مال غنیمت مل گیا تو میں نے اس کے لئے حصہ نکالنا چاہا تو مجھے تین دینار والی بات یاد آگئی ۔ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سارا معاملہ پیش فرمایا [ کہ اس آدمی کو تین دینار ہی دوں یا مال غنیمت میں سے بھی اسے حصہ دوں ] حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : وہ تین دینار جو اس نے مقرر کئے تھے ان کے علاوہ اس شخص کے لئے اس جہاد میں کچھ بھی نہیں ہے نہ دنیا میں اور نہ آخرت میں [ یعنی اسے صرف تین دینا ہی ملیں گے اجر یا غنیمت میں سے کچھ نہیں ملے گا ( ابوداؤد ۔ بہیقی ۔ المستدرک )
٭ ابوالعجفاء السلمی کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا : تم لوگ جہاد میں قتل ہونے یا انتقال کر جانے والوں کے بارے میں کہتے ہو کہ فلاں شخص مارا گیا وہ شہید ہے فلاں شخص کا انتقال ہوا وہ شہید ہے حالانکہ ممکن ہے کہ اس شخص نے اپنی سواری کے پچھلے حصے پر سونا چاندی لاد رکھا ہو اور وہ تجارت کی نیت سے نکلا ہواس لئے تم یہ نہ کہا کرو کہ فلاں شہید ہے بلکہ تم کہا کرو جس طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص [ بھی ] اللہ کے راستے میں مارا گیا یا اس کا انتقال ہوا وہ جنتی ہے ۔ ( المستدرک صحیح الاسناد )
٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عمرو بن اقیش کے نام جاہلیت کا کچھ سود تھا [ جو لوگوں نے انہیں دینا تھا ] چنانچہ انہوں نے یہ سود وصول کرنے سے پہلے اسلام قبول کرنے کو اچھا نہ سمجھا یہاں تک کہ احد کی لڑائی کا دن آگیا انہوں نے لوگوں سے پوچھا میرے چچا زاد بھائی کہاں ہیں لوگوں نے کہا وہ احد کی لڑائی میں گئے ہیں انہوں نے پوچھا فلاں آدمی کہاں ہے ؟ لوگوں نے کہا وہ بھی غزوہ احد میں گیا ہے انہوں نے کچھ اور لوگوں کے بارے میں پوچھا تو وہی جواب ملا ۔ یہ سنکر انہوں نے زرہ پہنی اور گھوڑے پر سوار ہو کر احد کی طرف بڑھے ۔ مسلمانوں نے جب انہیں [ میدان جنگ میں اپنے ساتھ ] دیکھا تو کہنے لگے اے عمرو ہم سے دور رہو ۔ انہوں نے کہا میں ایمان لا چکا ہوں پھر وہ لڑتے رہے یہاں تک کہ زخمی ہو گئے اور اٹھاکر گھر لائے گئے ۔ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ [ جو ان کے رشتے دار تھے ] تشریف لائے اور انہوں نے اپنی ہمشیرہ سے کہا ان سے پوچھو کہ قومی غیرت کی وجہ سے نکلے یا اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے غیرت کھا کر نکلے تھے ؟ انہوں نےکہا میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے غیرت کھا کر نکلا تھا ۔ اس کے بعد ان کا انتقال ہوگیا اور وہ جنت میں داخل ہوگئے حالانکہ انہوں نے ایک نماز بھی نہیں پڑھی تھی ( ابوداؤد ۔ المستدرک )
[ یعنی درست نیت سے انہوں نے جہاد جیسا عظیم عمل سر انجام دیا اور کامیاب ہو گئے حالانکہ انہیں نماز تک کا موقع نہیں ملا تھا ]
٭ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جہاد دو طرح کا ہے ۔ جس شخص نے اللہ کی رضا کی نیت کی اور امیر کی اطاعت کی اور قیمتی مال خرچ کیا اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ حسن سلوک کیا اور فساد سے بچا تو ایسے مجاہد کا سونا اور جاگنا سب اجر ہے اور جس نے فخر اور ریاکاری کے لئے جہاد کیا اور امیر کی نافرمانی کی اور زمین میں فساد پھیلایا تو وہ برابر کا حساب لے کر بھی نہیں لوٹے گا ۔ ( ابوداؤد ۔ نسائی ۔ المستدرک )
