داستان سکنتلاناتک۔یکے از تحریر ہائےجان گلکرسٹ مترجم از بہمن جی ابن دوسا بھائی منشی ۔ 1848 عیسوی - بزبان ریختہ(اردو کااولین نام--ناقل)

راجا کی آنکھ سکنتلا سے اٹکی وہاں فوج دھونڈتی ہوئی جنگل میں بھولی بھٹکی ۔ آخرش ڈھونڈھتے ڈھونڈھتے سپاہ کا وہاں گذر ہوا جہاں یوں بہم ناز و ادا کی فوجیں تل رہی تھیں اور آپس میں یہ ردوبدل ہو رہی تھی۔ فوج کے پرے کے پرے جب نزدیک آئے اور ہر ایک نے گھوڑے ادھر کو اٹھائے گرد زمین سے آسماں تلک گئی ۔ شور چاروں طرف بلند ہوا ، جنگل کے جانوروں کو گھیرنے قراول دوڑے اس طور سے اور اس طریق سے وہ سپاہ اس کی شکار کرتی ہوئی وہاں پہنچی ۔ تپسوی لوگوں نے فریاد مچائی کہ اپنے اپنے جانوروں کی رکھوالی کرو یہ شور و غل سن کر سکھیاں اپنے جی میں گھبرائیاں ، دل دھڑکنے لگے ہر ایک کا چہرہ پھول سا کملایا ۔ راجا خوشی کی باتیں کرنے نہ پایا ، دل میں اپنے اس فوج کے آنے سے بہت رکا ، انسویا دہشت کھا کر راجا سے بول اٹھی تم بیٹھو یا جاؤ ہمارا کلیجا تھرتھراتا ہے ۔ ہم اپنے مکان میں جاتیاں ہیں تم مہربانی کر کے ہمارے مکان میں آئیو ، تمہاری خدمت ہمیں لازم تھی سو ہم خدمت کئیے بن رخصت ہوتی ہیں یہ بات کہتے بھی ہمیں شرم آتی ہے ۔ ہم سے رکاوٹ دل میں مت کیجیئو پھر ایک بار ہمیں درشن دیجئیو ۔
سکنتلا کو تھام اور ہاتھ میں ہاتھ لے کر وہاں سے گھر کو چلیاں ، جدائی سے دونوں کے دل میں بے کلیاں ہوگئیاں ، وے ادھر چلیں اور راجا فوج کی طرف چلا ، جوں جوں وہ آگے جاتا تھا دل اس کا پیچھے رہا جاتا تھا ۔ وہ جب پاؤں رکھتا تھا آگے بڑھا ، کشش دل کی لاتی تھی پیچھے پھرا ۔
ہر ہر قدم پر اس کا تو یہ حال تھا اور سکنتلا کا عجب احوال تھا ، اپنی کف پا سے جو برگ گل سے نازک تر تھی کانٹے نکالنے کے بہانے جا بجا ٹھہرجاتی تھی اور کبھی آنچل اس کا بے قراری سے جو خاک پر گرتا تھا کھڑی ہو ہو اور سنبھال سنبھال آپ کو اٹھاتی تھی اور کبھی بال سر کے جو آشفتہ سری سے منہ پر بکھر جاتے تھے ۔ سنبل کا سا دستا بنا کر اسی حیلے سے باندھ کر جوڑا آگے پاؤں بڑھاتی تھی کبھی نظریں چرا کر سکھیوں کے ، پیچھے پھر کر راجا کو دیکھ لیتی تھی۔
اسی طرح ہر ہر قدم راہ تھی
کبھی نالہ تھا اور کبھی آہ تھی​
یوں ہی لگن لگائے ہوئے وہ اپنے استھان میں گئی قالب میں گویا جان نہ تھی ۔
نہ تھا دن کو آرام نے شب کو خواب
شب و روز تھا اس کے جی کو عذاب​
شرم کے مارے سکھیوں سے بھی نہ کچھ کہہ سکتی تھی ، دل کا درد دل ہی دل میں رکھتی تھی۔ تیر کاری یا تیز کٹاری کلیجے پر لگے تو سورما سہتے ہیں پر نئی جدائی کا دکھ کسی سے سہا نہیں جاتا ، کون کہے سے بات یہ مانے جس پر بیتے سوہی جانے ۔ جہاں وہ اکیلی جا بیٹھتی تھی ساون کی سی جھڑی لگاتی تھی ، اس کی یہ حالت تھی کہ سب رنگ بدن کا زرد تھا دل اور جگرمیں درد تھا۔ داغ سے سینہ سارا جلا تھا شور جنوں سے سر میں اٹھا تھا ۔
خوں ناب جگر دیدہ گریاں سے بہے تھا
اور نالہ جاں سوز ہی دمساز رہے تھا​
یہ آگ جو اس کے بدن میں لگ رہی تھی رو رو کر آنسو سے بجھاتی تھی ، اس کا تو ہر دم یہی حال تھا اور راجا کا بھی عجب احوال تھا ۔ دھیان میں وہ اس کے حیران رہتا تھا اور ایسا دم بخود تھا کہ کسی سے درد دل کا بھی نہیں کہتا تھا۔
حسرت سے ہر اک سو وہ حیرت زدہ تکتا تھا
سکتے کا سا عالم تھا کچھ کہہ نہیں سکتا تھا
سکنتلا سے جو اس نے دل اٹکایا ۔ پل مارتے وہ راج اپنا سب جلایا بھلایا، رات دن میں کل ایک دم بھی نہیں پڑتی تھی اسی کا دم بھرتا تھا نئی لگن نے اسے گھر جانے نہ دیا تپ بن کے پاس ڈیرہ کیا ۔ خاک پر اپنا سر پٹکتا تھا ۔ منی لوگوں کے ڈر سے بول نہیں سکتا تھا کہ کہیں یہ بد دعا نہ دے دیویں ۔ عشق کی آگ سے جلتا تھا اور دل میں اپنے کام دیو سے کہتا تھا تو بڑا کم بخت ہے نہایت بے انصافی تو نے یہاں آکر کی من سے تو اپچا اس لیئے تیرا نام منوج ہے اس من کو تو کیا جلاتا ہے۔ اس طرح کام دیو سے گلہ کر کے ، چاندنی رات کا عالم دیکھ کے کہنے لگا ، وہ مہ پارہ مجھ سے جدا ہے ، تو اے چاند اپنے جلوے دکھاتا ہے ، عاشقوں کو آتش حسرت سے جلاتا ہے ان کی آہ جاں سوز سے نہیں ڈرتا سمندر سے تیری پیدائش ہے کیوں دل میں تو آگ لگاتا ہے سمندر بھی تیری ان حرکتوں سے نہیں شرماتا۔ دل میں تو جو جلن ڈالتا ہے یہ تیرا قصور نہیں بلکہ یہ گناہ راہو کا ہے جو تجھے نگل کر چھوڑ دیتا ہے ۔ جو تجھے آب حیات کا چشمہ کہتے ہیں وے دیوانے ہیں۔
خیال میں اس کے بے قراری سے یہ باتیں کر رہا تھا کہ کسی منی نے دو چیلے اس کے پاس بھیجے ۔ راجا نے دنتے ہی بلا لیا ۔ ان دونوں نے اسیس دی ۔ راجا نے دنڈوت کر آؤ بھگت کی تب وے بولے بنا کن بن سونا ہےہمارے ہاں ہوم ہوتا ہے دیو آن کر خلل کرتے ہیں یہ عرض منیوں نے کی ہے۔
وہ آپ ادھر جانے کا ارادہ رکھتا تھا یہ بات سن کر بہت شاد ہوا اور خوشی خوشی تیر و کمان ہاتھ مٰیں لیئے تپ بن میں گیا رکھوں کی رکھوالی کرنے لگا۔ بروگ اس کے دل میں سکنتلاکا بڑھا بن میں اسے ڈھونڈھنے لگا ۔ ازبس کہ گرمی کے دن تھے جب دوپہر کو سورج تپنے لگا اس کے دل میں یہ سوچ ہوا سکنتلا مدھو مالتی ندی کے کنارے اس کڑی دھوپ میں کھڑی ہوگی
 
