خورشید عالم مخمور سدیدی

الف نظامی

لائبریرین
محترم خورشید عالم مخمور سدیدی لاہور
صوفی صاحب ریاست کپورتھلہ میں ضلع جالندھر کے ایک گاوں ٹھٹہ میں 11 پوہ ٍ1975 بکرمی بمطابق 1918 ء حاجی منشی رحمت علی صاحب کے ہاں پیدا ہوئے
حاجی صاحب کا پیشہ کتابت تھا۔ انہوں نے اپنے اس فرزند کو بھی اس فن کی تعلیم دی ، قیام پاکستان کے بعد لاہور میں خطاط الملک تاج الدین زریں رقم سے مکمل اصلاح لی۔

قبلہ صوفی صاحب کی طبیعت میں بچپن سے ہی سوز وگداز کا عنصر موجود تھا۔ اہل اللہ کی صحبتوں کی تلاش اور جستجو محبوب مشغلہ تھا۔ اپنے گاوں ٹھٹہ میں ایک برزگ جو "بابا صاحب" کے لقب سے مشہور تھے ، کی خدمت میں کثرت سے حاضری دیا کرتے جتناوقت ان کے پاس بیٹھتے ، خاموشی سے ان کی گفتگو سنتے۔

قیام پاکستان کے بعد لاہور میں مختلف اخبارات میں ملازمت رہی ، جن میں روزنامہ غالب ، آفاق ، کوہستان ، امروز اور نوائے وقت قابل ذکر ہیں۔ امروز کی ملازمت کے دوران حافظ محمد یوسف صاحب سدیدی مرحوم سے ان کے شیخ کامل حضرت خواجہ غلام سدید الدین رحمۃ اللہ علیہ کے حالات اکثر سنتے۔ حافظ صاحب بتاتے کہ ہمارے شیخ کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ہنساتے بھی بہت ہیں اور رلاتے بھی بہت ہیں۔

ایک مرتبہ بابو عبد الرشید صاحب نظامی کے گھر صوفی صاحب کی ملاقات حافظ صاحب کے شیخ سے ہوئی۔ حافظ صاحب نے تعارف کراتے ہوئے یہ بتایا کہ صوفی صاحب ذوق شعر بھی رکھتے ہیں۔ حضرت شیخ نے فرمایا کہ سیال شریف میں ایک تقریب ہو رہی ہے اس کی مناسبت سے صوفی صاحب شعر لکھ کر دیں۔ اس جگہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ صوفی صاحب نے بابا صاحب مذکور کے کہنے پر شعر کہنا ترک کیا ہوا تھا۔ لیکن اسی رات حضرت شیخ کے حکم کی برکت سے ایسی آمد ہوئی کہ بہت سے اشعار موزوں کر کے خدمت شیخ میں پیش کر دئیے۔ حضرت شیخ نے پوچھا کہ تخلص کیا ہے؟ صوفی صاحب نے "زاہد" بتلایا ۔ آپ نے فرمایا کہ زاہد کے بجائے "نشتر یا مخمور" رکھ لیں۔ چنانچہ صوفی صاحب نے مخمور کا انتخاب کر لیا۔

1955ء میں بیعت کے متعلق حافظ صاحب کے مکان پر حضرت شیخ کی خدمت میں گذارش کی۔ آپ نے فرمایا "آپ کی استعداد بہت بلند ہے" لہذا آپ کی بیعت میں اپنے شیخ حضرت شیخ الاسلام خواجہ محمد قمر الدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ سے کراوں گا۔ صوفی صاحب نے عرض کی "آپ کے ہاتھ بھی ان کے ہاتھ ہیں"
یہ لطیف جواب سن کر حضرت نے بیعت سے نواز لیا
بیعت کے بعد صوفی صاحب کی طبیعت میں ایک عجب ہیجانی کیفیت طاری ہو گئی اور یہ کیفیت ان کی برداشت سے باہر ہوتی جا رہی تھی۔ گھر سے باہر کھیتوں میں نکل جاتے اور کئی کئی گھنٹے بےخودی میں گزر جاتے ، کئی روز کے بعد طبیعت سنبھلی اور پھر مزاج میں خاموشی کا رجحان بہت زیادہ ہو گیا۔
عاشقی چیست بگو بندہ جاناں بودن
دل بدست دگرے بودن و حیراں بودن

بیعت کے وقت صوفی صاحب نے خدمت شیخ میں درخواست کی کہ بندہ کی ایک خواہش بچپن سے ہے اور اس کے لئے سورۃ مزمل کا ورد بھی کر رہا ہوں کہ زیارتِ رخِ مصطفیٰ ﷺ ہو جائے۔
یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے صوفی صاحب کی کیفیت دیدنی تھی ، بار بار فرماتے کہ اگر آپ نے لکھنا ہو تو یہ وضاحت ضرور کریں کہ بطورِ تحدیث نعمت میں نے بیان کیا ہے تعلی اور خود نمائی قطعا مقصود نہیں۔
حضرت شیخ نے اس عظیم خواہش کے جواب میں فرمایا کہ یہ ایک وہبی معاملہ ہے۔ آپ بھی دعا کرتے رہیں اور میں بھی دعا کروں گا اور ایک خط میں اس مقصد کے لئے وظیفہ بھی لکھا ہے جو کہ ناظرین آئندہ صفحات میں دیکھ سکتے ہیں۔

بیعت کے کچھ سالوں بعد کی بات ہے۔ صوفی صاحب معظم آباد میں رمضان شریف میں حاضر تھے ، رات کو نصیب جاگا اور آواز سنائی دی کہ تمہاری دیرینہ آرزو پوری ہوگئی ، حضور سرور کونینﷺ کمرہ میں جلوہ افروز ہیں ، ایک صحابی جن کا قد مبارک چھوٹا ہے ، لوگوں کو زیارت کروا رہے ہیں ، صوفی صاحب نے بتلایا کہ میں نے ان کی خدمت میں التجا کی کہ بارگاہِ نبوت میں میرا نہ بتانا کہیں شامتِ اعمال سے اجازت نہ ملے۔ جب حاضری کی سعادت ملی تو میں نے حضور دوعالم ﷺ کے مقدس ہاتھوں کو بوسہ دیا اور آپ ﷺ نے کرم فرماتے ہوئے میری دونوں آنکھوں پر اپنے وما رمیت اذ رمیت والے ہاتھ ملے ، انہی مقدس ہاتھوں کی برکت سے آج تک میری نظر بہت اچھی ہے۔

