خون بچا بچا کر نہ رکھیں

554037_9463648_updates.jpg

زندگی خون سے ہے اور جدید طبّی سائنس بھی اس کا نعم البدل دریافت نہیں کرسکی۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی انسانی جان بچانے کے لیے خون کے عطیات ہی کی ضرورت پڑتی ہے، خاص طور پر حادثات کے دَوران تو یہ ضرورت مزید بڑھ جاتی ہے تاکہ زخمیوں کی جانیں بچائی جاسکیں۔ ترقّی یافتہ ممالک میں عام دنوں میں بھی رضاکارانہ طور پر خون کے عطیات دینے کا رواج عام ہے ، تاہم ہمارے ہاں خون کے عطیے کے حوالے سے مختلف قسم کے خوف پائے جاتے ہیں۔ حالاں کہ طبّی ماہرین عوام میں پائے جانے والے خدشات کو بے بنیاد قرار دیتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ہر تندرست انسان کے جسم میں تین بوتل اضافی خون کا ذخیرہ ہوتا ہے ، اسی وجہ سے ہر تندرست انسان ہر تیسرے ، چوتھے مہینے خون کی ایک بوتل عطیہ کر سکتا ہے۔ نیز خون کا عطیہ دینے سے صحت بہتر ہوتی ہے اور پھر عطیہ کرنے والے کے خون کا معائنہ بھی ہو جاتا ہے کیوں کہ کسی مریض کے جسم میں خون منتقل کرنے سے قبل اسے کئی طرح کے ٹیسٹس سے گزارا جاتا ہے۔
عُمر کے حوالے سے ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ 18 سے 60 برس تک کے افراد کسی خوف کے بغیر اپنا خون عطیہ کر سکتے ہیں۔ خون میں 4 اجزا شامل ہوتے ہیں ، جو انسانی زندگیاں بچانے کے کام آتے ہیں اور خون کی ایک بوتل سے چار افراد کی جان بچائی جا سکتی ہے۔ پاکستان میں بہت سے ادارے تھیلیسمیا کے مریضوں کے لیے بھی خون کے عطیات جمع کرتے ہیں کیوں کہ ان کی زندگی خون سے ہے اور وہ خون کے عطیات ہی سے جی رہے ہیں۔ اس ضمن میں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ خون ہمیشہ مستند لیبارٹریز اور اداروں ہی سے حاصل کیا جائے کیوں کہ بدقسمتی سے اس انسانی جان کے بچاؤ جیسے عظیم مشن میں کچھ ایسے افراد بھی داخل ہو گئے ہیں ، جن کا مقصد محض پیسے کمانا ہے اور وہ اس کے لیے انسانی جانوں سے کھیلنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔
 

نسیم زہرہ

محفلین
پاکستان میں بہت سے ادارے تھیلیسمیا کے مریضوں کے لیے بھی خون کے عطیات جمع کرتے ہیں کیوں کہ ان کی زندگی خون سے ہے اور وہ خون کے عطیات ہی سے جی رہے ہیں

زندگی خون سے ہے اور جدید طبّی سائنس بھی اس کا نعم البدل دریافت نہیں کرسکی

جزاک اللہ خیراً کثیرا
 
Top