درد اٹھ کے دل کی جانب مستقل جاتا ہے روز

درد اٹھ کے دل کی جانب مستقل جاتا ہے روز
لڑکھڑاتا بین کرتا مضمحل جاتا ہے روز

اک صدا تجسیم پاکر اس گلی جاتی ہے روز
قافلہ اک التجا پر مشتمل جاتا ہے روز

چھوٹے بچوں کو گلی میں مسکراتا دیکھ کر
بے دلی کے زخم کو مرہم بھی مل جاتا ہے روز

پھول جیسے دو لبوں پر کھل رہی ہو جب ہنسی
دل کے صحرا میں اچانک پھول کھل جاتا ہے روز

سرحدوں کے پار اپنی جارہی ہیں خواہشات
حاشیہ کو توڑتا ہے اور دل جاتا ہے روز
 
Top