خودی کی زد میں ہے ساری خدائی

سحر کائنات

محفلین
تحریر: سحر شعیل

خودی کیا ہے؟
اس سوال کو سن کر برصغیر پاک وہند کےرہنے والے ادب دوست لوگوں کے ذہن میں فوراً حضرت علامہ اقبال کا نام آتا ہے کہ وہی پہلی شخصیت تھے جنہوں نے خودی یعنی خود شناسی کو اپنی فکر انگیز شاعری کا محور قرار دیا جبکہ حقیقت حال ایسی نہیں۔
خودی یعنی خود شناسی کا تصور تین ہزار سال پہلے یونان کے بادشاہوں اور ان کے درباروں میں ملتا ہے۔ان بادشاہوں کے درباروں کے ستونوں میں یہ الفاظ کھدے ہوئے ملے ہیں کہ
"اپنے اپ کو پہچانو،اپنی صلاحیتوں کا ادراک کرو،اپنی خوبیوں کا فہم پاؤ ۔"
آج یعنی اکیسویں صدی تک آتے آتے اس لفظ نے کئی مفہوم سمیٹ لئے ہیں۔خودی یعنی خود شناسی،خود احتسابی،خود اعتمادی،خود انحصاری ،خود داری اور خود توقیری سب خود شناسی کے مفہوم میں آ گئے۔
خود شناسی انسان کے ذہن میں تب جگہ بناتی ہے جب کسی تازہ خیال کی روشنی ذہن کے کونوں میں پھیلتی ہے۔اپنی خامیوں کے لئے آمادگی اور قبولیت موجود ہوتی ہے۔تب ایسا لگتا ہے جیسے دل و دماغ کسی گہرے کنویں میں روشنی پا لے۔خودی کا احساس ہوتے ہی انسان کی سوچ اور رویے میں تبدیلی آتی ہے،انسان اپنے آپ سے جا ملتا ہے۔اسے اپنی کوتاہیوں کااحساس ہوتا ہے اورانسان اپنے ہم عصروں میں بلند ہونے لگتا ہے۔خود شناسی انسان میں سیکھنےاور آگے بڑھنے کی لگن پیدا کرتی ہے ۔انسان اپنی شخصیت کو سنوار پاتا ہے ۔یہ ایک ایساعمل ہے جس میں آپ اپنے افعال، تجربات، اور اہداف کی جانچ پڑتال کرتے ہیں تاکہ آپ اپنی زندگی کو بہتر بنا سکیں۔ خود شناسی کی مدد سے آپ اپنے اچھے پہلو اور برے پہلو کو پہچان سکتے ہیں اور اپنے عزم کی بنیاد پر زندگی کو منظم کر سکتے ہیں۔
خود شناسی انسانیت کی بقا کے لئے لازم ہے۔ عربی مقولے کا ترجمہ ہے کہ
"جس نے اپنے آپ کو پہچانا پس اس نے اپنے رب کو پہچانا" اپنے آپ کو پہچاننا ہی خود شناسی ہے۔
اللہ رب العزت نے انسان کی تخلیق کی اور اپنے نبی کے ذریعے تاقیامت رہنمائی عطا کر دی۔اب خود شناسی کی توفیق بھی انسان کو اللہ کی طرف سے ہی عطا ہوتی ہے۔وہ ذات انسان کے دل کو اپنی شناخت عطا کرتی ہے اور انسان گردشِ ایام میں تپ کر کندن بنتاہے۔خود آگاہی دراصل انسان کو گناہوں سے داغ دار ہونے سے بچاتی ہے،انسان کی پوشیدہ صلاحیتوں کو بیدار کرتی ہے،انسان کو خوشیاں،نیک نامیاں اور خوش گواریاں عطا کرتی ہے۔خودی ہی اصل میں انسان کو بڑے بڑے خواب دکھاتی ہے اور پھر ان کو شر مندہ ٔتعبیر کرنے کے لئےضروری محنت کرنے پر اکساتی ہے۔
خود شناسی کی راہ میں کئی رکاوٹیں حائل ہوتی ہیں جن میں سب سے اہم خوف ہے۔میں یہ کر پاؤں گا ؟؟ کیسے کر پاؤں گا ؟؟ لوگ کیا کہیں گے ؟؟ان سوالات کا خوف انسان کو کبھی اپنی صلاحیتوں پر اعتماد کرنے کی جرات نہیں دیتا۔دوسری اہم رکاوٹ زندگی کے مقصد سے بے بہرہ ہونا ہے۔انسان کو اپنی تخلیق کا مقصد ہی نہ پتہ ہو تو بھی اس کی صلاحیتیں مجموعی طور پر انجماد کا شکار رہتی ہیں۔خود شناسی کی راہ میں تیسری رکاوٹ انسانی سوچ کی محدودیت ہے۔انسان جب نئی راہیں تلاش نہیں کرتا اور دوسروں کے کامیاب طریقوں کو اپنے لئے مشعلِ راہ بناتا ہے تو اس کی ذات میں چھپے گوہر کبھی باہر نہیں آتے۔
خود شناسی اصل میں خود احتسابی سے شروع ہوتی ہے۔ اس سے مراد ہے کہ انسان اپنی صلاحیتوں ،عادات ،کامیابیوں اور ناکامیوں کا تجزیہ کرے۔شیکسپئر اس بارے میں کہتا ہے۔
"ہم یہ تو جانتے ہیں کہ ہم کیا ہیں مگر یہ نہیں جانتے کہ ہم کیا ہو سکتے ہیں۔"
خود احتسابی در حقیقت انسان کو اپنی کوتاہیوں اور خامیوں کو مان لینے کا حوصلہ عطا کرتی ہے ۔یہ عام مشاہدہ بھی ہے کہ اصلاح تب ہی ممکن ہے جب غلطی کو مانا جائے اور یہ اعتراف کرنے کی ہمت خود شناسی ہی عطا کرتی ہے۔خود شناسی خدا کی عطا کردہ نعمتوں میں سے ایک ہے۔یہ تیرنے کی وہ خوبی ہے جو انسان کو ڈوبنے نہیں دیتی۔خودی کا دوسرا نام عزتِ نفس ہے۔جس نے اس کی قدر جان لی گویااس نے کامیاب زندگی کا راز پا لیا۔ خود شناسی انسان سے منفی سوچوں کا خاتمہ کرتی ہے اور اس کے لئے مثبت سمت کا تعین کرتی ہے ۔سقراط جو علم و حکمت کا پیکر سمجھا جاتا ہے اس کا کہنا ہے۔
" جس زندگی کا جائزہ نہ لیا جائے اور احتسابِ نفس نہ کیا جائے وہ اس قابل ہی نہیں کہ اسے گزارا جائے۔"
اقبال فرماتے ہیں۔
یہ موجِ نفَس کیا ہے تلوار ہے
خودی کیا ہے، تلوار کی دھار ہے
خودی کیا ہے، رازِ درُونِ حیات
خودی کیا ہے، بیداریِ کائنات
اقبال نے جس قدر خوبصورتی سے خودی / خود شناسی کا نقشہ کھینچا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔وہ انسان کو اپنے آپ کو پہچاننے کا درس بھی دیتے ہیں اور کائنات کو اس کے تابع ہونے کی نوید بھی سناتے ہیں۔یہی خودی بیدار کرنے کے لئے مسلمانوں کو شاندار ماضی کی مثالیں بھی دیتے ہیں تو ہمیں خودی کو گنوانے کا جرم کرنے کی عبرت ناک سزا کا عکس بھی جھلکاتے دکھائی دیتے ہیں ۔وہ انسان کو احساس دلاتے ہیں کہ اگر وہ خود کو پہچان لے تو دنیا اس کے قدموں میں ہوگی۔کامیابیوں کے در ایک ایک کر کےوَا ہوتے جائیں گے اور وہ تخلیق آدم کے اصل مقصد کو بھی جان پائے گا۔ حضرتِ اقبال کے نزدیک خود شناسی حیات کا دوسرا نام ہے۔ خودی عشق کے مترادف ہے۔ خودی ذوق تسخیر کا نام ہے۔ خودی سے مراد خود آگاہی ہے۔ خودی شناسی ہی ذوق طلب ہے۔ خودی ایمان کے مترادف ہے۔ خودی سرچشمہ جدت و ندرت ہے۔ خودآگاہی یقین کی گہرائی ہے۔ خودی سوز حیات کا اور ذوقِ تخلیق کا سر چشمہ ہے ۔خودی انسان کو فقر اور دل کا استغنا عطا کرتی ہے اور پھر انسان کائنات اور اس کی حد بندیوں سے بالا تر ہو جاتا ہے۔
خود شناسی کا عمل زندگی آسان کرتا ہے۔اونچے خواب دکھا کر ان کے لئے محنت کرنے کا عزم فراہم کرتا ہے۔بندگی کے تقاضے سمجھاتا ہے۔انسان کے لئے اپنے آپ کو اہم بنا دیتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور اس کے عزمِ مصمم کے سامنے کائنات کی ہر رکاوٹ کو ہیچ کر دیا۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم خود شناسی کے عمل سے گزریں ،اپنی صلاحیتوں کو پہچانیں اور ان سے خلق خدا کو فائدہ پہنچانے کا کام لیں۔
 