جب اس داغ سے اس کا سینہ جلا
نہ آئی اسے تاب آگے چلا​
ڈھونڈھتے ڈھونڈھتے جو اس طرف گزر ہوا دیکھا کہ تالابوں میں کنول پھول رہے ہیں ۔ ہر ہر پھول پر بھنورے منڈلا تے اور گونجتے ہیں
ہوا ٹھنڈی ٹھنڈی چلے ہے یہاں
جہاں تک کہ جائے نظر ہے سماں​
مور بول رہے ہیں ، کوئل کوک رہی ہے، درختوں کی گھنی گھنی ڈالیاں جھک جھک رہی ہٰیں ، گھڑی گھڑی چھاؤں چھا رہی ہے، کنول کی پتیوں کی سیج بچھا کر سکنتلا لیٹی ہے۔ پر وے گویا تمام کانٹے ہیں جو تلے بچھے ہیں ایک کروٹ اسے چین نہیں ، بِرہ کے درد کی بے کلی ہے ، درد سر سے صندل ماتھے پر لگا ہے، سکھیاں کنول کی پتیوں کا پنکھا بنا ہلاتیاں ہیں ۔ اگرچہ سخت بے تاب ہے پر نزاکت سے بہانہ کرتی ہے ۔کبھی دھوپ کی تپش سے ، کبھی سموم کی شدت سے گلہ ہے۔ سکھیوں سے تس پر بھی چھپاتی ہے۔ بے کلی دل کی زبان پر نہیں لاتی کبھی کہتی ہے گرمی سے میرا عجب احوال ہے۔ جنگل سے دل وحشت کرتا ہے اور جی میرا نہایت ڈرتا ہے۔
سکھیوں سے وہ یوں کہہ رہی تھی اتنے میں راجا آئے جدھر سے یہ صدا آتی تھی ادھر کان لگائے ، نگاہ جب اس پر کی دیکھا لباس بدن کا میلا ہے گریبان برنگ گل سراسر چاک ، تن پر جمی ہوئی جنگل کی خاک، لب خشک ، چشم تر ، اشک ارغوانی، چہرہ زعفرانی ، بے تاب ، بے قرار ، پریشان خاطر عجب احوال سے نالہ و زاری کر رہی ہے۔
راجا کے دل میں آئی ابھی اسے دکھائی نہ دیجئے پہلے اس کی سب باتیں سن لیجئے ۔ یہ کہہ کر گوکہ راجا ان درختوں کے اوجھل کھڑا تھا پر سکنتلا سکھیوں سے اپنے دل کی لاگ ظاہر نہ کرتی تھی ۔ انسویا نے شعور داری سے دریافت کر کے کہا ، جس دن سے وہ بن کا رکھوالا منہ دکھا کر پھر نہ آیا اسی دن سے ہنسنا بھول گئی اور دن رات اداس رہتی ہے ہر چند کہ آتش ہجر سے جلتی ہے پر شرم کے مارے کچھ نہیں کہتی۔ پریم ودا اس کی یہ باتیں سن ، افسوس کر سکنتلا سے بھید صاف صاف پوچھنے لگی کہ سوا ہمارے تمہارے یہاں کوئی اور نہیں ہم سے کیوں درد دل چھپایا ہے۔
احوال دل زار کو لا اب تو زباں پر
باقی نہیں کچھ آئی ہے غافل تری جاں پر
بس جانے دے اب کام نہ تو شرم کو فرما
رکھ مہر خموشی نہ لب و کام کو دہاں پر
گو کہ نہیں کہتی تو پر یہ چشم تر ، رنگ زرد اور آہ سرد جو تو دم بدم بھرتی ہے، تمام آثار عشق کے ان طوروں سے ظاہر ہیں ۔ صاف اگر تو زبان سے بیان کرے تو شاید کچھ ہم سے تدبیر ہو اس کا ہم علاج کریں۔ تیرا یہ رنگ دیکھ کر جان میں جان ہماری بھی نہیں ۔ دل گھبراتے ہیں ہوش و حواس اڑے جاتے ہیں۔ رونا چلا آتا ہے دم نکلا جاتا ہے۔ خدا کے واسطے نادان مت ہو اپنے حسن و جوانی کو دیکھ کیوں خاک میں اپنے کو ملاتی ہے۔
جو کچھ ہم کو کہنا تھا ہم نے کہا
نہ اک بار اب بلکہ وہ بار ہا​
ایک رو رو بلائیں لیتی تھی ۔ دوسری صدقے ہو ہو جاتی تھی۔ دیکھ دیکھ ان کا منہ وہ آئینہ رو جو سراپا حیرت کی شکل بن گئی تھی، دم سرد بھر کر کہنے لگی، تم دونوں میری جان سے زیادہ عزیز ہو اور سر سے پاؤں تلک عقل و ہوش و تمیز ہو ۔ کیا کہوں اور کیا سنوں میں ؟ جو کچھ میری جان پر گزرتی ہے اسے خدا یا میرا دل ہی جانتا ہے لیکن اس واسطے نہیں کہتی کہ ایک تو میں آپ مرتی ہوں تس پر تم دونوں کو بھی کڑھاؤں۔
گزرتی ہے جو کچھ گزرنے دو مجھ پر​
یہ سنتے ہی انہوں نے اپنے گریبان چاک کیئے اور خاک پر ہر ایک نے اپنے تئیں پٹک پٹک دیا اور کہنے لگیں ، ہماری زیست ترے دم کے ساتھ ہے جب تیری یہ حالت ہوئی ہم جی کر کیا کریں گے ۔ تب وہ اور بے حواس ہوئی چار و ناچار بیان کرنے لگی ۔ جب سے صورت دکھا کر گیا ہےوہ بن کا رکھوالا تب سے زخم جگر کا میرے ہے آلا ۔ کل ایک پل نہیں پڑتی دل کو ، بے کلی سے جان لبوں پر آرہی ہے ۔ شکل اس کی آنکھوں کی پتلیوں میں پڑی پھرتی ہے یا اسے کسی صورت سے دکھاؤ یا میری زیست سے ہاتھ اٹھاؤ۔ کچھ اور کہنے نہ پائی تھی کہ اشک کی آنکھوں میں طغیانی ہوئی ۔ دم بند ہو گیا ، ہچکی لگ گئی ۔
دم بخود ہو کے پھر ہوئی خاموش​
سکھیوں نے اسے خاک سے اٹھا، ہاتھ منہ دھلا بہت دلاسا تسلی دے کر کہا سب آرزوئیں خاطر خواہ تیری ابھی بر آتی ہیں ۔ اچھے وقت تو نے اپنے راز دل سے آگاہ کیا وہ راجا، بن کا رکھوالا جس کی چاہت سے تیری یہ حالت بنی ہے اسے نگہبانی کے لیے رکھیوں نے بلوایا ہے ۔ پھر وہ اس تپ بن میں آیا ہے۔ اور اسے ہم نے دیکھا ہےکہ آثار تیرے عشق کے اس کی حالت سے ظاہر ہیں راہ گھر کی بھولا ہے وحشت زدہ پھرتا ہے نہ وہ رنگ و روپ نہ وہ طرح طور ہے سوکھ کر کانٹا ہو گیا ہے۔

 
آخری تدوین:
یہاں یہ باتیں ہوتیاں تھیں کہ وہ چھپا کھڑا سنتا تھا ۔ دیدہ حسرت سے دیکھ رہا تھا کہ وہ معشوق عاشق مزاج اس طرح ناشاد لیٹی ہے کہ اس کے مہتابی مکھڑے پر آہ کی ہوائیاں چھٹ رہی ہیں ۔ سکھیاں اسے بہلا بہلا کہتیاں ہیں کہ ہمیں یہ تدبیر سوجھتی ہے کہ تم اسے اپنے ہاتھ سے خط لکھو سب اپنے دل کی حالت جو گزرتی ہے زبان قلم پہ لاؤ دیکھتے ہی خط کو اور مطلع ہو کر اس کے مضمون سراہا درد سے یہاں آوے گا ۔ کام تغافل کو نہ فرماوے گا اب ڈھیل اس میں مت کرو ۔
بہ ظاہر وہ شرمائی اور باطن میں خوش ہوئی پھر سکھیوں سے کہا یہ بات بہت اچھی ہے میرا دل بھی گواہی دیتا ہے یہی کیا چاہیئے پر ڈر ہے کہ اگر خط کو پڑھ کر تغافل کرے اور نہ آوے تو ہمیں حسرت اور اس غیرت سے جان ہی دینی پڑے گی تب انسویا نے جواب دیا سکنتلا تو کیوں دیوانی ہوئی ہے جو ایسا خیال کرتی ہے ۔ گھر میں کوئی دولت آئی ہوئی نہیں لیتا اور دروازہ بند کر دیتا ہے جسے ایک چاہے دوسرا کیوں کر نہ چاہے تمہاری محبت کا جو راجا کو یقین ہووےگی تو اپنی قسمت سراہے گا۔ وہ عاشق زار پھر کہنے لگی یہاں کاغذ و دوات وقلم کہاں ہے جو میں نامہ لکھوں ، تب سکھیوں نے کہا کنول کی پنکھڑیوں پر خون دل سے لکھ کو بیک صبا کے ہاتھ جلدی روانہ کر ۔
کنول کی پاتی اس نے لکھ کر بنائی اور سکھیوں کو پڑھ کر سنائی انہوں نے جی لگا کر سنی لکھا تھا ہم کیا علاج کریں مہر تمہارے دل میں ذرا نہیں ، دل ہمارا نظروں ہی نظروں میں چرا لےگئے پھر دکھائی نہ دئیے سراپا تمہارا برگ گل سے بھی نازک تر برہما نے بنایا ہےایسے بے درد اور سنگدل ہو۔
یہ احوال سکنتلا نے سکھیوں کو سنایا اور راجا درختوں سے نکل آیا۔ جلوہ اپنا دکھا کر سکنتلا سے بولا جنگل میں رات دن دحشی سا پھرتا ہوں تمہاری محبت سے گھر بار تج کر بن باسی بنا ہوں ۔
جوں راجا ان کے پاس آکر یے باتیں کرنے لگا وے سب شاد ہوئیں سکنتلا تعظیم کو اٹھنے لگی، دبلاپے سے ناطاقت دیکھ کر راجا بولے یہ جو حالت نظر آئی تمہاری ، معاف تمہیں تعظیم ہماری ، دیکھ کر یہ جلنا تمہارا ، سلگ گیا کلیجہ ہمارا۔ ہاتھ لاؤ تمہاری نبض دیکھیں مرض دریافت کر کے تدبیر کریں۔
پریم ودا بولی اچھی ساعت تم آئے ، تم نے ہمارے سب دکھ درد بھلائے سکنتلا کا بھی کوئی درد نہ رہے گا دیکھو نبض اس کی اور جو علاج چاہو کرو دیکھیں ہم حکمت تمہاری۔
راجا مسکرا کر پاس جا بیٹھا اور سکنتلا بھی شرمائی دونوں کی ایک سی محبت دیکھ انسویا راجا سے بولی گو کہ آج تمہیں اس کی چاہ ہے لیکن اس کا ہاتھ تمہارے ہاتھ نباہ ہے ۔ تم راجا ہو عورتیں تمہارے یہاں ان گنت ہیں ایسا نہ ہو کہ اس کی الفت دل سے بھلا دواور یہ جان واحد رکھتی ہے کوئی اس کا اتنا مونس و غم خوار نہیں جو کبھی تم اس سے غافل ہوگے اور اس کی خاطر نہ کرو گے پھر اس کا کیا حال ہوگا کیوں کر اس کی زندگی ہوگی ۔ اتنا کہہ کر وہ چپ ہو رہی ۔
راجا نے کہا افسوس کہ میں نے اس کی خاطر یہ حالت اپنی بنائی لیکن تمہیں میری چاہت باور نہیں آئی تم بدگمانی سے میرے حق میں یہ باتیں کہتی ہو
 
نہ ہو گی کبھی کوئی مجھ سے وہ بات
جو کوئی کہے گا یہ کہی اس نے گھات
کرونگا دل و جان اسپر فدا
رہے یاد تم کو یہ میرا کہا​
میں اسکے ہاتھ جب آپ بک گیا سب اس کی چیزیاں ہونگی ۔ جب سے میں نے اسے دیکھا ہے ہوش و قرار یک لخت جاتا رہا ہے ۔ گھر چھوڑ کر جنگل میں پھرتا ہوں ۔ اسی کا دھیان آٹھ پہر رہتا ہے ۔ میں اسکا دل و جان سے عاشق زار ہوں اور آن آن اسکے حسن و ادا پر نثار ہوں ۔ غلام مجھے اس کا جانو ۔ میری اس بات کو یقین مانو۔

انسویا بولی راجا تم نے ہمارے دل کی اب دبدھا مٹا دی ۔ ہماری خاطر جمع ہوئی ۔ بہت خوش ہوئیاں پھر ہنس کر انسویا نے پریم ودا سے کہا ، ہرن کے بچے بھوکے ہونگے اور اپنے ماؤں کی طرف حسرت سے تکتے ہونگے، اٹھ چل او سکھی جو انہوں کی ماؤں سے انہیں ملا ویں ۔ یہ چہل کر کے دونوں سکھیاں چلیں تب خوف کھا کر سکنتلا بولی تم خدا سے نہیں ڈرتیاں جو مجھے یہاں اکیلا چھوڑ کر جاتیاں ہو ۔ وے کہنے لگیں تم ایک گھڑی اپنے پی کے پاس اکیلی رہو اور اپنے اپنے من کی باتیں کہو یہ کہہ کر دونوں ٹل گئیاں پھر سکنتلا بھی وہاں سے گھبرا کر اٹھی ۔

