خدا کو جو بُھلاتا ہے خدا اُس کو بُھلاتا ہے----برائے اصلاح

الف عین
عظیم
فلسفی
خلیل الرحمن
-------
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
------------
خدا کو جو بُھلاتا ہے خدا اُس کو بُھلاتا ہے
یہ دنیا جب رلاتی ہے ،خدا ہی یاد آتا ہے
-------------
خدا کو بھول جانے کا نہیں ہے حوصلہ مجھ میں
مجھے تو ہر مصیبت میں خدا ہی یاد آتا ہے
-----------
خدا کے ہی بھروسے پر مرا تو کام چلتا ہے
نہیں میری سمجھ اتنی ،وہی بگڑی بنانا ہے
-----------------
ملا ہے ساتھ رب کا جو مری یہ ہی ضرورت تھی
کبھی تنہا جو ہوتا ہوں تو دل ہی ڈوب جاتا ہے
-----------
سہارے پر تو غیروں کے مجھے جینا نہیں آیا
خدا کا شکر کرتا ہوں مجھے در پر بلاتا ہے
------------
مجھے میرے گناہوں کی سزا دینا نہیں یا رب
مجھے تیری جہنّم سے بڑا ہی خوف آتا ہے
-------------
کبھی ارشد نہ بھولے گا خدا کی اس عنایت کو
مجھے حالات کے سارے تھپیڑوں سے بچاتا ہے
 

الف عین

لائبریرین
پہلی بات یہ کہ خدا بھلانا کا محاورہ آپ اکثر استعمال کرتے ہیں جو کچھ عجیب سا لگتا ہے خدا کو بھول جانا بہتر استعمال ہوتا ہے
خدا کو جو بُھلاتا ہے خدا اُس کو بُھلاتا ہے
یہ دنیا جب رلاتی ہے ،خدا ہی یاد آتا ہے
------------- بھلانے کے علاوہ یہ شعر دو لخت بھی ہے

خدا کو بھول جانے کا نہیں ہے حوصلہ مجھ میں
مجھے تو ہر مصیبت میں خدا ہی یاد آتا ہے
----------- درست

خدا کے ہی بھروسے پر مرا تو کام چلتا ہے
نہیں میری سمجھ اتنی ،وہی بگڑی بنانا ہے
----------------- اس میں بھی دو لختی کی کیفیت ہے اور بھرتی کے الفاظ (ہی تو) بھی!
خدا کے ہی بھروسے پر مرے سب کام ہوتے ہیں
بہتر مصرع نہیں؟

ملا ہے ساتھ رب کا جو مری یہ ہی ضرورت تھی
کبھی تنہا جو ہوتا ہوں تو دل ہی ڈوب جاتا ہے
----------- یہ آپ کو کیسے معلوم ہوتا ہے کہ رب اس وقت ساتھ ہے اور اس وقت نہیں؟
'ہی' بھرتی کا ہے، یہی میری ضرورت تھی کا ٹکڑا بہتر نہیں؟

سہارے پر تو غیروں کے مجھے جینا نہیں آیا
خدا کا شکر کرتا ہوں مجھے در پر بلاتا ہے
------------ یہ بھی دو لخت، بھرتی کے الفاظ؟

مجھے میرے گناہوں کی سزا دینا نہیں یا رب
مجھے تیری جہنّم سے بڑا ہی خوف آتا ہے
------------- مجھے دونوں مصرعوں میں ایک ہی پوزیشن پر؟
بڑا 'ہی'

کبھی ارشد نہ بھولے گا خدا کی اس عنایت کو
مجھے حالات کے سارے تھپیڑوں سے بچاتا ہے
... دوسرے مصرعے کا فاعل؟ پہلے مصرع میں 'کہ وہ' ضروری ہے
مزید یہ کہ میں کتنی ہی بار کہہ چکا ہوں کہ فوراً غزل کہتے ہی پوسٹ نہ کریں، کچھ وقت گزار کر اس کی نوک پلک خود درست کر لیں، شتر گربہ بھرتی کے الفاظ جن پر میں اکثر ٹوکتا رہتا ہوں، انہیں خود سدھار لیا کریں
 
الف عین
---
دوبارا
----
جسے ملتی ہے دنیا وہ خدا کو بھول جاتا ہے
یہ دنیا جب رلاتی ہے خدا پھر یاد آتا ہے
-----------------
خدا کو بھول جانے کا نہیں ہے حوصلہ مجھ میں
مجھے تو ہر مصیبت میں خدا ہی یاد آتا ہے
---------------
خدا کے ہی بھروسے پر مرے سب کام ہوتے ہیں
نہیں میری سمجھ اتنی ،وہی بگڑی بناتا ہے
------------
سکوں پاتا ہے دل میرا خدا کو یاد کرنے سے
جھکاتا ہوں جبیں اپنی تو دل کو چین آتا ہے
---------------
کبھی غیروں کے در پر تو جبیں میری نہیں جھکتی
خدا کا شکر کرتا ہوں مجھے در پر بُلاتا ہے
-----------
بچا لینا مجھے یا رب گناہوں سے خطاؤں سے
مجھے نارِ جہنّم سے بہت ہی خوف آتا ہے
---------------
کبھی ارشد نہ بھولے گا خدا کی اس عنایت کو
زمانے کے مصائب سے اسے وہ ہی بچاتا ہے
--------------
 

الف عین

لائبریرین
اس سے پہلے کے اشعار درست ہو گئے ہیں

کبھی غیروں کے در پر تو جبیں میری نہیں جھکتی
خدا کا شکر کرتا ہوں مجھے در پر بُلاتا ہے
-----------اس کی بہتر صورت
کبھی غیروں کے در پر یہ جبیں جھکتی نہیں میری
خدا کا شکر کرتا ہوں کہ وہ در پر بُلاتا ہے
لیکن یہ صرف بیانیہ کی اصلاح ہے، ربط کی کمی اب بھی ہے دونوں مصرعوں میں۔ یوں ہوتا تو بات درست ہوتی کہ میں تیرے آگے ہی سر جھکاتا ہوں
وہ اپنے در پر بلانے سے یہ مطلب بھی نکلتا ہے کہ حج کی سعادت نصیب ہو گئی ہے

بچا لینا مجھے یا رب گناہوں سے خطاؤں سے
مجھے نارِ جہنّم سے بہت ہی خوف آتا ہے
--------------- گناہوں خطاؤں تقریباً ایک ہی بات ہے
بڑے، چھوٹے گناہوں سے
بہتر رہے گا

کبھی ارشد نہ بھولے گا خدا کی اس عنایت کو
زمانے کے مصائب سے اسے وہ ہی بچاتا ہے
------------- وہ ہی! اب بھی ہے، بلکہ نئے مصرعے میں پرانی غلطی ہے 'اسے وہ ہی' کا متبادل 'وہی اس کو' نہیں سوجھ سکا! لیکن پہلے مصرعے کے بیانیہ سے دوسرے مصرعے کی گرامر یوں درست نہیں ہوتی، درست یہ ہوتا کہ ہمیشہ اسی نے مصائب سے بچایا ہے، imperfact tens کی ضرورت ہے دوسرے مصرعے میں۔
 
Top