سیما علی
لائبریرین
بیشک ایسا ہی ہے ۔ہمارا ایک کولیگ کی ہماری ہمیشہ بحث ہوتی میں نہ چاہتا سے تقریر شروع ہوتی اور میں پر ختم کہ میں نہکمال کسی اور کا ہے، انسان اللہ کو نکال کر اپنا کمال منوانے پر لگا ہوا ہے۔ انسان اللہ کو منوانے کےبجائے اپنا آپ منوانا چاہتا ہے۔ سب عزتیں سب واہ واہ میرے اللہ کی ہے۔ ہم اس کی دی ہوئی روح کے سہارے زندگی گزار رہے ہیں
چاہتا تو دونوں بیٹیاں ڈاکٹر نہ بنتیں۔
وہ نہ چاہے پتہ اپنی جگہ سے ہل نہیں سکتا
ہر ایک کے پاس اپنی عظمت کی داستانیں ہیں۔یہ کہہ دیں تو کیا بگڑ جائے کہ تمام عظمت و جلال اسکا ہے ایک آدمی اپنی اور اپنے محبوب کی شان میں قصیدے پڑھتا ہے پر
مگر جس کی ذات پتہ پتہ ذرے ذرے میں عیاں بلکہ لرزاں ہیں
اس ی لئے جب انسان کی عظمت کے قصیدے پڑھے جاتے ہیں تو وہ ایک ہی انسان کے ہوتے ہیں اور اللہ کی عظمت و شان بیان کرنے کی توفیق عطا ہو،تو زمین و آسماں کے ساتھ ہم آوازوں ہیں تو خدا اور انسان کی عظمت میں وہی فرق ہے جو خدا اور انسان میں ہے ۔
جلالِ حُسن تو پروردگار دیتا ہے
وہ ٹانک ٹانک کے روشن تبسموں کے گلاب
غمِ حیات کی زلفیں سنوار دیتا ہے
وہ لفظ لفظ کو دیتا ہے موتیوں کی چمک
وہ کاوشاتِ قلم کو نکھار دیتا ہے
وہی تو دیتا ہے لہجوں کو رنگِ پیراہن
وہ حرف حرف کو جلوہ ہزار دیتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