قیصرانی
لائبریرین
ناظر فاروقی، کراچی
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
پروردگار ہی نہیں ساری فضا ہےرنگیں
آپ مہماں ہیں تو ہر چیز پہ رعنائی ہے
درحقیقت یہ رعنائی خیال کی ہی تقریب ہے، محترمہ فرزانہ نیناں منفرد لفظیات کو اپنی شاعری میں گوندھ کر ایک نیم طلسمی مالا تخلیق کرنےوالی شاعرہ ہیں،یہ بڑی خوشی کی بات ہےکہ آجکل ہماری بہت سی خواتین شاعری کی جانب مائل ہو رہی ہیں، ابھی تک ہمارے’مرد سالاری‘ رویوں نےہماری عورتوں کو بچوں اور باورچی خانےکےحصار میںقید رکھ کر جو گھٹن پیدا کر رکھی ہےاس کا اظہار برملا ہورہا ہے،آج بھی اپنےکرب کا اظہار کرنےوالی خواتین کی تعداد ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے،مگر کم سےکم ان کےدرد کو سن کر ہمارےمعاشرےکو اپنےگریبان میں جھانکنےکی دعوت ضرور ملتی ہے، لڑکیوں کو شعر کہنےمیں ایک اور مشکل کا سامنا بھی ہےجس کی طرف ہماری بےبدل شاعرہ پروین شاکر مرحومہ اشارہ کر گئی ہیں کہ:
اپنی رسوائی ترےنام کا چرچا دیکھوں
اک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں
جدید غزل گو زندگی کی تکلیف دہ حقیقتوں کےبیاں میں بھی شاعری کی لطافتوں کا دامن ہاتھ سےنہیں جانےدیتا ،حفیظ ہوشیار پوری کا شعر ہے:
یہ تمیزِ عشق و ہوس نہیں، یہ حقیقتوں سےگریز ہے
جنھیں عشق سےسروکار ہےوہ ضرور اہلِ ہوس بھی ہیں
ہمارےبچپن کےدوست سرور بارہ بنکوی مرحوم نےبڑ ےسلیقےسےکہا کہ:
میں کسی صورت ترا کربِ تغافل سہہ گیا
اب مجھےاس کا صلہ دےحرف شرمندہ نہ ہوں
جب ایک عورت اپنےاحساس کی عکاسی کرنا چاہتی ہےتو سب سےپہلےاس کو اپنی شرمیلی طبیعت کا سامنا ہوتا ہے، حجاب کی دیواریں حائل ملتی ہیں، اپنےمخصوص لفظیات کی تلاش ہوتی ہےاور ان سب مراحل سےگزر جانا بڑےدل گردےکا کام ہے، شعر میں ظاہر کیا ہوا کرب قاری کےلیئےصرف اس وقت معنی رکھتا ہےجب وہ فن کےکسی بہترین سانچےمیں ڈھل جائے، دیکھیئےمحترمہ فرزانہ نیناں نےاپنی سوچ کےاظہار کےلیئےایک اچھوتا لہجہ اپنایا ہے:
تم عجیب قاتل ہو روح قتل کرتےہو
داغتےہو پھر ماتھا چاند کی رکابی سا
محترمہ فرزانہ نیناں بہت چھوٹی عمر میں برطانیہ چلی گئی تھیں اور اپنےساتھ روایتی ملبوسات و زیورات لے جانے کے بجائے اپنے رحجان کےمطابق مٹی کی خوشبو لیتی گئیں، اپنےبچپن کی یادوں، محرومیوں اور وعدہ خلافیوں کی کسک جو زندگی کا حصہ ہیں اس کو اپنےوجود میں رکھ لیا،اور تمام چیزوں کو اپنےذہن کےطاق پہ ہمیشہ سجائےرکھا، اپنی شاعری کے بارے میں خود فرماتی ہیں کہ
’جب والدین جنت الفردوس کو سدھارے، پردیس نےبہن بھائی چھین لئے، درد بھرےگیت روح چھیلنےلگےتو ڈائری کےصفحات کالےہونےلگے‘
آج انہیں صفحات پر بکھرےہوئےحروف ان کی شاعری کےجگنو بن گئےہیں، آپ کو جب گاؤں میں گذاری ہوئی تعطیلات کی یاد آئی تو اس کا بیاں اس طرح کیا:
کوئی بھی نہ دیوار پر سےپکارے
مگر ذہن یادوں کےاُپلےاُتارے
جب چنچل بچپن کی شرارتیں یاد آئیں تو یوں گویا ہوئیں:
راہ میں اس کی بچھا دیتی ہوں ٹوٹی چوڑی
چبھ کےکانٹےکی طرح روز ستاتی ہوں اسے
جب وعدہ خلافیوں کا شکوہ کیا تو یہ منفرد انداز اپنایا:
لئےمیں بھی کچا گھڑا منتظر تھی
تم اس پار دریا پہ آئےتو ہوتے
آپ نےمحسوس کیا ہوگا کہ ان تمام شعروں میں مہندی کا رنگ اور خوشبو بسی ہوئی ہے، یہی ان کی اپنی آواز اور آہنگ ہے، ان کی اسی منتشر خیالی اور منفرد لفظیات کےسبب ان کےکلام کو دوسرےشعراءو شاعرات سےبڑی آسانی سےالگ کیا جا سکتا ہے،محترمہ فرزانہ خان نیناں ریڈیو پر رنگا رنگ پروگرام نشر کرتی ہیں، فعال پریزینٹر ہیں، ایک ادبی تنظیم کی روحِ رواں ہیں ، ان تمام گوناگوں مشاغل کےساتھ یہ بیوٹی کنسلٹنٹ بھی ہیں اور شاید اسی لئےآپ دیکھیں کہ انہوں نےاپنی کتاب کو ایک دلہن کی طرح ایک نئےانداز سےسنوارا ہے، اس دلہن کا سراپا دلکش، اس کا لباس دھنک رنگ، اس کےگہنوں میں دل لبھانےوالا انوکھاپن ہے، میری دعا ہےکہ ان کےمنتخب کیئےہوئےحروف کےیہ گہنےاس دلہن کےماتھےپہ ہمیشہ جھومر کی طرح دمکتے رہیں۔آمین۔شکریہ
ناظر فاروقی
کراچی
رفیع الدین راز، کراچی
نیلی فکر کی شاعرہ(١)
پودےلگائےگئےہوں یا قدرتی طور پر خود اگ آئےہوں، انھیں دیکھ کر میں اکثر سوچتا ہوں کہ ان میں سےکتنےخوش قسمت پودےہوں گےجو کبھی اپنےآپ کو تناور درخت کی صورت دیکھ سکیں گے، موسم کی سختی، زمین کا دکھ اور وقت کی نادیدہ رہ گذر، اتنےعذابوں کو سہنا کوئی آسان نہیں، یہی وجہ ہےکہ ہر پودا پورےقد کا درخت نہیں بن پاتا، اس حوالےسےجب میں ادب میں نئےلکھنےوالوں کو دیکھتا ہوں تو یہاں بھی مجھےایسا ہی خیال آتا ہےاور میں سوچتا ہوں کہ اپنی آنکھوں میں خواب سجائےتعبیر کی جستجو میں سرگرداں یہ نو واردِ ادب اس سفر کےدوران کیا آبلہ پائی کی اذیت کو جھیل لیں گے، آنکھوں سےبہتےہوئےخون کو دامن میں جذب کرتےہوئےان کےحوصلےپست تو نہیں ہو جائیں گے، ان کےآئینہ صفت پیکر کیا پتھروں کی بارش کا تادیر مقابلہ کر سکیں گے؟ میرےایسےسوالوں کو کوئی سن رہا ہوتا ہے، فوراََ ہی سرگوشیوں میں مجھ سےکہتا ہے
’جس دیئےمیں جان ہوگی وہ دیا رہ جائےگا!
آج ایسا ہی اک دیا فرزانہ خان نیناں کی صورت محفلِ شعروسخن میں فروزاں ہےاور اس کی لوَ اِس بات کی گواہی دےرہی ہےکہ اس میں ہوا سےتادیر لڑنےکی قوت موجود ہے، یہ محض ستائشی جملہ نہیں ہےبلکہ اس کےپیچھےوہ روشن امکانات واضح موجود ہیں جس کےتحت میں نےیہ جملہ لکھا ہے، فرزانہ نےاپنےپہلےمجموعےمیں اپنےآپ کو شاعرہ تسلیم کروالیا ہےاور میری نظر میں یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے:
آدھی رات کےشاید سپنےجھوٹےتھے
یا پھر پہلی بار ستارےٹوٹےتھی
تلاش کرتا ہےبستی میں جس کو شہزادہ
وہ مورنی کسی جنگل نےپال رکھی ہے
انگلیوں سےلہو ٹپکتا ہے
پھر بھی کلیاں پروئےجاتی ہیں
بدن کی چٹانوں پہ کائی جمی ہے کہ
صدیوں سےساحل پہ تنہا کھڑی ہوں
خیمےاکھاڑتےہوئےصدیاں گزر گئیں
کب تک رہیں گی ساتھ یہ خانہ بدوشیاں
یہ دیا بھی کہیں نہ بجھ جائے
جو ہوا سےچھپائےبیٹھی ہوں
بام و در ہیں ترےاشکوں سےفروزاں نیناں
گھر میں اچھا نہیں اس درجہ چراغاں نیناں
یہ اشعار اس بات کی گواہی دےرہےہیں کہ اس شاعرہ میں زندگی کا بھرپورادراک موجود ہے، وہ زندگی جس کا تعلق یقین سےبھی ہےاور بد گمانی سےبھی، یہ زندگی کبھی انسان کو خود کلامی پر مجبور کرتی ہےتو کبھی اس کا وجود زمانےکی آواز سننےکےلئےہمہ تن گوش ہو جاتا ہے، کبھی انا کی لو اس کے احساس کو آنچ دکھاتی ہےتو کبھی انکسار کی نرمی اسےاوس کی بوند میں تبدیل کردیتی ہے، فرزانہ کےیہاں یہ تمام کیفیات ملتی ہیں، نسائی آواز کے مختلف رنگ ہمیں پروین شاکر، کشور ناہید اور فہمیدہ ریاض وغیرہ کےیہاں ملتےہیں، فرزانہ کےیہاں بھی نسائی آواز کا ایک الگ انداز ظہور کرتا دکھائی دےرہا ہے، اگر یہ شاعرہ ثابت قدمی سےاس راہ پر تادیر چلتی رہی تو کوئی وجہ نہیں کہ کامیابی اس کےقدم نہ چومے۔
ہجر ایک ایسی حقیقت ہےجس کی آنچ کسی نہ کسی صورت عمر بھر انسان کےدامن سےلپٹی رہتی ہے، اس کا اظہار ہر شاعر اپنےطور پر کرتا ہے، فرزانہ نےہجر کو یادیں اور انتظار کی صورت لکھا ہےاور خوب لکھا ہے، کچھ اشعار دیکھئے:
یاد میری بھی پڑی رہتی ہےتکیئےکےتلے
آخری خط کی طرح روز جلاتی ہوں اسے
میں سینت سینت کےرکھےہوئےلحافوں سے
تمہارے لمس کی گرمی چرانےوالی ہوں
ترےجنگل کی صندل ہوگئی ہوں
سلگنےسےمکمل ہوگئی ہوں
بدن نےاوڑھ لی ہےشال اس کی
ملائم، نرم، مخمل ہوگئی ہوں
مرےقریب ہی گو زرد شال رکھی ہے
بدن پہ میں نےمگر برف ڈال رکھی ہے
اوڑھ کےپھرتی تھی جو نیناں ساری رات
ریشم کی اس شال پہ یاد کےبوٹےتھی
چونکتی رہتی ہوں اکثر میں اکیلی گھر میں
کوئی تو ہےجو صدا دیتا ہےنیناں، نیناں
(٢)
ہےلبریز دل انتظاروں سےمیرا
میں کتبےکی صورت گلی میں گڑی ہوں
انھیں زینوں پہ چڑھتےپہلےکیسی کھنکھناتی تھی
نگوڑی پائل اب جو پاؤں میں کانٹےچبھوتی ہے
فرزانہ احساسات کی حدت کو کاغذ پر منتقل کرنےکا ہنر جانتی ہےاور یہ حدت صفحہءقرطاس تک ہی محدود نہیں ہےبلکہ یہ قاری کےرگِ احساس کو بھی اپنی پوری توانائی کےساتھ چھوتی ہے، کسی جذبےکی حدت کو قاری کےدل تک پہنچانا آسان کام نہیں، بہت کم لوگ اتنی جلدی اس منزل تک پہنچ پاتےہیں، فرزانہ کےاشعار کی جو زیریں رو ہےاُس میں اک ایسی حجاب اور شرم ہےجو اپنےاظہار کےلئےکچھ آزادی چاہتی ہوئی دکھائی دیتی ہےلیکن فرزانہ نےدانستہ اسےایسا کرنےسےروک رکھا ہےاور اس کی وجہ ہے۔۔۔
’درد کی نیلی رگیں‘ پڑھتےہوئےمجھ پر عجیب انکشاف ہوا، یہ فرزانہ خان نیناں جو انگلستان میں رہتی ہےوہ تو کلو ننگ شدہ نیناں ہے، اصل نیناں تو یہاں کی فضا میں قید ہے، اس کی سانسوں کی حدت تو اس فضا کی حرارت سےقائم ہے، اس زمین سےاس کا رشتہ زندگی اور موت کا ہے، انگلستان میں رہنےوالی شاعرہ کی کچھ لفظیات دیکھئے :
جامن، الگنی، رہٹ، پیپل،اُپلی، گوٹھ، تھر، بھوبھل، آم کی گٹھلی ،بھاگ بھری، گڑیا، چھوئی موئی اور مورنی وغیرہ،
یہ کیسی ہجرت ہےجسم وہاں ، روح یہاں!
فرزانہ خان نیناں کی شاعری جن لفظیات کےگرد گھومتی ہےان میں بیشتر لفظوں کےبارےمیں کچھ لوگوں کا خیال ہےکہ یہ شاعری کےلفظ نہیں ہیں، میرے نزدیک ہر لفظ شاعری کا لفظ ہےاگر کوئی شاعر اُس لفظ کو شعری آہنگ میں ڈھال دے تو!
انہیں لفظوں میں ایک لفظ لحاف ہے، دیکھئےفرزانہ نےلحاف کو کس طرح لکھا ہے:
میں سینت سینت کےرکھےہوئےلحافوں سے
تمہارےلمس کی گرمی چرانےوالی ہوں
فرزانہ کی شعری عمر ابھی بہت کم ہےاور فرزانہ نےلفظیات کےجس دشت میں پاؤں رکھا ہےوہ یقیناََ انتہائی محنت طلب کام ہے۔
اس مجموعےمیں ١ ۔حمد ١۔ نعت۔٤٦ غزلیں اور ٣٢ نظمیں ہیں، نعت سےلےکر آخری نظم تک فرزانہ کا لہجہ کم و بیش ایک جیسا ہے، اس سےپہلےکہ میں نظموں پر کچھ لکھوں فرزانہ کی غزلوں سےکچھ اور اشعار سنئے:
مجھےقوموں کی ہجرت کیوں تعجب خیز لگتی ہے
یہ کونجیں کس قدر لمبےسفر کرتی ہیں ڈاروں میں
میرےجگنو سےپر سلامت ہیں میں تمہیں راستہ دکھاؤں گی
فون پر تم ملےہو مشکل سے گفتگو کو تمام مت کرنا
ابھی تک یاد ہےاس کی وجاہت
ملا تھا جو مجھےپچھلےجنم میں
طواف اس پر بھی تو واجب ہےنیناں کعبہءدل کا
ٹہر جا تو اسےبھی اس طرف دوگام آنےدے
چھوئی موئی کی ایک پتی ہوں
دور ہی سےمرا نظارہ کر
فرزانہ میں نظم کہنےکی بھرپور صلاحیت موجود ہے، بلکہ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ فرزانہ میں نظم کی ایک قابلِ ذکر شاعرہ ہونےکےروشن امکانات موجود ہیں، پہلی نظم ’جانےکہاں پہ دل ہےرکھا‘ ملاحظہ کیجئے:
آج کا دن بھی پھیکا پھیکا
کھڑکی سےچھپ کر تکتا ہے
میں ہاری یا وہ ہےجیتا
روز کا ہی معمول ہےیہ تو
کل بھی بیتا، آج بھی بیتا
درد بھی با لکل ہی ویسا ہے
تھوڑا تھوڑا میٹھا میٹھا
چولھا ،چوکا، جھاڑو، پونچھا
سب کچھ کر بیٹھی تب سوچا
ہر شئےجھاڑ کےپونچھ کےدیکھا
جانےکہاں پہ دل ہےرکھا!