پھر بارگاہ سید کونین میں پہنچا
یہ ان کا کرم ، ان کا کرم ، ان کا کرم ہے

صبح اپنے شیخ کی خدمت میں سارا واقعہ بیان کیا۔ شیخ نے اس صحابی کا اسم گرامی بھی بتلایا ، لیکن صوفی صاحب کا کہنا ہے کہ میرے حافظہ میں اب نہیں رہا
صوفی صاحب نے اس موقع پر ایک غزل بھی لکھی تھی جو من و عن ساتھ شائع کی جا رہی ہے۔
اس حاضری کے بعد صوفی صاحب جب معظم آباد سے رخصت ہونے لگے اور اپنے شیخ کی دست بوسی کی تو یہاں بھی ان ہاتھوں میں وہی رات والی لطافت نفاست اور نزاکت تھی ، صوفی صاحب سے برداشت نہ ہو سکا اور دھاڑیں مار مار کر رونا شروع کر دیا۔
بیعت کے کچھ عرصہ کے بعد صوفی صاحب کو حضرت شیخ نے اسماء سبعہ کی تلقین کی اور فرمایا "تجھ سے ایک کام لینا ہے" صوفی صاحب نے عرض کی حضور! میں کسی بوجھ اٹھانے کے قابل بالکل نہیں ، مجھے تو اپنی خدمت میں ہی قبول رکھیں۔
اسماء سبعہ کی تکمیل زکوۃ کے بعد سالانہ عرس مبارک پر 1957ء میں صوفی صاحب کو بارِ امانت سپرد کر دیا گیا۔
صوفی صاحب کہتے ہیں کہ جس وقت مجھے دستار باندھی گئی ، وہ لمحہ میری زندگی کا حاصل ہے ، اس وقت جو کیف اور مستی نصیب ہوئی وہ رشکِ زیست ہے ، اس ساعت میں جو مئے پاشی ہوئی وہ باعثِ فخر ہے۔
صوفی صاحب کے متعلق اور بھی بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے لیکن طوالت کے خوف سے ان سطور پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے۔
دوسری بات یہ بھی ہے کہ خود مکتوبات میں صوفی صاحب کے مقام پر کافی روشنی پڑتی ہے ، اندازہ ہوتا ہے کہ شیخ کے ہاں صوفی صاحب کی کس قدر جگہ ہے۔
ان خطوط میں سلوک کے اعلی ترین مسائل پر بحث کی گئی ہے۔ تصوف کی بنیادی اصطلاحات کو بڑے خوبصورت اور سلیس پیرائے میں بیان کیا گیا ہے جن کو قارئین خود مطالعہ کر کے حظ اٹھا سکیں گے اور ان کی برکتوں سے مالا مال ہو سکیں گے۔

تھا مرے پیشِ نظر حسنِ حرم آج کی رات
میں تھا اور زلف کی زنجیر کا خم آج کی رات

لیلۃ القدر میں جاگا ہے مقدر اپنا
شاہِ خوباں نے کیا لطف و کرم آج کی رات

دست بوسی کا شرف بخشا مجھے جی بھر کر
ہوگئے دور سبھی رنج و الم آج کی رات

روئے انور پہ تھی کیا بردِ یمانی کی جھلک
چاندنی اور ملاحت تھی بہم آج کی رات

پھول کی پتیاں رخسارِ حسیں پر قرباں
روئے زیبا پہ تصدق تھا ارم آج کی رات

رشک فردوس ہوا خانہ ء ویراں میرا
میرے گھر میں تھے وہ پرنور قدم آج کی رات

جامِ کوثر سے پلائی تھی مجھے ساقی نے
ہیچ تھا میرے لئے ساغرِ جم آج کی رات

عجب انداز سے چھلکا ترا جام اے مخمور
دیدہ ء شوق تھا آلودہ ء نم آج کی رات
27 رمضان المبارک
1387 ھ شب شنبہ
(مکتوباتِ سدیدیہ ، مرتب کردہ محمد معظم الحق محمودی ،خانقاہ معظمیہ ، معظم آباد شریف ، ضلع سرگودھا ،صفحہ 11)
 

