داتا نظم کی دوسری قسط۔۔۔برائے اصلاح

شیرازخان

محفلین
چھٹا حصہ برائے اصلاح الف عین

سنو اک بات کہتا ہوں
سمجھتے کیوں نہیں کچھ بھی
عقل مند کو تو کافی ہے اشارہ بھی
ذرا ہندو کو دیکھو تم
وہ اپنے ہاتھ سے جب بت بناتا ہے
لگا کر ہاتھ پا اس کے بڑا اس کو سجاتا ہے
اُسے اپنا وہ پھر داتا بناتا ہے
بہت سادہ ہے وہ لیکن
جہالت میں اسے آگے
نہیں بڑھنے دیا تم نے
کہ جب اپنے ہی داتا کو
کفن اپنے ہی ہاتھوں سے
تمہی نے خود تھا پہنایا
اتارا بھی قبر میں تھا
چلے آئے تھے پھر جس دم
جو مٹی ڈال کر اس پر
یہ بے ادبی نہیں تھی کیا؟
یہ گستاخی نہیں تھی کیا؟
ابھی چلتے ہو الٹے پا
ابھی سجدے بھی کرتے بھی کرتے ہو
انہیں زندہ بھی کہتے ہو
اگر تم غور کرتے ہو

دفن زندہ کو کر آئے؟
عقل کیا گھاس کھاتی ہے
بڑا یا اس سے ہاتھی ہے
ہو تیرا باپ اس جا پر
تو اس کو بھی یوں زندہ ہی
زمیں میں گھاڑ آؤ گے؟
انوکھی بات کرتے ہو
اگر تم غور کرتے ہو
کیا ہر کام ہاتھوں سے
بنایا تم نے داتا اس کو باتوں سے
اگر تم غور کرتے ہو
وہ ہندو بھی نہیں کرتے
جو یاں تم کام کرتے ہو
وہ ہر چیز کا داتا
بنا بیٹھا اعلادہ ہے
کبھی گنتی میں آتے ہیں؟
کہیں بھگوان بھی اس کے
مگر ہے آفریں تم پر
اگر تم غور کرتے ہو
ہر دربار کو تم نے
بنا ڈالا شفاؤں کاہے اڈا سا
جہاں بیماریاںمخصوص کر کے اب
سفر کرتے ہو ان کی طرف تم بھی تو
بتانا فرق جو بھی ہو
اگر تم غور کرتے ہو
یوں غیروں کے طریقے کی
جو تم تقلید کرتے ہو
اسے تسلیم کرتے ہو
سراسر ظلم کرتے ہو
 
Top