خوش بُو سے کلام کرنے والی شاعرہ پروین شاکر کی برسی!!!!

سیما علی

لائبریرین

خوش بُو سے کلام کرنے والی شاعرہ پروین شاکر کی برسی​

26 دسمبر 2021
9-49.jpg

‘‘خوش بُو، خود کلامی، انکار اور صد برگ’’ کے بعد ‘‘ماہِ تمام’’ سامنے آیا۔ یہ پروین شاکر کا کلّیات تھا جو 1994ء میں کار کے ایک حادثے میں ان کی موت کے بعد شایع ہوا تھا۔ محبّت اور عورت پروین شاکر کی شاعری کا موضوع رہے۔ اپنی شاعری میں عورت کے جذبات اور احساسات کو شدّت اور درد مندی سے بیان کرنے والی پروین شاکر نے خوش سلیقگی، تازگی کے ساتھ غزل اور نظم دونوں اصنافِ سخن میں‌ جمالیاتی تقاضوں کو بھی خوبی سے نبھایا۔
خوشبو کی شاعرہ ⁧‫ پروین شاکر‬⁩ کا آج یومِ وفات ہے۔
‏December 26, 1994....
‏مر بھی جاؤں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے
‏ لفظ میرے مرے ہونے کی گواہی دیں گے
‏⁧‫پروین‬⁩ شاکر 24 نومبر 1952ء کو کراچی میں پیدا ہوئی تھیں۔26 دسمبر 1994ء کی صبح پروین شاکر اسلام آباد میں ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہو گئیں۔

آج پاکستان میں رومانوی شاعرہ کی حیثیت سے پہچانی جانے والی پروین شاکر کی برسی منائی جارہی ہے۔
ان کا تعلق ایک ادبی گھرانے سے تھا۔ وہ چند سال درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ رہیں اور پھر سول سروسز کا امتحان دے کر اعلیٰ افسر کی حیثیت سے ملازم ہوگئیں۔ اس دوران پروین شاکر کا تخلیقی اور ادبی دنیا میں پہچان کا سفر جاری رہا۔ مشاعروں اور ادبی نشستوں میں انھوں نے اپنے اشعار پر خوب داد پائی اور ان کے شعری مجموعوں کو بہت سراہا گیا۔
پروین شاکر کی شاعری میں ان کی زندگی کا وہ دکھ بھی شامل ہے جس کا تجربہ انھیں ایک ناکام ازدواجی بندھن کی صورت میں‌ ہوا تھا۔ انھوں نے ہجر و وصال کی کشاکش، خواہشات کے انبوہ میں ناآسودگی، قبول و ردّ کی کشمکش اور زندگی کی تلخیوں کو اپنے تخلیقی وفور اور جمالیاتی شعور کے ساتھ پیش کیا، لیکن ان کی انفرادیت عورت کی نفسیات کو اپنی لفظیات میں بہت نفاست اور فن کارانہ انداز سے پیش کرنا ہے۔ اپنے اسی کمال کے سبب وہ اپنے دور کی نسائی لب و لہجے کی منفرد اور مقبول ترین شاعرہ قرار پائیں۔
بقول گوپی چند نارنگ نئی شاعری کا منظر نامہ پروین شاکر کے دستخط کے بغیر نامکمل ہے۔ احمد ندیم قاسمی نے کہاکہ پروین شاکر نے اردو شاعری کو سچّے جذبوں کی قوس قزحی بارشوں میں نہلایا۔
پروین شاکر 24 نومبر 1952ء کو کراچی میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کا تعلق ایک علمی و ادبی گھرانے سے تھا۔ پروین کم عمری ہی میں اشعار موزوں کرنے لگی تھیں۔ انھوں نے کراچی میں تعلیمی مراحل طے کرتے ہوئے انگریزی ادب میں کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اور بعد میں لسانیات میں بھی ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور پھر تدریس سے وابستہ ہوگئیں۔ شادی کے بعد خدا نے انھیں اولادِ نرینہ سے نوازا، لیکن بعد میں ان کا ازدواجی سفر طلاق کے ساتھ ختم ہوگیا۔ سول سروس کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ اسلام آباد میں اہم عہدے پر خدمات انجام دے رہی تھیں۔
وہ 25 سال کی تھیں جب ان کا پہلا مجموعۂ کلام خوشبو منظرِ عام پر آیا اور ادبی حلقوں میں دھوم مچ گئی۔ انھیں اسی کتاب پر آدم جی ایوارڈ سے نوازا گیا۔
ہر سال پروین شاکر کی برسی کے موقع پر علم و ادب کے شائق نہ صرف انھیں یاد کرتے ہیں بلکہ ادب دوست حلقے اور مداح خصوصی نشستوں کا اہتمام بھی کرتے ہیں جس میں پروین شاکر کی یاد تازہ کی جاتی ہے اور ان کا کلام پڑھا جاتا ہے۔
پروین شاکر اسلام آباد کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ ان کے کتبے پر یہ اشعار درج ہیں۔
یا رب مرے سکوت کو نغمہ سرائی دے
زخمِ ہنر کو حوصلہ لب کشائی دے
شہرِ سخن سے روح کو وہ آشنائی دے
آنکھیں بھی بند رکھوں تو رستہ سجھائی دے
 

سیما علی

لائبریرین
یہ کیسا اذن تکلم ہےجس کی بات نہ ہو
‏سوال کرنے دیا جائےاورجواب نہ ہو

‏اگر ⁧‫ خلوص‬⁩ کی دولت کےگوشوارے بنیں
‏تو شہر بھر میں کوئی صاحب نصاب نہ ہو

‏ہمیں تو چشمہ حیواں بھی کوئی دکھلائے
‏تو تجربہ یہ کہے گا،کہیں سراب نہ ہو
‏پروین شاکر‬⁩
 

سیما علی

لائبریرین
جہاں سوال کے بدلے سوال ہوتا ہے
وہاں محبتوں کا زوال ہوتا ہے
کسی کو اپنا بنانا ہنر ہی سہی
کسی کا بن کے رہنا کمال ہوتا ہے
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
پروین شاکر صاحبہ کی شاعری واقعتاً دلوں میں اترنے والی ہے۔
تحریر لکھنے اور شئیر کرنے کا شکریہ سیما علی آپا۔
اللہ تعالیٰ پروین شاکر صاحبہ کے درجات بلند فرمائیں۔ آمین۔
 
Top