الف نظامی

لائبریرین
مکتوب بنام حضرت صوفی خورشید عالم مخمور سدیدی

محترم صوفی صاحب زید معالیکم
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ
مزاج گرامی ، عجب اتفاق ہے کہ بندہ نے بھی آپ کو دو عدد خط لکھے ہیں اور جواب نہیں ملا۔ اسی طرح آپ نے بھی دو عدد خط لکھے ہیں اور جواب کا شکوہ ہے۔
سبحان اللہ و بحمدہ ، آپ کا 19 دسمبر 60ء کا لکھا ہوا مکتوب میں نے غور سے پڑھا ہے ، جواب کے سلسلہ میں خیال تھا کہ عند الملاقات جواب عرض کروں گا ، مگر چونکہ آپ کو سخت انتظار ہے ، لہذا اپنی بصیرت کے مطابق عرض کیے دیتا ہوں ، دودھ کا تالاب سلسلہ عالیہ کی مرکزی "روحانیت" ہے ، تمام بزرگ روحانیت کے گردا گرد حلقہ بستہ ہیں اور آپ کو اختیار دیا گیا ہے کہ حسب استعداد آزادی سے روحانیت حاصل کر لیں ، آپ اپنی پسند پر روحانیت حاصل کر رہے ہیں ، یاد رہے کہ دودھ کی سفیدی اور لباس کی سفیدی جمالیات کی طرف اشارہ ہے اور یہ درود شریف کی کثرت اور اس کی مقبولیت کی علامت اور دلیل ہے۔ حضور خاتم الاولیاء ، قطب زماں ، حضرت خواجہ شاہ محمد سلیماں تونسوی رضی اللہ تعالی عنہ جن کی ذات گرامی متصرف سلسلہ عالیہ چشتیہ اور دفتر نظامت کے سرکار اعلی کی حیثیت میں ہے ، تصرفات وجودیہ اور افعالیہ کے گھوڑے اور براق پر سوار بکر و فر جمال و جلال وہاں تشریف فرما ہیں ، اور اعلان فرما رہے ہیں کہ "لالو ! ایہ ساڈے کاتب صاحب ہن" اس جملہ مبارکہ کی تشریح یہ ہے ، تونسہ شریف کا محاورہ ہے کہ مخاطب پر شفقت کرتے ہوئے "لالو" استعمال کیا جاتا ہے ، تمام حاضرین کو "لالو" فرما کر یہ واضح فرمایا جا رہا ہے کہ صوفی صاحب ہمارے کاتب ہیں۔ "ساڈے کاتب" ساڈے کاتب فرما کر آپ کی نسبت ارادت کو درجہ قبولیت عطا فرما رہے ہیں۔ اس میں بھی دو باریک اشارے ہیں ، ایک یہ کہ آپ کا یہ کسب کسب حلال ہے اور حضور کو پسند ہے۔ دوسرا قاری صاحب کو سفارش کرنے کی اجازت اور جرات عطا ہو رہی ہے۔ جیسا کہ اس کے بعد قاری صاحب نے حضور سے سفارش طلب کی۔ لفظ "صاحب" سے مخلوقات میں آپ کا ادب اور احترام کرانے کی تعلیم مضمر ہے ، کیونکہ آپ کا وصف تو صرف کاتب کافی تھا۔ "صاحب" سے یہی مراد ہے ، لفظ "ہن" سے تمام حلقہ بستہ جضرات کبار سے آپ کا تعارف اتحادی اور نسبتی کرایا جا رہا ہے۔ اب کے بعد تمام سلسلہ عالیہ کے متصرفین حضرات کی توجہات باطنی آپ کے ساتھ ساتھ رہیں گی۔
آخری جملہ "لالو ایہ ہن بسم اللہ سکھاندے ہن" ---- لالو سے مراد صرف قاری صاحب ہیں۔ "بسم اللہ" ایک مبارک جملہ دعائیہ ہو کر استعمال ہوتا ہے ، جیسا کہ آپ بسم اللہ شوق فرمائیں ، بسم اللہ آپ پی لیں ، مطلب بسم اللہ بن سکھاندے ہن ، یعنی چونکہ صوفی صاحب اب ہمارے ہو چکے ہیں لہذا اب یہی آپ کو ( قاری صاحب ) سکھاتے ہیں.
دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ قاری صاحب ، صوفی صاحب کے پاس وقت نہیں ، کیونکہ توحید ذاتی میں صوفی صاحب مصروف ہیں ، یہ اشارہ لطیف ہے۔ لفظ " اللہ " سے جو بسم اللہ میں ہے ، لفظ " رحمن " اور " رحیم " جو کہ بسم اللہ میں مذکور ہیں ، ان کو ذکر نہیں کیا گیا ، یعنی صوفی صاحب درجہ صفات سے گزر چکے ہیں ، اب مرتبہ ذات میں گامزن ہو رہے ہیں ، لہذا کتابت سکھانے کا وقت نہیں ہے اور قاری صاحب کو کتابت سے کنارہ کشی کرنے اور نماز تہجد یعنی شب بیداری اور رات کو ذکر الہی میں مشغول ہونے کی تلقین کی جا رہی ہے۔ لفظ " لالو " سے ایک لطیف اشارہ اس امر کی جانب بھی معلوم ہوتا ہے کہ لالو "لال" سے بنا ہے۔ لال سرخ رنگ کو کہتے ہیں ، پنجابی زبان میں جلال کو سرخ رنگ سے اور سرخ رنگ کو جلال سے تعبیر کرتے ہیں۔ تو لالو سے مراد جلال اور صاحب سے مراد جمال ، یعنی حضور پیر پٹھان بندہ نواز "جلال" اور "جمال" کی نعمت آپ کو عطا فرما رہے ہیں۔ الحمد للہ علی ذلک۔
بہر کیف آپ کو اپنا بنا لیا گیا ہے اور آپ کی نسبت کو شرف قبول عطا فرمایا گیا ہے اور آپ کو حصہ نعمت عطا فرما دیا ہے ، یہ سربستہ راز ہے اس راز کو کنویں میں پھینک دیں۔
10 شعبان المعظم کے بعد متصل لاہور آوں گا ان شاء اللہ ۔ احباب کی خدمت میں ہدیہ تسلیم و تکریم۔
کل سفر سے واپس آیا ، آج جواب لکھا ، کوفت تھی ، لغزش معاف فرمانا۔
دسمبر 1960ء
غلام سدید الدین مرولوی
خاکپائے بادہ کشاں

(مکتوباتِ سدیدیہ ، مرتب کردہ محمد معظم الحق محمودی ،خانقاہ معظمیہ ، معظم آباد شریف ، ضلع سرگودھا ،صفحہ 15)
 

الف نظامی

لائبریرین
@سجاد خالد لکھتے ہیں:

صوفی صاحب کے انتقال کے بعد آخری بار جب میں بیٹھک کاتباں گیا شاید 2004 یا پانچ تھا، وہ گرد سے اٹی ہوئی تھی، عامل صحافی یونین کا سائن بورڈ ایک دیوار کے سہارے ٹیڑھا کھڑا تھا اور ایک دھندلائے ہوئے فریم سے حافظ صاحب رحمہ اللہ کا لکھا ہوا یہ شعر مجھے دیکھ رہا تھا۔ میں آب دیدہ تھا
جتن جتن سِکھ چھڈیو ای, کدی تے ہار فقیرا
جتن دا مُل کھوٹا پیسہ, ہارن دا مُل ہیرا

یہ شعر جس ذوق کے لوگوں کو پسند تھا وہ کھوٹے سکوں کا وزن نہیں اُٹھاتے تھے، وہ کسی سے جیتتے نہیں تھے بلکہ اپنے مقابل سے پہلے خود اس بات پر شرمندہ ہو جاتے تھے کہ کہیں وہ شرمسار نہ ہو۔ وہ جان بوجھ کر ہار جاتے تھے۔ اُن میں کوئی نہیں تھا جسے یہ تکلیف ہو کہ میں فلاں سے بہتر لکھ کر دکھاؤں۔ اُن میں وہ شخص موجود ہی نہیں تھا جسے کسی سرمایہ دار سے، کسی حکمران سے، کسی کم علم و فن سے کوئی انعام، مقام یا لقب چاہئے ہو۔ اُن کے خمیر پاک سر زمین سے نہیں بلکہ پاک سر زمین بنانے والے تھے۔

وہ اک خندہِ دلنشیں کا نمک
وہ ہستی کا جوہر, زمین کا نمک
(جاوید)
اور میں صرف ناظر، محض راوی اور ایک ادنٰی طالب

وہ شخص اب یاں نہیں ملے گا

کیمرے نے ایک کھنڈر کی بہت سی تصویریں محفوظ کر لیں جس کی عمارت عظیم تھی اور صاحبانِ مجلس (تاج الدین زریں رقم رح اور صوفی خورشید عالم خورشید رقم رح) کی رُوحیں کہیں محوِ سرگوشی تھیں کہ 'اب کیا ہو گا....... آگے کیا ہو گا۔۔۔۔۔۔۔

