خونین قبا میں یہ ہے بسمل کا تماشا

نور وجدان

لائبریرین
خونین قبا میں یہ ہے بسمل کا تماشا
دیوانے کو مل جائے کوئی اپنا، شناسا

مرکز ہے خیالات کا جو روضہ علی کا (رض)
درویش نے پایا ہے گدائی کا سہارا

کاتب نے یہ لکھی ہے ازل سے مری قسمت
وہ درد بڑھا کر ہی مجھے دے گا دلاسہ

جذبات کے سو رنگ دیے چہرے کو میرے
ہر رنگ میں پھر درد بہ خوبی ہے نوازا

ہستی مری جو غیر ہوئی اپنی زمیں میں
اسکو تو فلک سے ہے ملا کوئی شناسا
 

نور وجدان

لائبریرین
آپ کا بہت شکریہ، میں نے اس غزل کو مختلف جگہوں پر رکھا ہوا تھا. اس لیے گڑبڑ ہوگئی ہے، میں اسے ڈھونڈ کے یا اسے ہی دیکھ کے پوسٹ کرتی ہوں دوبارہ

خونین قبا میں یہ ہے بسمل کا تماشا
دیوانے کو مل جائے کوئی اپنا، شناسا

مرکز ہے خیالات کا جو روضہ علی کا (رض)
درویش نے پایا ہے گدائی کا سہارا

کاتب نے یہ لکھی ہے ازل سے مری قسمت
وہ درد بڑھا کر ہی مجھے دے گا دلاسہ

جذبات کے سو رنگ دیے چہرے کو میرے
ہر رنگ میں پھر درد بہ خوبی ہے نوازا

ہستی مری جو غیر ہوئی اپنی زمیں میں
اسکو تو فلک سے ہے ملا کوئی شناسا

اب چیک کریں آپ
 

الف عین

لائبریرین
مطلع بدل ہی دو نور، شناسا اور تماشا قوافی میں کچھ ایطا کا سا احساس ہوتا ہے، درست قوافی کیونکہ بہت وسعت لئے ہیں، اس لئے آسانی سے بدلا جا سکتا ہے
باقی اشعار درست لگ رہے ہیں
 

نور وجدان

لائبریرین
اک کوشش دیکھیے
اک پیکرِ خونیں میں ہے بسمل کا تماشا
دیوانے کو مل جائے گا اب کوئی سہارا

یا

رنگین قبا میں ہے سَرِ بزم تماشا
بسمل نے اسی رقص میں پایا ہے سہارا
 
Top