داستان سکنتلاناتک۔یکے از تحریر ہائےجان گلکرسٹ مترجم از بہمن جی ابن دوسا بھائی منشی ۔ 1848 عیسوی - بزبان ریختہ(اردو کااولین نام--ناقل)

ہوالکافی
داستان سکنتلا ناتک
یہہ کتاب نایاب تھی اور اسکاایک نسخہ جو جان گلکرست صاحب بہادر نے
انگریزی حرفون مین لکھکر
صاحبان نو آموز کی تعلیم کے لیئے دار الریاست کلکتے مین چھپوایا تھا
سو اس حقیر کے ہاتھ لگا
تو نیازمنددربار کریم بہمن جی ابن دوسا بھائی منشی نے
کئی خواہشمندون کی فرمائش سے اسے فارسی حرفون مین لکھکر
جزیرہ معمورہ ممبئی مین
میرزا حسن کاشانی کے چھاپے خانے مین 1838 عیسویہ مین
چھپوایا


 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
پری ہو یا انسان کسی جان کی کیا جان جو اسکے شاہدِ حمد و ثنا
کے حسن و جمال پر کر سکے نگاہ کلام معجزِنظام احمد مجتبیٰ
محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہِ وسلم کا اسپر ہے گواہ
کیا وہ جلوہ تھا جسے دیکھ کر موسیٰ آپ مین نہ رہا عشق ہے اسکے
حسن کو کہ کوئی تو دیوانہ اور کسی نے اپنا جی ہی دیا
کون ہے ایسا جس کے دل کو اسکی نہین ہے لاگ
اسی کا سوز محبت رکھتی ہے آگ


بزم حیرت میں مثال شمع ہر اہل نیاز
اے جوان رکھتا ہے کیا کیا دل میں اپنے سوز وساز
لب پہ مہرخاموشی بہتر ہے شور عشق سے
ہونہ ازخودرفتہ بس آگے نہ کر افشائے راز​
 
اس کتاب میں (ڑ) کی بجائے( ر) کے اوپر دو نقطے و یک زبر لگا کر اس کا مقصد پورا کیا گیا ہے ۔ چونکہ اب یہ ترکیب تحریر اردو (ریختہ) میں غیر مستعمل ہےاسیلئےمیں مزید اس میں ر جس کے اوپر دو نقطے ہیں کی جگہ پر( ڑ) استعمال کروں گا ۔ اس کے علاوہ (ے ) پہلے (ی) کو ہی اس کے پیٹ کو بڑا کر کے لکھتے تھے جو موجودہ دور میں ناموجود ہے لہذا اس ترکیب کو بھی اس نقل میں استعمال نہ کر سکوں گا۔ اس کے علاوہ نون غنہ (ں) بھی پہلی کتابوں میں غیر مستعمل تھا اس کی بجائے ن منقوط ہی لگایا جاتا تھا اور موقعہ کی مناسبت سے اہل زبان اسے سمجھ جایا کرتے تھے کہ یہ نون غنہ ہے یا کہ نون منقوط لہذا نون غنہ کی موجودہ شکل کو استعمال کرونگا۔ مزید یہ کہ اصل کتاب میں ت اور ٹ کا تفرق ت اور (تَ ) بعینہ ر اور ڑ کے تفرق کے بفرق احرف کیا گیا ہے جو اب غیر مستعمل ہے اور قاریان کو مطالعہ میں خلفشار و تذبذب میں مبتلا کر سکتا ہے لہذا اسے بھی موجودہ حالات کے مطابق درستگی کے ساتھ پیش کیا ہے ۔ اسی طرح س اور ش کا فرق بھی مطالعہ کے دوران ہی بعض مقامات پر واضح ہوتا ہے لہذا اسے بھی موجودہ احوال کے تناسب سے حتی الامکان درستی کے ساتھ پیش کرنے کی سعی کی ہے امید ہے احباب اسے نقل میں عیب نہ سمجھیں گے (ناقل)​

اب یہہ ہیچ مدان ہر صغیر و کبیر کی دریافت کے لیئے اس روزگار کے
سررشتے سے کہ سرکار میں کمپنی بہادر دام اقبالہ کی مقرر ہوا
بیان کرتا ہے
کرنل اسکاٹ صاحب جو لکھنئو کے بڑے صاحب ہیں انہوں نے
حسب الطلب گورنر جنرل بہادر دام ملکہ کے 1800 عیسوی میں
کتنے شاعروں کو سرکار عالی کے ملازموں میں سرفراز فرماکر
اشرف البلاد کلکتے کو روانہ کیا ، انہوں میں احقر بھی یہاں وارد ہوا
اور موافق حکم حضور خدمت میں مدرس مدرسہ ہندی کی جو
صاحب والا مناقب جان گلکرسٹ صاحب دام ظلہ میں
شرف اندوز ہوا
دوسرے ہی دن انہوں نے نہایت مہربانی اور الطاف سے ارشاد فرمایا
کہ شکونتولا ناٹک کا ترجمہ اپنی زبان کے موافق کراور
للو جی لال کب کو حکم کیا کہ بلا ناغہ لکھا کرے
اگرچہ کبھی سوا نظم کے نثر کی مشق نہ تھی لیکن خدا کے فضل سے

 
بخوبی انصرام ہوا کہ جسنے سنا پسند کیا اور اچھا کہا بہت سا
پڑھنے لکھنے میں آیا اور کچھ چھپ کر اتفاقات سے رہ گیا
ان دنوں میں کہ 1804 ہیں اور احقر قرآن شریف کے ہندی
ترجمے کا محاورہ درست کرتا ہے صاحب ممدوح نے فرمایا ہم
چاہتے ہیں کہ اس کتاب کو ازسرنو چھپواویں نظر ثانی لازم ہے
اور اس کب کو فرمایا کہ تم بھی اسی کتاب سے مقابلہ کرو کہ
اگر کہیں مطلب کی کمی بیشی ہوئی ہو نہ رہے چنانچہ ہم نے انکا فرمانا
بجا لائے پھر موافق حکمِ صاحب کے بندے نے تھوڑا سا دیباچہ (یہاں اصل کتاب میں دیباجہ کا لفظ تحریر ہے)
اور بھی لکھا و الانہ اگلا یہی ہے۔
خدا کانام لے پہلے زباں پر
لگا پھر دل کو اپنے داستاں پر
یہہ قصہ فرخ سیر بادشاہ کی سلطنت میں سنسکرت سے
زبرج بھاکھا میں ترجمہ ہواتھا اب شاہ عالم بادشاہ کے عہد میں
اور زبدہ نوئیناں عظیم الشان مشیر خاص کیوان بارگاہ
انگلستان اشرف الاشراف مارکویس ویلزلی گورنر جنرل بہادر
دام دولتہ کی حکومت میں 1801 عیسوی میں مطابق 1215
 