چند لائنیں مختلف نظموں سے:
اگر میں پتھر کی لڑکی ہوتی
تو اپنےپیکر کی سبز رُت پر بہت سی کائی اگایا کرتی
بہت سےتاریک خواب بُنتی
چاندنی کےہالےمیں کس کو کھوجتی ہو تم
چھپ کےیوں اداسی میں کس کو سوچتی ہو تم
بار بار چوڑی کےسُر کسےسناتی ہو
کھڑکیوں سےبرکھا کو دیکھ کر بلکتی ہو
سارےسپنےآنکھوں سےایک بار بہنےدو
رات کی ابھاگن کو تارہ تارہ گہنےدو
ماضی ،حال، مستقبل کچھ تو کورا رہنےدو!
(٣)
:کل ملبوس نکالا اپنا
ہلکا کاسنی رنگت کا
دھڑ سےکھول کےدل کےپٹ کو
خوشبو سنَ سنَ کرتی آئی۔۔۔
اور ایک نظم آخری خواہش سےکچھ لائنیں دیکھئے:
ندی کنارےخواب پڑا تھا
ٹوٹا پھوٹا بےسدھ بےکل
لہریں مچل کر اس کو تکتیں
سانجھ سویرےآکر پل پل
سیپی چنتےچنتےمیں بھی جانےکیوں چھو بیٹھی اس کو
یہ احساس ہو اکہ اس میں روح ابھی تک جاگ رہی ہے
ہاتھ کو میرےاس کی حرارت دھیرےدھیرےتاپ رہی ہے
تب آغوش میں اس کو اٹھایا، اک اوندھی کشتی کےنیچے
تھوڑا سا رکھا تھا سایہ۔۔۔
چھوٹی نظموں پر فرزانہ کی گرفت بہتر دکھائی دیتی ہےجس کی مثال نظم ’پگلی‘ اور ’جانےکہاں پہ دل ہےرکھا‘ میں موجود ہے، ’درد کی نیلی رگیں‘ بلا شبہ ایک اچھی تخلیق ہےلیکن یہ فرزانہ کی منزل نہیں ہے، اس مجموعےنےحرف کےامکانات کےدَر وا کئےہیں، فرزانہ کو منزل تک پہنچنےکےلئےابھی سفر طےکرنا ہے، مجھےامید ہےکہ وہ جو کچھ حاصل کرنا چاہتی ہیں ،وہ حاصل کر لیں گی، اس لئےکہ ان کی شخصیت میں ایک اعتماد ہے، وہ اعتماد جو کچھ کر لینےاور کچھ پالینےکےلئےضروری ہوتا ہے۔
رفیع الدین راز
کراچی
جاذب قریشی، کراچی
روشنی کی تازہ لپک(١)
عرب امارات ،برطانیہ، امریکا، کینیڈا کےدرمیان جو پاکستانی اپنےاپنےدائروں میں رہ کر تہذیبی و ثقافتی روایات کےساتھ ساتھ اردو زبان کی نئی تاریخ رقم کر رہےہیں ان میں نوٹنگھم میں آباد فرزانہ خان نیناں بھی شامل ہیں، نوٹنگھم میں فرزانہ نےایک ادبی اور ثقافتی تنظیم’بزمِ علم و فن‘ کےتحت اردو کا چراغ جلایا ہوا ہےجس کےزیرِ اہتمام مشاعری، جلسےاور مختلف ادبی و سماجی تقریبات ہوتی رہتی ہیں اور پاکستان سےجانےوالےاستفادہ کرتےرہتےہیں ۔
فرزانہ نےاپنی شاعری اور اپنی ذات کےحوالےسےجو کچھ خود لکھا ہےوہ اپنی نوعیت میں نیا بھی ہےاور ان کی شاعری کےپس منظر کو سمجھنےمیں مدد بھی دیتا ہے، وہ لکھتی ہیں کہ
’میری شاعری میرےبچپن اور جوانی کی کائنات کےرنگوں میں ڈھلی ہےاور نیلگوں وسیع و عریض آسمان میری شاعری کا کینوس ہے،میری شاعری ایک ایسی دنیا ہےجہاں میں کچھ پل کےلئےسب کی نظروں سےاوجھل ہوکر شہرِ سبا کی سیڑھیاں چڑھتی ہوں۔۔۔۔‘
فرزانہ نےشاعری کےلئےجس دنیا کا انتخاب کیا ہےوہ نئی توہےموسم اور ان موسموں کےرنگ تازہ اور خوبصورت ضرور ہیں لیکن اس دنیا کی اور شکل بھی ہی،فرزانہ محبتوں کی شاعرہ ہیں، ان میں جدید انفرادیت کی علامت بننےکا سارا ہنر موجود ہی، فرزانہ کا مشاہداتی تخیل ایسی روشنیوں کےساتھ سفر کرتا ہےجو زمانوں کی گردشوں میں ہےاور انہیں پہچاننےکا ہنر بھی جانتا ہے، فرزانہ پرانےاور نئےوقت کےچہروں میں تازہ مماثلتیں اور جدید شباہتیں تلاش کر لیتی ہیں، اس طرح ان کےلئےانسانی تاریخ اور اعلیٰ قدریں تسلسل کےساتھ ایک ہی زندگی کی داستان بن گئی ہیں، اپنےجسم و جاں کی محبتوں کو جس انداز میں فرزانہ نےلکھا ہےوہ انداز دیارِ غیر میں آباد پاکستانی شاعرات میں کم ہی نظر آئےگا، فرزانہ نےمحبوب سےاپنےوجود کو اور اپنےوجود سےمحبوب کی یادوں کوجس طرح وابستہ کر رکھا ہےاس کی چند مثالیں دیکھئے:
آسماں کےرنگوں میں رنگ ہےشہابی سا
دھیان میں ہےوہ چہرہ ایک ماہتابی سا
حرف پیار کےسارےآگئےتھےآنکھوں میں
جب لیا تھا ہاتھوں میں چہرہ وہ کتابی سا
پارس نےدفعتاََ مجھےسونا بنا دیا
قسمت سےآج ہوگئی سرمایہ دار میں
فرزانہ کےجسم و جاں پر محبتوں کےاثرات کو مختلف کیفیت میں دیکھا جا سکتا ہے
:
بدن نےاوڑھ لی ہےشال اس کی
ملائم، نرم، مخمل ہوگئی ہوں
کسی کےعکس میں کھوئی ہوں اتنی
خود آئینےسےاوجھل ہوگئی ہوں
اشکوں کےپانیوں میں اترا کسی کا چہرہ
بہتا ہوا اچانک دریا ٹہر گیا ہے
کیسا عجب سفر ہےدل کی مسافتوں کا
میں چل رہی ہوں لیکن رستہ ٹہر گیا ہے
بسی ہےیاد کوئی آکےمیرےکاجل میں
لپٹ گیا ہےادھورا خیال آنچل میں
اُسی چراغ کی لوَ سےیہ دل دھڑکتا ہے
جلائےرکھتی ہوں جس کو شبِ مسلسل میں
درختوں کےسبز پتوں کےدرمیان،محبتوں کی بچھڑی آوازیں سنائی دیتی ہیں اور یادوں کا چراغ تنہائیوں میں جلتا رہتا ہے، پھر اس چراغ کےاجالےمیں محبوب سےملنےاور گفتگو کرنےکا موسم بھی اتر آتا ہے، ایسا مکالمہ شاعری میں ڈرامائی عناصر کی تخلیق کرتا ہےاور زندگی کےروز وشب میں پیش آنےوالےمعاملات و تجربات فنی و تخلیقی اظہار بن جاتےہیں، اس حوالےسےفرزانہ کی باتیں سنی جاسکتی ہیں:
پھرتی ہےمیرےگھر میں اماوس کی سرد رات
دالان میں کھڑی ہوں بہت بےقرار میں
جی چاہتا ہےرات کےبھرپور جسم سے
وحشت سمیٹ لوں تری دیوانہ وار میں
شام ڈھلنےسےمجھےدیکھ سحر ہونےتک
کیسےامید کو ارمان بناتی ہوں میں
روز دیکھا ہےشفق سےوہ پگھلتا سونا
روز سوچا ہےکہ تم میرےہو میرےہونا
(٢)
یہ دیکھ کتنی منور ہےمیری تنہائی
چراغ بامِ مژہ پر ہزار رکھتی ہوں
مثالِ برق چمکتی ہوں بےقراری میں
میں روشنی کی لپک برقرار رکھتی ہوں
تتلیاں ہی تتلیاں ہیں تم جو میرےساتھ ہو
دلنشیں موسم ہےجیسےدھوپ میں برسات ہو
یادوں اور ملاقاتوں کےبعد محبتوں کےدرمیان آباد رہنےکا ایک تیسرا امکان بھی ہےجسےشاعری کی زبان میں خود کلامی بھی کہا جاتا ہے، خود کلامی ایک ایسی داخلی گفتگو ہےجس میں کوئی تخلیق کار یا کوئی عام شخص اپنےآپ سےباتیں کرتا ہےان باتوں میں بچھڑےہوئےلمحوں کی بازیافت کو لفظوں میں پکارا جاتا ہےیا امکانی زمین و آسمان کا تذکرہ ہوتا ہے:
میرےچہرےمیں چمکتا ہےکسی اور کا
عکس آئنہ دیکھ رہا ہےمجھےحیرانی سے
ممکن ہےاس کو بھی کبھی لےآئےچاندرات
کچھ پھول سونےگھر میں کبھی رکھ دیا کرو
مری خا مشی میں بھی اعجاز آئے
کسی سمت سےکوئی آواز آئی
چاند رکھا ہےکہیں دھوپ کہیں رکھی ہے
رہ گیا ہےمرےگھر میں ترا ساماں نیناں
تلاش بستی میں کرتا ہےجس کو شہزادہ
وہ مورنی کسی جنگل نےپال رکھی ہے
عورت کی اہمیت اور اس کی بےتوقیری کےدرمیان بہت سی پرچھائیاں، بہت سی دیواریں کھڑی ہیں، ترقی یافتہ قومیں عورت کےلئےوہ سب کچھ کر چکی ہیں جس نےوہاں کی نسائی دنیا کو انفرادی اور اجتماعی طور پر مادر پدر آزادی کا حق دار بنادیا ہے، ترقی پذیر قوموں میں یا تیسری دنیا کےدرمیان عورت کےپورے پن کو ماننےکی آوازیں تیز تر ہوتی جارہی ہیں، عورت کی آزادیوں اور اس کی بنیادی ضرورتوں کےلئےانسانی تاریخ نےجس چیز کو اور جس نا انصافی کو لکھا ہےاس کےسامنےعدل کی ترازو تو رکھنی پڑےگے، فرزانہ نےکوئی نعرہ تو نہیں لگایا اور عورت کی طرف سےفرزانہ کےہاتھوں میں انقلاب یا بغاوت کا کوئی جھنڈا بھی نہیں ہےمگر انہوں نےعورت کےاجتماعی اور انفرادی دکھوں تک اپنےقلم کےسفر کو بڑھایا ضرور ہے، اجتماعی عورت کےبارےمیںچند مثالیں دیکھئے:
عورت کا ذہن مرد کی اس کائنات میں
اب تک ہےالجھنوں کا نشانہ بنا ہوا
قبیلےکےخنجر بھی لٹکےہوئےہیں
کھڑی ہیں جہاں لڑکیاں دل کو ہاری
انگلیوں سےلہو ٹپکتا ہے
پھر بھی کلیاں پروئےجاتی ہیں
سب اختیار اس کا ہےکم اختیار میں
شاید اسی لئےہوئی بےاعتبار میں
تھل سےکسی کا اونٹ سلامت گزر گیا
راہَ وفا میں رہ گئی مثلِ غبار میں
بدن کی چٹانوں پہ کائی جمی ہے کہ
صدیوں سےساحل پہ تنہا کھڑی ہوں
خلا سےمجھےآرہی ہیں صدائیں مگر
میں تو پچھلی صدی میں جڑی ہوں
فرزانہ کا خیال ہےکہ عورت کی روح کیسےمضبوط ہو سکتی ہےجبکہ اس کا جسم ہی کمزور بنایا گیا ہے، مگر عورت کربِ ذات کو نئی زندگی کی ایک سچی خوشی سمجھتی ہے، فرزانہ جب اپنےذاتی تجربوں کو اظہار میں لاتی ہیں تو وہ بہت سی دوسری عورتوں کا بیانیہ بھی بن جاتی ہیں:
سزا بےگناہی کی بس کاٹتی ہوں
کہاں مجھ کو جینےکےانداز آئے
وہ جن کی آنکھ میں ہوتا ہےزندگی کا ملا ل
اسی قبیلےسےخود کو ملانا چاہتی ہوں
میری تقدیر سےوہ بابِ اثر بند ملا
جب دعاؤں کےپرندوں نےاترنا چاہا
(٣)
دھوپ گر نہ صحرا کےراز کہہ گئی ہوتی
میں تو بہتےدریا کےساتھ بہہ گئی ہوتی
بام و در ہیں ترےاشکوں سےفروزاں نیناں
گھر میں اچھا نہیں اس درجہ چراغاں نیناں
لگتا ہےمجھ کو میں کسی مردہ بدن میں تھی
جینےکا حوصلہ جو ملا اجنبی لگا
فرزانہ کہتی ہیں کہ عورت نےگھر کےآنگن کو زندگی کی نرم اور گرم دھوپ سےبھر دیا ہےلیکن آنکھوں کےآبشار بارشوںکی تمثیل بنےہوئےہیں، عورت کی محبتوں کا آنچل فرزانہ نے آرزوؤں کےستاروں سےبھرا ہوا ہے، وہ ابھی اپنےآنچل پر کچھ تازہ ستارےٹانکنا چاہتی ہے، فرزانہ نےعورت کےانفرادی اور اجتماعی حوصلےکو بڑھانا چاہا ہے، انھوں نےلکھا ہےکہ:
خیال رکھنا ہےپیڑوں کا خشک سالی میں
نکالنی ہےمجھےجوئےشیر جنگل میں
قدم روکتا کب سیہ پوش جنگل
امیدوں کےجگنو اُڑائےتو ہوتے
سمندر کو صحراؤں میں لےکےآتے
کچھ انداز اپنےسکھائےتو ہوتے
پہنچتی اتر کر حسیں وادیوں میں
پہاڑوں پہ رستےبنائےتو ہوتے
درد کی نیلی رگیں پڑھتےہوئےایک ایسا تجربہ سامنےآیا ہےجو ہمارےعہد کی شاعری میں کم موجود ہے، ہر دور کی علامت سازی میں زیادہ یا کم روزمرہ زبان کو اور موجود زندگی کی اشیاءکو شامل کیا جاتا رہا ہے، فرزانہ کی شاعری میں بھی بہت سی ایسی چیزوں کا تذکرہ آیا ہےجو شہر اور گاؤں کی بھی نمائندگی کرتےہیں اور رہن سہن کی پہچان ہیں، شہر کےحوالےسےچند اشیاءکو شاعرانہ انداز میں دیکھئے:
تمہیں گلاب کےکھلنےکی کیا صدا آتی
تمہارےگرد تو ہر وقت صرف پیسا ہے
نجانےکیسےگزاروں گی ہجر کی ساعت
گھڑی کو توڑ کےسب بھول جانا چاہتی ہوں
اوڑھےپھرتی تھی جو نیناں ساری رات
اس ریشم کی شال پہ یاد کےبوٹےتھے
سیب اور چیری تو روز لےکےآتی ہوں
اپنےسندھڑی آموں کو بھول بھول جاتی ہوں
شوخ نظر کی چٹکی نےنقصان کیا
ہاتھوں سےجب چائےکےبرتن چھوٹےتھے
فرزانہ کی شاعری میں گاؤں کی زندگی، وہاں کےموسم اور وہاں کی ضروری اشیاءکا جو اظہار ملتا ہےایک طرف تو پرانی اقدار اور پرانی ثقافت کو سامنےلاتا ہےاور دوسری طرف وہ انسان بھی نظر آجاتےہیں جو صدیوں سےاپنےمحدود وسائل کےساتھ ایک ہی کروٹ جیئےجا رہےہیں۔
اُسےجو دھوپ لئےدل کےگاؤں میں اترا
رہٹ سےچاہ کا پانی پلانےوالی ہوں
میں سینت سینت کےرکھےہوئےلحافوں سے
تمہارےلمس کی گرمی چرانےوالی ہوں
کان میں میں نےپہن لی ہےتمہاری آواز
اب مرےواسطےبیکار ہےچاندی سونا
روز آجاتی ہوں کمرےمیں ہوا کی صورت
کنڈی کھڑکائےبغیر اس سےچراتی ہوں اسے
کوئی بھی نہ دیوار پر سےپکاری
مگر ذہن یادوں کےاُپلےاتاری
ملےگی میری بھی کوئی نشانی
چیزوں میں پڑی ہوئی ہوں
کہیں میں پرانی چیزوں میں
مرےوجود سےقائم ہیں بام و درمیرے
سمٹ رہی ہےمری لا مکانی چیزوں میں
بہشت ہی سےمیں آئی زمین پر لیکن
شمار میرا نہیں آسمانی چیزوں میں
یہ جانتےہوئےکوئی وفا شناس نہیں
بسر ہوئی ہےمری زندگانی چیزوں میں
میں نےفرزانہ کی نظمیں بھی پڑھی ہیں، ان نظموں میں’دریائےنیل، پگلی، پتھر کی لڑکی، سوندھی خوشبو، آخری خواہش، پہلی خوشی، ناریل کا پیڑ، اور ماں جیسی نظمیں خوبصورتی کےساتھ لکھی گئی ہیں اور احساس و خیال کو زندگی کی سچائیوں سےجوڑ دیتی ہیں،
(٤)
فرزانہ کی شاعری پڑھتےہوئےان کےکچھ ایسےاشعار بھی سامنےآئےجو بہت حد تک نئی امیجری کےساتھ لکھےگئےہیں، میں چاہتا ہوں کہ انھیں پڑھا یا سنا جائےتاکہ شاعری کےپڑھنےوالےیکسانیت سےنکل کر ذرا مختلف موسموں کےدرمیان بھی آسکیں:
شوخ بوندوں کی طرح جاکےاٹک جاتےہیں
جسم کی کوری صراحی میں چمکتےموسم
رات کےخالی کٹورےکو لبالب بھر کے
کس قدر خوشبو چھڑکتےہیں مہکتےموسم
صبح کےروپ میں جب دیکھنےجاتی ہوں اسے
ایک شیشےکی کرن بن کےجگاتی ہوں اسے
بخش دیتی ہوں مناظر کو روپہلا ریشم
جسم کو چاندنی کا تھان بناتی ہوں میں
نیلگوں جھیل میں ہےچاند کا سایہ لرزاں
موجِ ساکت بھی کوئی آئےسنبھالےاس کو
کیسا نشہ ہےسرخ پھولوں میں
تتلیاں گل پہ سوئےجاتی ہیں
زلف کو صندلی جھونکا جو کبھی کھولےگا
جسم ٹوٹےہوئےپتےکی طرح ڈولےگا
فرزانہ کی شاعری میں تصویروں کےعکس دیکھ کر لگتا ہےکہ ہم شاعری نہیں پڑھ رہےبلکہ کسی نئےمصور کی آرٹ گیلری سےگزر رہےہیں، انھوں نےخود لکھا ہےکہ
’ شاعری کےرموز و اوقاف اور اوزان و بحور وغیرہ پر مہارت کا مجھےکوئی دعویٰ نہیں، میری تشبیہات و استعارات کسی سےنہیں لئےگئےکہ مجھےاپنی مرضی کےالفاظ کا تانا بانا بننا اچھا لگتا ہے‘
