خود کو ڈھونڈتا پھر رہا ہوں۔۔۔۔۔

دشت تنہائی میں

مانند غزل پریشان

ڈھونڈتا پھر رہاہوں

خود اپنے آپ کو

شب کی ظلمات

وحشت نفس

دل بے قرار

اس پر میں

چراغ اُٹھائے

اُس کی لو سے بے خبر

ڈھونڈتا پھر رہا ہوں

خود اپنے آپ کو

نفس کی سرکشی

حوسِ آرزو

بھُلا رہی ہے

بھٹکا رہی ہے

پھر بھی ڈھونڈتا پھر رہا ہوں

خود اپنے آپ کو

یا رب!

یہ کیسی اختیار میں بے اختیاری ہے

کیوں خیال میں اس قدر بے خیالی ہے

روح کی منزل سے

جو مجھے بھٹکا رہی ہے

اور میں

سامنے منزل پاتے ہوئے بھی

ڈھونڈتا پھر رہا ہو

خود اپنے آپ کو

خود کو پائوں یہ کیونکر ممکن ہو

تجھ کو پائوں تب ہی یہ ممکن ہو

منزل خدی پر شاید

اسی اک غلط فہمی میں

خود اپنے آپ کو ابتک

ڈھونڈتا پھر رہا ہوں

سلگتا پھر رہا ہوں
 
Top