میری مادرِ علم و فن کی وہ کھڑکی جس سے آنے والی روشنی میں میں صوفی صاحب رح کی زیرِ نگرانی مشق کرتا تھا , بیٹھک کاتباں اندرون لوہاری دروازہ لاہور میں واقع تھی. اسے میرے دادا اُستاد تاج الدین زرین رقم رح.مصنف 'مرقعِ زریں' نے قائم کیا تھا. یہ قلمی نام غالباً مولانا غلام رسول مہر نے تجویز فرمایا تھا. پرویں رقم رح کا قلمی نام بھی مولانا ہی کا تجویز کردہ تھا.
وہ بیٹھک اپنی شان کے ساتھ میرے اندر کھڑی ہے لیکن سُنا ہے کہ میرے آخری پھیرے کے بعد وہ مسمار کر دی گئی تھی۔ پھر میں وہاں نہیں گیا۔ ایک بار جب گزرنا پڑا تو دائیں بائیں نہیں دیکھا کہ میرا منظر باقی رہے

اب کبھی رات کو ٹہلتے ہوئے سوچوں کہ ماضی کیا ہؤا تو آنکھوں کو ڈبڈبانے سے روک بھی نہیں پاتا۔ کہ ایک ہستی ایسی تھی جو میرے لئے بزرگوں کی اس کہکشاں کا قطبی ستارہ بھی تھی اور میرے لئے اس شہرِ خوباں کا صدر دروازہ بھی۔

بہ سوخت حافظ و در شرطِ عشق و جانبازی
ہنوز برسرِ عہد و وفائے خویشتن است

شیخ محمد حسن رحمۃ اللہ علیہ ہی تو تھے جن کے توسط سے میری آنکھوں کو نظارہ ِ بہشتِ خوش نویساں نصیب ہؤا. انہی کے طفیل میں حافظ یوسف سدیدی رح سے واقف ہؤا اور صوفی خورشید عالم رحمہ اللہ کی آغوشِ تربیت میں جگہ پا سکا. سید انور حسین نفیس رقم رح ہوں, الماس رقم رح ہوں یا پرویں رقم رح سب انہی کی وجہ سے میرے ذوقِ جمال کی سیرابی کا باعث بنے. انہی کی انگلی پکڑ کر میں لوہاری دروازے میں پون صدی سے قائم ضعیف دیواروں اور لرزتے ستونوں پر قائم بیٹھک کاتباں کی سیڑھی چڑھ کر عرشِ نستعلیق پر جانشینِ تاج الدین زریں رقم رح کے قدموں میں جا بیٹھا تھا.

شیخ صاحب ہی کی نسبت تھی جس سے میرا تعارف کہکشانِ خط کے ایک بڑے ستارے سے ہؤا تھا جن کا نام صوفی عبدالرشید لطیف رقم رح تھا۔ آپ نستعلیق کی کتابت میں اُستاد عبدالمجید پرویں رقم رح اور اُستاد تاج الدین زریں رقم کے شاگرد تھے جبکہ بورڈ نویسی کے فن میں جناب رشید قریشی رح اور خلیفہ طفیل رح سے استفادہ کر رکھا تھا۔ عربی خطوط میں اُستاد ھاشم محمد الخطاط بغدادی رح سے اصلاح لیتے رہے تھے۔ عبدالرشید صاحب عمدہ مصور, انتہائی نفیس سُنار, ترکھان اور نقاش بھی تھے. وہ پچھتر برس کی عمر میں کبھی کبھی جوانوں کی طرح شوخ شرٹ اور پینٹ زیبِ تن کر لیتے اور کبھی جینز کے ساتھ ٹی شرٹ میں بھی انتہائی سمارٹ اور مستعد دکھائی دیتے. زندہ دلی اور خوش خلقی جیسے گھٹی میں پڑی تھی. کویت میں عراقی افواج کے قبضے کی نتیجے میں سیروں سونا اور جواہرات کے ساتھ گھر بنا بنایا, سجا سجایا گھر چھوڑ کر ایک صندوقچہ اپنی کار میں رکھ کر ایران کے راستے تقریبا چالیس برس بعد پاکستان واپس آئے.

صندوقچے میں خطاطی کے سوا کچھ نہیں تھا. پوچھنے پر بتایا کی اس سے زیادہ میں کچھ بھی نہیں اُٹھا سکتا تھا کیونکہ گاڑی میں اور لوگوں کے ساتھ بھی سامان تھا.

عمر میں خورشید، رقم رح، یوسف سدیدی رح اور نفیس رقم رح سے بڑے تھے اور زریں رقم رح کی شاگردی کے معاملے میں اچھے خاصے سینئر۔

اُوپر صوفی عبدالرشید صاحب لاہوری. رح کے اساتذہ میں خلیفہ طفیل رح کا ذکر آیا تھا. فی الحال مختصر سا تعارف کرواتا ہوں. خلیفہ صاحب تاج الدین زریں رقم کے پہلونٹھی کے شاگرد, رازدار اور ہم پیالہ بھی تھے . اب یہ تو یاد نہیں وہ کون جانباز تھے جنہیں پرویں رقم رح کی بیٹھک میں.اس ارادے سے شاگرد رکھوایا گیا کہ پرویں صاحب کے ہاتھ سے ملی ہوئی اصلاح کو رازداری اور پردہ نشینی کے ساتھ نقل کیا جائے گا اور یوں ان کے فرشتوں کو بھی علم نہ ہو گا کہ تاج صاحب جو بظاہر ان کے مقابل مارکیٹ کے نمایاں ترین کاتب ہیں انہی کے حلقہِ تلامذہ میں شامل ہیں. وہ مجاہد اصلاح لا کر خلہفہ صاحب کے حوالے کرتا اور خلیفہ صاحب جو اس دلنواز سازش کے روحِ رواں تھے اس کاغذ کو اپنے استاد تاج صاحب کے حوالے کر دیتے. تاج صاحب کے احباب میں زیادہ تر پہلوان , شعراء, چھاپہ خانے والے اور کچھ بازاری مذاق کے لوگ بھی شامل تھے.
اب تاج صاحب کو اندر بٹھا کر باہر سے تالا لگا دیا جاتا. خلیفہ صاحب بیٹھک کو ڈیوڑھی میں بیٹھ جاتے اور ہر ملاقاتی سے کہتے استاد جی ابھی نہیں آئے اور بیٹھک بند ہے. اس طرح زریں رقم جیسے عدیم الفرصت اور وسیع المشرب استاد کو مشق کے لئے وقت ملتا. خلیفہ صاحب خوب جانتے تھے کہ پرویں رقم کے خط سے ہم لوگ وہ محاسن اخذ نہیں کر سکتے جو تاج صاحب کر سکتے ہیں اور یوں ہم سب کا فائدہ ہو جائے گا. خلیفہ صاحب کے بعد ’نقوش’ کے بانی محمد طفیل بھی تاج صاحب سے اصلاح لینے لگے.

