خواہش

ماوراء

محفلین
خواہش


اس تپتي دھوپ ميں ہر کوئي سايہ تلاش کرتا ہے، پرندے اپنے اپنے گھونسلوں ميں پناہ ليتے ہيں۔انسان اپنے گھروں ميں چھپ جاتا ہے کہ گرمي کي لو سے بچ سکے، ايسے ميں ميرے گھر کے قريب ہي سائيکلوں کي دکان پر دس سال کا ایک بچہ کام کرتا تھا۔

آج جب ميں اسکول سے گھر آرہا تھا کہ اچانک ميري نظر اس چھوٹے بچے پر پڑي وہ اتني تيزي سے اپنا کام کررہا تھا کہ ميں حيران رہ گيا، ميں مسلسل سوچ رہا تھا کہ يہ عمر تو اسکي اسکول جانے کي ہے مگر لگتا اس کو اسکول کا شوق نہیں يہ سوچ کر ميں گھر ميں داخل ہوگيا۔

ميں روزانہ اسکول سے آتے جاتے اسے ديکھتا، کبھي اس کا استاد اسے کسي چيز کے لانے کي آواز ديتا تو کبھي استاد کے بيٹے اسے چائے لانے کيلئے کہہ کر پکارتے۔بعض اوقات جب وہ دير سے آتا تو اس کا استاد اس کو مرغا بنا کر جوتے سے مارتا ميں اس دردناک اور دہشت ناک منظر کو ديکھ کر دم بخور درہ جاتا وہ مجھے اسکھول جاتا ہوا خوشي سے ديکھتا اور ميرا جي بھي اس سے ملنے کا چاہتا۔

اللہ کے حکم سے ايک دن ميري سائيکل خراب ہوئي، ابو جي نے مجھے پيسے دئيے کہ بيٹا تم سائيکل ٹھيک کروالو، ورنہ تمہيں پيدل اسکول جانا پڑے گا۔ميں سائيکل لے کر اسي دکان پر چلا گيا، ميں وہاں بيٹھ گيا، ميري سائيکل وہي بچہ ٹھيک کرنے کي کوشش کررہا تھا، ابھي وہ استاد کي بات سنکر آتا تو استاد فورا اسے دوبارہ بلا ليتا، اس طرح وہ بيچارہ بار بار اٹھ کر جاتا اور ميں بھي اس دوران صرف اس سے ايک آدھ بات ہي کرسکا۔ابھي تک ميں اس کا نام ہي پوچھا تھا کہ اچانک اوپر سے استاد آگيا، چھوٹے نے مشکل سے ابھي سائيکل ہي کھولي تھي کہ استاد نہ کہا تمہيں شرم نہيں آتي صاحب کتني دير سے بيٹھے ہوئے ہيں، اور اسے مرغا بننے کا حکم ديا۔ميں بڑي حيرت سے يہ منظر ديکھ رہا تھا، اور چھوٹا استاد کو يہ بھي نہ کہہ سکا کہ استاد جي آپ نے مجھے پہلے اوزار دينے کيلئے اور پھر کئي مختلف کاموں کيلئے بلايا تھا، وہ خاموشي سے مرغا بنا رہا۔

استاد نے جلدي جلدي سائيکل ٹھيک کي اور پيسے بنائے، ميں نے پيسے دئيے اور گھر آگيا، مجھے اچھي طرح ياد ہے جب جون کے آخري ميں بہت گرمي پڑ رھي تھي، بہت سخت لو چل ري تھي، کہ دوپہر کو دروازے پہ دستک ہوئي، ميں ابھي کھانا کھا کر ليٹا ہي تھا بھلا کون اتني سخت دھوپ ميں اے سي والے کمرے سے نکل کر باہر جاتا۔مجبورا مجھے جانا پڑا جب دروازہ کھولا تو سامنے ہي چھوٹا کھڑا تھا، مجھے ديکھ کر وہ فورا بولا بھائي صاحب استاد جي نے ٹھنڈا پاني منگوايا ہے، ميں اسے گھر کے اندر لے آيا، کرسي پر بيٹھنے کا اشارہ کيا مگر اس نے انکار کرديا، کہ ارے صاحب ہم لوگ تو فرش پر ہي بھلے لگتے ہيں، اور وہ نيچے فرش پر بيٹھ گيا۔