راجا نے اس کی بانہہ گہہ کر کہا اس دوپہر کی گرمی میں سورج ایسا تپتا ہے جو پرند پر نہیں مار سکتے اور چرند بھی رکھوں کی چھاؤں میں سے باہر نہیں نکلتے تم اٹھ کر یہاں سے کہاں چلی ہو۔ تمہیں میرے پاس سونپ گئیں ہیں جو تمہاری پیاری سکھیاں ہیں ۔ جو وے کام کاج کرتی تھیں مجھے فرماؤ کہو تو صندل گھس لاؤں تمہاری پیشانی پر لگاؤں کہو تو پنکھا ہلاؤں ۔ یہ کہکر راجا نے ڈھٹھائی کی اور ہاتھ پکڑ کر سکنتلا کو بٹھایا۔ چھاتی اس کی دھک دھک کرنے لگی ۔ ہاتھ لگانے سے اس کے بہت ڈری۔
خفا ہو کچھ ایک پھر یہ باتیں کہیں
مہاراج یہہ تم کو لازم نہیں
مجھے مت چھوؤ دیکھو مانو کہا
نہین خوب یہہ اختلاط آپ کا​
باپ ہمارا گھر نہیں اور اب تلک بیاہی بھی نہیں گئی ۔ آنچل بھی نہیں گہا کسی نے میرا ، تمہیں آکر اب کس خیال نے گھیرا۔
کرو درگزر ایسی باتوں سے تم
نہ پیش آؤ اس طرح گھاتوں سے تم​
باپ میرا جب آوے گا تم سے میرا بیاہ کردیگا ۔ کِلنک مجھے مت لگاؤ ، میری بدنامی دھیان میں لاؤ ، نہ کرونگی سوا تمہارے شادی تمہیں میں پہلے ہی قبول کر چکی اور تمہارے عشق کی آگ میں سراسر پھکی ، جلدی کیوں ہو کرتے ، لوگوں کے طعنوں سے کیوں نہیں ڈرتے ۔

وہ بولا جون کی کتنی کنواری لڑکیاں برپا کر گندھرو بیواہ کر بیاہی گئیں ۔ دنیا میں ان کی تعریف ہوتی ہے ۔ پھر اپنے ہاتھ میں اسکا ہاتھ لیکر کہا آج سے ہم تمہارے ہوئے اور تم ہماری ہو چکیں ۔ ہمارا تمہارا گندھرو بیواہ ہوا ، کن منی کی دہشت دل میں کچھ مت کرو وہ بہت اچھا اور نپٹ سیانا ہے ۔ تیرتھ کر کے جب آوے گا یہ بات سنکر دل اس کا نہایت سکھ پاویگا۔

جب کام دیو نے راجا کو بیکل کیا ، کام کی باتوں سے اسکی حالت اور ہی ہونے لگی ، سکنتلا شرمائی تب اس نے اسے بھینچکر ایسا لگایا گویا وہ ایک جان اور ایک ہی قالب تھے ۔ حجاب کا پردہ درمیان سے اٹھا اور کام دل حاصل ہوا ۔ ادھر سے نیاز اودھر سے طرز دشنام ، ادھر سے سوال بوسہ اور دل کا کام اودھر سے او او ناز سے ہر آن سسکیاں ادھر سے اختلاچ کی گرمیاں اسنے گلے میں ہاتھ ڈالا، اوسنے جھڑک کر چھڑا دیا۔

وہ ٹھنڈھی ٹھنڈھی ہوائیں اور درختوں کی گہری گہری چھائیں کہ جہاں چکور سا اس چاند سے مکھڑے پر دالہ تھا اور وہ کویل سی کوک رہی تھی ، خوشیاں باہم ہو رہی تھیں ۔

اس رنگ رس میں شام ہونے کو آئی، گوتمی ڈھونڈھتے ڈھونڈھتے وہاں وارد ہوئی ، آواز اسکی سن کر سکھیاں دوڑی آئیں کہا راجا کو جلد رخصت کرو ، سکنتلا نہایت ڈری راجا سے کہا کہیں تم ان درختوں میں چھپو ، بوا ہماری گوتمی یہاں اب آوے گی ، یہاں سے مجھے گھر کو لیجاوے گی ، مجھے پھر کب دیدار دکھاؤ گے، اب کچھ نشانی اپنی دیتے جاؤ جو اسے دیکھ کر تسلی ہم دل کو دیں ۔

جب یہہ سکنتلا نے بات کہی ، راجا کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے ، نشانی اس نے اپنی انگوٹھی دی ، اتنے مٰیں گوتمی پاس آئی ، آواز اس کے پاؤں کی سن کر راجا درختوں کی آڑ میں ہو گیا سکنتلا بہت رک کر سر منہ لپیٹ لیٹ رہی ۔

گوتمی نے اسے اٹھایا اور پوچھنے لگی کچھ تیرے دل کی گھبراہٹ گھٹی یا نہیں تب اس نے یہ بات کہی کچھ درد اور بڑھا، ہاتھ پکڑ کر اسکا وہ استھان کو لے چلی ۔

جب سکنتلا اپنے مکان میں گئی راجا کو دکھ کے سمندر میں تھاہ نہ ملی ، جس سجہ سکنتلا کے ساتھ مزے اٹھائے تھے وہ پھر وہاں آیا اور خالی سیج کنول کی پتیوں کی دیکھ کر خار جدائی دل میں کھٹکنے لگے ، برہ کی تپ سے جلنے لگا اور دل ہی دل میں یوں کہنے لگا ، کیا کروں کدھر جاؤں کیونکر کل پڑے مجھے، یہہ دکھ اپنا کسے سناؤں پھر کس شکل سے اسے دیکھنے پاؤں، جیوں جیوں وہ سیج سنی دیکھتا تھا تیوں تیوں نیا درد دل دونا بڑھتا تھا ۔ ادھر راجا کے دل میں محبت نے غم بڑھایا اودھر سے منیوں نے شور مچایا ، مہاراج نے کیوں ہماری سدھ بھلائی۔ جدھر تدھر سے دیو دیتے ہیں دکھائی اور دیکھنے سے انہوں کی پرچھائیں ہمارے جگینہ میں خلل پڑتا ۔ منیوں نے منت و زاری سے جب یہ بات کہی وہ بروگی جو راجا تھا سن کر وہاں دوڑا گیا ، پھر اس بن میں رکھوالی کرنے لگا۔
 
اور احوال سنکتلا کا سنو ۔ گوتمی اسکا ہاتھ پکڑ ے ہوئے تو مکان میں لائی پر اس سے برہ کا درد بھاری نہ اٹھایا گیا ، سدھ بدھ اپنی بھلا دی ، سکھیوں کا ساتھ خوش نہ آیا، اکیلی بیٹھ کر آنسوؤں کا مینہہ برسایا اور بنا وہ دیکھے اپنے یتیم کے ذرہ بھی کل نہ پڑی، ایک ایک گھڑی اس کو ایک ایک برس تھی۔
ازبس کہ وہ اس کی نظروں میں سمایا تھا ، تمام جہان آنکھوں میں سونا نظر آتا تھا جب کچھ ہوش آتی راجا کی انگوٹھی دیکھ پھر بے حواس ہو جاتی ، سونے مکان میں سر جھکائے ہوئے سوچ میں بیٹھی اور مانند نقش پا کی حیرت زدہ ہو کر نہ جاگہہ سے ہلتی نہ کہیں اٹھتی ، اس نے پہاڑ کا دکھ سر پر اٹھایا جس طرح جان سے بدن خالی ہو ویسا حال بنایا۔
کروں اور کیا اس کی حالت رقم
کہ عاجز ہوئی یہاں زبان قلم​
وہ اسی تصور میں اپنی جان لگائے بیٹھی تھی کہ درباسا ایک رِکھی وہاں آیا،دیکھا اس نے کہ یہ من ماری کسی کے دھیان میں مردے کی حالت بنائے بیٹھی ہے۔
خبر دین و دنیا کی رکھتی نہیں
ہوا کیا خدا جانے اسکے تئیں​
تحقیق اس کی یہی صورت تھی، نہ رِکھی کے اسے آنے سے آگاہی ہوئی نہ آنکھ اٹھا کر اسے دیکھا کہ یہہ کون ہے اور کہاں سے آیا ہے۔ نہ بستر بیٹھنے کو دیا نہ کچھ تعظیم و تواضع کی وہ دل میں اپنے بہت رکا اور خفا ہو کر ہاتھ اٹھا یوں سراپا کہ سراپا تیرا آتش عشق سے جلے گا اور جس کے دھیان میں تو بیٹھی ہے وہ تیری خبر نہ لے گا۔
یہ سراپ دے کر رِکھی تو وہاں سے چلا پر اس محوِ خیال جاناں نے نہ جانا کہ وہ کب آیا تھا اور کب گیا ، بد دعا اس کی سن کر دونوں سکھیاں دوڑیاں اور جلد درباسا منی کے پاس آئیاں ، انہوں کے دل میں اسکے سراپے سے بڑا ڈر ہوا۔
ازبس کہ انہوں کو سکنتلا سے محبت نہایت تھی ، سمجھ بوجھ کر منت و زاری بہت کی پاؤں پر گر پڑیاں ، ہاتھوں کو جوڑ کر بولیاں اتنا غصہ تمہارے لائق نہیں ، اور یہہ جو اس کی تقصیر ہے اسے معاف کرو ، تم دریا کرم کے ہو اس پر مہربانی کرو ، اسے بد دعا جو کی ہے بدلے اس کے نیک دعا دو، یہہ عاجزی ہماری قبول ہو ، جیسی یہ کن کی بیٹی ہے ویسی ہی تمہاری ہے۔
دونوں سکھیوں نے جب یے باتیں کہیں درباسا کو ان کی منت کرنے سے رحم آیا کہا کہ جو انگوٹھی راجا اسے دے گیا ہے ۔ جب وہ اسے دیکھے گا تب اسے یاد کرے گا۔ یہہ کہہ کر اس دعائے بد کو رد کر کے وہ چلا گیا، سکھیاں خوش ہوئیاں پھر آپس میں بولیاں ، جو کچھ منی نے اس کے حال سے خبر دی ہے جھوٹھ نہ ہوگی، اس سے کسی طرح انگوٹھی لیا چاہیئے کہ کہیں کھو نہ دے۔ جب وہ راجا کی یاد میں بے اختیار ہوگی تب اسے ہم دکھا دینگی ، اس بھید سے ہم ہیں تم ہیں واقف ہیں اس سے ظاہر مت کرو اسے اور غم ہوگام کسی طرح جیتی نرہے گی، یے آپس میں باتیں کر کے سکنتلا کے پاس آئیں ، دیکھا کہ فراق نے اس کی یہہ صورت بنائی ہے ، نہ کچھ آنکھوں سے سوجھتا ہےنہ کچھ کانوں سے سنتی ہے، بے خود تصویر کی شکل ہوگئی ہے اس طرح سے اس کی اوقات گزرتی ہے۔
نہ وہ نور سے دن کے آگاہ ہے
تصور مین اوسکے وہی ماہ ہے
نہ کچھ شب کی تاریکی پر ہے نظر
وہی شکل ہے دھیان میں جلوہ گر​
اگرچہ اس نے اپنی یہ حالت بنائی، مگر راجہ کو اسکی کچھ یاد بھی نہ آئی ، منیوں نے اسے رخصت گھر کو کردیا تھا ، وہ اپنے راج میں مشغول تھا ، درباسا رِکھی کی بددعانے ایسی تاثیر کی تھی کہ راجا نے اس کی سرت بھلادی ۔
 