فرماتے تھے زندگی میں کئی بار کوشش کی کہ اپنے اُستاد پرویں رقم کے تشکیل کردہ پیوندوں کو کچھ بدل کر دیکھوں لیکن نظر کو بالآخر پروینی پیوند ہی جچتا تھا اور میں اپنی اختراع کو رد کر دیتا.

اُن دنوں شوکت علی منہاس کسی نئے سائن بورڈ کی قلمی مشق لے کر صوفی صاحب سے اصلاح لینے آتے، عبدالرحمٰن عبدہُ خطِ ثلث سیکھنے، محمد عبداللہ یوسف اور میں نستعلیق کی مشق کرتے۔ صوفی صاحب کی جیب سے چائے کا ایک یا ہاف سیٹ بارہ ایک بجے آتا، میں اُن کے ساتھ چائے ہیتا، کبھی کبھی اُن کے چاقو سے عبداللہ کے ہاتھ سے نفاست کے ساتھ کٹے ہوئے امرود کا ایک ٹکڑا مجھے دیا جاتا جسے میں احسان مندی اور شکرانِ نعمت کے ساتھ من و سلؤی سمجھ کر تھوڑا تھوڑا کر کے دیر سے ختم کرتا تھا۔

صوفی صاحب انتہائی خوب رُو تھے لیکن باطن کے حُسن نے کردار میں ولیوں والا حلم اور گفتگو میں جیسے آبِ زم زم کے ساتھ شہد گھول دیا تھا۔

میں نے کیا دیکھا، کیا سُنا، کیا محسوس کیا ۔۔۔ میں کیسے جِیا تھا وہ زمانہ، بتانا تو ممکن ہی نہیں کہ لفظ اتنے ہی کم نصیب ہوتے ہیں۔

مجھے یاد ہے میں کبھی کبھی ثلث میں لکھا ہؤا کوئی لفظ اُستاد صاحب سے سیکھنے کے ارادے سے ساتھ لکھ کر لے جاتا۔ ایک دِن کسی لفظ کو دیکھ کر اُستاد صاحب خوش ہوئے اور کہنے لگے
'تُسی ہُن کوئی ذرا لمّی عبارت لکھ کے لیاؤ۔ (اب آپ کچھ لمبی عبارت لکھ کر لائیں)'۔

میں بہت مطمئن ہؤا اور رات کو گھر جا کر اُستاد مصطفٰی راقم کی لکھی ہوئی سورہ فاتحہ کی نقل کر ڈالی۔

اگلے روز اُستاد صاحب کی خدمت میں پیش کی تو اصلاح کے ساتھ مزید حوصلہ افزائی بھی فرمائی۔

ان دنوں اصلاح کے لئے آنے والوں میں ماسٹر صدیق صاحب اور شریف صابری بھی آیا کرتے تھے. یہاں آنے والے پتا نہیں کیسے خود سے فنا فی الاستاد ہو جاتے تھے. وہی سادگی اور شرافت, وہی انہماک اور خود سپردگی, وہی تقوٰی اور للہیت ان پر طاری ہو جاتے جو صوفی صاحب کے ساتھ جُڑے تھے.
یک زمانہ صحبت ِ با اولیاء والا معاملہ تھا.

منظور انور صاحب ہم سے بہت سینئر تھے. ایک بار صوفی صاحب نے کہا چلیں آج منظور کے ہاں چلتے ہیں. میں اُستاد صاحب کا مہندی رنگ کے کینوس کا تھیلا اُٹھا کر اُن سے ایک قدم پیچھے چلا کرتا تھا. ہم جب اُن کے دفتر کے دروازے پر پہنچے.

.....میں نے دیکھا کہ منظور انور صاحب کچھ کتابت کر رہے تھے. آہٹ پاتے ہی اُن کی نظر صوفی صاحب پر پڑی تو وہ فوراْ کھڑے ہو گئے اور ننگے پاؤں دروازے تک پہنچے, جُھک کر اور اپنے اُستادِ گرامی کے ہاتھوں کو تبرک کی طرح چھوتے ہوئے راستہ دینے کے لئے ایک جانب باآدب کھڑے ہو گئے. مجھ سے بھی بڑے احترام سے مصافحہ کیا. پھر صوفی صاحب رحمہ اللہ کو اپنی نشست پر اور مجھے اُن کے ساتھ بٹھا کر مہمانوں کی خاطر مدارات کے لئے اجازت لے کر باہر چلے گئے....

...... چائے کے ساتھ کسی اچھی بیکری سے تازہ بسکٹ اور کیک پیش کیا. اس دوران میں وہ اُستاد صاحب کی صحت اور گھر بار کے بارے میں پوچھتے رہے. صوفی صاحب نے میرا تعارف اپنے شایانِ شان کروایا تو منظور صاحب مجھے پسندیدگی کی نظر سے دیکھنے لگے. میں سوچ رہا تھا کہ نسبت کیا چیز ہوتی ہے. میں پہلے ایک بار اِن کے دفتر آیا تھا تو کچھ خاص اہمیت نہیں ملی تھی بلکہ منظور صاحب کو میرا آنا یاد بھی نہیں تھا......

.... جانے سے پہلے منظور صاحب نے فرمائش کی کہ تبرکاْ کچھ اُن کے دفتر کے لئے لکھ دیں. صوفی صاحب نے غالباْ سُرخ روشنائی سے پون انچ قط کی قلم کے ساتھ نستعلیق میں ’یا اللہ مدد ' تحریر فرمایا. ہم جانے کے لئے اُٹھے تو منظور صاحب نے اپنے گھر پر آنے کی دعوت دی اور اصرار کیا کہ سجاد کو بھی ساتھ لائیں.