ہجری کے جناب گلکرسٹ صاحب دام ظلہ کے
حسب الحکم کاظم علی جوان نے اسے زبان ریختہ میں بیان کیا
اس داستان کے لکھنے والے نے یوں لکھا ہے
کہ فرخ سیر بادشاہکے فدویوں میں سے مولیٰ خان
فدائی خان کے بیٹے نے جب ایک لڑائی ماری تب حضورِ
پرنور سے اسکا خطاب عظیم خان ہوا اسی ایام میں اسنے
نواز کِبشوَر کو حکم کیا کہ شکونتولا ناٹک جو سنسکرت میں
ہے بِرج کی بولی میں کہہ اس کِبشوَر نے یہہ کہانی کبِت دہرے
میں کہی کہ جسکا ترجمہ یہہ ہےاور جو انگریزی میں ہے سو
سنسکرت سے ہوا ہے اگر اس میں اور اوس میں کچھ فرق
ہو تو ممکن ہے
اب صاحبان دانش و بینش کی خدمت میں التماس میرا یہ ہے
کہ چشم و گوشِ انصاف کھولیں اور ٹک منصفی سے بولیں
کہ کبِت اور دہرے کا ترجمہ جیساچاہیئے ویسا زبان
ریختہ میں کب ہو سکتا ہے اوسکے اور اسکے مضمون کی بندش کا
فرق کھلا ہواہے بیان کی احتیاج کیا​
 
طرز اوسکی ہے جدا اسکانرالاطور ہے
اوسکا عالم اور ہے اسکا عالم اور ہے
قطع نظر اس کے کہ کبِت ہو یادہرا نظم کا ترجمہ نثر میں طبیعت کو
منتشرکرتاہے ۔ کیا کیا
لکھے یے دوچار فقرے
اگر جائے تامل ہو کسی جا
گرفت اس میں نہو اہل خرد کو
کہ اس مضمون کا یہاں طور یہہ تھا
وگر دیکھیں خطا تو بھی سمجھ کر
معاف اس کو کریں ہو لطف فرما
کہ خالی ہے بشر کوئی خطا سے
کسی کو اس میں طعنے کوئی دے کیا
جواں بس دل لگا تو داستاں پر
یہاں سے یوں ہے اب آغاز اسکا

کہ اگلے زمانے میں وِسوا متر نام ایک شخص تھا شہر کو چھوڑ کر جنگل میں
رہا کرتا اور اپنے طور کی عبادت و ریاضت دن رات کیا کرتا
اپنے صاحب کی بندگی میں تن بدن کی کچھ اسے خبر نہ تھی
سوا اسی کے تصور کے کبھی نگاہ ادھر اودھر نہ تھی یہاں تک
یہاں تک دبلاپے سے لتا تھا کہ پہچانا نہ جاتا تھا
بدن سوکھ کر اس کا کانٹا ہوا تھا
ریاضت کے مارے وہ جیتا موا تھا
اِن دکھوں سے اسکو کبھی ایک دم آرام نہ تھا سوا اٹھانے
ان جفاؤں کے کچھ کام نہ تھا تاکہ اس خاکساری سے آرزو
دل کی بر آوے اور درخت سے مدعا کے پھل پاوے ایسا
جوگ کیا ایسا آسن بیٹھا نزدیک تھا کہ بندگی کے زور سے
راجا اندر کی سنگھاسن چھین لے جتنے تیرتھ تھے ان سب
میں گیا شہر شہر دریا دریا گھاٹ گھاٹ پیکر ماکرتا پھرا
نہ چھوڑا کسی ندی کا کنارہ
جس جنگل میں کسی درخت تلے ذرہ بیٹھتا گرداگرد آگ جلاتا
پھر اپنے تئیں الٹا لٹکا تا دم بدم دھواں منہہ میں لیا کرتا
تپشیا اس طرح کیا کرتا غرض اس تپشوی کا یہی حال تھا
آٹھوں پہر تپ جپ کا خیال تھا چونسٹھ برس تلک وہ

 
بیاباں نورد تھا سر سے لگا کے پاؤں تلک گرد گرد تھا
بناسپتی ہی کھاتا رہتا بھوکھ پیاس کی ایذائیں سہتا اور رو بہ آفتاب ہوکر

گرمیوں میں وہ جگر تفتہ جلا کر گرد آگ
بیٹھتا تھا ڈھیر جیسے راکھ کا آوے نظر
اور جاڑوں میں گلے تک پانی میں ہو کر کھڑا
جپ کیا کرتا تھا شوقِ دل سے ہر شام و سحر

ایسی باتیں سنکر راجہ اندر کو بڑی سوچ بڑا ڈر دل میں ہوا
اسکے اِس جوگ توڑنے کے لیئے منوکا پری کو بلا کر بہت سی
آؤ بھگت کی اور یہہ احوال ظاہر کیا

وہ راجہ کے حسن سلوک سے بہت خوش ہوئی اور
اس مطلب کے سنتے ہی یوں بولی کہ میں وہ پری ہوں کہ اگر میرا
سایہ برہما ویشنو مہادیو پر پڑے دیوانے ہو جاویں
جو وے ہوویں وحشی تو کرلوں میں رام
میری یاد میں بھولیں سب اپنے کام
یے ایسی ہیں جادو بھری انکھڑیاں
رہے دیکھ کر انکو سدھ بدھ کہاں
 
یہہ احوال جب ایسے لوگوں کا ہو
رکھوں پاکدامن میں کب اور کو
وشوا متر کو ایک پل میں اپنے پر دیوانہ کر لوں تمام عمر کو قشقے کہ
جاگہہ یہ کلنک کا ٹیکا ماتھے پر دھر دوں جوگی یا جتی تین طبق میں
کون ایسا ہے جو مجھ سے آپ کو بچاوے اسکو تو میں ایک دم میں
اور کا کچھ اور کر دوں قسم ہے مہاراج کی اگر اسے کام کے بس کر
انگلیوں پر نہ نچاؤں تو نام اپنا منوکا نہ رکھاؤں
باتیں کتنی ہی ایسی کر کے بین کاندھے پر دھر وہاں سے اٹھی
بیٹھ اپنے تخت پر ہوائے آسماں سے زمین پر اتری
وہ ایک ایسا ستارہ تھی کہ تمام عالم کو جِسنے روشن کردیا تِس پر
سولہ سنگھار بارہ ابھرن جو اسنے سرسے پاؤں تلک کیئے دن کو
دن کو تو سورج اسکا جلوہ دیکھ کر رشک کی آگ سے جلا اور رات کو
چاند غیرت سے داغ ہو کر ستاروں کے انگاروں پر لوٹا
ایسی موہنی صورت اور وہ بناؤ جو دیکھا جوگ بجوگ میں آگیا
تپشیا کا پیڑ جڑ سے اکھڑا کیا وہ خرمنِ صبر جلانے والی​
 