کئی دنوں سکنتلا نے اسی طرح مصیبت کاٹی۔ پھر حمل نمودار ہوا، نہ اسے کچھ بھاتا تھا نہ کچھ خوش آتا تھا، دن بدن سوکھی جاتی تھی ، بدن سارا زرد ہوا جاتا تھا، نقاہت اور سستی غالب ہوتی تھی، پچھلی باتیں یاد کر کر رو رو کہتی تھی کہ راجا تونے ہماری الفت بھلا ئی ، جاکر کسی اور سے آنکھ لگائی۔

اس حالت میں یکایک تیرتھ نہا کر منی آن پہنچے اور وہ انہیں دیکھ کر حمل کے سبب نہایت شرمائی اور منی جب ہوم کرنے لگا ، آگ میں سے تب یہہ آواز آئی کہ یہاں راجا دشمنت آیا ، سکنتلا سے گندھرو بیواہ کر لیا ، اسی دن سے اسے پت رہا۔

آگ سے یہہ بات سن کر منی دل مین بہت خوش ہوا اور وہ جب ہوم کر چکا سکنتلا کو بلایا، سر سے پاؤں تلک لجائے ہوئے اوع نہورائے ہوئے وہ آئی ، منی نے اپنے پہلو بٹھایا اور بہت سراہا۔

پھر کہنے لگا تونے مجھےاس سے بہت خوش کیا اور بڑی فراغت بخشی کہ جہاں میں تیری شادی کیا چاہتا تھا وہیں تونے گندھرو بیواہ کیا اب بن میں اکیلا رہوں گا صبح تجھے سسرال کو بھیجوں گا ، وہ شرمائی اور سکھیاں بہت اداس ہوئیں سکنتلا سکھیوں کے چہرے اس غم سے اترے دیکھ کر آنکھوں میں آنسو بھر لائی۔

اتنے میں رات تمام ہوئی اور دن نکلا اسے نہلایا دھلایا اور جتنی رِکھیوں کی عورتیں تھیں ملنے کو آئیاں ۔ گھیرے ہوئے بیٹھیاں ، اسیس اسے دیتی تھیں ، کہ تم اپنے دولہے کی پیاری رہو، دیکھ دیکھ تمہیں سوتیں تمہاری ڈاہ کی آگ میں جلتی رہیں تم سکھ کے مندیر میں ہمیشہ بسیو۔

ایسی ایسی پیار اخلاص کی باتیں کہہ دعائیں دے اور بلائیں لے کر رخصت ہو ہو اپنے اپنے مکان کو گئیاں ، سِوا ان دونوں سکھیوں کے سکنتلا کے پاس اور کوئی نہ رہا ، گوتمی اور وہی دو سکھیاں کام خدمت اس کی بجا لاتیاں تھیں ۔

جدائی کوئی دم میں جو گھڑی ہوا چاہتی تھی ، یہہ سوچ کر سکنتلا کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے ، تب گوتمی نے پیار محبت سے اپنی گودی میں بٹھا کنگھی کر ، مانگ نکال زلفیں بنا، چوٹی گوندھی اور سکھیوں نے پھولوں کے ہار ڈال بدھی پہنائی اور کہنے لگیاں ، کس سے کہیں کہاں سے لاویں جو بنا سنوار گہنا اسے سر سے پاؤں تلک پہناویں ۔ اس ناداری سے آنسو آنکھوں میں بھر آئے۔

سکھیوں پر یہہ حالت تھی کہ دو لڑکے کسی منی کے آئے ، کہا کہ ہم خاصے خاصے اور اچھے اچھے گہنے اور سنگھار کی چیزیں لائے اور آگے رکھ کر کہا کچھ سوچ مت کرو، اسے پہناؤ

سکھیاں بہت خوش ہوئیاں ، کہا کہ یہ کہاں سے آیا، انکو اچنبھے میں دیکھ کر چیلوں نے ظاہر کیا ہمیں کن منی نے بھیجا تھا کہ تم بن میں جا کر سکنتلا کے لیئے پھول پھل توڑ کر لاؤ، ہم جو گئے تو وہاں اور ہی گت دیکھی، معلوم ہوا یہ گرو کا تصرف ہے کہ کہیں سیندور کہیں کاجل پایا ، کہیں مہاور اور پان پائے ، اور بن دیوتوں نے درختوں سے ہاتھ نکال گہنا کپڑے ہمیں دیئے۔

گوتمی نے شگون نیک ٹھہرا وے سوہے چتکیلے کپڑے اور گہنا پہنایا، سکھیوں نے مانگ میں سیندور بھر کاجل آنکھوں میں دے پاؤں میں مہاور لگا پان کھلائے۔

اس رنگ سے بنی بنائی۔ جب تلک اور سنگھار سکھیوں نے کیا تب تلک کن منی نہا کر آیا، سکنتلا جدائی کے غم سے جو بیتابی بے قراری کر رہی تھی، دیکھ اسے بہت گھبرایا ، جی رندھ گیا آنکھوں میں آنسو بھر لایا، خاطر ناشاد سے کہنے لگا۔ تن من بے چین ہے یہ دکھ سہا جاتا نہیں اور اب بغیر اسکے بن مین رہا جاتا نہیں ، اسے بھی میری مفارقت سے تاب نہیں ، شرم سے کچھ بول نہیں سکتی عجب سوچ میں ششدر کھڑی ہے، جی نہیں سنبھلتا آنسو آنکھوں سے جاری ہیں اس طرح سسرال چلی ہے اس کی جدائی سے میرے بن باسیوں کو یہہ غم ہوا ہے جیسے دنیا داروں کو مصیبت ہوتی ہے۔

منی اس کی الفت سے یے باتیں کر رہا تھا کہ سکنتلا باپ کا یہہ حال دیکھ کر بے اختیار رونے لگی ، منی نے پیار سے آنسو پونچھ کر اسے گلے سے لگایا اور اتنی سی بات زبان پر لایا ، بس اب مت رو، جی کو اپنے بیتاب ہو کر مت کھو ، تیرا اس دم رونا خوب نہیں۔ پھر کہو گوتمی تو اسے کیوں نہیں سمجھاتی ، یہ جو رو رہی ہے اسے منع کر یہ اچھی ساعت ہے۔ ابھی اسے ساتھ لیکر جا پھر اپنے دو چیلوں کو بھی بلا سکنتلا کے ساتھ جانے کو مقرر کیا۔
گوتمی نے دلاسا دلبری سے سمجھایا اور آپ بھی ساتھ ہوئی، آنسو آنکھوں سے پونچھتی اور ہچکیاں لیتی وہ سسرال کو چلی تب جنگل کے درختوں اور جانوروں سے منی نے پکار پکار کر کہا، تمہارے پھولنے سے یہ خوش ہوتی تھی اور بیکلی سب جاتی رہتی تھی اور جب تلک یہ تمہیں نہ سینچتی تھی پانی بھی نہ پیتی تھی، کیاریاں اور تھالے تمہارے دن بھر بناتی جو اس طرح تمہاری خدمت کرتی تھی ۔ سنو اب وہ سسرال چلی ہے۔
جب منی نے درختوں سے یہہ بات کہی تب درختوں پر کویلوں نے کوک مچائی جو کوکتی تھیں گویا درخت نالہ و زاری کرتے تھے، یہہ شورش اور اپنے ان درختوں کو دیکھ دیکھ وہ آنسو بھر لاتی تھی اور سکھیوں سے کہتی چلی جاتی تھی ، اگرچہ راجا کی الفت میرے دل میں سمائی ہے پر اس بن کی بھی ہوا میرے جی سے جاتی نہیں اپنے ہاتھوں کے درخت لگائے ہوئے دیکھ کر چھاتی بھری آتی ہے۔ میں تو چلی پر انہیں تمہیں سونپے جاتی ہوں ۔
رو رو کر سکھیاں بول اٹھیاں ، تو ہمیں کس لیئے سونپے جاتی ہے ۔ ان درختوں کو بن تیرےکون دیکھیگا اور کسے خواس آویں گے نالہ و زاری آپس مٰیں ہوتی تھی اور سکھیوں کی چاہت سے رو رو کر جان اپنی کھوتی تھی کہ منی نے پھر اسے سمجھایا تب سکنتلا نے آگے پانوں بڑھایا ۔

جدائی سے اس کی بن نے خاک اڑائی، مور ناچنا بھولے، ہرنوں نے سبزے کا چرنا چھوڑا ،چکاروں نے ادھر سے منہ موڑا، پرندوں کے ہوش اڑے، بھنورے گونجنا بھولے، اور جتنے جانور تھے سبھوں پر اس بن میں اداسی چھا گئی۔ جنگل کے رہنے ہاروں کو بے حواسی آگئی۔ جب وہ کوس ایک وہاں سے آگے بڑھی، تب منی نے یہہ بات کہی ، دن بہت چڑھ گیا ہے اب یہاں سے اسے رخصت کرو۔ اور تم اپنے اپنے گھرپھر چلو۔ جو کچھ سمجھانا ہے اب یہیں سمجھا لو، آگے جانا مناسب نہیں۔
کسی کو جدائی گوارا نہ تھی
قلق سے ہر ایک کا نکلتا تھا جی
منی نے سنبھال سنبھال سبھوں کو وہاں رکھا، پھر اپنے چیلوں کو کہا راجا دشمنت کو سمجھا کے ہمارا سندیسا دیجئو، ہم تمہارے پوجنے کے لائق ہیں اور سکنتلا ہماری بیٹی ہے۔ ہمیں تم نے مکان میں آنے نہ دیا ، آپ ہی آپ شادی کرلی ، اب ایسا کیجئو جو سکنتلا آرام سے رہے، کیونکہ اس کی بے چینی سے ہمیں چین نہوگا ، راجا کو یہ پیغام دے کر سکنتلا کے تئیں نصیحت کرنے لگا ، ساس نند کی خدمت کرنا، خاوند کے اخلاص میں انکی فرمانبرداری نہ بھولنا، سوتوں میں ہلی ملی رہنا، اپنا بھید کبھی نہ کہنا ، اپنی قسمت پر مغرور نہوجیو، خاوند کے حکم میں رہیو، ایسا کام کیجئو جو گھر کے باہر کے لوگ تمہیں نیک بخت کہیں ، میں نے جو یہہ نصیحت کی ہے اسے دل میں یاد رکھنا، ہمیں اب رخصت دے ہم اپنے بن کو جاویں اور سکھیوں کو بھی وداع کر، گوتمی کو ساتھ لے۔
وہ اتنا سن کر منی کے گلے سے لگ رونے لگی، تب اس نے دلاسا دے رخصت کیا، پھر سکھیوں سے مل کر روئی، تب انہیں سراپ درباسا منی کا یاد آیا۔

انسویا نے چترائی سے کہا ، راجوں کو راج کے سبب یاد بہت کم رہتی ہے اور مدت بھی گزری شاید وہ تیری یاد بھول گیاہو، انگوٹھی جو تجھے دے گیا ہے اسے تو راجا کو دکھانا وہ اپنی نشانی دیکھ بھولی الفت یاد کریگا ، پر اس انگوٹھی کی بہت سی خبرداری کرنا، ایسا نہو کہیں گر جاوے۔

یہ سن کر سکنتلا سن ہو گئی ، پھر سکھیوں سے کہا تم نے جو مجھے یہ بات سنائی ، اسکا بھید میں نہیں پاتی ، تم نے بات بہت بے ڈھب کہی میرا دل دھڑکتا ہے۔

