(خالد کاشمیری)
سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار!
ارباب اقتدار لاکھ بار دعوے کریں مگر ایسے دعوئوں میں رتی بھر بھی حقیقت نہیں ہے کہ صحت عامہ کے لئے معیاری سہولتوں کی فراہمی کے لئے کسی بھی سطح پر ٹھوس اقدامات کئے جارہے ہیں۔ اگر کسی بھی موقع پر ایوان اقتدار کے مکینوں کی طرف سے اس امر کا اعتراف سنا جائے کہ علاج معالجے کی معیاری سہولتوں تک رسائی عوام کا حق ہے تو باتیں محض وقتی طور پر واہ واہ کے حصول کی خاطر ہیں۔ حقیقت میں ان کی حقیقت سراب سے زیادہ نہیں ہوتی۔ نہ ہی ملک کا بالغ نظر اور سنجیدہ طبقہ ایسے دعوئوں پر یقین رکھتا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ پاکستان میں وفاقی یا کسی بھی صوبائی سطح پر صحت عامہ کے لئے یا ملک کے کروڑوں مفلس و تلاش لوگوں کو طبی سہولتوں کی فراہمی کے لئے کوئی جامع پروگرام مرتب کیا گیا نہ ہی کسی ایسے منصوبے پر غور کرنے کا کوئی سراغ ملتا ہے البتہ اس حوالے سے دعوئوں کی ایک طویل فہرست ضرور ملتی ہے جو عوام کے دلوں کو بہلانے کے لئے اربابِ اقتدار کی طرف سے اکثر سننے میں آتے ہیں۔آبادی کے لحاظ سے پنجاب ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس صوبے کی آبادی تیرہ چودہ کروڑ نفوس سے عبارت قرار دی جارہی ہے۔ اس صوبے میں سنگ دخشت سے عبارت عمارتوں کے منصوبوں پر کسی بھی مصلحت کے تحت اربوں کھربوں روپے صرف کئے جارہے ہوں مگر بعض دیگر اہم ترین قومی مفاد کے شعبوں سمیت طبی شعبے کو جس بری طرح نظر انداز کیا جارہا ہے اس کی مثال کسی مہذب، جمہوری ملک میں مشکل سے ملے گی۔ اس کی ہلکی سی جھلک اس بات سے لگائی جا سکتی ہے کہ پنجاب کے اکیس اضلاع کے سرکاری ہسپتالوں میں سی ٹی سکین مشین ہی موجود نہیں۔ اس حوالے سے گزشتہ دنوں نوائے وقت کے نیوز رپورٹر نے اپنی ایک رپورٹ میں وزارت صحت پر اس طرح دستک دی ہے کہ محکمہ صحت پنجاب کے زیراہتمام ٹیچنگ اور ڈسٹرکٹ سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار کو بہتر بنانے پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی۔ عوام کو ہسپتالوں سے مفت ادویات کی فراہمی خواب ہے۔ جہاں تک مجبور و بے بس عوام کے امراض کی تشخیص کا تعلق ہے تو اس اہم ترین کام کے لئے لاہور کے ٹیچنگ ہسپتالوں کی تقریباً 165 مشینیں بیکار ہو چکی ہیں۔ جن میں سی ٹی سکین، ایم آر آئی، ایکسرے، ایکو بی پی مانیٹر، ڈائیلاسز یونٹ سمیت اسی نوع کی دیگر مشینیں شامل ہیں۔ ان میں صوبے کے سب سے بڑے سرکاری شفاخانے میوہسپتال کی 31، سروسز ہسپتال کی 29، جنرل کی 30، گنگارام ہسپتال کی 27، چلڈرن کی 21 اور جناح ہسپتال کی 25 مشینیں بھی بیکار ہو چکی ہیں۔ صوبائی دارالحکومت میں اس صوبے کے چیف ایگزیکٹو کی ناک کے نیچے اگر سرکاری ہسپتالوں کسمپرسی اور ناگفتہ حالت کا یہ عالم ہو تو صوبے کے دور دراز اضلاع اور دیگر علاقوں کے سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار کا تو خدا ہی حافظ ہو گا۔ جس ملک میں عوام کو علاج معالجے کی سہولتوں کی فراہمی پر توجہ دینے کی بجائے حکمران قومی خزانے کو اپنے مخصوص مفادات کے تحت ایسے کاموں پر ضائع کرنے کی روش پر گامزن ہو جن کاموں کی تکمیل میں فلاح عامہ کا کوئی راز بھی مضمر نہ ہو۔ پھر اس قسم کے منصوبوں کو ملکی تعمیروترقی سے تعبیر کرنا خودنمائی کے سوا اور کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔ ایسے حالات ہوں تو پھر بے بس، مجبور اور لاچار غریب لوگوں کا بیماری سے چھٹکارا پانے کے لئے خودکشی کر لینا کوئی اچنبھے کی بات نہیں جیسا کہ 20 دسمبر 2016ء کو روزنامہ نوائے وقت میں گوجرانوالہ کے نمائندہ خصوصی کی شائع شدہ ایک رپورٹ کے مطابق گردوں کے عارضہ میں مبتلا ایک نوجوان ابرار نے اس لئے خودکشی کر لی کہ اس 18 سالہ نوجوان کے پاس اپنی بیماری کے علاج کے لئے پیسے نہیں تھے۔ کاش سرکاری ہسپتالوں میں علاج معالجے کی سہولتوںکی فراہمی سمیت ریاست کی طرف سے ادویات کا حصول ممکن ہوتا تو ابرار ایسے نوجوان مریضوں کو خودکشی کرکے اپنی جان گنوانے کی کیا ضرورت تھی۔ حقائق اس حقیقت کے غماز ہیں کہ سرکاری ہسپتالوں میں عوام کو طبی سہولتوں کے فقدان کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ جمہوری اداروں تک بوجہ رسائی حاصل کرنے والے ڈیڑھ دو ہزار افراد سمیت ایوان اقتدار کے مکینوں کو ملکی سرکاری ہسپتالوں کی حالت بدلنے یا وہاں سے ملک بھر کے عوام کو طبی سہولتوں کی پوری طرح فراہمی کے معاملات سے کوئی دلچسپی نہیں کیونکہ انہوں نے تو اپنے اور اپنے خاندان کے مریضوں کا علاج معالجہ ان سرکاری ہسپتالوں سے کرانا ہوتا ہے نہ وہ خود کو عوام میں شامل سمجھتے ہیں۔ یہ طبقہ تو سر درد سے لیکر اپنی دیگر بیماریوں کا علاج سمندر پار ممالک کے اعلیٰ درجے کے ہسپتالوں میں سے کرانے کو ترجیح دیتے ہیں اسی لئے تو آئے دن اس قسم کی خبریں علاج معالجے کی سہولتوں اور ادویات سے محروم عوام کو سستے میں ملتی ہیں کہ بزعم خود فلاں عوامی رہنما اور ایوان اقتدار کا فلاں مکین اپنے معمول کے طبی معائنے کیلئے امریکہ یا یورپ کے کسی ملک میں سدھار گئے۔ ماہرین معیشت پاکستان میں انسانی ترقی کے حوالے سے اپنی عرق ریزی کے نتیجے میں اس بات پر متفق ہیں کہ چالیس فیصد پاکستانیوں کو پیٹ بھر کھانا نصیب نہیں ہوتا اورجہاں تک صحت اور تعلیم کی بنیادی سہولتوں کا تعلق ہے‘ وہ سبھی امراء کے طبقے ہی کیلئے مخصوص ہیں۔ یہ لوگ اشرافیہ سے عبارت ہیں۔ یہی طبقہ ملکی اور قومی وسائل کا رخ کسی نہ کسی طرح اپنی بجائے کسی دوسری طرف نہیں ہونے دیتا۔ ایسے کوئی بھی غیر متوقع یا متوقع منصوبہ ان کروڑوں لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب لا کر انہیں صحت اور تعلیم کے شعبے میں سہولتوں کی فراہمی کی ضمانت دے سکتاہے نہ ہی عوام کو خوشحالی سے ہمکنار کرنے کا موجب بن سکتا ہے۔ ملک میں طب شعبے کی حالت اس حد تک کربناک ہے کہ کسی سرکاری ہسپتال میں تمام بیماریوں کے شعبے نہیں نہ ہی ان سے متعلق معالج ہیں۔ یہی وجہ ہے مختلف بیماریوں میں مبتلا متوسط اور نچلے درجے سے تعلق رکھنے والے عوام نجی ہسپتالوں سے منسلک معالجوں سے رجوع کرنے پر مجبور ہوتے ہیں جس کیلئے خاندانوں کو اپنے مریض کی جان بچانے کیلئے اپنی جمع پونجی سمیت جائیداد تک کو فروخت کرنا پڑتا ہے۔ یہ کسی ایک خاندان کی داستان نہیں بلکہ کروڑوں خاندانوں کی کہانی ہے۔