بجلی تھی کہ جس پر اسکی نگاہ گرم پڑی بیتاب ہوکر دل اسکا
سینے میں بھسمنت ہو گیا اگر فرہاد دیکھتا جانِ شیریں دیتا
لیلیٰ مجنوں ہو جاتی
نہ بلبل ہی ہوئی تھی اس پہ شیدا
گلوں کی بیکلی تھی دل میں پیدا
بہشت سے نکل کر جو اسے دیکھتی حور تو یقین ہے کہ جان
دینے میں نہ کرتی قصور

دیکھکر اس کو کافر و دیندار
کرتے آپس میں تھے یہی تکرار
جہاں یہ صنم آوے یارب نظر
کسے دین و دنیا کی وہاں ہو خبر

حاصل کلام وہ اس صورت اس منی کے مہنے کو اور من
بس کرنے کو اٹھکیلیوں کی چال خِرمن ناز کے انداز سے چلی
اچبلاہٹ اور چنچل پنے سے ٹھوکر دامن کی گریبان شکیبائی کو
چاک کرتی تھی آنچل دوپٹے لا سِر پر سے کاندھےپر اور کاندھےسے
پھسلکر زمین پر آرہتا تھا اس سروِ گل اندام کے اس بازو​
 
اب کے بعد میں اسے موجودہ زبان سے ہم آہنگ کرتے ہوئے کوشش کروں گا کہ صرف وقوف و قوافی کا خیال رکھ سکوں۔ بغیر کسی قسم کے الفاظ کا تبدل کیئے تاکہ لطف سے مطالعہ کیا جا سکے۔
پھسلکر زمین پر آرہتا تھا اس سروِ گل اندام کے اس ناز و
ناز و انداز پر نسیم و صبا صدقے قربان جاتی تھی ۔ مدھ بھری وے آنکھیں دیکھ کر نرگس پیالہ شراب شوق کا لے کر کھڑی کی کھڑی رہ جاتی تھی ، کمر کی لچک سے تار تار سنبل کا پیچ و تاب کھاتا تھا ، بین بجاتی ہوئی ، ہولی گاتی ہوئی ، دھیان تالوں پر دھرے ، پھول دامن و گریبان میں بھرے ہوئے آکر وہاں جلوہ گر ہوئی جہاں وہ جوگ سادھے ہوئے تپسیا کر رہا تھا ۔ یک بیک پازیب کے گھونگروؤں کی جھنکار بین کے تاروں کی آواز گانے کی لے سے ملی ہوئی سن کر بیقرار ہوا ۔ اس نے جونہی آنکھیں کھول دیں ، ایسی شکل نظر آئی کہ ایک ہی نظارے سے اس کا سب دھیان گیان جاتا رہا، برسوں میں جپ کی جتنی پونجی جمع کی تھی اس کے ناز و غمزے کی فوج نے سب کی سب ایک دم ہی لوٹ لی ۔ پھر تو غش کھاتا ہوا اٹھ کر پروانہ وار اس شمع رو کے گرد پھرنے لگا اور بے تابی سے دم بدم قدموں پر گرنے لگا اور بلائیں سر سے پاؤں تلک لینے اور صدقے ہو کر جان اپنی دینے لگا۔

دل اس کا محو جلوہ جانانہ ہو گیا
کرتے ہی یک نگہ کے و دیوانہ ہو گیا
تب تو پری دم دلاسہ دے ، اسے ہوش میں لا، اپنی بھی چاہت جتا ، گرم جوشی کر کے اس مزے میں لائی کہ اس کے دل نے پہلے بوس و کنار سے نہایت لذت پائی ، پھر تو کام دیو نے آکر اپنا کام کیا کہ ایک آن میں اس کا وہ کام تمام کیا ۔ اس نے اپنے اس جوگ کا یہ پھل پایا کہ ایک دم کے مزے کی خاطر سب کچھ گنوایا۔ پھر بہت سا پچھتایا کہ میں نے کیا برا کام کیا اپنے تئیں تمام بھلوں میں بد نام کیا۔
تب تو اس کے سوا کچھ اور بن نہ آیا کہ اس بن کو چھوڑ کے اور بن کو گیا۔ اور مینکا کو وہیں حمل دریافت ہوا، اس سبب اسے راجا اندر کے دربار میں جانا بار ہوا ، چار و ناچار نو مہینے تلک دن گنتی رہی ۔ جب مدت پوری ہوئی تو ایک ماہ رو لڑکی جنی، قہر یہ ہیکہ بے مہری سے نہ چھاتی لگا کر اسے دودھ دیا ، بے الفتی سے نہ ایک دم گودی لیا ۔ نسل انسان کی جان ، محبت ذرا نہ کی اور وہیں پٹک کر اس نے اتنی بات کہی کہ جسے ہماری ذات میں کوئی نہ رکھے، اسے کیوں اللہ نے دیا۔

بات یہ جوں نکلی لب سے کھا وہیں وہ پیچ و تاب
اڑگئی آئی جدھر سے تھی بہ چندیں اضطراب