ایک شاعرہ کی حیثیت سےفرزانہ نےاپنی بنیادی سچائی کو ظاہر کر دیا ہے، انھوں نےدوسری بےشمار لکھنےوالیوں کی طرح بننا پسند نہیں کیا بلکہ آزاد پرندےکی طرح کھلےآسمانوں میں اپنی اُڑان کو اہم سمجھا ہے، فرزانہ کی شاعری پڑھتےہوئےکچھ نامانوسیت کا جو احساس ہوتا ہے وہ اس جیسی تمام شاعری کی تازگی کا جواز بھی ہے، ان کی شعری زبان تخلیقی ہےاور مادری زبان سندھی ہے، ان کےتصوراتی پس منظر میں سندھ کا گاؤں بولتا ہےاس حوالےسےکہا جا سکتا ہےکہ فرزانہ خان نےاردو مادری زبان والی کئی دوسری شاعرات سےزیادہ نئی اور زیادہ تازہ زبان لکھی ہے۔
فرزانہ کی شعری جمالیات، لفظیات اور امیجز خوبصورتی و اثر پذیری کےساتھ اظہار میں آئی ہیں ، پاکستان کی تہذیبی و ثقافتی اور ادبی و معاشرتی
رویوں کےساتھ فرزانہ خان جڑی ہوئی ہیں، وہ آباد تو دیارِ غیر میں ہیں مگر ان کی یادوں میں اپنےوطن کےموسموں کےرنگ اور اپنی مٹی کی خوشبوئیں بسی ہوئی ہیں، وہ سوتی تو نوٹنگھم میں ہیں مگر خواب پاکستان کےدیکھتی ہیں اس بات سےحد درجہ وطن کی محبت کا اظہار ہوتا ہےلیکن ایک اہم تخلیق کار ہونےکی حیثیت میں برطانیہ میں گزرنےوالی زندگی، وہاں درپیش سماجی رویوں اور انسانی قدروں کا اظہار بھی فرزانہ کی شاعری میں ہونا چاہیئےتاکہ ان کو پڑھنےوالےایک مختلف کلچر سےاور اس کےایسےمعاملات و واقعات سےبھی روشناس ہوسکیں۔
فرزانہ خان کی شاعری میں رقت آمیز، خود رحمی یا قنوطیت جیسےغیر متحرک اور غیر فعالی رویئےنہیں ہیں بلکہ شکستہ خواب و خواہش کی سچائیاں اور عورت کےاجتماعی و انفرادی دکھوں کا اجلا پن ان کےہر اظہار میں موجو د ہے، وہ جسم و جاں کےتجربوں کو سالمیت و سلامتی کےساتھ لکھ کر سامنےلائی ہیں انہوں نےاشیاءکےذریعےاپنی تازہ امیجری کےتعلق سےجو نسائی آئیڈیل بنایا ہےوہ اس میں کامیاب نظر آتی ہیں، فرزانہ نےلکھا ہےکہ
’میری شاعری بچپن سےجوانی تک کی شاعری ہے‘
میں فرزانہ کی اس شاعری پر انہیں مبارکباد دیتا ہوں اور یقین کر سکتا ہوں کہ فرزانہ کی شاعری کا اگلا قدم زندگی کےزیادہ سنجیدہ، زیادہ اہم اور زیادہ گہرےتجربوں کی سمت بڑھےگا جو ان کو جلترنگ سےہو ترنگ کی طرف لےجائےگا، فرزانہ میں جدید انفرادیت کی علامت بننےکا سارا سامان موجود ہے۔
جاذب قریشی
کراچی
پروفیسرشاہدہ حسن(١)
ایک مغربی مفکر نےکہا تھا کہ جب کوئی اپنا وطن چھوڑتا ہےتو وہ اپنےساتھ صرف اپنا جسم لےجاتا ہےاور اپنی روح گویا اسی دھرتی پر چھوڑ جاتا ہے، حقیقتاََ دیکھا جائےتو ایسےتمام افراد جو ترکِ وطن کےجبر سےگزرتےہیں، کسی نہ کسی طور ساری عمر اپنی سرزمین سےوابستگی کی تمنا میں اپنی زبان، اپنی ثقافت اور اپنےلوگوں سےہمیشہ جڑےرہنےکی ہر ممکن کوشش کرتےرہتےہیں، اگر یہ تجربہ کسی حساس عورت کےحصےمیں آجائےتو اس کی اہمیت اس لئےبھی دوچند ہوجاتی ہےکہ عورت اپنےمحسوسات کی نوعیت اپنی جبلتوں اور اپنےنفسیاتی ردِ عمل کی بنا پر مرد سےمختلف لیتی ہےاگر وہ اپنےذاتی احساسات کےبیان کسی پیرایہ اظہارکو اختیار کرنےپر قادر ہوجائےتو ہمیں اس کےشخصی تجربی، مزاج، معنی کی مختلف جہتوں کو سمجھنےکی کوشش کرنی چاہئےکیونکہ اس طرح بہت سی اصلی صداقتوں کو سامنےلانےمیں مدد ملتی ہے، فرزانہ خان نیناں نہ صرف دیارِ غیر میں آباد ہیں بلکہ اپنی کاوشوں اور عملی کاموں کےذریعےاردو زبان و ادب کی ترویج میں بھی بھرپور حصہ لیتی ہیں، مجموعےمیں شامل ان کےکوائف بغور پڑھیں تو اندازہ ہوگا کہ کراچی کےمصروف تعلیمی ادارےسرسید کالج سے فرزانہ جب انگلستان پہنچیں تو زندگی کےمختلف شعبوں میں اپنی تعلیمی استعداد بڑھانےکےساتھ ساتھ انھوں نےبراڈ کاسٹر، کمپیئر، سوشل ورکر، شاعرہ ، کہانی نویس اور بزمِ علم و فن کی جنرل سیکریٹری کی حیثیت سےبھی اپنی متنوع صلاحیتوں اظہار کیا، ان کا نام انگلستان کےادبی حلقوں میں ایک معروف نام ہےلیکن اب جبکہ وہ اپنےاولین شعری مجموعے”درد کی نیلی رگیں“کےساتھ ہم سےاور آپ سےبھی متعارف ہورہی ہیں تو میں سمجھتی ہوں کہ کراچی کےادبی حلقوں سےان کا تعارف یقیناََ ایک دیرپا اور خوشگوار تاثر کا حامل ہوگا ، عبدالرحمٰن چغتائی نےمصوری کےفن کےحوالےسےلکھا:
’کہ کسی آرٹسٹ کی پہلی تصویر متعارف ہوتی ہےتو وہی دن فن کی دنیا میں اس کی پیدائش کا دن ہوتا ہے‘
نیناں نےبھی فن کی دنیا میں اپنےپہلےشعری مجموعےکی اشعت کےساتھ اپنےوجود کی آمد کا اعلان کیا ہےاور اس اعلان میں ایک مسرت اور خوشی موجزن ہے، کسی فن پارےکی اولین اظہار کی تشکیل اس اعتبار سےبھی اہم ہوتی ہےکہ اس میں فنکار کےاظہار کےابتدائی خدوخال طےپارہےہوتےہیں ، انہی خد وخال میں وہ آنےوالےزمانوں میں اپنےگوناگوں احساسات ،خیالات، نت نئےافکار اور زندگی کی سچائیوں کےانکشاف سےحاصل ہونےوالےادراک کےانوکھےاور دیرپا رنگ بھرتا چلا جاتا ہے، اگر نقشِ اول فطری اور بےساختہ ہو اور فنکار کی ا نفرادیت اور تجربےکی سچائی پر دلالت رکھتا ہو تو اس کی کوششیں قابلِ قدر اور قابلِ توجہ قرار پاتی ہیں، درد کی نیلی رگیں کا مطالعہ کرتےہوئےکوئی بھی یہ محسوس کر سکتا ہےکہ ان اشعار میں جذبوں اور محسوسات کےنئےپن سےپیدا ہونےوالی تازگی بدرجہ اتم موجود ہے، ان کی ساری شاعری میں ایک گہرےدرد کی کیفیت لہریں لیتی ہےجسےوہ بار بار درد کی نیلی رگوں کی ترکیب کےتعلق سےاجاگر کرتی ہیں، پھر وہی نیلا رنگ دردو غم کےاظہار کی مختلف کیفیات کےبیان کےلئےمختلف تراکیب کےحوالےسےمسلسل نمودار ہوتا رہتا ہے، محسوس ہوتا ہےکہ اس رنگ کو نیناں کےمحسوسات کی دنیا سےایک خاص نسبت ہےاور ہمیں یہ رنگ جو دور تک پھیلےاس آسمان کا رنگ بھی ہےاور ٹھاٹھیں مارتےسمندر کا رنگ بھی ہے، کسی کی حسین آنکھوں کا رنگ بھی ہےاور جسم پر کسی چوٹ کی شدت کو اجگر کرنےوالا رنگ بھی ،اس طرح یہ رنگ اپنےمتضاد اثرات مرتب کرنےکی صلاحیت رکھتا ہےاور زندگی کی وسعت، نرمی، گداز اور شدت کی مختلف کیفیات کی عکاسی کرتا ہی، نیناں کی شاعری گمشدہ لمحوں کی متلاشی اور ان سےمنسلک یادوں سےپیوستہ زندگی کی آئینہ نما ہے، مگر ان یادوں میں ایک خوشگواری ہے،وہ لبوں سےآہ بن کر نہیں نکلتی بلکہ کسی تشنہ وجود پر بارش کےشبنمی قطروں کی طرح آہستہ آہستہ ٹپکتی ہوئی محسوس ہوتی ہے، یہ یادیں گذری ہوئی شاموں اور کھوئےہوئےدنوں کی یادیں ہیں اور خواب ہوجانےوالےدلپسند انسانوں اور محبت کرنےوالی گمشدہ ہستیوں کی یادیں ہیں، جن کو وقت نےاپنی سیاہ چادر میں لپیٹ کر اوجھل کردیا ہے، اپنےوطن اپنےگھر اپنی مٹی اپنی گلیوں اور اپنےآنگن کی سمت لے جانے والے خوابناک اور بےانت رستےپر بڑھتی چلی جاتی ہیں اور یادوں کی کرچیاں چنتی رہتی ہیں، یوں اپنےدل کو زخم زخم کیئےجاتی ہیں:
ترےخیال سےآنکھیں ملانےوالی ہوں
نئےسروپ کا جادو جگانےوالی ہوں
میں سینت سینت کےرکھےہوئےلحافوں سے
تمہارےلمس کی گرمی چرانےوالی ہوں
زرد پتوں میں کسی یاد کےجامن کےتلے
کھیلتےرہتےہیں بچپن کےچہکتےموسم
روز پرچھائیاں یادوں کی پرندےبن کر
گھر کےپچھواڑےکےپیپل پہ اتر آتی ہیں
(٢)
کان میں ،میںنےپہن لی ہےتمہاری آواز
اب مرےواسطےبیکار ہےچاندی سونا
اوڑھ کےپھرتی تھی جو نیناں ساری رات
اس ریشم کی شال پہ یاد کےبوٹےتھی
بدن نےاوڑھ لی ہےشال اس کی
ملائم نرم مخمل ہوگئی ہوں
کسی کےعکس میں کھوئی ہوں اتنی
خود آئینےسےاوجھل ہوگئی ہوں
چل دیا ساتھ ہی میرےتری یادوں کا ہجوم
راہ سےزیست کی تنہا جو گزرنا چاہا
فرزانہ کی تمثالوں اور امیجز کی ابھرتی دنیا ، خیالوں، خوابوں، اتھاہ محبتوں اور انمٹ یادوں کی دنیا ہے، ابھی ان میں زندگی کی تلخیاں شامل نہیں ہیں ، انھوں نےگرچہ زندگی کےمختلف روپ دیکھےہیں مگر گزرتےہوئےروز و شب میں کچھ کھونےاور کچھ پانےکی آرزو کرتےہوئےاپنےسفر اور قیام کی منزلوں میں انھوں نےاپنےباطنی وجود کی آسودگی کےلئےکچھ ایسےاہتمام کر رکھےہیں کہ ان کےیہاں محرومی، اداسی، حزن و ملال کی کیفیات کےبجائےسرشاری اور شادمانی کا احساس نمایاں رہتا ہے:
خواہشیں ہوش کھوئےجاتی ہیں
درد کےبیج بوئےجاتی ہیں
انگلیوں سے لہو ٹپکتا ہے
پھر بھی کلیاں پروئےجاتی ہیں
کیسا نشہ ہےسرخ پھولوں میں
تتلیاں گل پہ سوئےجاتی ہیں
کتنی پیاری ہیں چاندنی راتیں
تم کو دل میں سموئےجاتی ہیں
نیناں اڑی جو نیند تو اک جاں فزا
خوشبو لگا بہار لگا روشنی لگا
اس شاعری میں ایک مسلسل نوسٹالوجی ہے، یہی وہ کیفیت ہےجسےانھوں نےاپنی خوبصورت نثری تحریر میں ’میری شاعری‘ کےعنوان کےساتھ کتاب میں شامل کیا ہے، سچ پوچھئےتومجھےیہ ساری تحریر نیناں کی غزلوں اور نظموں کی خوبصورت تشریح کےمترادف محسوس ہوئی ہے،یہاں ہم دو دنیاؤں میں بٹےہوئےناآسودہ وجود سےملتےہیں جو ہمیں اپنی یادوں کےطلسم میں جکڑ لیتا ہے۔۔۔
نیناں اپنی شاعری کےبارےمیں کہتی ہیں کہ یہ میری ایک اپنی دنیا ہےجہاں میں سب کی نظروں سےاچانک اوجھل ہوکر شہرِ سبا کی سیڑھیاں چڑھتی ہوں، میری شاعری سماجی اور انقلابی مسائل کےبجائےمیری اپنی راہِ فرار کی جانب جاتی ہے، اس شاعری میں اس پیپل کےدرخت کا بھی ذکر ہےجس کےپتوں کی پیپی بنا کر وہ شہنائی کی آواز سنا کرتی تھیں اور بھوبھل میں دبی آم کی گٹھلیوں کا ذکربھی ہےاور تتلیوں کےپروں پر لکھےچہروں،گڑیوں کےکھونےوالےچہروں، گوندھےجانےوالےپراندوں، تکئےکےتلےرہنےوالےخطوں،اور سپاری کاٹنےوالےسروتوں کا ذکر بھی ہے، یہ سب کسی ایک ہی خواب کی مختلف سمتیں اور کسی ایک ہی خیال کےمختلف راستےہیں جو ایک دوسرےمیں گم ہو ہو کر بار بار نکل آتےہیں، نیناں نےاسی رستےکو اپنےلئے منتخب کیا ہےاور اسی سےوابستگی نبھاتےہوئےوہ زندگی کا سفر کررہی ہیں، کہتی ہیں :
زندگی کےہزار رستےہیں
میرےقدموں کا ایک رستہ ہے
ایک اور جگہ کہتی ہیں:
ان بادلوں میں روشن چہرہ ٹہر گیا ہے
آنکھوں میں میری کوئی جلوہ ٹہر گیا ہے
(٣)
آنکھوں کی سیپیاں تو خالی پڑی ہوئی ہیں
پلکوں پہ میری کیسےقطرہ ٹہر گیا ہے
کیسا عجب سفر ہےدل کی مسافتوں کا
میں چل رہی ہوں لیکن رستہ ٹہر گیا ہے
نیناں کی شاعری اپنےلفظی پیکر تراش رہی ہیں ، لفظ لفظ سےگلےمل رہےہیں، تراکیب وضع ہورہی ہیں، شعری زبان اپنےخدوخال ترتیب دینےلگی ہے، اس تمام اظہار میں یادوں اور خیالوں کی دھنک بھی ہےاور سچ کی خوشبو بھی ۔۔۔۔ یہ سب شاعر کےاندر کی دنیا ہے، اس میں ابھی خواہش کی دنیا کے رنگ کم کم ہیں، فرزانہ وطن سےدور ایک ایسےدیار میں رہتی ہیں، جہاں زندگی اور اس کےمختلف مظاہر ہماری اس روایتی دنیا سےبہت آگےکےہیں، وہ یقیناََ ایک جدید معاشرےکےبہت سےپسندیدہ اور نا پسندیدہ مناظر سےگزرتی ہوں گی، سماجی مسائل کی نوعیت بھی مختلف ہوگی، زندگی کےبہت سےپہلو اپنی جانب متوجہ کرتےہوں گے، نیناںکی خوبصورت سوچوں کےلا متناہی سلسلوں نےان کےلہجےکو بہت سی تلخیوں سےبچا رکھا ہے، مگر پھر بھی ان کےیہاں شکوےکےانداز میں بہت نرمی کےساتھ کچھ اس طرح کی کیفیات کا اظہار گونجتا ہے:
ابر بھی جھیل پر برستا ہے
کھیت اک بوند کو ترستا ہے
احتیاطاََ ذرا سا دور رہیں اب
تو ہر ایک شخص ڈستا ہے
نیناں کا ذہن اس اعتبار سےبہت زرخیز ہےکہ ان کےپاس بات کو اپنےانداز میں کہنےکی خواہش جھلکتی ہےاور خیالات و مضامین میں ایک نئےپن کی جستجو نمایاں ہے:
اداسیوں کےعذابوں سےپیار رکھتی ہوں
نفس نفس میں شبِ انتظار رکھتی ہوں
کہاں سےآئےگا نیلےسمندروں کا نشہ
میں اپنی آنکھ میں غم کا خمار رکھتی ہوں
مثالِ برق چمکتی ہوں بےقراری میں
میں روشنی کی لپک برقرار رکھتی ہوں
مجھےامید ہےنیناں اپنی نظموں اور غزلوں کےاس ا سلوب اور لب و لہجےکو مزید نکھارنےمیں کامیاب ہوں گی اور جس عہد میں وہ زندہ ہیں اور جس تہذیب کےدرمیان رہ رہی اور بس رہی ہیں وہاں کی زندگی کےتازہ تر مشاہدات اور تجربات کےبارےمیں بھی لکھیں گی۔
پروفیسر شاہدہ حسن
کراچی
شوکت عنقا
درد کی نیلی رگیں
اجنتا اور الورا کی مورتیاں بنانےوالےکےذہن میں
مجھےیقین ہےتمہارا ہی تصور تھا
قلو پطرہ کےسر پر جب تاج رکھا گیا
تو محبت وادئ نیل میں عام ہوگئی یعنی تمام ہوگئی
وہ محبت تمہاری لفظوں کا اچھنبےتھی
تسلط کی خوشبو تمہارےلکھےہوئےلفظوں سےپھیلتی ہے
ترنم کی نگاہ تمہارےہی لفظوں کی تصویر سےپھسلتی ہے
سر کا پاتال سےکیا رشتہ ہی، یہ تمہارےلفظوں کی حقیقت ہے
یہ مجھ پر آشکار ہوا آج، آج جب تمہاری کتاب دیکھی
لگتا ہےمحبت وادئ سندھ میں عام ہوگئی!!!