سکھیوں نے کہا دیکھ دوپہر دن آیا ، ہمیں رخصت کر تو بھی آگے پاؤں دھر، گوتمی اور وے دونوں چیلے رِکھی کے ساتھ ساتھ گئے ، یے سب واپس گھر کو پھر آئے، پیچھے پھر پھر دونوں طرف سے آپس میں دیکھتے جاتے تھے۔
سکھیاں کہتی آئیاں ہمیں اس بنا بن سونا دکھائی دیتا ہے۔ ہاتھوں کو مل کر پھر یوں بولیں اب درختوں کی اوٹ میں سکنتلا دکھائی نہیں دیتی۔

اِس طرح منی تو سکھیوں کو ساتھ لیکر مکان میں آیا اور سکنتلا جب آگے گئی ، ایک تالاب راہ میں دیکھا، پیاس کی شدت سے تالاب کے کنارے گئی، پانی پی کر پیاس بجھائی پر ایک پل میں بڑا غضب ہوا کہ انگوٹھی انگلی میں سے نکل کر پانی میں گر پڑی اور اسے کچھ سدھ نرہی۔
 
آخری تدوین:
وہاں سے اٹھکر دونوں چیلوں کے ساتھ ساتھ راجا کے یہاں پہنچی ، وہ خلوت میں تھا، ڈیوڑھی پر جا کر چیلوں نے خبر دی ، خوجئوں نے ان کی زبانی عرض کی ، مہاراج کن منی نے دو چیلے بھیجے ہیں اور ساتھ ان کے دو عورتیں کردیں ہیں ، ایک جو انمیں جوان ہے ، سو آپ کی نذر کے لیئے ہے۔

نام عورتوں کا سنکے اچنبھا آیا۔ بہت فکر و اندیشے میں گیا، اور دیوان عام میں نکل آیا۔ منی کے چیلوں کو بلایا، آگے چیلے، پیچھے گوتمی، تس پیچھے سکنتلا اس طرح سب کے سب آئے

راجا نے بڑی عزت سے پاس بلایا اور سکنتلا شرم سے گویا زمین میں گری جاتی تھی ، پر گھونگھٹ کئے کھڑی تھی ، کم بختی جو آئی دہنی آنکھ اسکی پھڑکنے لگی ، وسواس اس کے دل میں ہوا، کہ خدا خیر کرے دیکھوں کیا ہوتا ہے۔اس بد شگونی سے اسکا دل بہت کڑھا۔

جب غور کر کے سکنتلا کو راجا دیکھنے لگا، ایک تعجب سا اسے ہوا، اپنے دل میں کہا یہہ کون ہے اور کہاں سے آئی ، منیوں نے بن میں کیونکر پائی، کچھ سمجھا نہیں جاتا اسے یہاں کیوں لائے، یہ بچار راجا نے جب اپنے دل میں کیا۔ تب منی کے چیلوں نے اشیرباد دیا۔ راجا نے مسند سے اتر کر انہیں ڈنڈوت کئی اور سب کام چھوڑ کر انہوں کی خیریت و عافیت پوچھی، کہا تمہارے بن باسیوں کی کیا خبر ہے ، تمہارے گرو بھلے چنگے ہیں؟
وے چترائی کر کے بولے، مہاراج کے راج میں ایسا دکھ کا نام نرہا جیسے سورج کی روشنی سے اندھیرا جاتا رہے، جنکی دعا سے لوگ ہمیشہ سلامت رہیں ان رِکھیوں کی کھیم کسل ہم کیا کہیں۔ مہاراج کے پاس ہم آئے ہیں ، یہہ سندیسا گرو کا لائے ہیں ، جانی ہم نےسب محبت تمہاری اور سکنتلا ہے یہ بیٹی ہماری ، جو گندھرو بیواہ تم نے یہاں کیا یہ سن کر ہم نے برا نہیں مانا، مہاراج میں جتنے گن ہیں اتنے ہی سکنتلا میں بھی ہیں ، ہمارا جی بہت سکھ پایا، خدا نے بھلا سنجوگ بنایا اور یہ پیٹ سے ہے سن کر جلد یہاں بھیجا۔ سکنتلا کو اپنے پاس رکھیو، ہم نے منی کا سندیسا کہہ دیا۔سکنتلا کو ہم نے یہاں پہنچایا، ہمیں اب رخصت کرو۔

دربا سا منی کے سراپ سے راجا تو اس کی طرف سے غافل تھا ۔ کہنے لگا تم منی کے چیلے بھی بڑے چترے ، یے کیا باتیں کہتے ہو ، سکنتلا سے کس نے شادی کی میں اسے نہیں جانتا۔
یے بات سن کر چیلے تو بہت خفا ہوئے اور سکنتلا بے حواس ہو دل میں کانپنے لگی، راجا کی بے دھرمی سے دونوں چیلے رک کر بولے، مہاراج کچھ تم دھرم کو جانوایسا خیال فاسد دل میں مت لاؤ۔ تب تو بیاہ کیا چھل کی کر گھاتیں۔اب تم کہنے لگے یے باتیں، سچ ہے راجا وہی کرتے ہیں جو ان کے جی میں آتا ہے اور کسی کا درد نہٰیں جانتے۔ یہ کہہ کر چیلے چپ رہے اور گوتمی گھبرا کر سکنتلا کو سمجھانے لگی، ایک دم شرم چھوڑ راجا کو منہہ دکھا تیرا منہہ دیکھ کر اسے سدھ آوے گی۔
یہ کہکر سکنتلا کا گھونگھٹ کھلوایا، راجا کو اسکا منہہ دکھلایا دیکھ کر اسنے تب بھی ہاں ناہ کچھ نہ کئی، حیرت زدہ سا رہ گیا، تب منی کے چیلوں نے جھنجھلا کر کہا ، مہاراج کچھ دل میں سوچو سمجھ بوجھ کر ہمیں جواب دو۔

راجا بولے، میں نے بہت دیر تک غور سے نظر کئی، جاگتے میں تو معلوم مگر خواب میں بھی کچھی شکل اس کی نہیں دیکھی، میرے اسکے جو تم لگن لگاتے ہو کیوں ناحق کلنک چڑھاتے ہو، حمل سے یہہ عورت کسی اور کے ہے ۔ میں اپنے گھر میں رانی بنا کر کیونکر رکھوں ؟

وے دونوں چیلے آتش غضب میں جلے پھر راجا سے یوں کہنے لگے۔ ایسی باتیں جو تم زبان پر لاتے ہو ، منی لوگوں سے خوف دل میں نہیں کرتے؟ (اس نسخے میں جو 1804 کو لکھا گیا اور 1848 کی اشاعت میرے پاس ہے سوالیہ نشان کی یہ علامت پہلی مرتبہ یہاں ان دو جملوں دیکھنے کو ملی لیکن وہ بھی انگریزی طرز میں( ? ) ۔۔۔ناقل)۔ کن مہامنی جب خفا ہوگا تمہارا احوال کہو کیا ہوگا ؟
 
اب باتوں سے راجا کو ڈرا کر پھر بہت غصہ کر کےسکنتلا سے بولے ۔ تب کسی سے تونے نہ پوچھا آپ ہی گندھرو بیواہ کر لیا۔جیسا کیا ویسا اس کا مزہ چکھا، منہہ اپنا کھول راجا سے کچھ بول۔

شرم کا پردہ رخ سے اٹھا کر وہ بولی مہاراج یہ ریت کیا ہے اس میں بڑا ظلم ہوتا ہے۔ تمہارے ہاتھ کیا آوے گا کس لیئے مجھے عیب لگاتے ہو تب تو پہلے ہم نے تمہیں ایسا نہ جانا ، سب ہم نے مانا۔ تب ویسی چھل کی کرگھاتیں ، اب تم کہتے ہو کیا یے باتیں ، رخصت ہوتے تم نے دئی تھی انگوٹھی، اس سے میں نہیں ہوں تمہارے آگے جھوٹھی اور آگے کیا بھید بتاؤں ، کہو تو وہی انگوٹھی دکھاؤں

سکنتلا یہہ کہہ کر چپ رہی ، راجا نے پھر یوں بات کہی ، یہ بات تم نے نیاؤ کی کی، اب تک کیوں نہ انگوٹھی دئی، جو میں انگوٹھی اپنی دیکھوں تو تمہیں سچا جانوں۔

تب اس نے گھبرا کر نگا کئی ، انگوٹھی ہاتھ میں نہ پائی ، رنگ چہرے کا زرد ہوا ، بے قرار ہو کر ہائے ہائے مچائی وہ حیرت سے گوتمی کی طرف دیکھنے لگا، سکنتلا تب شرمندہ ہوئی۔

راجا نے ہنس کر یہہ بات کہی ، تریا چرتر ہم کانوں سنتے تھے سو آنکھوں دیکھے، میں نے تجھے کب دی تھی انگوٹھی، ایسی بات کیوں کہتی ہے جھوٹھی ? غیر رنڈی سے ہم نے کبھی ملاقات نہیں کی تمہارا فن یہاں نہ چلے گا ۔

جب وہ راجا کے دل سے یوں بھولی تب جھنجھلا کر یہ بولی ، قسمت نے برا دن مجکو دکھایا ، جس طرح سے چاہا ناچ نچایا، نہیں ہے انگوٹھی کیا میں دکھاؤں، کہو تو کچھ اور تمہیں بھید بتاؤں ،

ہم تم جو بن میں باتیں چاہت کی کر رہے تھے ، اور کیا کیا اماہیں دل میں بھر رہے تھے ، جو ایک ہرن کا بچہ وہاں آیا ، تم نے اسے کس کس پیار سے بلایا، جب وہ وحشی بھاگا، رم کر کے پاس نہ آیا پھر وہاں ڈر کے جب میں نے بلایا تب وہ دوڑا آیا۔

تم نے ہنس کر کہا مجھکو تم دونوں بن باسی ہو ، ہرن کا بچہ رہتا ہے ساتھ تمہارے، بھاگے ہے یہ سائے سے ہمارے، یہ کہہ کر تم نے ہنسی مچائی ، اب وہ سدھ بدھ سب ہی بھلائی۔

یہ سن کر بھی اسے کچھ یاد نہ آیا ، ایسی ہی باتیں پھر وہ زبان پر لایا کہ دغا سے میٹھی میٹھی باتیں کرکے رنڈی دل مردوں کا چھین لیتی ہے ، ایسے باتیں کر رہی ہے گویا جھوٹھ کہیں چھو نہیں گیا۔

تب خفا ہو کر گوتمی نے کہا ، مہاراج تم ٹھٹھول ہو ہم بن باسی ہیں باتیں بنا کیا جانیں ، کپٹ کہاں سیکھی ہم نے بن میں ، دغا ہوتی ہے راجوں کے من میں ۔

یہ کہہ کر گوتمی چپ رہی ، پھر راجا بولا ، عقل سبھاؤ سے ہوتی ہے کوئل چترائی کر کے انڈے کوے کے جھونجھ میں دے آتی ہے جس وہ سیتا ہے اور بچے نکل کر بڑے ہوتے ہیں تب اپنے ساتھ ساتھ لیئے پھرتی ہے۔