اسی طرح کبھی کبھی ہم اُستاد شاگرد پیدل نفیس شاہ رح صاحب کے ہاں چلے جاتے. شاہ صاحب اکثر مدرسے سے وابسطہ خطاطی کے شاگردوں میں گھِرے ہوتے جن میں سے ہر ایک اُن کی کوئی خدمت بجا لانے میں مستعد دکھائی دیتا. صوفی صاحب کو دیکھ کر وہ کھِل اُٹھتے اور کھڑے ہو کر بے ساختہ بغل گیر ہو جاتے اور معانقے کا یہ دورانیہ معمول سے زیادہ ہوتا. پھر مجھ سے بھی محبت کے ساتھ ملتے. دونوں ایک دوسرے کے اہل و عیال اور صحت سے متعلق معاملات پر بات کرتے. پھر شاہ صاحب اپنا کتابت کردہ کوئی سرورق یا کتبہ دکھاتے اور صوفی صاحب سے رائے طلب کرتے. یہ معاملات انتہائی احترام کی فضا میں وقوع پذیر ہوتے اور شاہ صاحب کے شاگرد چپکے سے چائے کا انتظام کر لیتے. یہاں بھی میرا تعارف کروا دیا گیا جو شاہ صاحب کے دل میں تا عمر میرے لئے فراخی کا باعث رہا. یہاں تک کہ میری غیر حاضری میں بھی میرے تذکرے پر شاہ صاحب دعائیں دیتے تھے. کیلیگرافی اسلامک کے نام سے اسلامی خطاطی پر مبنی ویب سائٹ کے قیام پر شاہ صاحب نے کامیابی کی خصوصی دعا فرمائی تھی......

صوفی صاحب رح کے پسندیدہ طبیب حکیمِ اہل ِ سنت جناب موسٰی امرتسری رحمہ اللہ تھے. آپ کا مطب ریلوے روڈ پر دواخانہ حکیم اجمل خان کے تقریباْ سامنے تھا. اور رہائش شادباغ میں میرے گھر کے عقب والی گلی میں. میں اپنی موٹر سائیکل پر اُستاد صاحب کو حکیم صاحب کے مطب پر لے جاتا جہاں اُن کے انتہائی مؤدب صاحبزادے چشمِ ما روشن کی تصویر بنے دکھائی دیتے.

حکیم صاحب جہاں طبی مشورے دیتے وہاں لاہور, ایمن آباد, تاندلیانوالہ, واربرٹن, دہلی اور نجانے کہاں کہاں کے خوشنویسوں اور اُن کے تحریر کردہ مخطوطوں کا ذکر کرتے. اُستاد پرویں رقم رح کے کچھ کام ان کے پاس محفوظ تھے....

'جب میرے اُستاد صاحب کی کتاب موجود ہے تو میری کتاب کا چھپنا بے ادبی ہو گی'
یہ بات 70 سال کے ایک بزرگ اپنے استاد کی وفات سے تقریباً 40 سال بعد اپنے شاگرد کی فرمائش کے جواب میں کہہ رہے تھے۔ وہ اس بات پر مزید چند برس ڈٹے رہے یہاں تک کہ دو تین شاگردوں (جن میں میں زیادہ سرگرم تھا) اور ایک دوست کی بات اس بنیاد پر مان گئے کہ استاد صاحب کی کتاب میں جو تفاصیل موجود نہیں ہیں، اُن کا ابلاغ نئے اہلِ فن کے لئے ضروری ہے۔
میں اُن دنوں موٹر سائکل بیچ کر سائیکل خرید چکا تھا۔ شادباغ سے صبح سویرے بادشاہی مسجد کے پیچھے والے علاقے امین پارک میں اُستاد صاحب کے گھر پہنچ جاتا تھا۔
وہ پھیکی سیاہی سے آرٹ پیپر پر نستعلیق لاہوری کے مفردات اور ابتدائی مرکبات لکھتے تھے جن میں سیاہ روشنائی بھرنے کا کام میں کرتا تھا۔ میرے کام میں اگر کوئی اصلاح ضروری ہوتی تو بتا دیتے ورنہ کافی دیر دیکھنے کے بعد اگلا حرف بھرنے کی اجازت دے دیتے۔
کاتب عام طور پر نب ہی سے گہرے رنگ کی سیاہی بھرتے تھے جس پر
مجھے اس درجے کی دسترس (کنٹرول) حاصل نہیں تھی۔ اس لئے میں ونسر اینڈ نیوٹن کے زیرو سائز کے برش سے بھرائی کرتا تھا۔ اُستاد صاحب اس پر حیرت اور خوشی کا اظہار کرتے اور کہتے آپ برش کو کیسے قابو میں کر لیتے ہیں۔ میں نب کے معاملے میں اپنی بے بسی کا اظہار کر بھی دیتا تو بھی وہ رشک کرتے تھے۔

مجھے یہ کام کرتے ہوئے ایسا لگتا تھا کہ میں تاریخِ خط کے ایک اہم ترین استاد کے کام کو محفوظ کرنے کے عمل کا حصہ بننے میں کامیاب ہو رہا ہوں۔

صوفی صاحب بہت کم بولتے تھے اور جب بولتے تھے تو سننے والا ان کی بات یاد کرنے کی کوشش کے ساتھ سُن رہا ہوتا تھا۔ لیکن میں اتنا انتظار نہیں کیا کرتا تھا۔ تھوڑا بہت صبر کرنے کے بعد ایک آدھ سوال داغ دیتا جو اکثر نشانے پر لگتا اور کچھ بوندیں اُن کے کلام کی برس جاتیں۔
سوال کچھ اس طرح کے ہوتے تھے۔

آپ کو اُردو کا کون سا شاعر پسند ہے؟
'جوش'
صوفی صاحب نے بتایا کہ بچپن میں نوجوانی میں وہ اُن مشاعروں میں شرکت کرتے تھے جو کپورتھلہ یا امبرسر (امرتسر) میں منعقد ہوتے تھے اور جوش کی ادائیگی اور لحن پر فدا تھے۔
آپ عبدالمجید پرویں رقم کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟
فرمایا
'میرے استاد صاحب انہیں اپنا اُستاد مانتے تھے لیکن کھلے بندوں کبھی اعتراف نہیں کیا۔ وفات سے پہلے مجھے رازداری کے ساتھ کہا تھا، 'اُستاد صرف پرویں رقم ہی ہے، ہم ان کے سامنے کچھ بھی نہیں'۔'

آپ نے کبھی کسی سے فرمائش کی؟
کہا
'جنرل ضیاءالحق آئے تھے بیٹھک پر۔ مجھ سے پوچھا کہ میں کیا خدمت کر سکتا ہوں، میں نے کہا 'بیٹھک ایک قومی ورثہ ہے، مالک مکان کے ساتھ مقدمہ چل رہا ہے، حکومت اگر اس کی قیمت ادا کر دے تو اچھا ہو گا'۔ جنرل صاحب نے وعدہ کیا کہ یہ کام ہو جائے گا۔ پھر کہا ' میں آپ کے لئے مزید کیا کر سکتا ہوں' تو میں نے کہا 'اور کچھ نہیں چاہئے۔ جنرل صاحب اصرار کرنے لگے تو میں نے کہا 'حج کی خواہش تھی'۔ جنرل صاحب نے خوش ہو کر کہا، یہ بھی ہو جائے گا لیکن کوئی اور خدمت جو میں کر سکوں آپ کی'۔ میں نے کہا اگر آپ نے اتنی مہربانی کر دی ہے تو میرے دوست حافظ یوسف سدیدی کو بھی میرے ساتھ حج پر بھجوا دیں'۔