کراچی
نقاش کاظمی
معزز خواتین و حضرات، آپ نےہمیشہ ہی دیکھا ہےکہ جب باہر سےکوئی صاحبِ قلم تشریف لاتا ہےاور کتاب بھی اس کی بغل میں ہو تو ہم یہی کوشش کرتےہیں کہ وہ کتاب منظرِ عام تک پہنچے، آرٹس کونسل کےتوسط سےاس کی رونمائی ہوسکے، ایسی ہی یہ تقریب ہےجس میں، میں آپ تمام حضرات کو خوش آمدید کہتا ہوں، شکر گزار ہوں آپ کا کہ آپ یہاں تشریف لائے، محترمہ فرزانہ خان نیناں پہلےبھی کئی بار تشریف لائیں اور اس مرتبہ بھی قابلِ تحسین ہیں کہ ان کی تشریف آوری سےبڑی بڑی بزمیں سج رہی ہیں، رونقیں دوبالا ہورہی ہیں، اس کی وجہ یہ نہیں ہےکہ وہ فیشن کی شاعرہ ہیں بلکہ ان کا طرزِ بیاں،طرزِ سخن، ان کا نیا پن، اچھوتا پن بےشمار اشعار ایسےہیں کہ جن کو پڑھ کےآپ کو احساس ہوگا کہ یہ نئی نسل کس انداز میں سوچتی ہےاور کیا طرزِ سخن اختیار کئےہوئےہے، وجہ اس کی یہ ہوسکتی ہےکہ انھوں نےابتدائی تعلیم اور ثانوی تعلیم پاکستان میں حاصل کی اس کےبعد جب یہ بیرونِ ملک تشریف لےگئیں تو بہت ہی جدید علوم سےوابستگی انھوں نےحاصل کی، جن میں میڈیا کےبہت وسیع تر حوالےملتےہیں ٹیلی کمیونیکیشن میں اور اس میں بڑا نیا پن ملتا ہے، اس دنیا میں جب ادب داخل ہوتا ہےتو وہ نئی نئی جہتیں معلوم کرتا ہےاور جہتیں دکھاتا بھی ہے، جب ادب اور سائنس یکجا ہوں تو بڑےبڑےمضامین سامنےآتےہیں، بہت سےلوگوں نےدیکھا ہےکہ بڑےبڑےمضامین لکھےگئےلیکن اس جدید دور میں جب مائیکروویو کمیونیکیشن آجائے، جب سیٹیلائٹ کی لہریں نیا نیا سماں پیدا کرتی ہیں، ایک ایک بٹن دباتےہی ایک سےدوسرےملک تک پہنچ جاتےہیں، ایک سےدوسرا منظر بدلتا ہے، یہ منظر نامےاتنی تیزی سےبدلتےہیں کہ اس میں فرزانہ جیسی شاعرہ ہی بہت کامیابی سےسفر کر تی ہیں اور کر رہی ہیں، میری دعا ہےکہ ان کو کامیابی حاصل ہوتی رہے، یہ خود جب اشعار پیش کریں گی تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ ان کا کلام کتنا جدید اورمختلف ہے، میں شکر گذار ہوں ان کا کہ انھوں نےاپنی کتاب کی رسمِ اجراءآرٹس کونسل میں منعقد کروائی ہے، ان تمام بڑےلوگوں کی طرح جنھوں نےملک سےباہر جاکر غیر ممالک میں علم و ادب کی شمع روشن کی یہ ان کا بڑا پن ہےایک بڑا کارنامہ ہے، اردو زبان وادب کی خدمت کرنےوالوں میں ایک حصہ فرزانہ خان نیناں بھی ہیں کہ جو یہ مشعل روشن کئےہوئےہیں، میں انھیں اپنی نیک خواہشات اور مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
کراچی آرٹس کاؤنسل
ناظر فاروقی، کراچی
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
پروردگار ہی نہیں ساری فضا ہےرنگیں
آپ مہماں ہیں تو ہر چیز پہ رعنائی ہے
درحقیقت یہ رعنائی خیال کی ہی تقریب ہے، محترمہ فرزانہ نیناں منفرد لفظیات کو اپنی شاعری میں گوندھ کر ایک نیم طلسمی مالا تخلیق کرنےوالی شاعرہ ہیں،یہ بڑی خوشی کی بات ہےکہ آجکل ہماری بہت سی خواتین شاعری کی جانب مائل ہو رہی ہیں، ابھی تک ہمارے’مرد سالاری‘ رویوں نےہماری عورتوں کو بچوں اور باورچی خانےکےحصار میںقید رکھ کر جو گھٹن پیدا کر رکھی ہےاس کا اظہار برملا ہورہا ہے،آج بھی اپنےکرب کا اظہار کرنےوالی خواتین کی تعداد ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے،مگر کم سےکم ان کےدرد کو سن کر ہمارےمعاشرےکو اپنےگریبان میں جھانکنےکی دعوت ضرور ملتی ہے، لڑکیوں کو شعر کہنےمیں ایک اور مشکل کا سامنا بھی ہےجس کی طرف ہماری بےبدل شاعرہ پروین شاکر مرحومہ اشارہ کر گئی ہیں کہ:
اپنی رسوائی ترےنام کا چرچا دیکھوں
اک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں
جدید غزل گو زندگی کی تکلیف دہ حقیقتوں کےبیاں میں بھی شاعری کی لطافتوں کا دامن ہاتھ سےنہیں جانےدیتا ،حفیظ ہوشیار پوری کا شعر ہے:
یہ تمیزِ عشق و ہوس نہیں، یہ حقیقتوں سےگریز ہے
جنھیں عشق سےسروکار ہےوہ ضرور اہلِ ہوس بھی ہیں
ہمارےبچپن کےدوست سرور بارہ بنکوی مرحوم نےبڑ ےسلیقےسےکہا کہ:
میں کسی صورت ترا کربِ تغافل سہہ گیا
اب مجھےاس کا صلہ دےحرف شرمندہ نہ ہوں
جب ایک عورت اپنےاحساس کی عکاسی کرنا چاہتی ہےتو سب سےپہلےاس کو اپنی شرمیلی طبیعت کا سامنا ہوتا ہے، حجاب کی دیواریں حائل ملتی ہیں، اپنےمخصوص لفظیات کی تلاش ہوتی ہےاور ان سب مراحل سےگزر جانا بڑےدل گردےکا کام ہے، شعر میں ظاہر کیا ہوا کرب قاری کےلیئےصرف اس وقت معنی رکھتا ہےجب وہ فن کےکسی بہترین سانچےمیں ڈھل جائے، دیکھیئےمحترمہ فرزانہ نیناں نےاپنی سوچ کےاظہار کےلیئےایک اچھوتا لہجہ اپنایا ہے:
تم عجیب قاتل ہو روح قتل کرتےہو
داغتےہو پھر ماتھا چاند کی رکابی سا
محترمہ فرزانہ نیناں بہت چھوٹی عمر میں برطانیہ چلی گئی تھیں اور اپنےساتھ روایتی ملبوسات و زیورات لے جانے کے بجائے اپنے رحجان کےمطابق مٹی کی خوشبو لیتی گئیں، اپنےبچپن کی یادوں، محرومیوں اور وعدہ خلافیوں کی کسک جو زندگی کا حصہ ہیں اس کو اپنےوجود میں رکھ لیا،اور تمام چیزوں کو اپنےذہن کےطاق پہ ہمیشہ سجائےرکھا، اپنی شاعری کے بارے میں خود فرماتی ہیں کہ
’جب والدین جنت الفردوس کو سدھارے، پردیس نےبہن بھائی چھین لئے، درد بھرےگیت روح چھیلنےلگےتو ڈائری کےصفحات کالےہونےلگے‘
آج انہیں صفحات پر بکھرےہوئےحروف ان کی شاعری کےجگنو بن گئےہیں، آپ کو جب گاؤں میں گذاری ہوئی تعطیلات کی یاد آئی تو اس کا بیاں اس طرح کیا:
کوئی بھی نہ دیوار پر سےپکارے
مگر ذہن یادوں کےاُپلےاُتارے
جب چنچل بچپن کی شرارتیں یاد آئیں تو یوں گویا ہوئیں:
راہ میں اس کی بچھا دیتی ہوں ٹوٹی چوڑی
چبھ کےکانٹےکی طرح روز ستاتی ہوں اسے
جب وعدہ خلافیوں کا شکوہ کیا تو یہ منفرد انداز اپنایا:
لئےمیں بھی کچا گھڑا منتظر تھی
تم اس پار دریا پہ آئےتو ہوتے
آپ نےمحسوس کیا ہوگا کہ ان تمام شعروں میں مہندی کا رنگ اور خوشبو بسی ہوئی ہے، یہی ان کی اپنی آواز اور آہنگ ہے، ان کی اسی منتشر خیالی اور منفرد لفظیات کےسبب ان کےکلام کو دوسرےشعراءو شاعرات سےبڑی آسانی سےالگ کیا جا سکتا ہے،محترمہ فرزانہ خان نیناں ریڈیو پر رنگا رنگ پروگرام نشر کرتی ہیں، فعال پریزینٹر ہیں، ایک ادبی تنظیم کی روحِ رواں ہیں ، ان تمام گوناگوں مشاغل کےساتھ یہ بیوٹی کنسلٹنٹ بھی ہیں اور شاید اسی لئےآپ دیکھیں کہ انہوں نےاپنی کتاب کو ایک دلہن کی طرح ایک نئےانداز سےسنوارا ہے، اس دلہن کا سراپا دلکش، اس کا لباس دھنک رنگ، اس کےگہنوں میں دل لبھانےوالا انوکھاپن ہے، میری دعا ہےکہ ان کےمنتخب کیئےہوئےحروف کےیہ گہنےاس دلہن کےماتھےپہ ہمیشہ جھومر کی طرح دمکتے رہیں۔آمین۔شکریہ
ناظر فاروقی
کراچی
رفیع الدین راز، کراچی
نیلی فکر کی شاعرہ(١)
پودےلگائےگئےہوں یا قدرتی طور پر خود اگ آئےہوں، انھیں دیکھ کر میں اکثر سوچتا ہوں کہ ان میں سےکتنےخوش قسمت پودےہوں گےجو کبھی اپنےآپ کو تناور درخت کی صورت دیکھ سکیں گے، موسم کی سختی، زمین کا دکھ اور وقت کی نادیدہ رہ گذر، اتنےعذابوں کو سہنا کوئی آسان نہیں، یہی وجہ ہےکہ ہر پودا پورےقد کا درخت نہیں بن پاتا، اس حوالےسےجب میں ادب میں نئےلکھنےوالوں کو دیکھتا ہوں تو یہاں بھی مجھےایسا ہی خیال آتا ہےاور میں سوچتا ہوں کہ اپنی آنکھوں میں خواب سجائےتعبیر کی جستجو میں سرگرداں یہ نو واردِ ادب اس سفر کےدوران کیا آبلہ پائی کی اذیت کو جھیل لیں گے، آنکھوں سےبہتےہوئےخون کو دامن میں جذب کرتےہوئےان کےحوصلےپست تو نہیں ہو جائیں گے، ان کےآئینہ صفت پیکر کیا پتھروں کی بارش کا تادیر مقابلہ کر سکیں گے؟ میرےایسےسوالوں کو کوئی سن رہا ہوتا ہے، فوراََ ہی سرگوشیوں میں مجھ سےکہتا ہے
’جس دیئےمیں جان ہوگی وہ دیا رہ جائےگا!