راجا نے جب ایسی کڑی بات کہی، سکنتلا خفا ہو بولی ارے بے انصاف تو کیا کہتا ہےتونے مجھ سے کی ٹھگی، تب میں نے تجھے ٹھگ نہ جانا ، جو تو نے کہا سو میں نے مانا، یہہ کہا اور سر نیچے کر لیا، آنکھوں سے آنسو کی ایسی جھڑی لگائی ، پل مارتے ہی اس نے ندی بہائی۔

تب خفا ہو کر دونوں چیلے اس سے کہنے لگے ، شروع الفت میں تو نے کسی کو نہ جتایا، جیسا کیا ویسا اسکا اب مزہ پایا ، بغیر امتحان کیئے کی آخر یہی سزا ہوتی ہے

سکنتلا سے کہہ کر پھر راجا سے کہا سن لو اب یوں بات ہماری ، بھلی بری یہ عورت ہے تمہاری، چاہو اسے رکھو چاہو نکال دو ، ہم سے کچھ مت کہو

پھر ہاتھ پکڑ گوتمی کا دونوں چیلے گھر کو چلے، سکنتلا بھی روتی ہوئی انکے پیچھے یہ کہتی چلی ، تم نے بھی چھوڑا اور راجا نے بھی ، اب میں بے شرم بے کس کہاں جاؤں،
مجھے تم چھوڑ کر جو اب چلے ہو
میں دوں گی جان اپنی غم سے رو رو
نہ کوئی مونس و غم خوار میرا ہے
پر ایک دل سو بلا میں مبتلا ہے​
وے خفا ہو کر بولے ، اے کم بخت ، تو ادھر کہاں آتی ہے، اب کر جو تیرے دل کو اچھا لگے ، جیسا راجا کہتا ہے اگر تو ویسی ہی ہے تو منی ایسی لڑکی کو کیا کرے گا اور جو سچ ہے تیرا کہا تو لازم ہے تجھے پی کے گھر رہنا، منی کے یہاں جو تو جا کر رہے گی تو تجھے ساری دنیا کلنک لگا ویگی ، جو اپنے خاوند کی لونڈی بھی ہو کر رہے گی تو بھی تجھ پر ہنسی نہ ہوگی۔

یہہ کہہ کر چیلے چلے تب راجا انہوں کو پکارا، کہاں اسے چھوڑے جاتے ہو ، اس کے باپ کو لیجا کر سونپو، چیلوں نے کوئی جواب نہ دیا، وے چلے گئے یہ باہر روتی رہ گئی
 
یہہ اس کی بپت دیکھ سوم راج پروہت نے ترس کھا، راجا کے پاس آ کر کہا، لڑکا جب تک اس سے ہووے تب تلک یہہ رہے، اگر تمہارا بیٹا ہوگا ، سب راجوں کا راجا ہوگا، تمام پنڈت پکارے کہتے ہیں۔

جب یہہ لڑکا جنے گی ، اور لچھن راجوں کے اس میں پائے جاویں گے تو اسے سچا جاننا اور اپنے محل میں داخل کرنا جو اس میں یے جوہر ذاتی پائے نہ جائیں تو کن منی کے گھر بھیج دینا، منی اور رِکھی لوگوں کی بد دعا سے لوگ بے ہوش ہو جاتے ہیں اور سراپ مٹنے سے سدھ میں آتے ہیں، تب پیچھے پچتاتے ہیں۔

یہہ سن کر راجا نے کہا ، کرو جو تمہارے دل مٰیں آوے، یہہ حکم راجا سے لے کر سکنتلا سے کہا تو ہمارے گھر چل، چیلے تو چھوڑ گئے ، راجا نے یوں چھوڑا ، سکنتلا روتی ہوئی سوم راج کے ساتھ چلی۔

اتنے میں ایک آگ کا شعلہ پیدا ہوا ، اور سکنتلا سے لپٹ کر اٹھا زمین سے آسمان پر لے گیا، وہ شعلہ اس کی ماں تھی کہ جسکا نام مینکا پری کہتے ہیں ۔ وہ ان باتوں جل بل کر اسے یوں لے گئی ، جب وہ بجلی سی چمک کر نظروں سے غائب ہوئی تب پروہت راجا کے پاس دوڑا آیا، کہا ، مہاراج تعجب کی بات ہے ایک اچنبھا دیکھا میں نے اپنی آنکھوں سے ، آنسوؤں کی مالا پروتے جب وہ میرے ساتھ چلی اور بے اختیار ہو کر کہنے لگی، میں بے کس ہوں میرا کوئی نہیں تب ایک آگ کا شعلہ سا آیا اور اسے آسمان پر لے گیا۔

یہہ سن کر راجا نے خوش ہو کر کہا ، ہم نے پہلے ہی اسے پہچانا تھا خدا نے اچھی بات کی ، یہ کہہ کر پروہت اپنے گھر کو آیا ، راجا اٹھ کر اپنے سونے کے مکان میں گیا ، تب بھی اسے سرت نہ آئی لیکن دل میں فکر مند ہوا اور رات کی نیند دن کی بھوکھ جاتی رہی نہایت اداس رہنے لگا۔

اور جو انگوٹھی سکنتلانے تالاب میں گرا دی تھی اسے کسی دھینور نے پایا اوربازار میں بیچنے لے گیا، جوہریوں نے راجا کا نام کھدا دیکھ کر اسے چور جان کر پکڑا کوتوال کے یہاں لیجا کر قید کروا دیا،

کوتوال نے اسے مارا ، باندھا ، اور پوچھا تونے یہہ انگوٹھی کیونکر چرائی اور کہاں سے پائی اور کس طرح سے تیرے ہاتھ آئی۔ اس نے کہا صاحِب میں نے نہیں چرائی مگر تالاب میں سے پائی، جال میں نے تالاب میں ڈالا تھا اس میں یہ لگ وائی۔

یہہہ سن کر انگوٹھی لے کوتوال نے چھوڑ دیا اور راجہ کے پاس آ ، انگوٹھی دکھائی ، تب اس کو سکنتلا کی یاد آئی، انگوٹھی ہاتھ میں لیتے ہی درد نے دل میں گھر کیا ، آرام چین یک لخت جاتا رہا، رونے لگا سر پر دونوں ہاتھ مار ہائے ہائے کر پکارا خوشی نام کو نہ رہی۔
 
دل میں سوچنے لگا کس سے کہوں، یہہ میں نے کیا کیا، اپنے گلے پر چھری دی ، وہ دوست میرے پاس آئی تھی، میں نے دشمنی کی ، مجھ سے رکھی نہ گئی، تب تو بھول گیاتھا، اب وے سب باتیں یاد آئیاں ، اس نے تو حجاب کا پردہ درمیان سے اٹھا کر سب بھید بتایا تھا، تب بھی میرے دل میں کچھ نہ آیا ، ادھر سے میں نے اس نازنین کو چھوڑا ، ادھر سے وے چیلے اسے چھوڑ گئے ، شور کر کے راہ میں وہ رونے لگی ، تب بھی محبت میرے دل میں نہ آئی، اب کانٹا جدائی کا دل میں کھٹکے ہی چھاتی پھٹتی سانس دم بدم اٹکے ہے۔

جب سے کوتوال نے لا انگوٹھی دی تب سے عجب حالت اس فراموش کار پر ہونے لگی، دل میں درد ، رنگ زرد ، نہ دن کو بھوکھ نہ رات کو نیند ، زاری اور بے قراری سے سروکار، بیراگ سے راگ بھی خوش نہ آتا، آٹھ پہر درد دل سے کڑھاتا تھا۔

اگر جوں توں دن کاٹتا تو رات نہ کٹتی تھی، اور رات کاٹتا تو دن نہ کٹتا، راجا کے اس غم سے شادی شہریوں کے دلوں سے ایسی جاتی رہی کہ کوئی خوشی کا خیال بھی دل میں نہ لاتا، لڑکوں نے کھیلنا بھلا دیا تھا، جوانوں کی حالتیں بوڑھوں سے بدتر ہوگئیاں تھیں ، کسی کے لب سے ہنسی آشنا نہ تھی، ہر ایک کے منہہ پر اداسی چھا رہی تھی۔

وہ جو سکھ کا دینے والا راجا سکنتلا کے دکھ کے دریا میں ڈوب گیا تھا ، رنڈی مرد کے دلوں سے آرام رم کر گیا تھا ، بدلی غم کی تمام شہر میں چھارہی تھی ، خوشی بیکار تھی ، فراق زدہ مہاراج کے راج میں بسنت رت کی آمد زرہ کہیں نظر نہ آتی تھی۔ کوئل کو بولنے نہ دیتے بلکہ درختوں سے مار مار کر اڑا تے تھے ، خوشبو ئی بازار میں بکنے نہ پاتی، رنگین کپڑوں کا پہننا تو معلوم اگر بندھے بندھائے پاتے تو انہیں ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتے ،پھولوں کا تو مذکور کیا ہے کچی کلیاں جو ٹہنیوں پر دیکھتا توڑ توڑ خاک پر پھینک دیتا۔ یہہ تو احوال شہر کے لوگوں کا تھا۔

اور راجا بیمار سا دن بدن زرد ہوا جاتا تھا، من مارے ہوئے بیکل رہتا ، بار بار چھاتی بھر آتی اور آنکھ آنسوؤں کی جھڑی لگاتی ، راج کاج سے دل اٹھائے اکیلا بیٹھا رہتا، بھرا جہاں اسے خالی معلوم ہوتا ، کچھ اچھا نہ لگتا ، دل میں خیال اسکا کر کے آنکھیں بند کر لیتا اور اس کے دھیان میں پہروں باتیں کر کے دل کو تسلی دیتا ، کبھی اس کو خیال میں سامھنے کرکے کہتا تم سختی دل سے دور کرو ، ظاہر ہو کر مجھ غمگین کو دکھائی دو ، تب مجھے تمہاری یاد نہ آئی ، جیسی کی ویسی اب میں نے سزا پائی ، کدورت اپنے دل سے صاف کرو، خدا کے واسطے ایک تقصیر میر معاف کرو، میں جیسا ہوں ویسی ہی مجھ سے بن آئی، تم اپنی بھلائی نہ چھوڑو، غصہ جانے دو ، دل میں رحم کر کے ادھر منہہ موڑو۔

یہہ کہکر راجا کو غش آگیا، منہہ پر زردی چھا گئی ، بدن پسینا پسینا ہو گیا، ہاتھ پاؤں سے حرکت جاتی رہی ۔

اتنے میں چتریکا نام ایک چیری راجا کے پاس دوڑی آئی ، یہہ حالت دیکھ کر بے اختیار روئی، اور پنکھا جھلنے لگی ، جب کچھ ہوش اسے آیا غفلت سے آنکھ کھول دی سر پر لونڈی کو روتے دیکھ کر آہ کر کے بولا ، تجھے کیا کام تھا جو تو ادھر آئی۔? میں کس آرام میں تھا کیوں مجھے جگا کر بے چین کیا? پھر تو نے نئے سِر سے یاد دلائی۔

غم کی ایک کتاب جب اس نے کھولی تب چتری لونڈی بولی، مہاراج معلوم نہ ہوا کہ سکنتلا کو یک بیک راہ میں سے کوئی چھلاوہ تھا جو یوں چھلکر لے گیا پھر ظاہر نہ ہوا جو کپا ہو گئی،

