شمشاد
لائبریرین
خواب مزدور ہے
خواب مزدور ہے
رات دن سر پہ بھاری تغاری لئے
سانس کی
بانس کی
ہانپتی کانپتی سیڑھیوں پر
اُترتا ہے
چڑھتا ہے
رُوپوش معمار کے حکم پر
ایک لا شکل نقشے پہ اُٹھتی ہوئی
اوپر اٹھتی ہوئی
گول دیوار کے
خِست در خِست چکر میں محصور ہے
خواب مزدور ہے
ایک مُشقت زدہ آدمی کی طرح
میں حقیقت میں یا خواب میں
روز معمول کے کام کرتا ہوں
کچھ دیر آرام کرتا ہوں
کانٹوں بھری کھاٹ میں
پیاس کے جام پیتا ہوں
اور سوزنِ ہجر سے
اپنی ادھڑی ہوئی تن کی پوشاک سیتا ہوں
جیتا ہوں
کیسی انوکھی حقیقت ہے
کیسا عجب خواب ہے
ایک مشقت زدہ آدمی کی طرح
اپنے حصے کی بجری اٹھانے پہ مامور ہے
خواب مزدور ہے
(رفیق سندیلوی)