خوش قسمتی یا عقل مندی

منصور مکرم

محفلین
ہتے ہیں کہ ملا نصیر الدین اپنے کھیت گئے تھے جانوروں کیلئے چارہ کاٹنے کیلئے ، واپسی پر گدھے پر کچھ اس طرح سے سوار ہو کر آرہے تھے کہ خود گدھے کے اوپر بیٹھے ہوئے تھے لیکن چارے کی بوری اپنے سر کے اوپر رکھی ہوئی تھی۔
راستے میں ایک دانا سے ملاقات ہوئی جو کہ کسی کام کے سلسلے میں گاؤں سے باہر پیدل جا رہے تھے۔
دانا نے پوچھا کہ ملا صاحب کہاں سے آرہے ہو؟
ملا صاحب نے بتایا کہ کھیت سے جانوروں کیلئے چارہ کاٹ کر گھر جا رہا ہوں۔ دانا نے پوچھا کہ ملا صاحب یہ چارے کی بوری اپنے سر کے اوپر کیوں رکھی ہے؟
imagesnas-2.jpg
ملا صاحب نے جواب دیا کہ دراصل ایک تو میں گدھے کے اوپر بیٹھا ہوا ہوں ،اور اب اگر بوری بھی گدھے کے پیٹھ پر رکھی تو یہ گدھے پر دوگنا وزن ہوجائے گا۔اسی لئے میں خود تو گدھے کی پیٹھ پر بیٹھ گیا ،اور چارے کی بوری کا بوجھ اپنے سر پر اُٹھا لیا۔
دانا نے کہا کہ ملا صاحب بوری آپکے سر پر ہو یا گدھے کی پیٹھ پر، وزن گدھے کو ہی اُٹھانا ہے۔اس لئے بیوقوفی مت کر و اور بوری کو بھی گدھے کی پیٹھ پر رکھ لو۔
ملا صاحب نے جواب دیا کہ آپکی اس عقل مندی پر میں اپنی بے وقوفی کو ترجیح دیتا ہوں ،کیونکہ اپکی عقل مندی آپکو پیدل لے جارہی ہے ،جبکہ میری بے وقوفی مجھے گدھے پر سوار کرکے لے جارہی ہے۔لھذا اپنی اس عقل مندی کو اپنے پاس ہی رکھو۔
یہ کہہ کر ملا نصیر الدین چلتے بنے۔اور دانا اپنا سا منہ لے کر خاموشی سے پیدل چلنے لگا۔
یہ فرق ہے خوش قسمتی اور عقل مندی کے درمیان۔عقل مند آدمی اکثر خوش قسمت کے ماتحت ہو کر رہ رہا ہوتا ہے۔
عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک صحابی ہیں۔کہتے ہیں کہ جب انہوں نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی ،تو انکے مواخات میں بننے والے انصاری بھائی نے اپنا گھر آدھا تقسیم کرنے کا ارادہ کیا، اور ساتھ ہی انصاری کی دو بیویوں میں سے ایک بیوی کو بھی طلاق دینے کا ارادہ کیا تاکہ عبد الرحمٰن بن عوف اسکے ساتھ نکاح کرکے انصاری کے دئے گئے گھر میں رہ سکے۔
لیکن عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انصاری کو ایسا کرنے سے منع کیا اور کہا کہ مجھے صرف مدینہ کے بازار کی راہ دِکھا دو۔
چنانچہ انصاری نے اسکو بازار کی راہ دکھائی، عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ بازار گئے ۔شام کو جب انصاری کے گھر لوٹے تو پہلے دن ہی کچھ تیل یا گھی کما کر لائے تھے،اور پھر چند دن بعد ہی عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی توسط سے شادی بھی کرلی۔
ہمارے علاقے کے میں ایک حاجی صاحب ہیں۔انہوں نے چھٹی جماعت میں سکول چھوڑا تھا لیکن اب اسکا حال یہ ہے کہ وہ اپنی دولت کو سمیٹ نہیں پا رہا ، بڑے بڑے تعلیم یافتہ اور عقل مند لوگ اسکے ماتحت کام کرتے ہیں۔دو تین ملکوں تک اسکا کاروبار پھیلا ہوا ہے۔