آج ایسا ہی اک دیا فرزانہ خان نیناں کی صورت محفلِ شعروسخن میں فروزاں ہےاور اس کی لوَ اِس بات کی گواہی دےرہی ہےکہ اس میں ہوا سےتادیر لڑنےکی قوت موجود ہے، یہ محض ستائشی جملہ نہیں ہےبلکہ اس کےپیچھےوہ روشن امکانات واضح موجود ہیں جس کےتحت میں نےیہ جملہ لکھا ہے، فرزانہ نےاپنےپہلےمجموعےمیں اپنےآپ کو شاعرہ تسلیم کروالیا ہےاور میری نظر میں یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے:
آدھی رات کےشاید سپنےجھوٹےتھے
یا پھر پہلی بار ستارےٹوٹےتھی
تلاش کرتا ہےبستی میں جس کو شہزادہ
وہ مورنی کسی جنگل نےپال رکھی ہے
انگلیوں سےلہو ٹپکتا ہے
پھر بھی کلیاں پروئےجاتی ہیں
بدن کی چٹانوں پہ کائی جمی ہے کہ
صدیوں سےساحل پہ تنہا کھڑی ہوں
خیمےاکھاڑتےہوئےصدیاں گزر گئیں
کب تک رہیں گی ساتھ یہ خانہ بدوشیاں
بےبی ہاتھی
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
پروردگار ہی نہیں ساری فضا ہےرنگیں
آپ مہماں ہیں تو ہر چیز پہ رعنائی ہے
درحقیقت یہ رعنائی خیال کی ہی تقریب ہے، محترمہ فرزانہ نیناں منفرد لفظیات کو اپنی شاعری میں گوندھ کر ایک نیم طلسمی مالا تخلیق کرنےوالی شاعرہ ہیں،یہ بڑی خوشی کی بات ہےکہ آجکل ہماری بہت سی خواتین شاعری کی جانب مائل ہو رہی ہیں، ابھی تک ہمارے’مرد سالاری‘ رویوں نےہماری عورتوں کو بچوں اور باورچی خانےکےحصار میںقید رکھ کر جو گھٹن پیدا کر رکھی ہےاس کا اظہار برملا ہورہا ہے،آج بھی اپنےکرب کا اظہار کرنےوالی خواتین کی تعداد ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے،مگر کم سےکم ان کےدرد کو سن کر ہمارےمعاشرےکو اپنےگریبان میں جھانکنےکی دعوت ضرور ملتی ہے، لڑکیوں کو شعر کہنےمیں ایک اور مشکل کا سامنا بھی ہےجس کی طرف ہماری بےبدل شاعرہ پروین شاکر مرحومہ اشارہ کر گئی ہیں کہ:
اپنی رسوائی ترےنام کا چرچا دیکھوں
اک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں
جدید غزل گو زندگی کی تکلیف دہ حقیقتوں کےبیاں میں بھی شاعری کی لطافتوں کا دامن ہاتھ سےنہیں جانےدیتا ،حفیظ ہوشیار پوری کا شعر ہے:
یہ تمیزِ عشق و ہوس نہیں، یہ حقیقتوں سےگریز ہے
جنھیں عشق سےسروکار ہےوہ ضرور اہلِ ہوس بھی ہیں
ہمارےبچپن کےدوست سرور بارہ بنکوی مرحوم نےبڑ ےسلیقےسےکہا کہ:
میں کسی صورت ترا کربِ تغافل سہہ گیا
اب مجھےاس کا صلہ دےحرف شرمندہ نہ ہوں
جب ایک عورت اپنےاحساس کی عکاسی کرنا چاہتی ہےتو سب سےپہلےاس کو اپنی شرمیلی طبیعت کا سامنا ہوتا ہے، حجاب کی دیواریں حائل ملتی ہیں، اپنےمخصوص لفظیات کی تلاش ہوتی ہےاور ان سب مراحل سےگزر جانا بڑےدل گردےکا کام ہے، شعر میں ظاہر کیا ہوا کرب قاری کےلیئےصرف اس وقت معنی رکھتا ہےجب وہ فن کےکسی بہترین سانچےمیں ڈھل جائے، دیکھیئےمحترمہ فرزانہ نیناں نےاپنی سوچ کےاظہار کےلیئےایک اچھوتا لہجہ اپنایا ہے:
تم عجیب قاتل ہو روح قتل کرتےہو
داغتےہو پھر ماتھا چاند کی رکابی سا
محترمہ فرزانہ نیناں بہت چھوٹی عمر میں برطانیہ چلی گئی تھیں اور اپنےساتھ روایتی ملبوسات و زیورات لے جانے کے بجائے اپنے رحجان کےمطابق مٹی کی خوشبو لیتی گئیں، اپنےبچپن کی یادوں، محرومیوں اور وعدہ خلافیوں کی کسک جو زندگی کا حصہ ہیں اس کو اپنےوجود میں رکھ لیا،اور تمام چیزوں کو اپنےذہن کےطاق پہ ہمیشہ سجائےرکھا، اپنی شاعری کے بارے میں خود فرماتی ہیں کہ
’جب والدین جنت الفردوس کو سدھارے، پردیس نےبہن بھائی چھین لئے، درد بھرےگیت روح چھیلنےلگےتو ڈائری کےصفحات کالےہونےلگے‘
آج انہیں صفحات پر بکھرےہوئےحروف ان کی شاعری کےجگنو بن گئےہیں، آپ کو جب گاؤں میں گذاری ہوئی تعطیلات کی یاد آئی تو اس کا بیاں اس طرح کیا:
کوئی بھی نہ دیوار پر سےپکارے
مگر ذہن یادوں کےاُپلےاُتارے
جب چنچل بچپن کی شرارتیں یاد آئیں تو یوں گویا ہوئیں:
راہ میں اس کی بچھا دیتی ہوں ٹوٹی چوڑی
چبھ کےکانٹےکی طرح روز ستاتی ہوں اسے
جب وعدہ خلافیوں کا شکوہ کیا تو یہ منفرد انداز اپنایا:
لئےمیں بھی کچا گھڑا منتظر تھی
تم اس پار دریا پہ آئےتو ہوتے
آپ نےمحسوس کیا ہوگا کہ ان تمام شعروں میں مہندی کا رنگ اور خوشبو بسی ہوئی ہے، یہی ان کی اپنی آواز اور آہنگ ہے، ان کی اسی منتشر خیالی اور منفرد لفظیات کےسبب ان کےکلام کو دوسرےشعراءو شاعرات سےبڑی آسانی سےالگ کیا جا سکتا ہے،محترمہ فرزانہ خان نیناں ریڈیو پر رنگا رنگ پروگرام نشر کرتی ہیں، فعال پریزینٹر ہیں، ایک ادبی تنظیم کی روحِ رواں ہیں ، ان تمام گوناگوں مشاغل کےساتھ یہ بیوٹی کنسلٹنٹ بھی ہیں اور شاید اسی لئےآپ دیکھیں کہ انہوں نےاپنی کتاب کو ایک دلہن کی طرح ایک نئےانداز سےسنوارا ہے، اس دلہن کا سراپا دلکش، اس کا لباس دھنک رنگ، اس کےگہنوں میں دل لبھانےوالا انوکھاپن ہے، میری دعا ہےکہ ان کےمنتخب کیئےہوئےحروف کےیہ گہنےاس دلہن کےماتھےپہ ہمیشہ جھومر کی طرح دمکتے رہیں۔آمین۔شکریہ
ناظر فاروقی
کراچی
رفیع الدین راز، کراچی
نیلی فکر کی شاعرہ(١)
پودےلگائےگئےہوں یا قدرتی طور پر خود اگ آئےہوں، انھیں دیکھ کر میں اکثر سوچتا ہوں کہ ان میں سےکتنےخوش قسمت پودےہوں گےجو کبھی اپنےآپ کو تناور درخت کی صورت دیکھ سکیں گے، موسم کی سختی، زمین کا دکھ اور وقت کی نادیدہ رہ گذر، اتنےعذابوں کو سہنا کوئی آسان نہیں، یہی وجہ ہےکہ ہر پودا پورےقد کا درخت نہیں بن پاتا، اس حوالےسےجب میں ادب میں نئےلکھنےوالوں کو دیکھتا ہوں تو یہاں بھی مجھےایسا ہی خیال آتا ہےاور میں سوچتا ہوں کہ اپنی آنکھوں میں خواب سجائےتعبیر کی جستجو میں سرگرداں یہ نو واردِ ادب اس سفر کےدوران کیا آبلہ پائی کی اذیت کو جھیل لیں گے، آنکھوں سےبہتےہوئےخون کو دامن میں جذب کرتےہوئےان کےحوصلےپست تو نہیں ہو جائیں گے، ان کےآئینہ صفت پیکر کیا پتھروں کی بارش کا تادیر مقابلہ کر سکیں گے؟ میرےایسےسوالوں کو کوئی سن رہا ہوتا ہے، فوراََ ہی سرگوشیوں میں مجھ سےکہتا ہے
’جس دیئےمیں جان ہوگی وہ دیا رہ جائےگا!
آج ایسا ہی اک دیا فرزانہ خان نیناں کی صورت محفلِ شعروسخن میں فروزاں ہےاور اس کی لوَ اِس بات کی گواہی دےرہی ہےکہ اس میں ہوا سےتادیر لڑنےکی قوت موجود ہے، یہ محض ستائشی جملہ نہیں ہےبلکہ اس کےپیچھےوہ روشن امکانات واضح موجود ہیں جس کےتحت میں نےیہ جملہ لکھا ہے، فرزانہ نےاپنےپہلےمجموعےمیں اپنےآپ کو شاعرہ تسلیم کروالیا ہےاور میری نظر میں یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے:
آدھی رات کےشاید سپنےجھوٹےتھے
یا پھر پہلی بار ستارےٹوٹےتھی
تلاش کرتا ہےبستی میں جس کو شہزادہ
وہ مورنی کسی جنگل نےپال رکھی ہے
انگلیوں سےلہو ٹپکتا ہے
پھر بھی کلیاں پروئےجاتی ہیں
بدن کی چٹانوں پہ کائی جمی ہے کہ
صدیوں سےساحل پہ تنہا کھڑی ہوں
خیمےاکھاڑتےہوئےصدیاں گزر گئیں
کب تک رہیں گی ساتھ یہ خانہ بدوشیاں
یہ دیا بھی کہیں نہ بجھ جائے
جو ہوا سےچھپائےبیٹھی ہوں
بام و در ہیں ترےاشکوں سےفروزاں نیناں
گھر میں اچھا نہیں اس درجہ چراغاں نیناں
یہ اشعار اس بات کی گواہی دےرہےہیں کہ اس شاعرہ میں زندگی کا بھرپورادراک موجود ہے، وہ زندگی جس کا تعلق یقین سےبھی ہےاور بد گمانی سےبھی، یہ زندگی کبھی انسان کو خود کلامی پر مجبور کرتی ہےتو کبھی اس کا وجود زمانےکی آواز سننےکےلئےہمہ تن گوش ہو جاتا ہے، کبھی انا کی لو اس کے احساس کو آنچ دکھاتی ہےتو کبھی انکسار کی نرمی اسےاوس کی بوند میں تبدیل کردیتی ہے، فرزانہ کےیہاں یہ تمام کیفیات ملتی ہیں، نسائی آواز کے مختلف رنگ ہمیں پروین شاکر، کشور ناہید اور فہمیدہ ریاض وغیرہ کےیہاں ملتےہیں، فرزانہ کےیہاں بھی نسائی آواز کا ایک الگ انداز ظہور کرتا دکھائی دےرہا ہے، اگر یہ شاعرہ ثابت قدمی سےاس راہ پر تادیر چلتی رہی تو کوئی وجہ نہیں کہ کامیابی اس کےقدم نہ چومے۔
ہجر ایک ایسی حقیقت ہےجس کی آنچ کسی نہ کسی صورت عمر بھر انسان کےدامن سےلپٹی رہتی ہے، اس کا اظہار ہر شاعر اپنےطور پر کرتا ہے، فرزانہ نےہجر کو یادیں اور انتظار کی صورت لکھا ہےاور خوب لکھا ہے، کچھ اشعار دیکھئے:
یاد میری بھی پڑی رہتی ہےتکیئےکےتلے
آخری خط کی طرح روز جلاتی ہوں اسے
میں سینت سینت کےرکھےہوئےلحافوں سے
تمہارے لمس کی گرمی چرانےوالی ہوں
ترےجنگل کی صندل ہوگئی ہوں
سلگنےسےمکمل ہوگئی ہوں
بدن نےاوڑھ لی ہےشال اس کی
ملائم، نرم، مخمل ہوگئی ہوں
مرےقریب ہی گو زرد شال رکھی ہے
بدن پہ میں نےمگر برف ڈال رکھی ہے
اوڑھ کےپھرتی تھی جو نیناں ساری رات
ریشم کی اس شال پہ یاد کےبوٹےتھی
چونکتی رہتی ہوں اکثر میں اکیلی گھر میں
کوئی تو ہےجو صدا دیتا ہےنیناں، نیناں
(٢)
ہےلبریز دل انتظاروں سےمیرا
میں کتبےکی صورت گلی میں گڑی ہوں
انھیں زینوں پہ چڑھتےپہلےکیسی کھنکھناتی تھی
نگوڑی پائل اب جو پاؤں میں کانٹےچبھوتی ہے
فرزانہ احساسات کی حدت کو کاغذ پر منتقل کرنےکا ہنر جانتی ہےاور یہ حدت صفحہءقرطاس تک ہی محدود نہیں ہےبلکہ یہ قاری کےرگِ احساس کو بھی اپنی پوری توانائی کےساتھ چھوتی ہے، کسی جذبےکی حدت کو قاری کےدل تک پہنچانا آسان کام نہیں، بہت کم لوگ اتنی جلدی اس منزل تک پہنچ پاتےہیں، فرزانہ کےاشعار کی جو زیریں رو ہےاُس میں اک ایسی حجاب اور شرم ہےجو اپنےاظہار کےلئےکچھ آزادی چاہتی ہوئی دکھائی دیتی ہےلیکن فرزانہ نےدانستہ اسےایسا کرنےسےروک رکھا ہےاور اس کی وجہ ہے۔۔۔
’درد کی نیلی رگیں‘ پڑھتےہوئےمجھ پر عجیب انکشاف ہوا، یہ فرزانہ خان نیناں جو انگلستان میں رہتی ہےوہ تو کلو ننگ شدہ نیناں ہے، اصل نیناں تو یہاں کی فضا میں قید ہے، اس کی سانسوں کی حدت تو اس فضا کی حرارت سےقائم ہے، اس زمین سےاس کا رشتہ زندگی اور موت کا ہے، انگلستان میں رہنےوالی شاعرہ کی کچھ لفظیات دیکھئے :
جامن، الگنی، رہٹ، پیپل،اُپلی، گوٹھ، تھر، بھوبھل، آم کی گٹھلی ،بھاگ بھری، گڑیا، چھوئی موئی اور مورنی وغیرہ،
یہ کیسی ہجرت ہےجسم وہاں ، روح یہاں!
فرزانہ خان نیناں کی شاعری جن لفظیات کےگرد گھومتی ہےان میں بیشتر لفظوں کےبارےمیں کچھ لوگوں کا خیال ہےکہ یہ شاعری کےلفظ نہیں ہیں، میرے نزدیک ہر لفظ شاعری کا لفظ ہےاگر کوئی شاعر اُس لفظ کو شعری آہنگ میں ڈھال دے تو!
انہیں لفظوں میں ایک لفظ لحاف ہے، دیکھئےفرزانہ نےلحاف کو کس طرح لکھا ہے:
میں سینت سینت کےرکھےہوئےلحافوں سے
تمہارےلمس کی گرمی چرانےوالی ہوں
فرزانہ کی شعری عمر ابھی بہت کم ہےاور فرزانہ نےلفظیات کےجس دشت میں پاؤں رکھا ہےوہ یقیناََ انتہائی محنت طلب کام ہے۔
اس مجموعےمیں ١ ۔حمد ١۔ نعت۔٤٦ غزلیں اور ٣٢ نظمیں ہیں، نعت سےلےکر آخری نظم تک فرزانہ کا لہجہ کم و بیش ایک جیسا ہے، اس سےپہلےکہ میں نظموں پر کچھ لکھوں فرزانہ کی غزلوں سےکچھ اور اشعار سنئے:
مجھےقوموں کی ہجرت کیوں تعجب خیز لگتی ہے
یہ کونجیں کس قدر لمبےسفر کرتی ہیں ڈاروں میں
میرےجگنو سےپر سلامت ہیں میں تمہیں راستہ دکھاؤں گی
فون پر تم ملےہو مشکل سے گفتگو کو تمام مت کرنا
ابھی تک یاد ہےاس کی وجاہت
ملا تھا جو مجھےپچھلےجنم میں
طواف اس پر بھی تو واجب ہےنیناں کعبہءدل کا
ٹہر جا تو اسےبھی اس طرف دوگام آنےدے
چھوئی موئی کی ایک پتی ہوں
دور ہی سےمرا نظارہ کر
فرزانہ میں نظم کہنےکی بھرپور صلاحیت موجود ہے، بلکہ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ فرزانہ میں نظم کی ایک قابلِ ذکر شاعرہ ہونےکےروشن امکانات موجود ہیں، پہلی نظم ’جانےکہاں پہ دل ہےرکھا‘ ملاحظہ کیجئے:
آج کا دن بھی پھیکا پھیکا
کھڑکی سےچھپ کر تکتا ہے
میں ہاری یا وہ ہےجیتا
روز کا ہی معمول ہےیہ تو
کل بھی بیتا، آج بھی بیتا
درد بھی با لکل ہی ویسا ہے
تھوڑا تھوڑا میٹھا میٹھا
چولھا ،چوکا، جھاڑو، پونچھا
سب کچھ کر بیٹھی تب سوچا
ہر شئےجھاڑ کےپونچھ کےدیکھا
جانےکہاں پہ دل ہےرکھا!