تب راجا نے کہا مینکا پری جو اس کی ما تھی اڑا کر لے گئی جب اس نے اسے اس حالت میں دیکھا کہ ادھر میں نے منہہ نہ لگایا اور بے مروتی سے پیش آیا ہرچند وہ منت و زاری کس کس طرح جتا اور یاد دلا دلا کر کہتی رہی آنسوؤں کی ہر ایک آنکھ سے اس کی ندیاں بہتی رہی تب بھی میں نے غفلت سے کچھ پروا اس کے احوال پر نہ کی، ادھر منی کے دونوں چیلوں نے بھی یہہ حالت دیکھ چھوڑ کر گھر کی راہ لی ۔ مہر مادری سے اس ماہ لقا کو اس کی ما نے اس بلا سے نجات دلائی ،

چیری اس بھید سے آگاہ ہو کر بولی ، اختیار کی باگ ہاتھ سے نہ دیجئے اور تھوڑے سے دنوں صبر کیجئے امید قوی ہے کہ تمہارا اس کا ملاپ ہوگا، وہ تمہاری عاشق زار ہے اور تمہارے دام الفت میں گرفتار ہے۔ جس کی یہ حالت بیان کی کیونکر اسے بغیر تمہارے کل پڑے گی۔

جب تمہارے عشق میں اس کی بے قراری اور نالہ و زاری اسکی ما دیکھے گی کب اسے گوارا ہوگا کہ بسمل تیغ عشق کی تڑپھ تڑپھ کر یوں جان دے ۔ علاج اس جاں بلب آمدہ کا تمہارے لب جان بخش سے کرے گی ، خاطر پریشان کو جمع کیجئے اور جو میں نے خدمت عالی میں عرض کی ہے وہ شدنی ہی ہوئی جانیئے۔

وہ کہنے لگا ایسی قسمت میری نہیں ، میں یہاں خاک پر وہ وہاں افلاک پر ، میرے اسکے زمین و آسمان کا درمیان ہے ملاپ ممکن نہیں کہ ہوگا۔

درد میرے دل سے کب بہہ جائیگا
چین ایک دم مجھ کو کیونکر آئے گا
کاش ! تو جلدی نکل جا تن سے جی
ورنہ اب ایذائیں کیا کیا پائے گا​
 
پھر چیری نے ہاتھ جوڑ کر عرض کی ، میں نہیں کہتی تم سے بات جھوٹھی ، یہ کیونکر مل گئی انگوٹھی ، کب یہ پانی میں گری تھی کس وقت ملاح نے پائی، پھر کہاں سے مہاراج کے ہاتھ میں آئی۔ اس نے چترائی سے اسے یوں سمجھایا، اور اس الفت کے دیوانے نے ، یہ بھید انگوٹھی کا سن پایا۔

وہ جو برہ کے دریا میں ڈوبا ہوا تھا، تب اسی انگوٹھی سے یوں کہنے لگا۔

میں سمجھاتھا دنیا میں ایک میں ہی کم بخت ہوں، پر تو بھی بڑی بے نصیب ہے، تجھے وہ معشوقیت میں ہاتھ میں رکھتی تھی تو چھوٹ اس سے جدا ہوئی اور میں بھی ڈھونڈتا ہوں کہ وہ میری آرام جان کیا ہوئی، ہم دونوں کو پچتاوا ہے۔ مجھے اس کی دوری نے مرنے کے قریب پہنچایا اور تیرے لیئے یہ حلقہ تیرا بس گرداب ہے، کہاں مجھے ویسی صورت نظر آوے گی اور کب تو ویسا ہاتھ پاوے گی۔
وہ بے حواسی میں دیوانہ سا بے کل رہتا تھا ، اور جی میں جو آتا تھا وہ کہتا تھا

اب سکنتلا کا احوال سنو

جب مینکا اسے وہاں سے اٹھا کر لے گئی ، کشیپ منی کے استھان میں جا کر اتارا، بود و باش اس کی وہیں مقرر کی ، رات دن وہاں رہنے لگی۔

جب حمل کے دن پورے ہو ئے ایک لڑکا صاحب جمال پیدا ہوا، اور اس کے سوتے طالع جاگے ، بھرت نام اس لڑکے کا رکھا اور پرورش پانے لگا۔

جب کچھ ایک بڑا ہوا ، منی نے ایک گنڈا بنا کے اس کے گلے میں ڈال دیا ، گن اس میں یہہ تھا ، اس کے ما باپ سوا جو کوئی اسے چھوئے ، کالا سانپ ہوکر وہ اسے ڈسے

یہاں کا تو یہ ماجرا تھا ۔

اور کتنے ایک دنوں کے بعد مینکا پری نے راجا اندر سے کہا تم راجا دشمنت کو یہاں بلا بھیجو ، وقت ملاقات کے سمجھا سکنتلا کے احوال کی یاد دہی کر، ہاتھ پکڑ ملاوو ، آپ کی توجہ سے آپس میں ان دونوں کا ملاپ یوں نظر آتا ہے۔
راجا نے قبول کر کے اسکے بلانے کے لئے ماتل رتھبان کو حکم کیا کہ تخت لے جا اور دشمنت کو ہماری طرف سے پیغام دے کر جلد سوار کر کے لے آ۔

ماتل بموجب امر کے روانہ ہوا، جب وہاں سے راجہ کی ڈیوڑھی پر پہنچا وہ تو دکھ میں تھا ، کہ رتھباننے اہل کاروں اور عرض بیگیوں سے ظاہر کیا ، مجھے راجہ اندر نے بھیجا ہے خبر کرو۔

چوپداروں نے سنتے ہی راجا سے عرض کئی ، مہاراج ، راجا اندر نے ماتل رتھبان کو بھیجا ہے اور ایک خوبصورت تخت واسطے آپ کی سواری کے لئے آیا ہے۔

راجا نے وہیں بلا لیا، ماتل نے سلام کیا تب راجا نے یہہ پوچھا، کہو سب کے سکھ دینے والے راجا اندر خیر و عافیت سے رہتے ہیں ?

اس نے صحت و سلامتی بیان کر کے عرض کی مجھے مہاراج نے یہہ پیغام دے کر بھیجا ہے کہ دیو ہم سے لڑتے ہیں ، ہماری کمک کو آئیے اور انہیں سزا پہنچائیے۔

راجا نے اس کی خیر و عافیت پوچھی ، پھر راجا اندر کی تعریف کرنے لگا، زہے نصیب ہمارے کہ راجوں کا راجا مہاراج ہمیں اس مہربانی سے یاد فرماوے، یہہ محض بندہ نوازی ہے وگرنہ ہماری کمک کے کب محتاج ہیں ، جس بندے کو حکم کریں ایک آن میں انکا کام تمام کر دے۔ پھر اچھی اچھی پوشاک پہن کر ، تمام ہتھیار بدن پر، سج کر تخت پر بیٹھ، خدمت میں راجہ اندر کی روانہ ہوا۔

جب آدھی راہ طے کر کے نصف آسمان تک پہنچا یا ، ایک پہاڑ اچھا نظر پڑا، رتھبان سے پوچھا یہ کوہ بایں شکوہ کون سا ہے اور کیا نام اس کا ہے ?

اس نے عرض کی ، ہیم کوٹ اسے کہتے ہیں ، اس میں کشیپ منی رہتے ہیں۔

راجا نے کشیپ منی کا نام سن کر اس سے کہا ، تخت کو اس طرف پھیر ، ہم ان کا درشن کریں گے ، وہ تخت اس طرف سے چلا ، جب نزدیک جا پہنچا، تخت سے اتر کر وہاں کی سیر کرنے لگا۔
 
پھول رنگ برنگ کے تمام اس پر کھلے ہوئے دیکھے ، پانی چشموں سے جاری ، درخت سب میوہ دار ، ہر ایک ٹہنی پر جانور بول رہے اور چہچہے کر رہے۔
اس کے سوا ایک اور تماشا دیکھا کہ ایک لڑکا خوبصورت ، چھوٹی سی عمر کا ، شجاعت کے تمام آثار اس کی پیشانی سے روشن ہیں ، شیر کے بچے سے کھیل رہا ہے۔ گردن و بازو اس کا پکڑ پکڑ زور کرتا ہے۔ اور دو تپشینیں اس کے ساتھ ہیں ، ہرچند وے منع کرتی ہیں وہ نہیں مانتا ، کلا جبڑا اس کا چیر چیر کر دانت گنتا ہے۔

راجا کو اس کی بہادری پر تعجب ہوا ، اور جی میں محبت پیدا ہوئی ، اپنے دل میں کہنے لگا، جیسے اپنے لڑکے کو دیکھ کر پیار آتا ہےویسے ہی اس لڑکے کی مجھے الفت ہوئی، اللہ نے مجھے بے اولاد رکھا پرائے بیٹے کو حسرت سے دیکھتا ہوں۔

پھر ان تپشنیوں سے پوچھنے لگا ، کہ یہہ چھوٹی سی عمر اس کی اور یہہ جرات و دلاوری، کس کا یہہ بیٹا ہے ، اس کے باپ کا کیا نام ہے?

بولیں کیا کہیں اور کیا بتاویں ، اس کے باپ کم بخت کا یہاں کوئی نام نہیں لیتا، ما اس کی خوب صورت اور خوش سیرت ، سر سے پانو تلک شرم و حیا ، سو اس بے تقصیر کو اس کے باپ نے حمل سے بھی گھر میں نہ رکھا، بے عزتی سے نکال دیا۔

یہہ سن کر راجا کے جی میں شک ہوا اور فکر کے دریا میں ڈوب گیا، پھر پیار سے پوچھنے لگا کہ باپ تو اس کا گنہ کار ہے، لیکن اس کی ما کون ہے? اس کا احوال ظاہر کرو۔

راجا نے جب یہ پوچھا تب تپشنیوں نے جواب دیا ، اس بہادر کی ماں کا نام سکنتلا ہے ، جب راجا نے اسے نکال دیا تب اس کی ما مینکا پری اسے اس احوال میں دیکھ کر یہاں لے آئی۔

سنتے ہی جتنا شک جی میں تھا جاتا رہا، چھاتی بھر آئی، اور جی میں کہنے لگا کہ منزل مقصود کو ہم پہنچے بے اختیار ہو کر لڑکے کو گود میں اٹھا لیا، اور چھاتی سے لگا کر تپشنیوں سے کہا

جس کا تم نام زبان پر نہیں لاتیں وہ گنہ کار میں ہوں ، جو کچھ قصور ہوا مجھ سے ہوا ، اس بے تقصیر کا تقصیر وار میں ہوں ، اب میری تقصیریں معاف کرو اور میرا آنا جا سناؤ اور اس آرام جان کو مجھ سے ملاؤ۔
لڑکے کو گلے سے لگائے وہ یہہ کہتا تھا ، اور گنڈے کی تاثیر سے ظاہر تھا کہ کوئی غیر اسے ہاتھ لگاتا تو وہ گنڈا اسے سانپ ہو کر ڈستا، اس سبب سے انہیں بھی یقین ہوا کہ یہہ اس کا باپ ہے۔

وے دوڑ کر سکنتلا کے پاس گئیں اور سارا وہ احوال بیان کیا اور ساتھ لائیں ، ہرچند کہ اس نے سن کر تغافل کی لیکن کششِ محبت کی کھینچ لائی۔

راجا نے اس خجالت سے اس حجاب زدی کو دیکھا کہ دردِ فراق اس کے دل میں کارگر ہے اوراحوال اس کا نوع دیگر ہے، منہہ اترا ہوا، بال سر کے اچکتے ہوئے ، کپڑے بدن کے میلے۔

وہ جو اس صورت سے نظر آئی زار زار رونے لگا اور وہ شرم سے سر نہوڑائے ہوئے پاس آکر کھڑی ہوئی، اس وقت راجا کو اور بات کچھ نہ بن آئی، پاؤں پر گر پڑا۔
 
سکنتلا بولی کیوں مجھے گنہ گار کرتے ہو ? آپ بھی رونے لگی اور سر کو پاؤں پر سے اٹھا کر کہا مہاراج ! اب تمہیں کیوں ہوش آیا ?