[ برابر سے مراد یہ کہ اسے نہ نفع ہوا نہ نقصان ، نہ ثواب ملے گا نہ گناہ لیکن اس شخص کو برابر کاحساب بھی نہیں ملے گا یعنی وہ گھاٹے میں رہے گا اور گناہگار ہو گا ] ۔
٭ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : قیامت کے دن سب سے پہلے اس شخص کا فیصلہ کیا جائے گا جو دنیا میں شہید ہوا تھا ۔ اسے حاضر کیا جائے گا پھر اللہ تعالی اسے اپنی نعمتیں گنوائیں گے وہ ان کا اعتراف کرے گا اللہ تعالی فرمائیں گے تم نے ان نعمتوں کا کیا کیا وہ کہے گا میں نے آپ کے راستے میں جہاد کیا یہاں تک کہ شہید ہو گیا ۔ اللہ تعالی فرمائیں گے تم جھوٹے ہو تم نے تو اس لئے جہاد کیا تھا تاکہ تمھیں بہادر کہا جائے اور وہ [ دنیا میں تمہیں ] کہا گیا پھر اللہ تعالی اس کے بارے میں حکم دیں گے چنانچہ اسے منہ کے بل گھسیٹ کر دوزخ میں ڈال دیا جائے گا ۔ یہی معاملہ اس عالم اور سخی کے ساتھ بھی کیا جائے گا جنہوں نے ریا کاری کے لئے عمل کیا ہوگا ۔ ( مسلم و نسائی مختصراً)
[ یعنی قیامت کے دن دوزخ کی آگ سب سے پہلے انہیں تین افراد سے بھڑ کائی جائے گی جنہوں نے جہاد علم اور سخاوت جیسی عبادات کو اللہ تعالی کے لئے اداء کرنے کی بجائے لوگوں کو دکھانے کے لئے کیا ہوگا ۔ العیاذ باللہ ]۔
٭ ترمذی کی روایت میں ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہی روایت حضرت شفی الاصبحی کو سنائی اور سنانے سے پہلے کئی بار ان پر بے ہوشی کا دورہ پڑا اس روایت کے آخر میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے گھٹنے پر ہاتھ مار کر فرمایا : اے ابو ہریرہ مخلوق میں سے یہ تین آدمی [ یعنی ریا کار شہید ، ریا کار عالم اور ریاکار سخی ] وہ ہیں جن کے ذریعے سب سے پہلے دوزخ کی آگ کوبھڑکایا جائے گا ۔ شفی الاصبحی رحمہ اللہ جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے محافظ دستے کے رکن تھے جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے تو ان کو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی یہی روایت سنائی ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا جب ان تین کے ساتھ یہی معاملہ ہوگا تو باقی لوگوں کا کیا حال ہوگا پھر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ رونے لگے اور اتنا سخت روئے کہ لوگوں نے سمجھا کہ شاید جان دے بیٹھیں گے اور لوگ کہنے لگے یہ شخص برائی لے کر آگیا ۔ پھر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو افاقہ ہوا تو آپ رضی اللہ عنہ نے اپنا چہرہ صاف کیا پھر کہا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا اور یہ آیت پڑھی:
[arabic]مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْحَيَوةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لا يُبْخَسُونَ أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الآخِرَةِ إِلا النَّارُ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوا فِيهَا وَبَاطِلٌ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ [/arabic]( سورہ ھود ۔ 15۔ 16 )
جو لوگ دنیا کی زندگی اور اس کی زیب و زینت کے طالب ہوں ہم ان کے اعمال کا بدلہ انہیں دنیا ہی میں دیتے ہیں اور اس میں ان کی حق تلفی نہیں کی جاتی یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش (جہنم ) کے سوا اور کچھ نہیں اور جو عمل انہوں نے دنیا میں کئے سب برباد اور جو کچھ وہ کرتے رہے سب ضائع ہوا ۔ ( ترمذی )