 
آخری تدوین:
اب آگے داستاں کا یوں بیاں ہے کہ اس جنگل میں سوا خدا کے اس کا کوئی خبر لینے والا نہ تھا ۔ پر ایک پکھیرو اس پر اپنے پروں کا سایہ کئے ہوئے تھا اس سے اس کا نام سکنتلا ہوا۔ وہاں پڑی ہوئی وہ روتی تھی ۔ آنسوؤں کے موتی پلکوں میں ںپرو تی تھی، دودھ کے لیئے منہ پسار رہی تھی ۔ ہاتھ پاؤں مار رہی تھی کہ پروردگار نے اپنا فضل کیا جو کن منی کہیں نہانے کو چلے تھے جوں اس طرف سے ہو نکلے دیکھا کہ یہ کیا قدرت الٰہی ہے جو اس صورت سے نظر آتی ہے۔
اس نوگل چمن کو گلستاں سے دور دیکھ حیراں برنگ بلبل تصویر ہو گئے غلطاں در یتیم سی تھی لیک خاک پر غلطانی اس کی دیکھ وے دلگیر ہو گئے، اسپر انہیں نہایت ترس آیا ۔ دوڑ کر خاک پر سے اٹھایا ، گودی میں لیکر کہنے لگے یہ پری جن یا کسی قوم کی ایسی خوبصورت لڑکی ہے کہ دیکھی نہ سنی ، کچھ کہا نہیں جاتا اور کچھ سمجھ نہیں آتا، کس نے اس جنگل میں لاکر خاک کے اوپر اس چاند کے ٹکڑے کو ڈال دیا تھا۔ اسے چھاتی سے لگا ئے ہوئے وے دل میں سوچ بچار کرتے گھر کو پھرے ، مکان میں پہنچتے ہی اپنی بہن گوتمی کو اس کی صورت دکھا کر پیار سے کہا کہ جی لگا کر بہت اچھی طرح پرورش کرتی رہیو، ایسا نہو کہ کسی طور سے کوتاہی ہو۔ لڑکی کی جو وہ صورت اس نے دیکھی اور بھائی کی اس کے حق میں یہ مہربانی کی باتیں سنیں ، پہلے اس کی بلائیں لیں پھر گود سے اپنے گلے لگا پالنے لگی، دن رات چھاتی پر اسے لٹا تی تھی، مہر و محبت سے دودھ پلواتی تھی ۔
وہ اس صورت سے پلتی تھی اور جتنے اس جنگل کے تپسوی تھے اس کو پیار کرتے تھے ، سب کی وہ پیاری تھی ، ان سبھوں میں یہ مشہور تھا کہ یہ کن منی کی بیٹی ہے دن بدن و ہ بڑی ہوتی تھی اور تخم محبت ہر دل میں بوتی تھی۔ اور بھی دو لڑکیاں وہاں تھیں ایک کا نام انسویا تھا اور دوسری کا پریم ودا ، تینوں پرورش پا کر جب بڑی ہوئیاں آٹھ پہر ساتھ کھیلنے لگیاں ان سبھوں کو آپس میں ایسا پیار و اخلاص تھا گویا ان کی ایک جان اور جدا جدا قالب تھا ۔
ہر ایک ان میں تھی زہرہ و مہر و ماہ
جنہیں دیکھ کو ہووے یوسف کو چاہ
اگر چاہے شاعر کرے شاعری
بیاں ان کی ہووے نہ خوبی ذریٰ

خدا نے اپنے دست قدرت سے ان تینوں کے سراپا میں سراپا خوبیاں بھر دیں تھیں

بھویں جب کہ غصے میں تھیں تانتیں
جگر تیر مژگاں سے تھیں چھانتیں
تلطف سے جس دم کہ وے ہنستیاں
تو زاہد کو بھی سوجھتیں مستیاں
ہر ایک کا وہ پری سا چہرہ جو نظر آتا کوئی تو غش کھاتا اور کوئی دیوانہ ہو جاتا

جو زلفیں تھیں زنجیر پائے جنوں
کف پائے رنگیں تھی سرگرم خوں
اگرچہ ظاہر میں وے سبھی سر سے پاؤں تلک تمام حسن و جمال اور ناز و ادا تھیں لیکن حقیقت میں و ہ شعلہ بھبوکا کہ جس کا نام سکنتلا تھا اپنے ایک جلوے سے دل و جان دونوں اس جہان کا پھونک دیتی تھی ، شہرہ اس کی گرم بازاری کا، دھوم کہ حسن عالم، سوز کی ایسی تھی کہ آفتاب عالم تاب کو ایک ذرہ اس کے آگے تجلی نہ تھی

کہاں تک بیاں اس کی ہوں خوبیاں
سراپا تھیں اس میں خوش اسلوبیاں
القصہ کن منی نے ایکدن اس نازنیں سے یہ بات کہی کہ اب میں تیرتھ کو جاتا ہوں تھوڑے دنوں میں نہا کر پھر آتا ہوں تب تلک تو چین و آرام سے خوش رہیو ، جو کچھ مطلوب ہو گوتمی سے کہا کریو وہ تیری خاطر حاضر کیا کرے گی اور جان و دل سے صدقے قربان ہو کر سر سے پانوں تلک تیری بلائیں لیا کرے گی۔ پر جو کوئی تپسوی یہاں آوے آدر کرپاؤں پڑیو اور اس کی خدمت کیجئو ، جہاں تک تجھ سے ہو سکے کوتاہی مت کیجئو۔

پس اسی طرح وہ اسے سمجھا سمجھا ، نصیحت دلاسا دے کر روانہ ہوا اور وہ آتش کا پرکالہ ، اندھیرے میں گھر کا اجالا ، شیریں منش ، لیلیٰ روش ، طلسم حسن و جمال کے گنج کا یعنی سکنتلا برنگ گل جس کی جگہ چاہیئے تھی چمن میں ، رہی اسی بن میں

شروع جوانی اور اس کا وہ جوبن
نیا عالم اپنا دکھا تا تھا بن بن​
جتنے اس دشت کے چرند و پرند تھے ، وے اس کے دام محبت کے پابند تھے اور وہ خدمت میں منی لوگوں کی مشغول تھی ۔ جب کتنے دن گزرے ایک تازی وحشت آ اس سے دوچار ہوئی۔ چار و ناچار اپنے دل کو یوں بہلاتی تھی۔ کبھی ہرن کے بچوں کو دانہ کبھی درختوں کو پانی دیا کرتی اور خاطر اس کی ہر آن گوتمی ہر ہر طور سے کیا کرتی تھی۔ کن کی سفارش کے سوا وہ خود اس کی فرماں بردار بلکہ جاں نثار تھی اور وے دونوں سکھیاں اس کا منہ دیکھتی ہی رہتیاں تھیں۔

جب جوانی کی امنگ نے عالم کچھ اور دکھایا شوخیاں نئے نئے طور کی اس نازنیں میں سمانے لگیں ، دلداری اور دلربائی کے اختلاط ان ہمجولیوں سے شروع کئیے، ترچھی نگاہوں تیکھی نظروں سے اشاروں میں ان کے دلوں کو بے چین کرتی تھی، بگڑ بگڑ کر ہزاروں طرح چن چن کر ان کو نام دھرتی تھی۔

