خوشیوں میں غم کے راگ سنانے لگے مجھے۔حسیب جمال

خوشیوں میں غم کے راگ سنانے لگے مجھے
ہنسنے لگا تو لوگ رُلانے لگے مجھے

کچھ تو کِھلے گا آج سرِ شاخِ آرزو
غنچے چٹخ چٹخ کے بتانے لگے مجھے

اک تجربہ ہوا جو محبت کا، اس کے بعد
جتنی کہانیاں تھیں، فسانے لگے مجھے

ان کو کوئی بتائے کہ میں سنگِ میل ہوں
جو سنگِ رہ سمجھ کے ہٹانے لگے مجھے

گریہ کریں گے آج ہم اک ساتھ بیٹھ کر
بادل بھی اپنے پاس بلانے لگے مجھے

حسیب جمال
 
Top