خود نمائی اور خود ستائی میں فرق

سید عمران

محفلین
محنت تو ہر معاملہ میں کرنی لازم ہے، مگر عطا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ہے۔
شکرگزاری کا مقام ہیں جتنی بھی خوبیاں انسان میں موجود ہیں۔ چاہے پیدائئشی تھیں، یا محنت کی گئی۔

بیان یا ظاہر کرنا اور خود تعریفی دو مختلف باتیں ہیں۔
ظاہر کرن یہ ہے کہ الحمد للہ میں حافظ قرآن ہوں۔
اور اپنی تعریف کرنا یہ کہ میرا کمال اور میری ہمت ہے کہ میں حافظ قرآن ہوں۔
باقی میرا یہ تبصرہ مزید وضاحت کے لیے۔
جی آپ کی بات درست ہے، بے شک ہر خیر اللہ کی طرف سے ہے۔۔۔
لیکن یہاں ہم نے صرف ایک مخصوص سوال کا مختصر جواب دیا ہے!!!
 
تحدیثِ نعمت کا کیا مطلب ہے؟
کسی نعمت کے بیان سے قبل الحمد للہ کہنے سے کیا مراد ہے؟
خود تعریفی اور تحدیثِ نعمت میں فرق نیت کا ہے۔
خود تعریفی یا خود ستائی میں اپنی تعریف اور واہ واہ مطلوب ہے۔
تحدیثِ نعمت میں شکرگزاری اور ترغیب مطلوب ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
خود تعریفی اور تحدیثِ نعمت میں فرق نیت کا ہے۔
خود تعریفی یا خود ستائی میں اپنی تعریف اور واہ واہ مطلوب ہے۔
تحدیثِ نعمت میں شکرگزاری اور ترغیب مطلوب ہے۔
بہت شکریہ
آسان الفاظ میں تحدیثِ نعمت کا کیا مطلب ہوگا؟
 
آسان الفاظ میں تحدیثِ نعمت کا کیا مطلب ہوگا؟
تحدیثِ نعمت میں شکرگزاری اور ترغیب مطلوب ہے۔
یعنی نعمت کا تذکرہ لوگوں کی ترغیب کے لیے ہو رہا ہے، یا شکرگزاری کے جذبات کے اظہار کے لیے ہو رہا ہے، تو تحدیثِ نعمت ہے۔
 

سید عمران

محفلین
۱) تحدیثِ نعمت کا کیا مطلب ہے؟
۲) کسی نعمت کے بیان سے قبل الحمد للہ کہنے سے کیا مراد ہے؟

تحدیث، حدیث سے نکلا ہے، مفہوم اس کا ہوا بات بیان کرنا۔ تحدیثِ نعمت یعنی اپنے ذات سے متعلق اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ کوئی نعمت بیان کرنا جیسے اللہ تعالیٰ اپنے حبیب کو مخاطب کررہے ہیں:
وَاَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ

۲) کسی نعمت کے بیان سے قبل الحمد للہ کہنے کے کئی فوائد ہیں:
۱) ایک تو اس حقیقت کا اظہار کہ یہ نعمت میری کسی اہلیت، لیاقت یا استحقاق کے بغیر محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ملی ہے۔
ب) کسی نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے پر اللہ تعالیٰ اس نعمت کو بڑھاتے ہیں، اس میں برکت عطا فرماتے ہیں اور برکت کی تعریف ہے:
قلیل کثیر النفع، یعنی کوئی چیز ظاہراً قلیل ہو مگر اس سے نفع بہت حاصل ہو۔۔۔
اور شکر ادا کرنے پر نعمتوں میں اضافہ کا وعدۂ الٰہی ہے:
لئن شكرتم لازيدنكم
 

سید عمران

محفلین
خود نمائی سے کیا مراد ہے؟
خود کو نمایاں کرنا، ایسے افعال کرنا جس سے ظاہر ہو کہ دوسروں کو حقیر و کمتر سمجھتا ہے یا کم از کم خود کو دوسروں سے بہتر سمجھتا ہے۔ عام فہم انداز میں اس کو اترانا کہتے ہیں۔ حضرت لقمان اپنے بیٹے کو اسی اتراہٹ سے بچنے کی وصیت کرتے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں یوں نقل فرماتے ہیں:

وَ لَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًاۚ-اِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَ لَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا(۳۷)كُلُّ ذٰلِكَ كَانَ سَیِّئُهٗ عِنْدَ رَبِّكَ مَكْرُوْهًا(بنی اسرائیل:۳۸)
زمین پر اترا اترا کر نہ چلنا۔ بےشک نہ تو تم زمین کو (اپنی اس چال کی وجہ سے)پھاڑ سکتے ہو اور نہ پہاڑوں کی بلندیوں کو پہنچ سکتے ہو۔ یہ سب کام تمہارے رب کو سخت ناپسند ہیں۔
ایک اور جگہ فرمایا:
وَ لَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَ لَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًاؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍۚ(لقمان:۱۸)
لوگوں (کو کمتر سمجھتے ہوئے تکبر و اتراہٹ کے باعث ان سے)اپنا چہرہ نہ پھیرنا۔اور زمین پر اِتراتے ہوئے نہ چلنا۔بےشک اللہ تعالیٰ اترانے والے، فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتے۔
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
خود نمائی کے لئے پنجابی زبان کا ایک جملہ ہے کلغی نکالنا۔ اس کائنات کی ہر شے کلغی نکالنے کے چکر میں رہتی ہے۔ یہی اس کائنات کا بنیادی منشور ہے۔ میں نے یہ کتاب لکھی ہے تو ظاہر ہے میں بھی کلغی نکالنے کے چکر میں ہی ہوں۔ سقراط نے کہا تھا:
میں لوگوں سے اس لئے بہتر ہوں کہ میں یہ تو جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا، لوگ تو اتنا بھی نہیں جانتے کہ وہ کچھ نہیں جانتے۔
سقراط کو زہر کا پیالہ اس لئے پینا پڑا تھا کہ اس کا انداز بیاں زہریلا تھا۔ بہت چبھتا ہوا Interogative انداز تھا۔ میرازہر پینے کا کوئی انداز نہیں۔
میں کانٹا بن کر خود نمائی کرنے کے بجائے پھول بن کر خود نمائی کرنا چاہتا ہوں۔

(روحانیت ، رویے اورہومیو پیتھک سائنس ،ڈاکٹر گلزار احمد ، صفحہ 4)
 
Top