خود بھی شرمسار ہو

ساران خالق

محفلین
تحریر (سردار ساران خالق)

روز حساب جب میرا پیش ہو دفتر عمل
آپ بھی شرمسار ہو مجھے بھی شرمسار کر
لیکن جس طبقہ کا ذکر میں کر رہا ہوں وہ شرمسار نہیں ہوتا اور نہ شرمسار ہونا جانتا ہے. ویسے سچی بات ہے کہ ہم لوگ شرمسار ہونا بھول گئے ہیں. ہم لوگوں کے قول و فعل میں اس قدر تضاد ہے کہ گلشن سے آنے والی ہوائیں بھی ہم تک پہنچتے پہنچتے باد صر صر کی شکل اختیار کر لیتی ہیں. ہمارے عشق و محبت میں کھوٹ ہے.ہمارا کہنا کچھ اور ہوتا ہے اور کرنا کچھ اور. لیکن ہمارا ضمیر پھر بھی نہیں جاگتا اور اگر کبھی ضمیر ملامت کرے بھی تو ہم اسے رد کر دیتے ہیں. پوری عمر ہم یہ ورد اور دعائیں جاری رکھتے ہیں کہ "آقا مدینہ میں بلا لو، مدینہ کی ہوائیں دکھا دو" مگر جب دو پیسے جیب میں آتے ہیں تو ہمارے رخ یا تو کہیں پک نک کا فیصلہ کرتے ہیں یا پھر ان پیسوں سے تھوڑی بہت عیاشیاں کر لیتے ہیں پھر واپس وہی پرانا رونا دھونا.
قارئین شاید کہ میری باتیں آپ پر اچھی نہ گزریں مگر یہ سچ ہے کہ پوری عمر ہم ان کرپٹ لیڈروں کو گالیاں نکالتے رہتے ہیں مگر الیکشن کے قریب جب یہی لیڈر ہمیں سبز باغ دکھاتے ہیں تو ہم ماضی کو بھول جاتے ہیں کہ ہم نے کچھ تہیہ کیا تھا ہم پھر سب کچھ بھول بھال کر ان کی بول بلایاں میں آ جاتے ہیں. ہم پورا سال تو انقلاب لانے کی بات کرتے رہتے ہیں مگر جب الیکشن کے دوران کوئی لیڈر ہمیں لولی پاپ دکھا دیتا ہے تو پھر ہم انقلاب بھول جاتے ہیں ہمارا انقلاب کالے پائپ یا ایک نوکری کی نظر ہو جاتا ہے. وہ قوم کبھی ترقی نہیں کر سکتی جو خود اپنی حالت نہ بدلے. حالت بدلنے کیلئے بڑی قربانیاں دینی پڑتی ہیں ذاتی مفادات کو چھوڑ کر عوامی مفادات کو دیکھا جاتا ہے مگر ہم صرف اس بات کے قائل ہیں کہ جو ملے صرف ہمیں ملے باقی کوئی نہ کچھ لے جائے.ہم ذرا کمزور قسم کے عاشق ہیں ہماری نظر ہر طرف ہوتی ہے تاکہ غریب عوام کو پسا جا سکے ان کے حقوق سلب کیے جا سکیں یہی وجہ ہے کہ امیر امیر سے امیر تر ہو جاتا ہے اور غریب بے چارہ غریب تر. غریب کو یہ فکر کھائے جاتی ہے کہ وہ بچے کا پیٹ کیسے پالے اور وہ اس کے لیے تگ و دو کرتا ہے اور دن بھر مارا مارا پھرتا ہے اور امیر طبقہ کھانے کھانے کے بعد بھاگا بھاگا پھرتا ہے تاکہ وہ کھانا ہضم کر سکے.
ہم یوں انصاف کی مثالیں تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی دیتے ہیں مگر کبھی ان کی طرح انصاف کرنے کا سوچا نہیں. ہم حکومت کرنے کی مثال تو عمر رضی اللہ عنہ کی دیتے ہیں مگر اس طرح حکومت کرنے کا کبھی سوچا نہیں. اسی قول و فعل کے تضاد کی وجہ سے آج ہم لوگ باقیوں سے پیچھے ہیں.
آزاد کشمیر میں جب ن لیگ نے اکثریت حاصل کی تو لوگ جنہوں نے ن لیگ کو کامیاب کرنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا بڑے خوش دکھائی دیے. جناب وزیراعظم راجہ فاروق حیدر نے جب حلف اٹھایا تو ان کی تقریر کچھ یوں تھی میں آزاد کشمیر کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا ازالہ کروں گا اور حق داروں کو ان کا دیا جائے گا کسی کے ساتھ نا انصافی نہیں ہو گی آج ن لیگ کی حکومت بنے قریباً اڑھائی سال ہو چکا ہے مگر اس تقریر پر عمل نہیں ہو سکا. کتنے غریب لوگ ہاتھوں میں ڈگریاں اٹھائے در در پھر رہے ہیں اور کتنے ہی نوجوان بے روزگاری کے سبب منشیات فروشوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں اور اپنی باقی زندگی منشیات کی لت میں لگے گزار دیتے ہیں یوں ایک پڑھا لکھا نوجوان چرسی، شرابی، بھنگی کے نام سے موسوم ہو جاتے ہیں. جناب وزیراعظم اقتدار تو آنی جانی چیز کا تاریخ ان لوگوں کو زندہ رکھتی ہے جن لوگوں نے عوام کیلئے کچھ کیا ہوتا ہے. آپ سے پہلے بھی بہت وزیراعظم بنے اور آپ کے بعد بھی بنیں گے مگر کل کو جب ہم اللہ کی عدالت میں پیش ہوں گے تو اس کے سامنے کیا جواب دیں گے. ہمارے آئین میں بھی یہ بات واضح طور پر لکھی ہے کہ اقتدار اعلیٰ کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے اور عوام کے منتخب کردہ نمائندے اس اقتدار کو اللہ پاک کی مقدس امانت سمجھتے ہوئے استعمال کریں گے. جناب وزیراعظم کیا آپ خود بھی متمعین ہیں کہ اس کی امانت کو صحیح طور پر استعمال کر رہیں ہیں،،،، میرے خیال سے تو نہیں ہوں گے بہرحال آپ سے یہ درخواست ہے کہ خدارا غریب کو انصاف دلانے میں کلیدی کردار ادا کریں کسی حقدار کا حق نہ ماریں اور انصاف و قانون کو امیر کی لونڈی نہ بنا کر رکھا جائے.امیر کیلئے بھی وہی قانون ہو جو غریب کیلئے ہو. لوگوں کی عمریں بیت جاتی ہیں عدالتوں کے چکر لگاتے انہیں آس ہوتی ہے کہ انصاف ملے گا مگر تاریخ پہ تاریخ دے کر اسے نہ صرف مایوس کیا جاتا ہے بلکہ اس کہ زخموں کو نمک دیا جاتا ہے.کیا عدالتیں اس لیے قائم کی گئی کہ غریب کو اس میں گھیسٹا جائے اور امیر کو عیاشی کرنے دے جائے کیونکہ وہ بڑے باپ کی اولادیں ہیں.
آخر کب تک یہ چلتا رہے گا اور غریبوں کے ساتھ کھلواڑ ہوتا رہے گا.؟؟؟
باقی فیصلہ آپ سب قارئین کا؟؟؟؟؟
 
Top