چند لائنیں مختلف نظموں سے:
اگر میں پتھر کی لڑکی ہوتی
تو اپنےپیکر کی سبز رُت پر بہت سی کائی اگایا کرتی
بہت سےتاریک خواب بُنتی
چاندنی کےہالےمیں کس کو کھوجتی ہو تم
چھپ کےیوں اداسی میں کس کو سوچتی ہو تم
بار بار چوڑی کےسُر کسےسناتی ہو
کھڑکیوں سےبرکھا کو دیکھ کر بلکتی ہو
سارےسپنےآنکھوں سےایک بار بہنےدو
رات کی ابھاگن کو تارہ تارہ گہنےدو
ماضی ،حال، مستقبل کچھ تو کورا رہنےدو!
(٣)
:کل ملبوس نکالا اپنا
ہلکا کاسنی رنگت کا
دھڑ سےکھول کےدل کےپٹ کو
خوشبو سنَ سنَ کرتی آئی۔۔۔
اور ایک نظم آخری خواہش سےکچھ لائنیں دیکھئے:
ندی کنارےخواب پڑا تھا
ٹوٹا پھوٹا بےسدھ بےکل
لہریں مچل کر اس کو تکتیں
سانجھ سویرےآکر پل پل
سیپی چنتےچنتےمیں بھی جانےکیوں چھو بیٹھی اس کو
یہ احساس ہو اکہ اس میں روح ابھی تک جاگ رہی ہے
ہاتھ کو میرےاس کی حرارت دھیرےدھیرےتاپ رہی ہے
تب آغوش میں اس کو اٹھایا، اک اوندھی کشتی کےنیچے
تھوڑا سا رکھا تھا سایہ۔۔۔
چھوٹی نظموں پر فرزانہ کی گرفت بہتر دکھائی دیتی ہےجس کی مثال نظم ’پگلی‘ اور ’جانےکہاں پہ دل ہےرکھا‘ میں موجود ہے، ’درد کی نیلی رگیں‘ بلا شبہ ایک اچھی تخلیق ہےلیکن یہ فرزانہ کی منزل نہیں ہے، اس مجموعےنےحرف کےامکانات کےدَر وا کئےہیں، فرزانہ کو منزل تک پہنچنےکےلئےابھی سفر طےکرنا ہے، مجھےامید ہےکہ وہ جو کچھ حاصل کرنا چاہتی ہیں ،وہ حاصل کر لیں گی، اس لئےکہ ان کی شخصیت میں ایک اعتماد ہے، وہ اعتماد جو کچھ کر لینےاور کچھ پالینےکےلئےضروری ہوتا ہے۔
رفیع الدین راز
کراچی
جاذب قریشی، کراچی
روشنی کی تازہ لپک(١)
عرب امارات ،برطانیہ، امریکا، کینیڈا کےدرمیان جو پاکستانی اپنےاپنےدائروں میں رہ کر تہذیبی و ثقافتی روایات کےساتھ ساتھ اردو زبان کی نئی تاریخ رقم کر رہےہیں ان میں نوٹنگھم میں آباد فرزانہ خان نیناں بھی شامل ہیں، نوٹنگھم میں فرزانہ نےایک ادبی اور ثقافتی تنظیم’بزمِ علم و فن‘ کےتحت اردو کا چراغ جلایا ہوا ہےجس کےزیرِ اہتمام مشاعری، جلسےاور مختلف ادبی و سماجی تقریبات ہوتی رہتی ہیں اور پاکستان سےجانےوالےاستفادہ کرتےرہتےہیں ۔
فرزانہ نےاپنی شاعری اور اپنی ذات کےحوالےسےجو کچھ خود لکھا ہےوہ اپنی نوعیت میں نیا بھی ہےاور ان کی شاعری کےپس منظر کو سمجھنےمیں مدد بھی دیتا ہے، وہ لکھتی ہیں کہ
’میری شاعری میرےبچپن اور جوانی کی کائنات کےرنگوں میں ڈھلی ہےاور نیلگوں وسیع و عریض آسمان میری شاعری کا کینوس ہے،میری شاعری ایک ایسی دنیا ہےجہاں میں کچھ پل کےلئےسب کی نظروں سےاوجھل ہوکر شہرِ سبا کی سیڑھیاں چڑھتی ہوں۔۔۔۔‘
فرزانہ نےشاعری کےلئےجس دنیا کا انتخاب کیا ہےوہ نئی توہےموسم اور ان موسموں کےرنگ تازہ اور خوبصورت ضرور ہیں لیکن اس دنیا کی اور شکل بھی ہی،فرزانہ محبتوں کی شاعرہ ہیں، ان میں جدید انفرادیت کی علامت بننےکا سارا ہنر موجود ہی، فرزانہ کا مشاہداتی تخیل ایسی روشنیوں کےساتھ سفر کرتا ہےجو زمانوں کی گردشوں میں ہےاور انہیں پہچاننےکا ہنر بھی جانتا ہے، فرزانہ پرانےاور نئےوقت کےچہروں میں تازہ مماثلتیں اور جدید شباہتیں تلاش کر لیتی ہیں، اس طرح ان کےلئےانسانی تاریخ اور اعلیٰ قدریں تسلسل کےساتھ ایک ہی زندگی کی داستان بن گئی ہیں، اپنےجسم و جاں کی محبتوں کو جس انداز میں فرزانہ نےلکھا ہےوہ انداز دیارِ غیر میں آباد پاکستانی شاعرات میں کم ہی نظر آئےگا، فرزانہ نےمحبوب سےاپنےوجود کو اور اپنےوجود سےمحبوب کی یادوں کوجس طرح وابستہ کر رکھا ہےاس کی چند مثالیں دیکھئے:
آسماں کےرنگوں میں رنگ ہےشہابی سا
دھیان میں ہےوہ چہرہ ایک ماہتابی سا
حرف پیار کےسارےآگئےتھےآنکھوں میں
جب لیا تھا ہاتھوں میں چہرہ وہ کتابی سا
پارس نےدفعتاََ مجھےسونا بنا دیا
قسمت سےآج ہوگئی سرمایہ دار میں
فرزانہ کےجسم و جاں پر محبتوں کےاثرات کو مختلف کیفیت میں دیکھا جا سکتا ہے
:
بدن نےاوڑھ لی ہےشال اس کی
ملائم، نرم، مخمل ہوگئی ہوں
کسی کےعکس میں کھوئی ہوں اتنی
خود آئینےسےاوجھل ہوگئی ہوں
اشکوں کےپانیوں میں اترا کسی کا چہرہ
بہتا ہوا اچانک دریا ٹہر گیا ہے
کیسا عجب سفر ہےدل کی مسافتوں کا
میں چل رہی ہوں لیکن رستہ ٹہر گیا ہے
بسی ہےیاد کوئی آکےمیرےکاجل میں
لپٹ گیا ہےادھورا خیال آنچل میں
اُسی چراغ کی لوَ سےیہ دل دھڑکتا ہے
جلائےرکھتی ہوں جس کو شبِ مسلسل میں
درختوں کےسبز پتوں کےدرمیان،محبتوں کی بچھڑی آوازیں سنائی دیتی ہیں اور یادوں کا چراغ تنہائیوں میں جلتا رہتا ہے، پھر اس چراغ کےاجالےمیں محبوب سےملنےاور گفتگو کرنےکا موسم بھی اتر آتا ہے، ایسا مکالمہ شاعری میں ڈرامائی عناصر کی تخلیق کرتا ہےاور زندگی کےروز وشب میں پیش آنےوالےمعاملات و تجربات فنی و تخلیقی اظہار بن جاتےہیں، اس حوالےسےفرزانہ کی باتیں سنی جاسکتی ہیں:
پھرتی ہےمیرےگھر میں اماوس کی سرد رات
دالان میں کھڑی ہوں بہت بےقرار میں
جی چاہتا ہےرات کےبھرپور جسم سے
وحشت سمیٹ لوں تری دیوانہ وار میں
شام ڈھلنےسےمجھےدیکھ سحر ہونےتک
کیسےامید کو ارمان بناتی ہوں میں
روز دیکھا ہےشفق سےوہ پگھلتا سونا
روز سوچا ہےکہ تم میرےہو میرےہونا
(٢)
یہ دیکھ کتنی منور ہےمیری تنہائی
چراغ بامِ مژہ پر ہزار رکھتی ہوں
مثالِ برق چمکتی ہوں بےقراری میں
میں روشنی کی لپک برقرار رکھتی ہوں
تتلیاں ہی تتلیاں ہیں تم جو میرےساتھ ہو
دلنشیں موسم ہےجیسےدھوپ میں برسات ہو
یادوں اور ملاقاتوں کےبعد محبتوں کےدرمیان آباد رہنےکا ایک تیسرا امکان بھی ہےجسےشاعری کی زبان میں خود کلامی بھی کہا جاتا ہے، خود کلامی ایک ایسی داخلی گفتگو ہےجس میں کوئی تخلیق کار یا کوئی عام شخص اپنےآپ سےباتیں کرتا ہےان باتوں میں بچھڑےہوئےلمحوں کی بازیافت کو لفظوں میں پکارا جاتا ہےیا امکانی زمین و آسمان کا تذکرہ ہوتا ہے:
میرےچہرےمیں چمکتا ہےکسی اور کا
عکس آئنہ دیکھ رہا ہےمجھےحیرانی سے
ممکن ہےاس کو بھی کبھی لےآئےچاندرات
کچھ پھول سونےگھر میں کبھی رکھ دیا کرو
مری خا مشی میں بھی اعجاز آئے
کسی سمت سےکوئی آواز آئی
چاند رکھا ہےکہیں دھوپ کہیں رکھی ہے
رہ گیا ہےمرےگھر میں ترا ساماں نیناں
تلاش بستی میں کرتا ہےجس کو شہزادہ
وہ مورنی کسی جنگل نےپال رکھی ہے
عورت کی اہمیت اور اس کی بےتوقیری کےدرمیان بہت سی پرچھائیاں، بہت سی دیواریں کھڑی ہیں، ترقی یافتہ قومیں عورت کےلئےوہ سب کچھ کر چکی ہیں جس نےوہاں کی نسائی دنیا کو انفرادی اور اجتماعی طور پر مادر پدر آزادی کا حق دار بنادیا ہے، ترقی پذیر قوموں میں یا تیسری دنیا کےدرمیان عورت کےپورے پن کو ماننےکی آوازیں تیز تر ہوتی جارہی ہیں، عورت کی آزادیوں اور اس کی بنیادی ضرورتوں کےلئےانسانی تاریخ نےجس چیز کو اور جس نا انصافی کو لکھا ہےاس کےسامنےعدل کی ترازو تو رکھنی پڑےگے، فرزانہ نےکوئی نعرہ تو نہیں لگایا اور عورت کی طرف سےفرزانہ کےہاتھوں میں انقلاب یا بغاوت کا کوئی جھنڈا بھی نہیں ہےمگر انہوں نےعورت کےاجتماعی اور انفرادی دکھوں تک اپنےقلم کےسفر کو بڑھایا ضرور ہے، اجتماعی عورت کےبارےمیںچند مثالیں دیکھئے:
عورت کا ذہن مرد کی اس کائنات میں
اب تک ہےالجھنوں کا نشانہ بنا ہوا
قبیلےکےخنجر بھی لٹکےہوئےہیں
کھڑی ہیں جہاں لڑکیاں دل کو ہاری
انگلیوں سےلہو ٹپکتا ہے
پھر بھی کلیاں پروئےجاتی ہیں
سب اختیار اس کا ہےکم اختیار میں
شاید اسی لئےہوئی بےاعتبار میں
تھل سےکسی کا اونٹ سلامت گزر گیا
راہَ وفا میں رہ گئی مثلِ غبار میں
بدن کی چٹانوں پہ کائی جمی ہے کہ
صدیوں سےساحل پہ تنہا کھڑی ہوں
خلا سےمجھےآرہی ہیں صدائیں مگر
میں تو پچھلی صدی میں جڑی ہوں
فرزانہ کا خیال ہےکہ عورت کی روح کیسےمضبوط ہو سکتی ہےجبکہ اس کا جسم ہی کمزور بنایا گیا ہے، مگر عورت کربِ ذات کو نئی زندگی کی ایک سچی خوشی سمجھتی ہے، فرزانہ جب اپنےذاتی تجربوں کو اظہار میں لاتی ہیں تو وہ بہت سی دوسری عورتوں کا بیانیہ بھی بن جاتی ہیں:
سزا بےگناہی کی بس کاٹتی ہوں
کہاں مجھ کو جینےکےانداز آئے
وہ جن کی آنکھ میں ہوتا ہےزندگی کا ملا ل
اسی قبیلےسےخود کو ملانا چاہتی ہوں
میری تقدیر سےوہ بابِ اثر بند ملا
جب دعاؤں کےپرندوں نےاترنا چاہا
(٣)
دھوپ گر نہ صحرا کےراز کہہ گئی ہوتی
میں تو بہتےدریا کےساتھ بہہ گئی ہوتی
بام و در ہیں ترےاشکوں سےفروزاں نیناں
گھر میں اچھا نہیں اس درجہ چراغاں نیناں
لگتا ہےمجھ کو میں کسی مردہ بدن میں تھی
جینےکا حوصلہ جو ملا اجنبی لگا
فرزانہ کہتی ہیں کہ عورت نےگھر کےآنگن کو زندگی کی نرم اور گرم دھوپ سےبھر دیا ہےلیکن آنکھوں کےآبشار بارشوںکی تمثیل بنےہوئےہیں، عورت کی محبتوں کا آنچل فرزانہ نے آرزوؤں کےستاروں سےبھرا ہوا ہے، وہ ابھی اپنےآنچل پر کچھ تازہ ستارےٹانکنا چاہتی ہے، فرزانہ نےعورت کےانفرادی اور اجتماعی حوصلےکو بڑھانا چاہا ہے، انھوں نےلکھا ہےکہ:
خیال رکھنا ہےپیڑوں کا خشک سالی میں
نکالنی ہےمجھےجوئےشیر جنگل میں
قدم روکتا کب سیہ پوش جنگل
امیدوں کےجگنو اُڑائےتو ہوتے
سمندر کو صحراؤں میں لےکےآتے
کچھ انداز اپنےسکھائےتو ہوتے
پہنچتی اتر کر حسیں وادیوں میں
پہاڑوں پہ رستےبنائےتو ہوتے
درد کی نیلی رگیں پڑھتےہوئےایک ایسا تجربہ سامنےآیا ہےجو ہمارےعہد کی شاعری میں کم موجود ہے، ہر دور کی علامت سازی میں زیادہ یا کم روزمرہ زبان کو اور موجود زندگی کی اشیاءکو شامل کیا جاتا رہا ہے، فرزانہ کی شاعری میں بھی بہت سی ایسی چیزوں کا تذکرہ آیا ہےجو شہر اور گاؤں کی بھی نمائندگی کرتےہیں اور رہن سہن کی پہچان ہیں، شہر کےحوالےسےچند اشیاءکو شاعرانہ انداز میں دیکھئے:
تمہیں گلاب کےکھلنےکی کیا صدا آتی
تمہارےگرد تو ہر وقت صرف پیسا ہے
نجانےکیسےگزاروں گی ہجر کی ساعت
گھڑی کو توڑ کےسب بھول جانا چاہتی ہوں
اوڑھےپھرتی تھی جو نیناں ساری رات
اس ریشم کی شال پہ یاد کےبوٹےتھے
سیب اور چیری تو روز لےکےآتی ہوں
اپنےسندھڑی آموں کو بھول بھول جاتی ہوں
شوخ نظر کی چٹکی نےنقصان کیا
ہاتھوں سےجب چائےکےبرتن چھوٹےتھے
فرزانہ کی شاعری میں گاؤں کی زندگی، وہاں کےموسم اور وہاں کی ضروری اشیاءکا جو اظہار ملتا ہےایک طرف تو پرانی اقدار اور پرانی ثقافت کو سامنےلاتا ہےاور دوسری طرف وہ انسان بھی نظر آجاتےہیں جو صدیوں سےاپنےمحدود وسائل کےساتھ ایک ہی کروٹ جیئےجا رہےہیں۔
اُسےجو دھوپ لئےدل کےگاؤں میں اترا
رہٹ سےچاہ کا پانی پلانےوالی ہوں
میں سینت سینت کےرکھےہوئےلحافوں سے
تمہارےلمس کی گرمی چرانےوالی ہوں
کان میں میں نےپہن لی ہےتمہاری آواز
اب مرےواسطےبیکار ہےچاندی سونا
روز آجاتی ہوں کمرےمیں ہوا کی صورت
کنڈی کھڑکائےبغیر اس سےچراتی ہوں اسے
کوئی بھی نہ دیوار پر سےپکاری
مگر ذہن یادوں کےاُپلےاتاری
ملےگی میری بھی کوئی نشانی
چیزوں میں پڑی ہوئی ہوں
کہیں میں پرانی چیزوں میں
مرےوجود سےقائم ہیں بام و درمیرے
سمٹ رہی ہےمری لا مکانی چیزوں میں
بہشت ہی سےمیں آئی زمین پر لیکن
شمار میرا نہیں آسمانی چیزوں میں
یہ جانتےہوئےکوئی وفا شناس نہیں
بسر ہوئی ہےمری زندگانی چیزوں میں
میں نےفرزانہ کی نظمیں بھی پڑھی ہیں، ان نظموں میں’دریائےنیل، پگلی، پتھر کی لڑکی، سوندھی خوشبو، آخری خواہش، پہلی خوشی، ناریل کا پیڑ، اور ماں جیسی نظمیں خوبصورتی کےساتھ لکھی گئی ہیں اور احساس و خیال کو زندگی کی سچائیوں سےجوڑ دیتی ہیں،
(٤)
فرزانہ کی شاعری پڑھتےہوئےان کےکچھ ایسےاشعار بھی سامنےآئےجو بہت حد تک نئی امیجری کےساتھ لکھےگئےہیں، میں چاہتا ہوں کہ انھیں پڑھا یا سنا جائےتاکہ شاعری کےپڑھنےوالےیکسانیت سےنکل کر ذرا مختلف موسموں کےدرمیان بھی آسکیں:
شوخ بوندوں کی طرح جاکےاٹک جاتےہیں
جسم کی کوری صراحی میں چمکتےموسم
رات کےخالی کٹورےکو لبالب بھر کے
کس قدر خوشبو چھڑکتےہیں مہکتےموسم
صبح کےروپ میں جب دیکھنےجاتی ہوں اسے
ایک شیشےکی کرن بن کےجگاتی ہوں اسے
بخش دیتی ہوں مناظر کو روپہلا ریشم
جسم کو چاندنی کا تھان بناتی ہوں میں
نیلگوں جھیل میں ہےچاند کا سایہ لرزاں
موجِ ساکت بھی کوئی آئےسنبھالےاس کو
کیسا نشہ ہےسرخ پھولوں میں
تتلیاں گل پہ سوئےجاتی ہیں
زلف کو صندلی جھونکا جو کبھی کھولےگا
جسم ٹوٹےہوئےپتےکی طرح ڈولےگا
فرزانہ کی شاعری میں تصویروں کےعکس دیکھ کر لگتا ہےکہ ہم شاعری نہیں پڑھ رہےبلکہ کسی نئےمصور کی آرٹ گیلری سےگزر رہےہیں، انھوں نےخود لکھا ہےکہ
’ شاعری کےرموز و اوقاف اور اوزان و بحور وغیرہ پر مہارت کا مجھےکوئی دعویٰ نہیں، میری تشبیہات و استعارات کسی سےنہیں لئےگئےکہ مجھےاپنی مرضی کےالفاظ کا تانا بانا بننا اچھا لگتا ہے‘