میرا ایک سوال تھا
استاد صاحب آپ کو کبھی غصہ آیا کسی پر
کہنے لگے
غلام حیدر وائیں (سابق وزیر اعلٰی پنجاب) اپنے کام سے آتے رہتے تھے، میں نستعلیق میں اُن کا نام لکھ رہا تھا، جب میں نے حیدر کی 'ر' کو 'د' کے اُوپر لکھا تو وائیں صاحب کہنے لگے، اسے نیچے لکھیں (یعنی کرسی کی لائن یا پیس لائن پر) ۔ مجھے ان پر غصہ آیا تھا لیکن مین کچھ نہیں بولا۔ وہ سمجھ گئے تھے'۔

میں استاد صاحب کو کبھی کبھی اپنی کوئی نظم اصلاح کے لئے بھی پیش کرتا تھا۔ جسے دیکھ کر وہ خوش ہوتے تھے۔ ایک بار ایک نظم کے ایک مصرعے کی اصلاح کی تھی جس میں میں نے بحر تبدیل کر دی تھی۔

اپنے اشعار میں سے انہیں جو پسند تھے اُن میں سے چند یاد آ رہے ہیں

جب کوئی خوب رُو نظر آیا
باخدا مجھ کو تو نظر آیا

خنجر زنی کا سیکھ کے فن مجھ فقیر سے
پہلے مرے گُلو پہ کیا اُس نے تجرِبہ

مدینے جا کے بھی آجائے دل میں گھر کا خیال
سلوکِ عشق میں سب سے بڑی خطا ہے یہی

تمام رات کیا میں نے انتظار اُن کا
تمام رات سرِ رہ گزار گزری ہے

شاعری میں صوفی صاحب اُستاد احسان دانش سے اصلاح لیتے تھے۔ شورش کاشمیری مرحوم بھی انہی کے شاگرد تھے۔ صوفی صاحب بتاتے تھے کہ جب دانش صاحب شاگردوں کی اصلاح کرتے تو سب خاموش رہتے تھے لیکن شورش اصلاح پر کبھی خوش ہوتے اور کبھی یہ بھی کہہ دیتے

'استاد مزا نئیں آیا'
اور ہم سوچتے، کتنی بے ادبی ہے

ایک بار احسان دانش رح نے صوفی صاحب سے فرمائش کی کہ اُن کا ایک پسندیدہ نعتیہ شعر خوش خط لکھ کر دیں۔ صوفی صاحب نے حکم کی بجا آوری کی اور شعر یہ تھا جس کے نیچے شاید صوفی صاحب نے اپنے قلم ہی سے اپنے اُستاد صاحب کی اجازت سے اُن کے دستخط بھی بنا دئے ہیں۔

دانش میں خوفِ مرگ سے مطلق ہوں بے نیاز
میں جانتا ہوں موت ہے سُنت حضور (ص) کی

میں صوفی صاحب کی بیٹھک میں پڑی لکڑی کی کرسی پر بیٹھ کر انتظار کرتا کہ وہ آئیں تو ہم کام شروع کریں۔ انہوں نے بہت سارے مفرد حروف پہلے ہی سے لکھ رکھے تھے تاکہ مجھے انتظار نہ کرنا پڑے۔ اس دوران میں اُن کے کمرے میں لگے فریموں کو رشک اور حیرت سے دیکھتا رہتا۔ میری نظر کسی ایک لفظ پر پہنچ کر منجمد ہو جاتی اور اس کے ساتھ ہی وقت ساکت ہو جاتا، عُمر رُک جاتی۔

'السلام و علیکم، کیہ حال اے' کے الفاظ مجھے حضورِ فن سے حضورِ صاحبِ فن میں لے آتے۔ میں سراپا ادب کھڑا ہو جاتا اور اُن کے بیٹھنے کے بعد اُن کے حکم پر مستعدی سے بیٹھ جاتا تھا۔
پہلے دِن ہی انہوں نے مجھے اُس تخت پوش پر بیٹھنے کو کہا جو میرے نزدیک تخت شاہنشہی سے کہیں بلند تھا کہ میرے پہلے استاد صاحب جب مجھے اُن سے ملوانے کے لئے لاتے تھے تو
صوفی صاحب یہیں تشریف فرما ہؤا کرتے تھے۔

میں روبوٹ کی طرح وہاں بیٹھ گیا اور وہ چائے لینے چلے گئے۔ میں سوچ رہا تھا جب میں الفاظ کو بھروں گا تو استاد صاحب کو پسند نہیں آئے گا لیکن وہ کہیں گے آپ نے بہت اچھا کام کیا ہے، آپ اتنے مصروف رہتے ہیں، میں خود ہی کچھ دنوں میں مکمل کر کے آپ کو بلا لوں گا۔

