خیر و شر

محبوب الحق

محفلین
ہر انسان کی ذات ایک جنگل کی طرح ہے جس میں خیر کے خوبصورت پرندے بھی چہچہاتے رہتے ہیں اور شر کے خونخوار درندے بھی دہاڑتے رہتے ہیں۔ مختلف افراد میں خیر و شر کی ان قوتوں کی نسبت مختلف ہو سکتی ہے لیکن یہ انسانی ذات کا ناگزیر جزو ہیں۔

دو آدمی جب آپس میں مکالمہ کرتے ہیں تو یہ ان کے اختیار میں ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے میں چھپی خیر کی قوتوں کو آواز دیتے ہیں یا شر کے پہلو کو ابھارتے ہیں۔ آپ براہ راست بات چیت سے لے کر سوشل میڈیا پر ہونے والے مباحث تک کا تجزیہ کریں تو یہ نکتہ واضح ہو جائے گا کہ ہم ایک دوسرے کے اندر پوشیدہ دونوں طرح کی قوتوں کو ابھارنے پر قادر ہیں۔

سیاسی، مذہبی اور نظریاتی مباحث کے دوران طنز یا تحقیر آمیز اصطلاحات کا استعمال اپنے مدمقابل کے اندر ابلتے شر کے جذبات کو آواز دینے کے لئے کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس اگر مہذب انداز میں ایک دوسرے کا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے مکالمہ کیا جائے تو خیر کا پہلو ابھرنے لگتا ہے۔

فیس بک پر بہت سے لوگ موجود ہیں جو کسی مذہب پر یقین نہیں رکھتے۔ ان کے ساتھ مذہبی لوگ جب بحث کرتے ہیں تو بہت دفعہ ایسا لب و لہجہ اختیار کر لیتے ہیں جو غیر مذہبی افراد کے اندر خیر کی بجائے شر کا پہلو ابھار دیتا ہے۔ آپ مذہبی جذبات کی توہین کے چند بڑے واقعات کا تجزیہ کر لیں تو اس کے پیچھے مذہبی لوگوں کی طرف سے تحقیر، طنز اور طیش دلانے والے الفاظ کا استعمال کارفرما نظر آئے گا۔

یہی صورتحال سیاسی مباحث کی ہے جہاں پٹواری، یوتھیا، بوٹ پالشئیا اور ان جیسی دیگر اصطلاحات کا بے محابا استعمال ہوتا ہے۔ یہ مکالمہ نہیں ہوتا بلکہ ہم ایک دوسرے کی ذات کے دروازے پر دستک دے کر شر کی قوتوں کو آوازے دے رہے ہوتے ہیں۔ ایسے مباحث کا نتیجہ ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ فریقین اپنے اپنے موقف پر مزید مضبوطی سے جم جاتے ہیں۔ یہ علم کی بجائے منفی جذبات کا تبادلہ بن جاتا ہے۔

جب کسی کو اپنے موقف کی حقانیت پر ایسا ایمان ہو کہ وہ اس کی جذباتی سطح تک پھیل جائے تو اس کے اندر مختلف نکتہ نظر رکھنے والوں کے لئے حقارت کے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں اور انسان اپنے من کے جنگل سے منفی جذبوں کی لکڑیاں چننے بیٹھ جاتا ہے تاکہ انہیں تیروں میں ڈھال کر اوروں پر استعمال کرے۔ اگر اپنے موقف میں تبدیلی کا امکان تسلیم کر لیا جائے تو لہجے نرم ہو سکتے ہیں، نکتہ نظر کی قطعیت میں کمی آ سکتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دل جیتے جا سکتے ہیں۔

لوگ دلائل کی بجائے لہجے کی بنیاد پر یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ آپ کی بات مانی جائے یا اسے رد کر دیا جائے۔ آپ جتنا بھی عقلی مکالمے میں مصروف ہوں، پس منظر میں ہمیشہ جذبات کارفرما ہوتے ہیں اور ان کا فیصلہ آخری ہوتا ہے۔ عقل صرف اس فیصلے کے حق میں جواز تلاش کرتی رہتی ہے۔

اگر یہ پہلو ذہن میں رہیں تو نہ صرف مکالمے کا معیار بلند ہو سکتا ہے بلکہ ہم اپنی ذات کے ان دائروں سے آزادی بھی حاصل کر سکتے ہیں جو ہماری فکر کو منجمد رکھتے ہیں اورہمارا عقلی سفر ٹھٹھر کر رہ جاتا ہے۔
یاسر زبیری فیس بک
 
Top