ایک شاعرہ کی حیثیت سےفرزانہ نےاپنی بنیادی سچائی کو ظاہر کر دیا ہے، انھوں نےدوسری بےشمار لکھنےوالیوں کی طرح بننا پسند نہیں کیا بلکہ آزاد پرندےکی طرح کھلےآسمانوں میں اپنی اُڑان کو اہم سمجھا ہے، فرزانہ کی شاعری پڑھتےہوئےکچھ نامانوسیت کا جو احساس ہوتا ہے وہ اس جیسی تمام شاعری کی تازگی کا جواز بھی ہے، ان کی شعری زبان تخلیقی ہےاور مادری زبان سندھی ہے، ان کےتصوراتی پس منظر میں سندھ کا گاؤں بولتا ہےاس حوالےسےکہا جا سکتا ہےکہ فرزانہ خان نےاردو مادری زبان والی کئی دوسری شاعرات سےزیادہ نئی اور زیادہ تازہ زبان لکھی ہے۔
فرزانہ کی شعری جمالیات، لفظیات اور امیجز خوبصورتی و اثر پذیری کےساتھ اظہار میں آئی ہیں ، پاکستان کی تہذیبی و ثقافتی اور ادبی و معاشرتی
رویوں کےساتھ فرزانہ خان جڑی ہوئی ہیں، وہ آباد تو دیارِ غیر میں ہیں مگر ان کی یادوں میں اپنےوطن کےموسموں کےرنگ اور اپنی مٹی کی خوشبوئیں بسی ہوئی ہیں، وہ سوتی تو نوٹنگھم میں ہیں مگر خواب پاکستان کےدیکھتی ہیں اس بات سےحد درجہ وطن کی محبت کا اظہار ہوتا ہےلیکن ایک اہم تخلیق کار ہونےکی حیثیت میں برطانیہ میں گزرنےوالی زندگی، وہاں درپیش سماجی رویوں اور انسانی قدروں کا اظہار بھی فرزانہ کی شاعری میں ہونا چاہیئےتاکہ ان کو پڑھنےوالےایک مختلف کلچر سےاور اس کےایسےمعاملات و واقعات سےبھی روشناس ہوسکیں۔
فرزانہ خان کی شاعری میں رقت آمیز، خود رحمی یا قنوطیت جیسےغیر متحرک اور غیر فعالی رویئےنہیں ہیں بلکہ شکستہ خواب و خواہش کی سچائیاں اور عورت کےاجتماعی و انفرادی دکھوں کا اجلا پن ان کےہر اظہار میں موجو د ہے، وہ جسم و جاں کےتجربوں کو سالمیت و سلامتی کےساتھ لکھ کر سامنےلائی ہیں انہوں نےاشیاءکےذریعےاپنی تازہ امیجری کےتعلق سےجو نسائی آئیڈیل بنایا ہےوہ اس میں کامیاب نظر آتی ہیں، فرزانہ نےلکھا ہےکہ
’میری شاعری بچپن سےجوانی تک کی شاعری ہے‘
میں فرزانہ کی اس شاعری پر انہیں مبارکباد دیتا ہوں اور یقین کر سکتا ہوں کہ فرزانہ کی شاعری کا اگلا قدم زندگی کےزیادہ سنجیدہ، زیادہ اہم اور زیادہ گہرےتجربوں کی سمت بڑھےگا جو ان کو جلترنگ سےہو ترنگ کی طرف لےجائےگا، فرزانہ میں جدید انفرادیت کی علامت بننےکا سارا سامان موجود ہے۔
جاذب قریشی
کراچی
پروفیسرشاہدہ حسن(١)
ایک مغربی مفکر نےکہا تھا کہ جب کوئی اپنا وطن چھوڑتا ہےتو وہ اپنےساتھ صرف اپنا جسم لےجاتا ہےاور اپنی روح گویا اسی دھرتی پر چھوڑ جاتا ہے، حقیقتاََ دیکھا جائےتو ایسےتمام افراد جو ترکِ وطن کےجبر سےگزرتےہیں، کسی نہ کسی طور ساری عمر اپنی سرزمین سےوابستگی کی تمنا میں اپنی زبان، اپنی ثقافت اور اپنےلوگوں سےہمیشہ جڑےرہنےکی ہر ممکن کوشش کرتےرہتےہیں، اگر یہ تجربہ کسی حساس عورت کےحصےمیں آجائےتو اس کی اہمیت اس لئےبھی دوچند ہوجاتی ہےکہ عورت اپنےمحسوسات کی نوعیت اپنی جبلتوں اور اپنےنفسیاتی ردِ عمل کی بنا پر مرد سےمختلف لیتی ہےاگر وہ اپنےذاتی احساسات کےبیان کسی پیرایہ اظہارکو اختیار کرنےپر قادر ہوجائےتو ہمیں اس کےشخصی تجربی، مزاج، معنی کی مختلف جہتوں کو سمجھنےکی کوشش کرنی چاہئےکیونکہ اس طرح بہت سی اصلی صداقتوں کو سامنےلانےمیں مدد ملتی ہے، فرزانہ خان نیناں نہ صرف دیارِ غیر میں آباد ہیں بلکہ اپنی کاوشوں اور عملی کاموں کےذریعےاردو زبان و ادب کی ترویج میں بھی بھرپور حصہ لیتی ہیں، مجموعےمیں شامل ان کےکوائف بغور پڑھیں تو اندازہ ہوگا کہ کراچی کےمصروف تعلیمی ادارےسرسید کالج سے فرزانہ جب انگلستان پہنچیں تو زندگی کےمختلف شعبوں میں اپنی تعلیمی استعداد بڑھانےکےساتھ ساتھ انھوں نےبراڈ کاسٹر، کمپیئر، سوشل ورکر، شاعرہ ، کہانی نویس اور بزمِ علم و فن کی جنرل سیکریٹری کی حیثیت سےبھی اپنی متنوع صلاحیتوں اظہار کیا، ان کا نام انگلستان کےادبی حلقوں میں ایک معروف نام ہےلیکن اب جبکہ وہ اپنےاولین شعری مجموعے”درد کی نیلی رگیں“کےساتھ ہم سےاور آپ سےبھی متعارف ہورہی ہیں تو میں سمجھتی ہوں کہ کراچی کےادبی حلقوں سےان کا تعارف یقیناََ ایک دیرپا اور خوشگوار تاثر کا حامل ہوگا ، عبدالرحمٰن چغتائی نےمصوری کےفن کےحوالےسےلکھا:
’کہ کسی آرٹسٹ کی پہلی تصویر متعارف ہوتی ہےتو وہی دن فن کی دنیا میں اس کی پیدائش کا دن ہوتا ہے‘
نیناں نےبھی فن کی دنیا میں اپنےپہلےشعری مجموعےکی اشعت کےساتھ اپنےوجود کی آمد کا اعلان کیا ہےاور اس اعلان میں ایک مسرت اور خوشی موجزن ہے، کسی فن پارےکی اولین اظہار کی تشکیل اس اعتبار سےبھی اہم ہوتی ہےکہ اس میں فنکار کےاظہار کےابتدائی خدوخال طےپارہےہوتےہیں ، انہی خد وخال میں وہ آنےوالےزمانوں میں اپنےگوناگوں احساسات ،خیالات، نت نئےافکار اور زندگی کی سچائیوں کےانکشاف سےحاصل ہونےوالےادراک کےانوکھےاور دیرپا رنگ بھرتا چلا جاتا ہے، اگر نقشِ اول فطری اور بےساختہ ہو اور فنکار کی ا نفرادیت اور تجربےکی سچائی پر دلالت رکھتا ہو تو اس کی کوششیں قابلِ قدر اور قابلِ توجہ قرار پاتی ہیں، درد کی نیلی رگیں کا مطالعہ کرتےہوئےکوئی بھی یہ محسوس کر سکتا ہےکہ ان اشعار میں جذبوں اور محسوسات کےنئےپن سےپیدا ہونےوالی تازگی بدرجہ اتم موجود ہے، ان کی ساری شاعری میں ایک گہرےدرد کی کیفیت لہریں لیتی ہےجسےوہ بار بار درد کی نیلی رگوں کی ترکیب کےتعلق سےاجاگر کرتی ہیں، پھر وہی نیلا رنگ دردو غم کےاظہار کی مختلف کیفیات کےبیان کےلئےمختلف تراکیب کےحوالےسےمسلسل نمودار ہوتا رہتا ہے، محسوس ہوتا ہےکہ اس رنگ کو نیناں کےمحسوسات کی دنیا سےایک خاص نسبت ہےاور ہمیں یہ رنگ جو دور تک پھیلےاس آسمان کا رنگ بھی ہےاور ٹھاٹھیں مارتےسمندر کا رنگ بھی ہے، کسی کی حسین آنکھوں کا رنگ بھی ہےاور جسم پر کسی چوٹ کی شدت کو اجگر کرنےوالا رنگ بھی ،اس طرح یہ رنگ اپنےمتضاد اثرات مرتب کرنےکی صلاحیت رکھتا ہےاور زندگی کی وسعت، نرمی، گداز اور شدت کی مختلف کیفیات کی عکاسی کرتا ہی، نیناں کی شاعری گمشدہ لمحوں کی متلاشی اور ان سےمنسلک یادوں سےپیوستہ زندگی کی آئینہ نما ہے، مگر ان یادوں میں ایک خوشگواری ہے،وہ لبوں سےآہ بن کر نہیں نکلتی بلکہ کسی تشنہ وجود پر بارش کےشبنمی قطروں کی طرح آہستہ آہستہ ٹپکتی ہوئی محسوس ہوتی ہے، یہ یادیں گذری ہوئی شاموں اور کھوئےہوئےدنوں کی یادیں ہیں اور خواب ہوجانےوالےدلپسند انسانوں اور محبت کرنےوالی گمشدہ ہستیوں کی یادیں ہیں، جن کو وقت نےاپنی سیاہ چادر میں لپیٹ کر اوجھل کردیا ہے، اپنےوطن اپنےگھر اپنی مٹی اپنی گلیوں اور اپنےآنگن کی سمت لے جانے والے خوابناک اور بےانت رستےپر بڑھتی چلی جاتی ہیں اور یادوں کی کرچیاں چنتی رہتی ہیں، یوں اپنےدل کو زخم زخم کیئےجاتی ہیں:
ترےخیال سےآنکھیں ملانےوالی ہوں
نئےسروپ کا جادو جگانےوالی ہوں
میں سینت سینت کےرکھےہوئےلحافوں سے
تمہارےلمس کی گرمی چرانےوالی ہوں
زرد پتوں میں کسی یاد کےجامن کےتلے
کھیلتےرہتےہیں بچپن کےچہکتےموسم
روز پرچھائیاں یادوں کی پرندےبن کر
گھر کےپچھواڑےکےپیپل پہ اتر آتی ہیں
(٢)
کان میں ،میںنےپہن لی ہےتمہاری آواز
اب مرےواسطےبیکار ہےچاندی سونا
اوڑھ کےپھرتی تھی جو نیناں ساری رات
اس ریشم کی شال پہ یاد کےبوٹےتھی
بدن نےاوڑھ لی ہےشال اس کی
ملائم نرم مخمل ہوگئی ہوں
کسی کےعکس میں کھوئی ہوں اتنی
خود آئینےسےاوجھل ہوگئی ہوں
چل دیا ساتھ ہی میرےتری یادوں کا ہجوم
راہ سےزیست کی تنہا جو گزرنا چاہا
فرزانہ کی تمثالوں اور امیجز کی ابھرتی دنیا ، خیالوں، خوابوں، اتھاہ محبتوں اور انمٹ یادوں کی دنیا ہے، ابھی ان میں زندگی کی تلخیاں شامل نہیں ہیں ، انھوں نےگرچہ زندگی کےمختلف روپ دیکھےہیں مگر گزرتےہوئےروز و شب میں کچھ کھونےاور کچھ پانےکی آرزو کرتےہوئےاپنےسفر اور قیام کی منزلوں میں انھوں نےاپنےباطنی وجود کی آسودگی کےلئےکچھ ایسےاہتمام کر رکھےہیں کہ ان کےیہاں محرومی، اداسی، حزن و ملال کی کیفیات کےبجائےسرشاری اور شادمانی کا احساس نمایاں رہتا ہے:
خواہشیں ہوش کھوئےجاتی ہیں
درد کےبیج بوئےجاتی ہیں
انگلیوں سے لہو ٹپکتا ہے
پھر بھی کلیاں پروئےجاتی ہیں
کیسا نشہ ہےسرخ پھولوں میں
تتلیاں گل پہ سوئےجاتی ہیں
کتنی پیاری ہیں چاندنی راتیں
تم کو دل میں سموئےجاتی ہیں
نیناں اڑی جو نیند تو اک جاں فزا
خوشبو لگا بہار لگا روشنی لگا
اس شاعری میں ایک مسلسل نوسٹالوجی ہے، یہی وہ کیفیت ہےجسےانھوں نےاپنی خوبصورت نثری تحریر میں ’میری شاعری‘ کےعنوان کےساتھ کتاب میں شامل کیا ہے، سچ پوچھئےتومجھےیہ ساری تحریر نیناں کی غزلوں اور نظموں کی خوبصورت تشریح کےمترادف محسوس ہوئی ہے،یہاں ہم دو دنیاؤں میں بٹےہوئےناآسودہ وجود سےملتےہیں جو ہمیں اپنی یادوں کےطلسم میں جکڑ لیتا ہے۔۔۔
نیناں اپنی شاعری کےبارےمیں کہتی ہیں کہ یہ میری ایک اپنی دنیا ہےجہاں میں سب کی نظروں سےاچانک اوجھل ہوکر شہرِ سبا کی سیڑھیاں چڑھتی ہوں، میری شاعری سماجی اور انقلابی مسائل کےبجائےمیری اپنی راہِ فرار کی جانب جاتی ہے، اس شاعری میں اس پیپل کےدرخت کا بھی ذکر ہےجس کےپتوں کی پیپی بنا کر وہ شہنائی کی آواز سنا کرتی تھیں اور بھوبھل میں دبی آم کی گٹھلیوں کا ذکربھی ہےاور تتلیوں کےپروں پر لکھےچہروں،گڑیوں کےکھونےوالےچہروں، گوندھےجانےوالےپراندوں، تکئےکےتلےرہنےوالےخطوں،اور سپاری کاٹنےوالےسروتوں کا ذکر بھی ہے، یہ سب کسی ایک ہی خواب کی مختلف سمتیں اور کسی ایک ہی خیال کےمختلف راستےہیں جو ایک دوسرےمیں گم ہو ہو کر بار بار نکل آتےہیں، نیناں نےاسی رستےکو اپنےلئے منتخب کیا ہےاور اسی سےوابستگی نبھاتےہوئےوہ زندگی کا سفر کررہی ہیں، کہتی ہیں :
زندگی کےہزار رستےہیں
میرےقدموں کا ایک رستہ ہے
ایک اور جگہ کہتی ہیں:
ان بادلوں میں روشن چہرہ ٹہر گیا ہے
آنکھوں میں میری کوئی جلوہ ٹہر گیا ہے
(٣)
آنکھوں کی سیپیاں تو خالی پڑی ہوئی ہیں
پلکوں پہ میری کیسےقطرہ ٹہر گیا ہے
کیسا عجب سفر ہےدل کی مسافتوں کا
میں چل رہی ہوں لیکن رستہ ٹہر گیا ہے
نیناں کی شاعری اپنےلفظی پیکر تراش رہی ہیں ، لفظ لفظ سےگلےمل رہےہیں، تراکیب وضع ہورہی ہیں، شعری زبان اپنےخدوخال ترتیب دینےلگی ہے، اس تمام اظہار میں یادوں اور خیالوں کی دھنک بھی ہےاور سچ کی خوشبو بھی ۔۔۔۔ یہ سب شاعر کےاندر کی دنیا ہے، اس میں ابھی خواہش کی دنیا کے رنگ کم کم ہیں، فرزانہ وطن سےدور ایک ایسےدیار میں رہتی ہیں، جہاں زندگی اور اس کےمختلف مظاہر ہماری اس روایتی دنیا سےبہت آگےکےہیں، وہ یقیناََ ایک جدید معاشرےکےبہت سےپسندیدہ اور نا پسندیدہ مناظر سےگزرتی ہوں گی، سماجی مسائل کی نوعیت بھی مختلف ہوگی، زندگی کےبہت سےپہلو اپنی جانب متوجہ کرتےہوں گے، نیناںکی خوبصورت سوچوں کےلا متناہی سلسلوں نےان کےلہجےکو بہت سی تلخیوں سےبچا رکھا ہے، مگر پھر بھی ان کےیہاں شکوےکےانداز میں بہت نرمی کےساتھ کچھ اس طرح کی کیفیات کا اظہار گونجتا ہے:
ابر بھی جھیل پر برستا ہے
کھیت اک بوند کو ترستا ہے
احتیاطاََ ذرا سا دور رہیں اب
تو ہر ایک شخص ڈستا ہے
نیناں کا ذہن اس اعتبار سےبہت زرخیز ہےکہ ان کےپاس بات کو اپنےانداز میں کہنےکی خواہش جھلکتی ہےاور خیالات و مضامین میں ایک نئےپن کی جستجو نمایاں ہے:
اداسیوں کےعذابوں سےپیار رکھتی ہوں
نفس نفس میں شبِ انتظار رکھتی ہوں
کہاں سےآئےگا نیلےسمندروں کا نشہ
میں اپنی آنکھ میں غم کا خمار رکھتی ہوں
مثالِ برق چمکتی ہوں بےقراری میں
میں روشنی کی لپک برقرار رکھتی ہوں
مجھےامید ہےنیناں اپنی نظموں اور غزلوں کےاس ا سلوب اور لب و لہجےکو مزید نکھارنےمیں کامیاب ہوں گی اور جس عہد میں وہ زندہ ہیں اور جس تہذیب کےدرمیان رہ رہی اور بس رہی ہیں وہاں کی زندگی کےتازہ تر مشاہدات اور تجربات کےبارےمیں بھی لکھیں گی۔
پروفیسر شاہدہ حسن
کراچی
شوکت عنقا
درد کی نیلی رگیں
اجنتا اور الورا کی مورتیاں بنانےوالےکےذہن میں
مجھےیقین ہےتمہارا ہی تصور تھا
قلو پطرہ کےسر پر جب تاج رکھا گیا
تو محبت وادئ نیل میں عام ہوگئی یعنی تمام ہوگئی
وہ محبت تمہاری لفظوں کا اچھنبےتھی
تسلط کی خوشبو تمہارےلکھےہوئےلفظوں سےپھیلتی ہے
ترنم کی نگاہ تمہارےہی لفظوں کی تصویر سےپھسلتی ہے
سر کا پاتال سےکیا رشتہ ہی، یہ تمہارےلفظوں کی حقیقت ہے
یہ مجھ پر آشکار ہوا آج، آج جب تمہاری کتاب دیکھی
لگتا ہےمحبت وادئ سندھ میں عام ہوگئی!!!