دس بجے کے قریب ہم استاد شاگرد پیدل بیٹھک کاتباں کی جانب روانہ ہو جاتے۔ راستہ زیادہ تر خاموشی کے ساتھ کٹتا۔ لیکن اگر کسی اچھے خطاط کا کام سامنے آ جاتا تو مجھ سے نہ رہا جاتا، میں اُن کی رائے ضرور لیتا۔ صوفی صاحب کے مسلک میں نفرت، استہزاء، بد تعریفی، تحقیر اور کم ظرفی نہیں تھی۔ وہ کمزور کام کو دیکھ کر ناگواری کا اظہار بھی نہیں کرتے تھے۔ بس مجھے اُن کے تبصرے میں جوش کی کمی سے اندازہ ہو جاتا تھا۔ اچھے کام کی دل کھول کر تعریف کرتے تھے اور خوشی ان کی آنکھوں سے چھلکتی تھی۔
میں اکثر بے خیالی میں اُن سے آگے چل پڑتا اور دھیان آتے ہی برابر یا کچھ پیچھے ہو جاتا۔ شیش محل روڈ سے نکل کر داتا دربار یا بھاٹی کا چوک ہوشیاری سے پار کرنا ہوتا تھا۔
راستے میں میرے کچھ دوستوں کے گھر اور دُکانیں آتی تھیں لیکن میں اُن کی طرف مُڑ کر بھی نہیں دیکھتا تھا۔
صوفی صاحب آہستہ آہستہ پوچھنے لگے کہ دانتوں کا علاج کہاں سے کرواؤں، کبھی آنکھوں کے معاملے میں مشورہ کرتے۔ پھر طے ہو جاتا کہ وہ فلاں دِن میرے ساتھ چلیں گے۔
دیکھتے دکھاتے، باتیں کرتے ہم بیٹھک پر پہنچ جاتے جہاں ایک آدھ شاگرد پہلے سے مشق کر رہا ہوتا۔
ایک آہستہ سا سلام جس میں اپنی موجودگی کا احساس دلانےسے زیادہ دوسرے کا ادب دکھائی دیتا تھا۔
اب میری مشق کا وقت تھا۔ میں ایک گھنٹہ مشق کرتا اور اصلاح کے لئے پیش کر دیتا۔ صوفی صاحب ایک یا دو حروف میری مشق پر دوبارہ لکھ دیتے اور میں خامی کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے کبھی کبھی انہی سے پوچھ لیتا۔
صوفی صاحب کے بارے میں یہ بات مانی جاتی تھی کہ ایک تو وہ گفتگو بہت کم کرتے ہیں دوسرے وہ اصلاح صرف قلم سے کرتے ہیں، زبان سے یہ نہیں بتاتے کہ کہاں نقص ہے۔ مجھے بھی یہی سبق پڑھا کر بھیجا گیا۔ اب مسئلہ یہ درپیش ہؤا کہ صوفی صاحب کے لکھے ہوئے لفظ کو دیکھ کر اپنے لفظ کا نقص تلاش کرنا میرے لئے مشکل تھا۔ کچھ دن تو میں شیخ محمد حسن رح کی خدمت میں حاضری دیتا اور اُن سے سمجھتا کہ کہاں غلطی ہوئی۔
جب مجھے اُستاد صاحب کے پاس جاتے ہوئے کچھ دن گزر گئے اور اُن کی نرم طبیعت کا احساس مضبوط ہونے لگا تو میں نے دریافت کرنا شروع کر دیا جس کا نتیجہ مثبت نکلا۔ جب مجھے اندازہ ہؤا کہ ئہ چوٹی سر کرنے کی اب تک کسی نے کوشش ہی نہیں کی تھی ورنہ یہ نیچے سے دیکھنے والوں کو جُھک کر اُٹھا لیتی ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ چند ہی دنوں میں اُستاد صاحب اپنا پسندیدہ کلام مجھے خود سے سُنانے لگے۔ تصوف پر کچھ کچھ گفتگو ہونے لگی اور میری اصلاح کے معاملے میں معاملہ یہاں تک جا پہنچا کہ ایک دن اپنے لکھے ہوئے ایک کتبے میں سے ایک لفظ دوبارہ لکھنے کا ارادہ فرمایا
کتبے میں لکھا تھا
مولای صلی وسلم دائماً ابداً
علٰی حبیبک خیر الخلقِ کلھمِ
اس شعر میں وہ 'حبیبک' کے لفظ سے غیر مطمئن سے ہو گئے تھے چنانچہ اُسی سائز کی قلم سے دوبارہ لکھا اور مطمئن ہو گئے۔ اس کے بعد مجھ سے کہا

'آپ تو آرٹسٹ ہیں ذرا دیکھیں اِن میں کچھ فرق ہے بھی یا نہیں اور یہ کہ کون سا بہتر ہے'۔
اس اچانک اُفتاد پر میں نے کچھ گھبراہٹ میں وہ دونوں لفظ سامنے رکھے اور پھر سانسیں بحال کرتے ہوئے غور کرنا شروع کیا۔ دو تین منٹ تک تو مجھے اُن میں کوئی فرق محسوس ہی نہیں ہؤا اور میں شرمدگی محسوس کرنے لگا لیکن اب دیر ہو چکی تھی، اُن کا استفسار پھر سے ہؤا تو میں نے اپنے غور کو تیز کر دیا اور بہت معمولی سے دو فرق تلاش کر کے جان بچانے کی کوشش کی۔ صوفی صاحب مسکرائے اور فرمایا ہاں یہ بھی ہیں لیکن اصل فرق یہاں اور یہاں ہے۔ یوں میری تنقیدی صلاحیت کو بڑھانے کی شعوری کوشش کا آغاز ہو گیا، جس کا مظاہرہ بعد میں بھی ہوتا رہا۔ اب میں اس معاملے میں خود کو ممتاز محسوس کرتا تھا۔

کم و بیش دو ماہ کے عرصے میں میں تختیاں پاس کر کے رباعیات تک جا پہنچا تھا۔ کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ صرف پہلے تختی پر کچھ شاگردوں کو ایک دو برس کا عرصہ لگ جاتا ہے تو لامحالہ میرے دِل کہیں احساسِ برتری نے جگہ بنا لی۔ اسی ترنگ میں ایک دِن میں نے اُستاد صاحب ہی سے پوچھ لیا کہ آپ نے تاج صاحب سے کتنے عرصے میں ابتدائی تختیاں نکالی تھیں تو جو جواب ملا اُس نے میری ہدایت کا سامان کچھ ضرورت سے زیادہ ہی کر ڈالا اور خود پسندی کے کینچوے کا سانپ بننے سے پہلے ہی علاج بھی ہو گیا۔

صوفی صاحب نے فرمایا، میں نے تو اس طرح تختیاں نکالی ہی نہیں تھیں۔ میں جب تاج صاحب رحمہ اللہ کی بیٹھک میں گیا تو میرا کام دیکھنے کے بعد انہوں نے مجھے اپنے قریب بٹھا لیا اور مارکیٹ کا کام کرنے کی اجازت بھی دے دی۔ بس کبھی کبھی میرے کسی متفرق لفظ کی اصلاح فرما دیتے تھے۔

لوحِ دل پر سب بڑی تفصیل سے رقم ہے اور دِل کھول کر رکھ دینے کی خواہش بھی ہے لیکن بیان کا عجز اور تحریر کر پانے کی طاقت نہ پاتے ہوئے میں اس نوشت کو آگے بڑھانے سے معذوری محسوس کرتا ہوں۔
 

سیما علی

لائبریرین
رشک فردوس ہوا خانہ ء ویراں میرا
میرے گھر میں تھے وہ پرنور قدم آج کی رات

جامِ کوثر سے پلائی تھی مجھے ساقی نے
ہیچ تھا میرے لئے ساغرِ جم آج کی رات

عجب انداز سے چھلکا ترا جام اے مخمور
دیدہ ء شوق تھا آلودہ ء نم آج کی رات
سبحان اللہ
سبحان اللہ
 
Top