کبھی ہنس بول کر نہال کیا
کبھی ٹھوکر سے پائے مال کیا



 
آخری تدوین:
نہ تھا دلربائی کا اک طور کچھ
ہراک آن میں آن تھی اور کچھ​
وہ قامت قیامت کا نمونہ ، بلکہ آمد میں اس سے بھی دونا ، تس پر تمام وہ ترکیب بدن کی جیسا پھولوں کا گڑوا ، آفت غضب وہ چھاتیوں کا ابھار ، چمن چمن کی اس سے تروتازہ بہار ۔ عالم کچھ کا کچھ نظر آتا تھا جسے دیکھ کر عالم کا جی جاتا تھا کمر کی بھی لچک سے رگ جاں تلک پیچ و تاب تھا اور ہر روز جوبن اس کا اس چمک سے بڑھتا تھا کہ چودھویں رات کے چاند کو بھی مکھڑا دیکھ کے چکا چوند آتی تھی ۔اس جنگل میں اس کے حسن کی یہ جھلک تھی کہ ہزار پردوں میں چھپائے نہ چھپے۔
اس حسن و جمال پر اب بیان کچھ اس کے پہناوےکا جو کیجئے تو سن کر گل چمن میں اپنے گریبان پھاڑیں اور گلا ننگا دیکھ کر معدن و دریا میں جہاں تلک گوہر ہیں حسرت سے اپنے تئیں جوہر کریں ۔ اگرچہ حسن خدا داد لباس و زیور کے بندھن سے آزاد ہے کہ اس سے اس کی خوبی ہے ، نہ اس سے اس کی محبوبی ، لیکن بہ ظاہر خوش نما ہے اور باطن میں تو دل کی لبھانے والی ہر آن ادا ہے۔
کہتے ہیں کہ اس کی پوشش ہرن کی کھال تھی اور پوت کا بھی گلے میں ہار نہ تھا تب بھی گویا ہزاراں ہزار بناؤ تھا لیکن جوں جوں وہ جوانی پر آتی تھی توں توں خوبصورتی اور سماں دکھاتی تھی۔ جس کسی کی آنکھ اس کے چاند سے مکھڑے پر پڑتی بے اختیار وہ یوں کہتا تھا

مصور گر تری تصویر کو چاہے کہ اب کھینچے
لگاوے چاند سارا ایک چہرے کے بنانے کو
یہاں اس کی یہ صورت تھی اور منی وہاں جو راہ چلا جاتا تھا ، یہی اس کے دل میں سوچ و بچار تھا جیسی وہ قبول صورت ہے ویسا ہی کوئی مقبول پری پیکر ماہ جمال اس کا جوڑا ہو تو دونوں ماہ و مشتری کے مانند وصل کے برج میں قرار پاویں ۔
یکایک سنو اور قدرت خدا کی​
 
ایک دن راجا دشمنت کسی جنگل میں شکار کو نکلا تھا ۔ ہرن کے پیچھے گھوڑا دوڑا اپنی فوج سے ایسا آگے نکل گیا کہ اس کی سپاہ جو گردو پیش تھی بہت پیچھے رہ گئی جب آس پاس اپنے آدمیوں میں کوئی اس کو نظر نہ آیا اور دوپہر کی دھوپ سر پر پڑی اور وہ ہوائے گرم بدن کو لگی۔ تب بے تاب و بے قرار ہوا اور وہ ہرن کہ چھلاوے کی طرح نظروں سے اوجھل ہو گیا تھا ، اس جنگل میں کہ سکنتلا کی جہاں بودوباش تھی نمودار ہوا ۔ راجا نے جھنجلا اور طیش کھا ، تیر کو کمان کے چلے سے جوڑ کر چاہا کہ اسے نشانہ کرے ، ہنوز تیر قبضے سے کمان کے سرکنے نہ پایا تھا کہ آواز آئی۔
تم راجا ہو اور ہم جتنے جنگل کے جوگی ، تپسوی اور جتنے رہنے والے ہیں کیا چرند کیا پرند تمہارے سائے میں بستے ہیں سبھوں کے تم رکھوالے ہو ، ہا ہا مہاراج ہمارے تپ بن کا ہرن شکار مت کرو۔ جب جوگیوں منیوں تپسویوں کی راجا نے یہ بات سنی ، ہاتھ رکھ گھوڑے کی باگ لی ، ان سب رشیوں نے اشیر باد دیا۔ راجا نے ان کو ڈنڈوت کر کے پوچھا کن کا یہاں مکان کونسا ہے ہم جا کر درشن کریں اور ان کے قدم لیں ۔ یہ سن کر وے سب خوش ہوئے اور استھان ان کا پاس بتایا اور کہا تھوڑے سے دن ہوئے ہیں کن منی تیرتھ کوگئے ہیں انہوں نے ایک لڑکی کو بیٹی کر کے پالا ہے سو وہ ان کے مکان میں ہے جو مہاراج اب وہاں تلک جاویں گے تو کن منی تیرتھ سے آن کر سکنتلا سے یہ بات سن کر بہت خوش ہوویں گے ۔ راجا کے دل میں آگئی
 
گھوڑے کو وہیں چھوڑ پاؤں پاؤں ان کے استھان تلک گیا ۔ اس میں داہنی آنکھ جوں پھڑکی دل میں شاد ہوا یہ شگون اچھا ہے ، پاؤں جب آگے دھرا اس کا یہ پھل پایا کہ چھوٹی چھوٹی عمروں کی تین نازنینیں نظر آئیں لیکن انہوں میں جو شکل نظر آئی جو تصویر نظر آئی ، حسن و جمال و خوبی ایک ایک کی شہرہ عالم، جوروجفا و ستم میں ایک سے ایک اظلم لیکن جب دیدہ غور و چشم تحقیق سے دیکھا ایک ان میں ایسی نازنین ہے کہ جس کے گل سے چہرے پر زلفیں جو سنبل سی ہوا سے جنبش میں ہیں تو کمر لچکی جاتی ہے ۔ اس سے چمنِ رعنائی میں عجب بہار ہے اور ہر ایک ان دونوں میں سے نسیم و صبا سی اس پر نثار ہے۔
ہوش جاتا رہا نگاہ کے ساتھ
صبر رخصت ہوا اک آہ کے ساتھ
وہ اس کا ایسا محو دیدار ہوا کہ بے خود ہو کر خاک پر گرا اور اپنے تن بدن کی کچھ خبر نہ رہی کتنی ایک دیر کے بعد جس تس طرح سے جو آپ کو سنبھالا تو دیکھا کہ وہ نازنین اپنے ہاتھوں سے گھڑے پانی کے بھر بھر پودوں میں دے رہی ہے ۔ وے دونوں اس کے ساتھ کی سکھیاں بھی اسی طرح پیڑوں کو سینچتی ہیں ۔ جان کر یہ بھی ایک طور کی بندگی خدمت اور پرورش درختوں کی کرتی ہیں ، ان گل انداموں کے موے سر سے کہ سراسر غیرت سنبل ہیں ، قطرے شبنم کے سے ٹپک رہے ہیں اور تمام پسینے پسینے ہو رہیاں ہیں گویا حسن کے دریا میں غوطے مار نکلیاں ہیں ۔ وے صورتیں مورتوں سی بار بار سر کاندھے کمر پر گھڑے لے لے آتیاں ہیں ، سانس چڑھ جاتیاں ہیں اور منہ اتر اتر جاتا ہے۔ چہروں پر ان کے ایک رنگ جاتا اور ایک رنگ آتا ہے۔ کبھی نزاکت سے پاؤں رپٹ جاتا ہے کبھی بوجھ سے بید کے مانند سارا بدن تھرتھراتا ہے