سیما علی

لائبریرین
اقبال نے جس قدر خوبصورتی سے خودی / خود شناسی کا نقشہ کھینچا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔وہ انسان کو اپنے آپ کو پہچاننے کا درس بھی دیتے ہیں اور کائنات کو اس کے تابع ہونے کی نوید بھی سناتے ہیں۔ی
من کی دنیا من کی دنیا سوز و مستی جذب و شوق
تن کی دنیا تن کی دنیا سود و سودا مکر و فن

من کی دولت ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہیں
تن کی دولت چھاؤں ہے آتا ہے دھن جاتا ہے دھن
من کی دنیا ایک ایسی وسیع و عریض کائنات ہے جہاں رنگ برنگ جلوے اور نور کی روشنی ہمہ وقت اس دنیا کو روشن رکھتی ہے اورجب انسان اس کے اندر جھانکتا ہے تو وہ سوز و مستی اور جذب و شوق میں اس قدر جذب ہو جاتا ہے کہ اسے دنیا و مافیہا کی خبر نہیں رہتی، وہ دنیا کے شور سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ من کی دنیا جام جم کی مانند ہوتی ہے اور من کے اس پیالے یا شیشے میں نہ ہی صرف کائنات کے راز کھلتے ہیں بلکہ اس میں دنیا بھی بے نقاب ہوکر سامنے آ جاتی ہے ۔۔
 
Top