راجا نے کہا ، تقصیر میری معاف ہو، کچھ مجھے معلوم نہیں کیا ہو گیا تھا جو میں نے یے نالائق باتیں کہیں لیکن اتنا دریافت ہوتا ہے کہ یہہ انگوٹھی جب میں نے پلٹی تب مجھے سدھ بھولی ہوئی یاد آئی، تب سے جان وبالِ تن ہےایک دم کی دوری ہزار طرح کا رنج ومحِن ہے۔ جو کچھ مجھ سے گنہ ہوا ہے معلوم نہیں ہوتا کیا اسرار تھا ، خفگی جانے دو میں اپنے گناہ کا آپ اقرار کرتا ہوں ، اس سے درگذرو ، جو جو بے مروتیاں سختیاں میں نے کیں ہیں لطف و مہربانی سے انہیں بھول جاؤ، خاطر میں ہرگز نہ لاؤ ، مجھے سخت پشیمانی حاصل ہوئی ہے پس اب رنجیدگی دور کرو میرے دلِ غمگین کو مسرور کرو، یہہ کہا اور ہزار ہزار منت و سماجت کی،

سکنتلا نے کہا مہاراج گناہ تمہارا کچھ نہیں ، یہہ میری قسمت کی برائی ہے۔

آپس میں وے دونوں عاشق و معشوق یے باتیں کر رہے تھے جو کشیپ منی نے راجا کے آنے کی خبر سنکر بلایا ، وہ لڑکے کو اپنے گلے سے لگائے ہوئے جب پاس گیا ، پہلے ڈندوٹ کرکے قدم لئے پھر ہاتھ باندھ کر گنہ گاروں کی طرح آگے کھڑا رہا۔سکنتلا بھی سر نیچے کیئے ہوئے حاضر ہوئی ۔

انہوں کی طرف غور تامل سے دیکھ کر منی نے کہا ، راجا ، یہ اپنے خاندان کی بہت نیک ہے اور یہہ بیٹا اس کے یہاں اچھی ساعت میں پیدا ہوا ہے، لچھن اس میں سب خوب ہیں اور تم بھی نیک ذات اور نیک صفات ہو ، سنجوگ تمہارا نیک ہو۔

جب اس نے یے خوبیاں بیان کیں تب راجا نے ہاتھ جوڑ کر کہا، میرے دل میں جو گمانِ بد اور خیال فاسِد ہوا تھا ، سبب اس کا مجھے کچھ دریافت نہیں ہوتا اس سے مجھے آگاہ کرو، کیا باعث اسکا تھا ۔ اور تم سے کچھ چھپا نہیں ، گزشتہ و حال و آئیندہ کا سب احوال تم پر روشن ہے اور میں تم سے اس لئے پوچھتا ہوں ، میں نے گندھرو بیواہ کر کے رشتہ الفت کا بڑھایا کہ کبھی تار دوستی کا نہ ٹوٹے ، کیا سبب ہے کہ برعکس اس کے مجھ سے عمل میں آیا? خبر کچھ نہ رہی اپنے قول ق قرار پر میں نہ رہا، آپ یہہ یار وفادار میرے گھر میں آئی، سوز و گداز اپنا شمع کی مانند زبان پر لائی تب بھی مجھے کچھ پرواہ نہ ہوئی اور اس کے جدا ہونے سے بھی کچھ خیال نہ گزرا کہ یہہ کون ہے اور کہاں سے آئی تھی اور کدھر گئی ، پھر دیکھتے ہی انگوٹھی کے کیونکر یاد آئی۔ یہ بڑا تعجب ہے۔

راجا نے جب اپنے دل کا یہ شبہ بیان کیا تب منی نے ہنس کر جواب دیا، سکنتلا کو مینکا جب یہاں لائی تھی ، اسی آن جو سوچ کر میں نے دھیان کیا ، پردہ اس راز کا تمام مجھ پر کھل گیا درباسا منی نے غصے سے سکنتلا کو سراپا تھا کہ راجا کو تیری طرف سے ایسی غفلت ہووےگی کہ تجھے بھول جاوے گا بہت دنوں تلک رووے گی ۔

غرض جو کچھ اس نے اس کے حق میں بد دعا دی تھی اس کے آثار سب کچھ نظر آئے اس میں تقصیر تمہاری کچھ نہیں اور وہ سراپ سکھیوں نے سنا تھا ، سکنتلا کو اس سے خبر نہ تھی اور انہوں نے بھی مناسب وقت نہ جانا جو کہتیاں مگر درباسا رکھی کے ہاتھ پاؤں پڑ کے انہوں نے بہت عاجزی و منت و زاری کی تب اس منی کے جی میں کچھ رحم آیا اور یہہ بھید بتایا کہ راجا اس کی طرف سے غفلت کرے گا جب انگوٹھی اپنی پاوے گا تب اس کو سکنتلا کی بھولی ہوئی یاد پھر آوے گی، لیکن کتنی مدت یہہ ایذائیں اٹھائیگی۔ یہ کہکر وہ منی چلا گیا اور اس کی بد دعا نے یہ اثر کیا تھا کہ تم نے دل سے اس کی یاد بھلائی تھی اور انگوٹھی لیئے سدھ آئی ، کچھ اور تم اندیشہ نکرو ، میری بات یقین جانو۔ اور کن منی نے بد سلوکی تمہاری چیلوں کی زبانی سن کر تمہیں تقصیر وار نہ ٹھہرایا ، سراپ درباسا منی کا دھیان میں لایا۔ تمہاری بد سلوکی کی باتیں مینکا سے سن کر راجہ اندر نے تمہیں بلایا ہے ، مینکا نے عرض کی تھی ، تم راجا دشمنت کو بلا کر سکنتلا کو ملا دو ، یوں اتفاق ہوا اب سکنتلا کو اور اپنے بیٹے کو لے کر گھر پھر جاؤ ، خوشی خرمی سے عیش و عشرت کرو۔

یے باتیں ہو رہی تھیں کہ ایک وکیل راجا اندر کا وہاں آ پہنچا، اظہار کیا کہ راجا اندر نے کہا ہے جو ہمیں منظور تھا وہ مقصد راہ میں پورا ہوااب تم اپنے مکان کو پھر جاؤ۔

یہہ سنتے ہی ڈندوٹ کر کے اور تخت پر سکنتلا اور لڑکے کو بیٹھا آپ بھی سوار ہو ، ساتھ لے کر انہیں گھر آیا ، اس طور ان مشتاقوں کی آپس میں ملاقات ہوئی ، طالع سوتے ہوئے دونوں کے جاگے ، دکھ درد ان کے دلوں سے یک لخت بھاگے، دونوں خوش و خرم ہوئے، سکنتلا رانی ہوئی اور راجا اپنے راج میں حکم رانی کرنے لگا۔

رعیت ان کی خوشی سے شاد ہوئی ، وہ نگری پھر سرنو آباد ہوئی، سب مطالب و مقاصد ان کے دلوں کے بر آئے ۔ اپنے اپنے حسن و جوانی کے خوب مزے اٹھائے۔

اب یہہ کہانی یہاں تمام ہوئی اے جوان ، لفظ ومعنی سے بخوبی سرانجام ہوئی ۔ از بس کہ زبانِ ریختہ میں لکھی ، سال ہجری کے موافق ریختہ تاریخ ہوئی



سکنتلا کا جو احوال اس میں ہے مذکور
سکنتلا کے اسی نام سے کیا مشہور

_______________________________________________________________________________________________________________________________
زبان ریختہ ، یا آج کی اردو ۔ ہماری زبان کی اپنی ابتدائی شکل میں تحریر شدہ یہ قصہ جسے سکنتلا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اپنے بیانیئے میں اپنی تاریخ تحریر بیان کرتا ہے۔ جیسا کہ اس کے اوپر لکھا ہوا ہے یہ سکونتلا کے نام سے سنسکرت زبان میں ایک ناٹک تھا ، اسے ایک اس زمانے کے مشہور شاعر نواز نے برج بھاکھا میں ترجمہ کیا اور مرزا کاظم جوان نے ہندوستانی زبان میں ترجمہ کیا اور فارسی حرفوں میں لکھ کر شائع ہوا۔ اس کا حکم ڈاکٹر جے بی گلکرائیسٹ نے دیا اور منشی بومانجی دوسا بھائی نے بمبئی میں لیتھیوگراف بذریعہ مرزا حسین کاشانی 1848 میں چھپوایا۔​
چونکہ یہ ایک قدیم تحریری نمونہ میرے پیش آیا تھا اس میں استعمال ہونے والی تراکیب و اسلوب تحریر کافی دلچسپ محسوس ہوا۔ جیسے عدم وجود حروف مثل (ڈ۔ڑ۔ٹ۔ے۔ں ) اس کے بجائے اس میں ر۔ت۔د پر اضافی زبر و نقاط کا استعمال کر کے بطور ڑ۔ٹ۔ڈ و غیرہ بنالیا جانا ، ے کی بجائے ی کو ہی تھوڑا بڑا کر کے استعمال کرنا ۔ رموز و اوقاف کا عدم استعمال ۔ تفصیلیہ، قومہ ، وقفہ ، استفسار وغیرہ کی علامات کا بہت کم نہ ہونے کے برابر استعمال۔ بیانیہ میں انگریزی کے الفاظ کا استعمال نہ ہونا ، منظر کشی کے اعلی نمونے ، انداز بیاں یہ سب چیزیں غیر معمولی محسوس ہوئیں ۔ اس کے علاوہ سوالیہ نشان کی یہ حالت نظر آئی کی جیسے اسے انگریزی سے لیا گیا ہو کیونکہ ریختہ میں تحریر ہونے کے باوجود اس علامت کا لکھا جانا انگریزی اصول کے مطابق نظر آیا گو کہ پوری کتاب میں جو علامات نظر آئیں نہ ہونے کے برابر تھیں ۔ لیکن یہ اشاریہ تھا کہ ان علامات سے تعارف شروع ہو رہا تھا اور انہیں استعمال کیا جانا بالکل ابتدائی مراحل میں تھا۔ یہ کتاب ریختہ پر موجود ہے اور کاظم علی جوان کا بیانیہ اس کے نقشہ اور منظر کشی پر ان کی مضبوط گرفت کا منظر دکھاتا ہے۔ ناقل
________________________________________________________________________________________________________________________________________________
 
Top