نہ تھا ان کو وہ رنج راحت سے کم
ہر اک آن کرتیں تھیں چہلیں بہم
 
درختوں کی چھاؤں میں کھڑی ہو ہو کر اپنے اپنے جوبن پر ایک ایک مغرور تھی لیکن ان سبھوں میں سکنتلا اپنے حسن خداداد میں بہت دور تھی ۔ چمکاوٹ اس کے چہرے کی عجب جلوے دکھاتی تھی اور زلفیں بکھری ہوئیں منہ پر اس کےاس رنگ سے نظر آتیاں تھیں جیسے نمود دھویں کی شعلے پر ہوتی ہے یا جیسے کچھ کچھ گھٹا سورج پر آآجاتی ہے نگاہ بجلی تھی کہ نظروں میں کوندھ جاتی تھی ۔ اس تپ بن میں اس رنگ روپ سے سماں بندھا تھا
خجل دیکھ کر اس کو ہوتا تھا ماہ
ٹھہرتی نہ تھی مہر کی بھی نگاہ​
غرض کہ وہ کن کے مکان میں بہ ایں جلوہ افروزی ہر روش سے نونہالوں کو نہال کرتی تھی ۔ راجا نے اسے دیکھ کر تعجب سے کہا کہ اگر ہم اسے سرستی کہیں تو بین اس کے کاندھے پر کہاں ہے؟ اگر گورا پاربتی کہیں تو بھی نہ کہہ سکیں کہ آدھا انگ مہادیو کا ، آدھا اس کا ہے یا لچھمی کہیں تو کیوں کر کہیں وہ چھاتی پر بشن کی رہتی ہے ایک دم ان سے جدائی نہیں سہتی ، اگر رنبھا یا مینکا یا رت سونچیں تو وے جوانیں ہیں یہ جو اس کے نئے جوبن کا سن و سال ہے وے کب رکھتی ہیں؟۔

راجا یہ باتیں سوچ سوچ کر حیران تھا اور دل میں بھی کہتا تھا ۔مگر یہ کوئی حور ہے جو سراپا عیب سے دور ہے ، جان و دل سے اس پر فریفتہ ہوا ، ہوش و حواس سب گم ہوئے ، اس کے حسن کے سمندر میں ڈوب گیا ، نگہ کے دام میں زلفوں کے جال میں دل یوں پھنسا کہ پھر رہائی جنجال ہوئی نقشہ اس کی صورت کا لوح دل پر کھنچ گیا ۔ آئینے کی مانند یہ سراپا محو کے عالم میں تھا ، جدھر جدھر نگاہ اس کی پھرتی تھی جی جلا جاتا تھا ۔

غرض کہ یہ بن داموں کے غلام ہوا اور تیغ عشق سے کام تمام ہوا ۔ کبھی مجنون کے مانند اس لیلیٰ منش کا شیفتہ تھا اور کبھی فرہاد سا اس شیریں ادا کا فریفتہ
تیغ مژگاں سے جو سینہ سربسر غربال تھا
دل برنگ نقش پا ہر ہر قدم پامال تھا
اشک تھے آنکھوں سے جاری لب پہ تھا شورو فغاں
آہ اس دل دادہ الفت کا یہ احوال تھا
جب کبھی ہوش میں آتا اتنی بات زبان پر لاتا ، آنکھوں نے تو اس کے حسن کی دید کی اور کان آواز پر لگے رہے لیکن سخن کے موتی جو وہ زبان سے پرووے کان صدف سے پر در ہوویں سو یہ کیونکر آرزو دل کی بر آوے ، درختوں کی آڑ اور اوٹ میں چھپا چھپا وہ تو گرفتار دام محبت اس سوچ میں کھڑا تھا ، دید اس کے حسن کی کرتا تھا ، سرد آہیں حسرتوں سے بھرتا تھا لیکن ان میں کسی کی نگاہ اس پر نہ گئی۔

اتنے میں سکنتلا سے دونوں سکھیاں پوچھنے لگیں کہ تو جو ان درختوں کو سینچتی رہتی ہے کیا منی کو یہ تجھ سے بھی بہت پیارے ہیں ، تو تو ان سو جان سے بھی چاہتی ہے زیادہ ، بھلا تجھ کو انہوں نے کیوں ان کی خدمت کو مقرر کیا ہے ، خدا نے تجھے یہ شکل شمائل دی ہے کہ کوئی حسن و ادا میں تیرے مقابل نہیں ۔ یہ نزاکت اور کامنی پن تیرا کہ لوگ چشم و دل اپنے تیری راہ میں فرش کرتے ہیں پاؤں تیرے اپنے سر پر دھرتے ہیں ، تیرا بدن اس مشقت کے لائق نہیں۔
 