اسی طرح ہمارے علاقے میں ایک دوسرے (ش) صاحب ہیں ،جن سے ایک ملاقات میں ہی اسکی بے وقوفی کا پتہ چل جاتا ہے۔بات کی سر پیر نہیں دیکھتا ، بس منہ سے نکالتا ہے۔ نا بڑوں کا خیال نا چھوٹوں کا خیال، بس جو دل میں آئے کہہ دیتا ہے۔نہ سکول پڑھا ہے نا مدرسہ ،لیکن قسمت اسکی دیکھو تو بندہ دھنگ رہ جائے۔ پشاور کے ہر ہوٹل میں وہ کھانے کا پروگرام کر چکا ہے۔کسی ہوٹل کے بارے میں معلومات کرنی ہو تو بس اس سے پوچھو۔ روز چکن و مٹن کڑائیاں کھاتا ہے۔
میں نے اسکا نام ٹینشن فری رکھا ہے۔کیونکہ اگر کسی کام کی ٹینشن حد سے زیادہ سوار ہوجائے تو بس اسکے ساتھ (ٹو چین )ہوجاؤ ، غم بھی بھلا دئے گا اور فری میں کھانا بھی خوب زبردست مل جائے گا۔
جبکہ اسکے دوسرے بھائی جو کہ جرگوں میں بیٹھتے ہیں اور نامور شخصیات ہیں،وہ د و وقت کی روٹی کی فکر میں ہوتے ہیں۔
اسی طرح چند دن قبل ایک صاحب ملے،انہوں نے کسی یورپی ملک سے ایم فل کیا تھا ۔بے چارہ 4 سال پاکستان میں خوار ہوتا رہا لیکن اسکی روزی روٹی کا بندوبست نہ ہوسکا۔ آخر کا ر مجبور واپس بیرون ملک جانے کیلئے پر تولنے لگا ہے۔
اتنے قصے صرف خوش قسمتی اور عقل مندی کے مابین فرق کو سمجھانے کیلئے لکھے۔پشتو کے معروف شاعر عبد الرحمٰن بابا اسی موضوع کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
عقل سہ کڑے ، بخت ترے اوغواڑا رحمانہ
عقل مند دہ بختورو غلامان دی
ترجمۃ :ائے عبد الرحمان عقل کو چھوڑو ، اسکا سوال ہی مت کرو ،بلکہ خوش بختی و خوش قسمتی اللہ تعالیٰ سے مانگا کرو۔
کیونکہ عقل مند لوگ خوش قسمتوں کے غلام ہوتے ہیں۔
ہمارے ایک دوست ہیں ،وہ کہتے ہیں کہ میں اکثر اللہ تعالیٰ سے خوش قسمتی کا سوال کرتا ہوں۔
ایک بار پشاور کے شیخ الحدیث مولانا حسن جان شھید رحمہ اللہ نے ایک واقعہ سُنایا کہ ایک صحابی ایک بار جناب رسول اللہ صل اللہ علیہ و الہ و صحبہ وسلم کے پاس آئے،اور اپنی تنگ دستی کی شکایت کی۔
تو جناب رسول کریم صل اللہ تعالیٰ علیہ والہ و صحبہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ دنیا مانگتے ہو یا اخرت؟
صحابی نے اخرت کو ترجیح دے دی اور دنیا کا مطالبہ چھوڑ دیا۔
مولانا حسن جان شھید رحمہ اللہ نے جب یہ واقعہ سُنایا تو اخر میں فرمایا کہ اگر میں اس صحابی کی جگہ ہوتا تو میں یہ جواب دیتا کہ یا رسول اللہ میرے لئے دنیا و اخرت دونوں اللہ تعالیٰ سے مانگو۔
مطلب یہ کہ بندہ جب بھی دعاء مانگے تو اللہ تعالیٰ سے اپنی خوش بختی و خوش قسمتی کا ہی سوال کرئے،اور ساتھ میں عقل مندی بھی مانگی جائے تو سونےپہ سہاگہ۔کیونکہ کہ خوش قسمتی کے ساتھ عقل مندی بھی عطاء ہوجائے تو یہ ایک انتہائی حسین امتزاج ہوگا۔
لھذا اپنی خوش قسمتی کا اللہ مانگتے وقت ہیں بھی یاد رکھا کریں ،کیونکہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ وہ دعاء سب سے تیز قبول ہوتی ہے ،جو ایک مسلمان اپنے غائب مسلمان کیلئے مانگے۔یعنی اسکے پیٹھ پیچھے اسکے لئے دعاء مانگتا رہے۔
 
Top