خوفزد ہ اور مایوس سیاستدان کا خطاب

بینظیر بھٹو کی دوسری برسی کے موقع پر صدر آصف علی زرداری نے ایک مدت کے بعد براہ راست کسی عوامی اجتماع سے خطاب کیا۔ سندھ کے شہر اتو ڈیرہ میں اس خصوصی اجتماع میں کارکنوں کو شرکت کی اجازت نہ تھی۔ آصف زرداری نے اس موقع پر ایک پر جوش مگر غیر مربوط تقریر کی

اگر چہ انہوں نے اپنے لہجے کو پر اعتماد بنانے کی بہت کوشش کی مگر ان کے الفاظ اور زبان میں ربط نہ ہونے سے عام تاثر یہی ہے کہ صدر زرداری شدید قسم کے دباﺅ میں ہیں انہوں نے نام لئے بغیر اپنے خطاب میں امریکہ، فوج، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کو تنقید کا نشانہ بنایا اور بعض مقامات پر دھمکی آمیز انداز بھی اختیار کیا۔ کیا آصف زرداری کا انجام قریب ہے؟ ملک میں سیاسی تبدیلی کا امکان ہے؟ یا صدر مملکت کسی ان دیکھے خوف میں مبتلا ہیں۔ انہوں نے اپنے خطاب میں خود کو ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر شہید کے مماثل اور متبادل ثابت کرنے کی بھی کوشش کی اس حوالے سے پہلے انہوں نے بھٹو کے کارنامے گنوائے اور انہیں ان کا جرم قرار دیا پھر بینظیر کے کارناموں کی فہرست پیش کر کے بتایا کہ یہ تمام کام بینظیر کا قصور ٹھہرے اور آخر میں انہوں نے اپنے کارناموں کی تفصیلی بیان کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اگر ملک و قوم اور جمہوریت کیلئے ان کے اقدامات جرم ہے تو بھٹو اور بینظیر کی طرح وہ یہ جرم کرتے رہیں گے۔ انہوں نے عراق اور افغانستان کا حوالہ دے کر امریکہ کو بغیر نام لئے تنقید کا نشانہ بنایا۔ غیر ریاستی عناصر کا حوالہ دے کر فوج اور عدلیہ کی خبر لی اور ثابت کر دیا کہ این آر او کی سماعت کے دوران حکومتی وکیل کمال اظفر نے جب سی آئی اے اور جی ایچ کیو پر جمہوریت کیخلاف سازش کرنے کا الزام عائد کیا تھا تو یہ زبان کی غلطی نہ تھی بلکہ سوچا سمجھا بیان تھا اور اسے صدر زرداری کی مکمل حمائت حاصل تھی۔ صدرزرداری کی تقریر دراصل شکسپئر کے مشہور ڈرامے جولیس اینڈ سپنرز میں انتھونی اور بروش کی تقاریر کا ملغوبہ تھی سیاست و اقتدار کے عروج و زرال کے پس منظر میں تحریر کیا گیا یہ ڈرامہ دراصل ایک شخص کے عروج اور دوسرے کے زوال کا نکتہ آغاز تھا آصف زرداری کی تقریر بھی کچھ ایسے ہی الفاظ پر مبنی تھی اور کچھ بعید نہیں کہ کچھ عرصہ بعد اور کچھ مبصرین کے مطابق مارچ تک صدر زرداری کو بہت سے پارٹی رہنماﺅں کو حیرت کے ساتھ کہنا پڑیگا۔ بروٹس پوٹو۔ پیپلز پارٹی میں بروش کی موجودگی کا احساس خود آصف زرداری کو بھی ہے اس لئے انہیں اپنے خطاب میں واضح کرنا پڑا کہ پیپلز پارٹی کو چھوڑنے والے لوگ تنہا ہو گئے جبکہ شواہد بتا رہے ہیں کہ آصف زرداری اپنے اقدامات اور آمرانہ طرز عمل کی وجہ سے خود تنہائی کا شکار ہیں بلکہ سچ یہ ہے کہ وہ خوفزدہ ہیں وہ جانتے ہیں کہ اداروں کے مابین تصادم کا نتیجہ کسی بھی طرح ملک و قوم کے حق میں برآمد نہیں ہو گا لیکن نقصانات سے آگہی کے باوجود وہ اداروں سے تصادم کی راہ اختیار کر رہے ہیں ان کی تقریر کا آہنگ اور اسلوب وہی تھا جو ہر طرف سے مایوس ذوالفقار علی بھٹو کا تھا جب اپنے اقتدار کے آخری ایام میں انہوں نے ناصر باغ راولپنڈی میں جوشیلی تقریر کر کے فوج کو للکارا تھا۔ آصف زرداری کی یہ دھمکی اگر چہ بے نام تھی۔ مگر ان کا یہ کہنا ہے کہ کمزور نہیں اور تم شاہ زور نہیں۔ جمہوریت کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے والوں کی آنکھیں نوچ لیں گے۔ کس کی طرف اشارہ تھا اس سے قبل وزیر دفاع چودھری احمد مختار کے اس بیان کی فوج دہشتگردی کیخلاف جنگ میں معروف ہے اس لئے سیاست و حکومت میں مداخلت سے گریزاں ہے کہ زرداری کی تقریر کے تناظر میں دیکھا جائے تو واضح ہو جانا ہے زرداری کس کو دھمکی دے رہے ہیں۔ امریکہ، فوج سے فوری طور پر حکومت کو شائد کوئی خطرہ نہیں ہے تاہم این آر او کے خلاف زیر سماعت درخواستوں اور ان پر متوقع فیصلوں کے باعث حکومت کی ساکھ داﺅ پر لگی ہوئی ہے حکومت کو اصل خطرہ عدلیہ سے ہے اور اعلیٰ حکومتی عہدیدار اس صورتحال کو محسوس کر رہے ہیں اگرچہ عدالتی فیصلوں کو تسلیم کرنے کے بیانات بھی سامنے آرہے ہیں لیکن حکمران طبقہ مستقبل قریب میں آنے والے عدالتی فیصلوں سے خوفزدہ ہے یہ خدشہ بھی لاحق ہے کہ جس طرح چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے ماضی میں سپریم کورٹ پرمسلم لیگ ن کے کارکنوں کے حملے کے بعد اس وقت کے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت سے امداد طلب کی تھی ایسے ہی کسی خاص یا حساس موقع پر اگر چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کوئی اقدام کیا تو شائد جنرل پرویز اشفاق کیانی اس درخواست کو نظر انداز نہیں کریں گے۔ اور اسی خوف کے باعث پیپلز پارٹی کے لوگ لرزہ برالزام ہیں۔ آصف زرداری کی حالیہ تقریر اگر صدر مملکت کی حیثیت سے تھی تو یہ ان کے منصب کے منافی تھی اس لئے کہ صدر مملکت ریاست کے سربراہ ہیں اداروں کو مضبوط مستحکم رکھنے اور آئین کی عملدرای یقینی بنانے کے ذمہ دار ہیں البتہ اگر انہوں نے یہ خطاب پیپلز پارٹی کے سربراہ کے طور پر کیا تو الگ بات ہے لیکن وہ یہ بات بھول گئے کہ پیپلز پارٹی وفاق کی علامت اور بینظیر وقاس کی زنجیر ان کی پارٹی کا پرانا دعویٰ ہے مگر انہوں نے بار بار اپنے خطاب میں پاکستان ٹوٹنے کی بات کی ان کے خطاب میں صرف ایک روز قبل سندھ کے وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا نے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ بینظیر کے قتل کے بعد ہم نے پاکستان سے الگ ہونے کی منصوبہ بندی کر لی تھی لیکن آصف زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر پاکستان بچا لیا یہ بات بھی ذہین نشین رہے کہ چند روز قبل پورے سندھ میں سندھی ٹوپی اور اجرک کا دن منایا گیا اور سندھی تقافت کو اجاگر کیا گیا زرداری نے اس پر سندھیوں کو مبارکباد بھی دی۔ لیکن آصف زرداری اور ذوالفقار مرزا کی تقاریر کو اگر ماضی کے تناظر میں دیکھاجائے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ زرداری سندھ کارڈ کھیلنے کی تیاری کر چکے ہیں جو کہ پیپلز پارٹی کا پرانا وطیرہ رہا ہے مگر اس کے منشور کے منافی ہے لہٰذا یہ خطاب کو چیئرمین پیپلز پارٹی کا بھی نہیں ہے۔ دراصل یہ ایک خوفزدہ، مسائل و مشکلات میں گھر سے اور دن بدن تنہا ہوئے ایک شخص کا خطاب تھا جس سے ان کی مایوسی صاف ظاہر ہو رہی تھی۔


http://www.urdutimes.com/2009-07-20-05-28-21/70-interviews/30711-asifzardari
 
Top