سکھیوں نے جب ایسی باتیں کہیں ، سکنتلا نے جواب دیا ، میں آپ دل و جان سے پرورش کرتی ہوں ، آخر ایک دن اس کا پھل پاؤں گی جو کوئی چھاؤں میں انہوں کی آن کر بیٹھے گا مجھے یاد کرے گا ، منی کے کہنے سے خدمت ان کی نہیں کرتی ہوں بلکہ میں آپ دھیان ان پر دھرتی ہوں ، مجھ کو خود الفت ہے ۔ یہ کہا اور ہرن کے چمڑے کی وہ انگیا جو چھاتیوں پر کسی ہوئی تھی اور پھول سے اس کے بدن میں گڑ گئی تھی جب ہاتھ سے کھولنے لگی نہ کھلی تب انسویا سے وہ بولی ، پریم ودا نے کس کر میری انگیا باندھی ہے ٹک تو اسے ڈھیلا کر دے۔ جوں اس نے بندوں کو ڈھیلا کردیا پریم ودا کھنسا کر اور جھنجلا کر بولی ، گھڑی گھڑی کی کھول موند کیا کریں جوانی کے زور سے بدن تیرا بڑھتا ہے اور ابھار چھاتیوں کا ہوتا جاتا ہے۔ ہمارا گلہ تو کرتی رہتی ہے اپنی طرف نہیں دیکھتی کہ تیرا بدن کچھ کا کچھ ہوا جاتا ہے۔ یہ بات سن کر وہ نہایت شرمائی پھر اسی اپنے کام میں لگی تب ایک بھنورا پھول پر سے اڑ کر منہ پر منڈلانے لگا اور خوشبو پا کر اس کے نازک نازک ہونٹھوں پر جو گلاب کی پتی سے تھے پھرتا تھا ۔ وہ سسکیاں لے لے کر جھڑکتی تھی اڑ جاتا تھا پھر آ بیٹھتا تھا تب جھجک اور گھونگھٹ کر کے سکھیوں کی طرف دوڑی اور وہ بھنورا بھی گونجتا ساتھ ساتھ لگا رہا۔
دیکھ کر بھنورا برنگ گل وہ اس کا روئے خوش
گرد تھا اور لے رہا تھا اس کی ہردم بوئے خوش​
راجا یہ تماشا دیکھ رہا تھا اور من ہی من میں بھنورے سے یہ کہا تیرے سے کہاں طالع میرے کہ اس کے گرد پھروں اور آن آن لب و دہن سے اس کے مزے لوں کاش میں بھی تجھ سا ہوتا اور جو آرزو میرے دل کی ہے خاطر خواہ بر آتی اور تجھ کو دور سے بھی بوباس نہ لینے دیتا ، کیا کروں جو بے بال و پر ہوں اسی حسرت سے نقش پا کی طرح پامال ہوں ، تو اڑ کر پاس جاتا ہے گویا خوشی کی باتیں کہہ اس سے لگن لگاتا ہے۔ وہ تجھے ناز و انداز سے جھڑک جھڑک دیتی ہے اور خفا ہو ہو منہ پر گھونگھٹ لیتی ہے تو وہیں منڈلاتا پھرتا ہے اور اس کے ہونٹوں سے رس لیتا ہے۔ ہم دور سے چھپ چھپ کر یہ رنگ دیکھ رہے ہیں ۔ آگے جاتے ہوئے خاطر نازک سے ڈر آتا ہے ۔ دھن تجھے ، ہم کس کام کاج کے ہیں۔
ترے سے کہاں ہیں ہمارے نصیب
یہ ممکن نہیں جاسکیں ہم قریب
کھڑے تاکتے ہیں دور سے آن آن
ہر اک آن پر گو نکلتی ہے جان
 

اب یہہ ہیچ مدان ہر صغیر و کبیر کی دریافت کے لیئے اس روزگار کے
سررشتے سے کہ سرکار میں کمپنی بہادر دام اقبالہ کی مقرر ہوا
بیان کرتا ہے
کرنل اسکاٹ صاحب جو لکھنئو کے بڑے صاحب ہیں انہوں نے
حسب الطلب گورنر جنرل بہادر دام ملکہ کے 1800 عیسوی میں
کتنے شاعروں کو سرکار عالی کے ملازموں میں سرفراز فرماکر
اشرف البلاد کلکتے کو روانہ کیا ، انہوں میں احقر بھی یہاں وارد ہوا
اور موافق حکم حضور خدمت میں مدرس مدرسہ ہندی کی جو
صاحب والا مناقب جان گلکرسٹ صاحب دام ظلہ میں
شرف اندوز ہوا
دوسرے ہی دن انہوں نے نہایت مہربانی اور الطاف سے ارشاد فرمایا
کہ شکونتولا ناٹک کا ترجمہ اپنی زبان کے موافق کراور
للو جی لال کب کو حکم کیا کہ بلا ناغہ لکھا کرے
اگرچہ کبھی سوا نظم کے نثر کی مشق نہ تھی لیکن خدا کے فضل سے

گمان اغلب ہے کہ مابدولت اس نوع کی نادر روزگار اردو سے درجہ غایت محظوظ ہوں گے ۔۔ چنانچہ دھاگۂ ہذا پر نگۂ کڑی رکھنے کی ضرورت کو مابدولت خارج از امکان قرار دینے کے حق میں ہرگز نہیں ہیں ۔:):)
 
قصہ کوتاہ اپنے دل کی باتیں رشک کے مارے کر رہا تھا اور وہ معشوقیت سے اس بھنورے کو بہ ہزار عشوہ وہ کرشمہ دور کر رہی تھی پر وہ اس کی بوباس پر پاس سے نہیں سرکتا تھا۔ پھر کہنے لگی مجھے اس جنگل میں اس بھنور نے ستایا پھر چلائی کہ سکھیو تم میرے پاس آؤ، اس بدبخت سے میرے تئیں چھڑاؤ، یہ ہونٹوں پہ میرے منڈلاتا ہے ٹالے سے نہیں ٹلتا اس پہ میرا بس نہیں چلتا۔
سنتے ہی سکھیاں دوڑی گئیں اور یہ رنگ دیکھ ہنس ہنس کر کہنے لگیں کہ ہمیں تو نے ناحق بلایا ہے ۔ اس بیری سے ہم کیونکر بچاویں راجا دشمنت سے فریاد کر وہ اس تپ بن کا رکھوالا ہے۔ راجا کا نام سنتے ہی پکار اٹھی اور وہ ان درختوں سے نکل کر پاس آ کر کہنے لگا یہ کہو تم کو کس نے ستایا راجاکو دیکھتے ہی بے مول بک گئیاں اور شرم کے مارے گھونگھٹ کر کے جھک جھک گئیاں ۔ کچھ ڈریں کچھ گھبرائیں ۔ بے قراری سے ایک جگہ کھڑی نہ رہ پائیں۔ حیرت سے آگے بھی پاؤں نہ پڑ سکا بھیچک سی ہوگئیں کچھ بول نہ سکیں ۔
تب ان میں سے انسویا نے دل کرخت کر راجا کو جواب دیا کہ جس کی دہشت سے ظلم کا تو نام نہیں ہے اور عدل یہ ہے کہ گائے اور شیر ایک گھاٹ پر پانی پیتے ہیں ۔ اس تپ بن میں شوق و ذوق سے تپسوی لوگ جب تپ کرتے ہیں کوئی درند گزند نہیں دیتا ، کسی نے کسی کوآج تک نہیں ستایا ، یہ بھولی نادان ہے ، نادانی اور بھولے پن میں بھنورے کو دیکھ کر پکار اٹھی ، ہم اس کے راج میں نڈر ہیں، کون ہمیں ستا سکے اور کون آنکھ دکھا سکے۔
یہ سن کر راجا نے کچھ اپنے تئیں جتا اور مسکرا اور سکنتلا کی طرف دیکھ کر پوچھا کہ تمہارے نونہال درخت سرسبز اور ہرن کے بچے اچھے ہیں؟ اتنی بات سنتے ہی اس کے رونگٹھےکھڑے ہو گئے اور سارا بدن شرم کے مارے کانپنے لگا۔ منہ سے کچھ بات نہ نکلی حیا کے مارے نیچے نظریں کر لیں ۔
تب انسویا نے قرینے سے تھوڑا سا دریافت کر کے بہ خاطر داری اس کی طرف سے یہ کہا کیوں نہ ہواب خیر ہماری جو تم سے نیک بخت رکھوالے ہوں ، تم جو پاؤں پاؤں یہاں دوڑے آئے ہو پسینا تمہارے منہ پر آگیا ہے درختوں کی چھاؤں تلے دم لو ہم تمہارے ہاتھ پاؤں دھو دیں ہم نے قسمت سے تمہارے قدم دیکھے آج کے دن تم ہمارے مہمان ہو ۔
سکنتلا سے کہا ، تو کیوں نادان بنی ہے ، ٹھنڈا پانی لا اس اپنے مہمان کو پلا۔
راجا نے مسکرا کر کہا ہمیں کچھ درکار نہیں تمہیں دیکھ کر ہمارا کلیجہ ایسا ٹھنڈا ہوا کہ بھوک پیاس سب جاتی رہی تمہاری میٹھی میٹھی باتوں سے یہ ہم نے مزہ پایا کہ یہی ہماری مہمانی تھی ۔ تم بھی پانی سینچتی سینچتی تھک رہی ہو سب مل کر ان درختوں کی چھاؤں میں بیٹھو اور ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا لو ۔
تب ہنس کر انسویا سکنتلا کی طرف دیکھ کر بولی ہمارے یہاں انوٹھے مہمان آئے ہیں ان کا ڈر کچھ مت کر ، ان کی باتوں پر کان دھر ۔
 
