عزیز حامد مدنی خرام

منہاج علی

محفلین
خرام

کوئے بیتابی کی نیلی اوس میں محوِ خرام
دودھیا چادر میں اک نازک پری آہستہ گام

نرم دوشیزہ سبک تلووں کا رکھ دیتی تھی بار
رات کی زنجیر پر چلتی تھی کیا دیوانہ وار
جنبشِ دل کی طرح تھا وہ خرامِ تازہ کار
صبح تک اُس کے پروں کی جنبشیں تھیں خواب میں
اک ہَوا تھی زندگی کے گوشۂ محراب میں

مجھ کو بے حد چھیڑتا تھا اُس کی پرچھائیں کا چھل
میری آنکھیں تھیں تعاقب میں بہت پہلے پہل
وہ یہ کہتی تھی، ’’ٹھہرنے کا نہیں کوئی محل‘‘
پا برہنہ دشت و در میں دور تک جاتا تھا میں
دل کی کانِ زر کا سونا دے کے ٹھہراتا تھا میں

ایڑیاں وہ بیضوی آتش اثر ہوتی گئیں
نرمیاں تلووں کی سب برق و شرر ہوتی گئیں
خنجروں کی دھار سے بھی تیز تر ہوتی گئیں
میں نے بھی آنکھیں بچھا دِیں رات کی زنجیر پر
اُس کے تلووں کی لگن میں سو گیا شمشیر پر

رہگزر اُس کے دمِ رفتار سے ہے شعلہ فام
کٹ گئے دوشیزہ تلوے بجھ گئی نبضِ خرام
کوئلہ سی ہوگئیں وہ ایڑیاں آخر تمام
خاکِ دامن گیر سے لیکن یہ رَم رُکتا نہیں
ربط کی زنجیر سے اُس کا قدم رُکتا نہیں

عزیز حامد مدنی

از ’’نخلِ گماں‘‘
 
Top