ميں نےکہا سنو تمہارا نام کيا ہے، ميں نے اس سے پوچھا، بابو جي ميرا کيا نام ہونا ہے، چھوٹے يا کاکے، بس يہ دو نام ہمارے ہوتے ہي۔
مگر ميں تمہارا نام جاننا چاہتا ہوں ، ميں نے اس کو دوبارہ کہا۔
تنوير اس نے جوابا کہا۔
تنوير تم اسکول کيوں جاتے؟ کيا تمہيں پڑھنے کا شوق نہیں ہے۔
باؤ جي مير ابھي جي چاہتا ہے کہ ميں بھي دوسرے بچوں کي طرح اسکول جاؤں، صاف ستھرے کپڑے پہنوں ميں نے اس کا پتہ پوچھا اس نے مجھے اپنا پتہ بتاديا۔اچھا باؤ جي آپ مجھے جانے ديں، ميں نے کہا ابھي تو بہت دھوپ ہے ۔ وہ کہنے لگا کہ ہم جيسے کو دھوپ کيا کہتي ہے۔ارے باؤ جي جلدي سےپاني دو، ورنہ استاد پھر مجھے بہت مارے گا۔
ميں نے ايک بار پھر اپنا سوال دہرايا کہ تم پڑھو گے؟ ميرے سوال سن کر وہ مسکين صورت بنا کر بولا ميري سوتيلي ماں نہيں پڑھنے ديتي۔ميں نے پوچھا سوتيلي ماں تو وہ کہنے لگا ميں گھر ميں اکيلا تھا کيونکہ ابو دفتر گئے ہوئے تھے اور امي اور بہن قريبي گاؤں شادي ميں گئي ہوئيں تھيں، کہ ايک ايکسڈنٹ نے ان دونوں کي جان لے لي، ميں اس دن زندگي ميں جي بھرکر پہلي مرتبہ رويا، سنا ہے جو لوگ اللہ تعالي کو اچھے لگتے ہيں اللہ تعالي انہيں جلدي اپنے پا س بلاليتا ہے۔

باؤ جي آپ کو پتا ہے ميري امي جان مجھ سے بہت پيار کرتي تھيں، کہ ايک دن کچن ميں کھانا تيار کررہي تھيں، کہ ميرے ہاتھوں سے سالن گرگيا اور امي جان نے فورا گرم گرم شوربہ ميرے ہاتھ ميں صاف کيا اور تسلے کو بغير کسي کپڑے کے پکڑ کر دکھيل ديا، انکے ہاتھوں ميں چھالے پڑ گئے تھے۔باؤ جي ايک دن امي جان نے مجھے بيٹ بھي لاکر دي، اللہ جي کے پاس ميري امي چلي گئي ہيں، باؤ جي ميري امي کي ميري خواہش کي تکميل کيلئے بے چين رہنے والي ماں ہزاروں من مٹي تلے دب گئي۔

اس واقعہ کے چار ماہ بعد ابو جي ايک نئي امي لے آئے، جب ميں دوسري کلا ميں پڑھتا تھا، امي نے مجھے کہا بيٹے تم اسکول نہ جايا کروں، ميں تمہيں پڑھا ديا کروں گي۔
شام کو ابوجي آئے تو اس نے انہيں کہا کہ يہ مجھ سے پڑھے گا، ميں اسے ہائي اسکول ميں داخل کروادوں گي، ابوجي مان گئے، اور ميرے لئے علم کا ديا ہميشہ کيلئے بجھ گيا، اب ميرے ابو جي بھي وفات پاچکے ہيں، اور ميرے سوتيلي امي کے تين بچے ہيں، پہلے بھي ہم کرائے کے مکان ميں رہتے تھے، ميرے سوتيلے بہن بھائي پڑھتے ہيں اور ميں صبح کو اخبار بيچ کر دکان پر آجاتا ہوں اور شام کو برف والے گولے کي ريڑھي لگاتا ہوں، اور وہ سب ميري محنت کي کمائي کھاتے ہيں۔

اس کے ساتھ وہ رو رہا تھا اور ميري آنکھيں بھي پر نم تھيں ، ميں اس سے کہا تم پڑھو گے تو اس نے ہاں ميں سر ہلاديا۔ميں نے کہا کہ ميں تم کو صبح اسکو داخل کراؤنگا اور تمہاري سوتيلي امي کے بچوں کو بھي، وہ بہت خوش ہوا اور پاني لےکر واپس چلا گيا۔
دوستوں۔۔۔۔ اس واقعہ کو ايک بار پھر پڑھیے اور سوچئے کہ ہم نے بھي کبھي از راہ ہمدردي اپنے ابو اور چچا جان سے کہہ کر اسي طرح کے غريب مسکين پر ترس کھايا اس کے اچھے مستقبل کي فکر کي، اگر نہيں تو آج طے کرليں کہ ہم بھي ايسا قدم اٹھائيں گے۔
 
Top