آخری تدوین:
سکھیوں کی یہ سن کر باتیں ، حسن و ادا کی کر کر گھاتیں راجا اور سکنتلا چھاؤں میں درختوں کی بیٹھے ایک کی طبیعت ایک طرف آئی ہوئی اور مہر و محبت دل میں سمائی ہوئی قسمت سے ان دونوں کی اس جنگل میں ملاقات ہوئی، دونوں کے دل کی گرہ کھلنے لگی کیا اچھی بات ہوئی۔
گرہ جوں غنچہ ہر دل کی ہوئی وا
بہم دونوں گل و بلبل تھے گویا
وہاں بیٹھے جو تھے وہ خرم و شاد
بہم قید دوعالم سے تھے آزاد
نظارے میں تھا گو سرگرم دیدہ
ولے آپس میں تھا ہر اک ندیدہ
ایک ایک سکھی انہیں دیکھ کر محو دیدار تھی ، بلکہ کام دیو اور رت سے کڑوڑ کڑوڑ ان پر وار آپ ان پر نثار تھی ، ظاہر میں سکنتلا دزدیدہ نگاہوں اور نیچی نظروں سے راجا کو دیکھ رہی تھی تب راجانے ان سے یہ بات کہی تم تینوں کا بھلا سنجوگ ہوا ہے۔ رنگ و روپ ایک سا عمریں برابر جانیں ایک بدن جدا جدا ہے ۔
یہ راجا کی ان مول باتیں سن انسویا بولی ، دھن ہے اس دیس کو جہاں سے تم آئے ہو منیوں کی جگیہہ میں جو دیو خلل کرتے ہیں تم نے بچایا ، صاف کہو تم کون ہو ، دیو یا گندھرب یا کام دیو ہو ، کچھ تو ہمیں بتاؤ، مہربانی کر کے ہمارے دل کی دبدھا مٹاؤ اور اپنا نام جتاؤ۔

راجا نے کہا ہمیں راجا دشمنت نے بھیجا ہے اور یہ فرمایا ہے کہ رکھی لوگوں کی خدمت اور رکھوالی کیا کرو ، رات دن ہم تپ بن میں پھرتے ہیں ، راجا دشمنت کے چاکر ہیں۔ یہ بات کہہ کر راجا چپ رہا اگرچہ اس نے صاف اپنا نام نہ بتایا درپردہ بات کہی پر انسویا کو یقین ہوا کہ راجا یہی ہے۔ تب ہنس کر کہنے لگی اب منی سب نچنت ہوئے کہ اپنا رکھوالا اور خاوند سر پر رکھتے ہیں ، تم جیسا رکھوالا جو سر پر آیا بھلا تم آکر ہمیں درسن دکھایا ۔ ہم لوگوں کو نوازا

اس کی باتوں سے اس نے بہت مزہ اٹھایا اور لذت پا کر اس سے اور دوسری سکھی سے کہا ، سکنتلا کو خدا نے اپنے ہاتھوں سے بنایا یہ جو ایسی نازک اندام اور قبول صورت ہے منی اس کی شادی کر دے گا یا صاحب کی بندگی کراوے گا، ریاضت کیوں کر ہوگی اس سے ، اٹھ نہ سکے بار نزاکت جس سے
یہ ایسی نظر آئی نازک بدن
گرانی کرے جس پہ بوئے سمن​
انسویا نے جواب دیا کہ منی نے اپنے دل میں ٹھانا ہے جیسی سکنتلا ہے جو کوئی ویسا ملے گا اور یہ بھی اسے قبول کرے گی اس سے ہم شادی کر دیں گے۔
بات یہ جب زبان پر آئی
وہ گل اندام سن کے شرمائی​
راجا بولے سکنتلا جیسی ہے ویسا تو ملنا اس کا معلوم اس کا ثانی دنیا سے ہے معدوم ۔ جس گل بدن سے اس کے دل کا کنول کھلے گا ایسا باغ جہاں میں بر کہاں سےملے گا۔ تمام ملکوں میں منی دھونڈھا کرے گا اور ساری عمر اسی آرزو میں مرے گا ۔
نہ پاوے گا کوئی ایسا جہاں میں
زمیں سے جائے گا گر آسماں میں
سکنتلا دکھ تنہائی کے سہے گی اور زندگی بھر بن بیاہی رہے گی ۔

پھر انسویا ہنس کر اس شعور داری سے بولی اور اس کے غنچہ دل سے گرہ کھولی کہ جب خدا اچھے دن لاتا ہے ۔ دل کا مقصد گھر بیٹھے ہی مل جاتا ہے ۔ تم جیسے لوگوں کا جب یہاں قدم آیا ۔ کن کے من کا مطلب پورا ہوا ۔

راجا یہ بات سن کر بہت خوش ہوا اور سکنتلا نہایت شرمائی ۔ پریم ودا مسکرائی اور اس کے کان سے جا لگی ۔ چپکے چپکے کہتی تھی ، تم آج ہی بیاہی جاتیں ، کیا کریں کن منی آج کے دن گھر نہیں وہ شرمائی جاتی اور یہ باتیں ایسی ہی سناتی تھی ، ترچھی نظروں سے راجا کو دیکھ رہی تھی
 
Top