درد کو غزل کی بندش لگا کے بیٹھا ہوں

عائد

محفلین
صبر آج پھر اپنا آزما کے بیٹھا ہوں
درد کو غزل کی بندش لگا کے بیٹھا ہوں

خوشگمانی میں ہوں، میں سب بھلا کے بیٹھا ہوں
ایک اور سگرٹ پھر سے جلا کے بیٹھا ہوں

کچھ دھواں ہے سگرٹ کا اور تلخ کافی ہے
روز کی طرح اک محفل سجا کے بیٹھا ہوں

جس جگہ بتایا تو نے نصیب کا مطلب
ٹھیک پھر وہیں پر میں آج آ کے بیٹھا ہوں

تیرے ہجر میں جب جب رازداں، بنے ناصح
کچھ بے کار یاروں کے پاس جا کے بیٹھا ہوں

اب اثر نہیں کرتی ہیں اذیتیں مجھ پر
زندگی میں کچھ تو ایسا گنوا کے بیٹھا ہوں

میرے گرد سب ہی وحشت زدہ ہیں آ بیٹھے
راگ ایسا میں عائد گنگنا کے بیٹھا ہوں
یا پھر
ایک راگ میں ایسا گنگنا کے بیٹھا ہوں
 
آخری تدوین:
Top