کراچی
نقاش کاظمی
معزز خواتین و حضرات، آپ نےہمیشہ ہی دیکھا ہےکہ جب باہر سےکوئی صاحبِ قلم تشریف لاتا ہےاور کتاب بھی اس کی بغل میں ہو تو ہم یہی کوشش کرتےہیں کہ وہ کتاب منظرِ عام تک پہنچے، آرٹس کونسل کےتوسط سےاس کی رونمائی ہوسکے، ایسی ہی یہ تقریب ہےجس میں، میں آپ تمام حضرات کو خوش آمدید کہتا ہوں، شکر گزار ہوں آپ کا کہ آپ یہاں تشریف لائے، محترمہ فرزانہ خان نیناں پہلےبھی کئی بار تشریف لائیں اور اس مرتبہ بھی قابلِ تحسین ہیں کہ ان کی تشریف آوری سےبڑی بڑی بزمیں سج رہی ہیں، رونقیں دوبالا ہورہی ہیں، اس کی وجہ یہ نہیں ہےکہ وہ فیشن کی شاعرہ ہیں بلکہ ان کا طرزِ بیاں،طرزِ سخن، ان کا نیا پن، اچھوتا پن بےشمار اشعار ایسےہیں کہ جن کو پڑھ کےآپ کو احساس ہوگا کہ یہ نئی نسل کس انداز میں سوچتی ہےاور کیا طرزِ سخن اختیار کئےہوئےہے، وجہ اس کی یہ ہوسکتی ہےکہ انھوں نےابتدائی تعلیم اور ثانوی تعلیم پاکستان میں حاصل کی اس کےبعد جب یہ بیرونِ ملک تشریف لےگئیں تو بہت ہی جدید علوم سےوابستگی انھوں نےحاصل کی، جن میں میڈیا کےبہت وسیع تر حوالےملتےہیں ٹیلی کمیونیکیشن میں اور اس میں بڑا نیا پن ملتا ہے، اس دنیا میں جب ادب داخل ہوتا ہےتو وہ نئی نئی جہتیں معلوم کرتا ہےاور جہتیں دکھاتا بھی ہے، جب ادب اور سائنس یکجا ہوں تو بڑےبڑےمضامین سامنےآتےہیں، بہت سےلوگوں نےدیکھا ہےکہ بڑےبڑےمضامین لکھےگئےلیکن اس جدید دور میں جب مائیکروویو کمیونیکیشن آجائے، جب سیٹیلائٹ کی لہریں نیا نیا سماں پیدا کرتی ہیں، ایک ایک بٹن دباتےہی ایک سےدوسرےملک تک پہنچ جاتےہیں، ایک سےدوسرا منظر بدلتا ہے، یہ منظر نامےاتنی تیزی سےبدلتےہیں کہ اس میں فرزانہ جیسی شاعرہ ہی بہت کامیابی سےسفر کر تی ہیں اور کر رہی ہیں، میری دعا ہےکہ ان کو کامیابی حاصل ہوتی رہے، یہ خود جب اشعار پیش کریں گی تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ ان کا کلام کتنا جدید اورمختلف ہے، میں شکر گذار ہوں ان کا کہ انھوں نےاپنی کتاب کی رسمِ اجراءآرٹس کونسل میں منعقد کروائی ہے، ان تمام بڑےلوگوں کی طرح جنھوں نےملک سےباہر جاکر غیر ممالک میں علم و ادب کی شمع روشن کی یہ ان کا بڑا پن ہےایک بڑا کارنامہ ہے، اردو زبان وادب کی خدمت کرنےوالوں میں ایک حصہ فرزانہ خان نیناں بھی ہیں کہ جو یہ مشعل روشن کئےہوئےہیں، میں انھیں اپنی نیک خواہشات اور مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
کراچی آرٹس کاؤنسل
ناظر فاروقی، کراچی
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
پروردگار ہی نہیں ساری فضا ہےرنگیں
آپ مہماں ہیں تو ہر چیز پہ رعنائی ہے
درحقیقت یہ رعنائی خیال کی ہی تقریب ہے، محترمہ فرزانہ نیناں منفرد لفظیات کو اپنی شاعری میں گوندھ کر ایک نیم طلسمی مالا تخلیق کرنےوالی شاعرہ ہیں،یہ بڑی خوشی کی بات ہےکہ آجکل ہماری بہت سی خواتین شاعری کی جانب مائل ہو رہی ہیں، ابھی تک ہمارے’مرد سالاری‘ رویوں نےہماری عورتوں کو بچوں اور باورچی خانےکےحصار میںقید رکھ کر جو گھٹن پیدا کر رکھی ہےاس کا اظہار برملا ہورہا ہے،آج بھی اپنےکرب کا اظہار کرنےوالی خواتین کی تعداد ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے،مگر کم سےکم ان کےدرد کو سن کر ہمارےمعاشرےکو اپنےگریبان میں جھانکنےکی دعوت ضرور ملتی ہے، لڑکیوں کو شعر کہنےمیں ایک اور مشکل کا سامنا بھی ہےجس کی طرف ہماری بےبدل شاعرہ پروین شاکر مرحومہ اشارہ کر گئی ہیں کہ:
اپنی رسوائی ترےنام کا چرچا دیکھوں
اک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں
جدید غزل گو زندگی کی تکلیف دہ حقیقتوں کےبیاں میں بھی شاعری کی لطافتوں کا دامن ہاتھ سےنہیں جانےدیتا ،حفیظ ہوشیار پوری کا شعر ہے:
یہ تمیزِ عشق و ہوس نہیں، یہ حقیقتوں سےگریز ہے
جنھیں عشق سےسروکار ہےوہ ضرور اہلِ ہوس بھی ہیں
ہمارےبچپن کےدوست سرور بارہ بنکوی مرحوم نےبڑ ےسلیقےسےکہا کہ:
میں کسی صورت ترا کربِ تغافل سہہ گیا
اب مجھےاس کا صلہ دےحرف شرمندہ نہ ہوں
جب ایک عورت اپنےاحساس کی عکاسی کرنا چاہتی ہےتو سب سےپہلےاس کو اپنی شرمیلی طبیعت کا سامنا ہوتا ہے، حجاب کی دیواریں حائل ملتی ہیں، اپنےمخصوص لفظیات کی تلاش ہوتی ہےاور ان سب مراحل سےگزر جانا بڑےدل گردےکا کام ہے، شعر میں ظاہر کیا ہوا کرب قاری کےلیئےصرف اس وقت معنی رکھتا ہےجب وہ فن کےکسی بہترین سانچےمیں ڈھل جائے، دیکھیئےمحترمہ فرزانہ نیناں نےاپنی سوچ کےاظہار کےلیئےایک اچھوتا لہجہ اپنایا ہے:
تم عجیب قاتل ہو روح قتل کرتےہو
داغتےہو پھر ماتھا چاند کی رکابی سا
محترمہ فرزانہ نیناں بہت چھوٹی عمر میں برطانیہ چلی گئی تھیں اور اپنےساتھ روایتی ملبوسات و زیورات لے جانے کے بجائے اپنے رحجان کےمطابق مٹی کی خوشبو لیتی گئیں، اپنےبچپن کی یادوں، محرومیوں اور وعدہ خلافیوں کی کسک جو زندگی کا حصہ ہیں اس کو اپنےوجود میں رکھ لیا،اور تمام چیزوں کو اپنےذہن کےطاق پہ ہمیشہ سجائےرکھا، اپنی شاعری کے بارے میں خود فرماتی ہیں کہ
’جب والدین جنت الفردوس کو سدھارے، پردیس نےبہن بھائی چھین لئے، درد بھرےگیت روح چھیلنےلگےتو ڈائری کےصفحات کالےہونےلگے‘
آج انہیں صفحات پر بکھرےہوئےحروف ان کی شاعری کےجگنو بن گئےہیں، آپ کو جب گاؤں میں گذاری ہوئی تعطیلات کی یاد آئی تو اس کا بیاں اس طرح کیا:
کوئی بھی نہ دیوار پر سےپکارے
مگر ذہن یادوں کےاُپلےاُتارے
جب چنچل بچپن کی شرارتیں یاد آئیں تو یوں گویا ہوئیں:
راہ میں اس کی بچھا دیتی ہوں ٹوٹی چوڑی
چبھ کےکانٹےکی طرح روز ستاتی ہوں اسے
جب وعدہ خلافیوں کا شکوہ کیا تو یہ منفرد انداز اپنایا:
لئےمیں بھی کچا گھڑا منتظر تھی
تم اس پار دریا پہ آئےتو ہوتے
آپ نےمحسوس کیا ہوگا کہ ان تمام شعروں میں مہندی کا رنگ اور خوشبو بسی ہوئی ہے، یہی ان کی اپنی آواز اور آہنگ ہے، ان کی اسی منتشر خیالی اور منفرد لفظیات کےسبب ان کےکلام کو دوسرےشعراءو شاعرات سےبڑی آسانی سےالگ کیا جا سکتا ہے،محترمہ فرزانہ خان نیناں ریڈیو پر رنگا رنگ پروگرام نشر کرتی ہیں، فعال پریزینٹر ہیں، ایک ادبی تنظیم کی روحِ رواں ہیں ، ان تمام گوناگوں مشاغل کےساتھ یہ بیوٹی کنسلٹنٹ بھی ہیں اور شاید اسی لئےآپ دیکھیں کہ انہوں نےاپنی کتاب کو ایک دلہن کی طرح ایک نئےانداز سےسنوارا ہے، اس دلہن کا سراپا دلکش، اس کا لباس دھنک رنگ، اس کےگہنوں میں دل لبھانےوالا انوکھاپن ہے، میری دعا ہےکہ ان کےمنتخب کیئےہوئےحروف کےیہ گہنےاس دلہن کےماتھےپہ ہمیشہ جھومر کی طرح دمکتے رہیں۔آمین۔شکریہ
ناظر فاروقی
کراچی
رفیع الدین راز، کراچی
نیلی فکر کی شاعرہ(١)
پودےلگائےگئےہوں یا قدرتی طور پر خود اگ آئےہوں، انھیں دیکھ کر میں اکثر سوچتا ہوں کہ ان میں سےکتنےخوش قسمت پودےہوں گےجو کبھی اپنےآپ کو تناور درخت کی صورت دیکھ سکیں گے، موسم کی سختی، زمین کا دکھ اور وقت کی نادیدہ رہ گذر، اتنےعذابوں کو سہنا کوئی آسان نہیں، یہی وجہ ہےکہ ہر پودا پورےقد کا درخت نہیں بن پاتا، اس حوالےسےجب میں ادب میں نئےلکھنےوالوں کو دیکھتا ہوں تو یہاں بھی مجھےایسا ہی خیال آتا ہےاور میں سوچتا ہوں کہ اپنی آنکھوں میں خواب سجائےتعبیر کی جستجو میں سرگرداں یہ نو واردِ ادب اس سفر کےدوران کیا آبلہ پائی کی اذیت کو جھیل لیں گے، آنکھوں سےبہتےہوئےخون کو دامن میں جذب کرتےہوئےان کےحوصلےپست تو نہیں ہو جائیں گے، ان کےآئینہ صفت پیکر کیا پتھروں کی بارش کا تادیر مقابلہ کر سکیں گے؟ میرےایسےسوالوں کو کوئی سن رہا ہوتا ہے، فوراََ ہی سرگوشیوں میں مجھ سےکہتا ہے
’جس دیئےمیں جان ہوگی وہ دیا رہ جائےگا!
آج ایسا ہی اک دیا فرزانہ خان نیناں کی صورت محفلِ شعروسخن میں فروزاں ہےاور اس کی لوَ اِس بات کی گواہی دےرہی ہےکہ اس میں ہوا سےتادیر لڑنےکی قوت موجود ہے، یہ محض ستائشی جملہ نہیں ہےبلکہ اس کےپیچھےوہ روشن امکانات واضح موجود ہیں جس کےتحت میں نےیہ جملہ لکھا ہے، فرزانہ نےاپنےپہلےمجموعےمیں اپنےآپ کو شاعرہ تسلیم کروالیا ہےاور میری نظر میں یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے:
آدھی رات کےشاید سپنےجھوٹےتھے
یا پھر پہلی بار ستارےٹوٹےتھی
تلاش کرتا ہےبستی میں جس کو شہزادہ
وہ مورنی کسی جنگل نےپال رکھی ہے
انگلیوں سےلہو ٹپکتا ہے
پھر بھی کلیاں پروئےجاتی ہیں
بدن کی چٹانوں پہ کائی جمی ہے کہ
صدیوں سےساحل پہ تنہا کھڑی ہوں
خیمےاکھاڑتےہوئےصدیاں گزر گئیں
کب تک رہیں گی ساتھ یہ خانہ بدوشیاں
بےبی ہاتھی