خبر، خبریت اور خبرنامہ

عثمان غازی

محفلین
اطلاع سے شروع ہونے والا سفر خبر کی منزل پر پہنچ کرطاقت ور ہوجاتا ہے، خبر ایک زبردست قوت کا نام ہے، اگر اس کو صحیح طور پر برتا جائے تو حیرت انگیز نتائج حاصل ہوسکتے ہیں
خبر کی طاقت کا صحیح ادراک اسی وقت ہوتا ہے جب اس کی درست پہچان ہو، ایک انسان کو جانور کاٹ لے، یہ خبر نہیں بلکہ ایک اطلاع ہے، اگر ایک جانور کو انسان کاٹ لے تو یہ خبر ہے تاہم اطلاع کو خبر میں بدلا جاسکتا ہے اور اگر کوئی اطلاع کوہی خبر سمجھ کر برتے گا تو وہ خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں کرسکتا
خبر کے حوالے سے بعض ماہرین کا خیال ہے کہ ہر وقوع ہونے والی شے خبر ہے، یہ نظریہ کسی حد تک درست ہے، ہر وقوع ہونے والی شے دراصل خبر کی ایک خام حالت ہے، جسے ہم اطلاع کہتے ہیں، اس خام حالت کو خبر میں ڈھالنے کے لیے اس میں منظراور پس منظرکا مصالحہ ڈالنا پڑتا ہے، کراچی میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ایک شخص قتل ہوگیا، یہ خبر کی ایک خام حالت ہے، اس کو خبر کے قالب میں ڈھالنے کے لیے منظرنگاری ضروری ہے، مثلاً “کراچی میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے مزدور ہلاک ہوگیا، مزدور اپنے گھر میں اکیلا کمانے والا تھا، پولیس کا کہنا ہے کہ اس مزدور کو ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر فائرنگ کرکے قتل کیا گیا”، اس منظر نگاری کے بعد اگر خبر میں پس منظر دے دیا جائے کہ “آج کراچی میں ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر مرنے والے افراد کی تعداد 10ہوگئی” تو یہ پڑھنے اور سننے والوں کے لیے ایک دلچسپ خبر بن جائے گی اور اس خبر کو چلانے والا اخبار یا نیوز چینل اپنے ناظرین اور قارئین کی فطری خواہش کو پورا کرے گا
الیکٹرانک میڈیا کی آمد کے بعد سے خبر کی قوت میں مزید اضافہ ہوا ہے، کامیاب چینلز کے بلیٹن اور بریکنگ نیوز دیکھ لیں، وہ خبر کو برتتے ہیں جب کہ کم ریٹنگ والے نیوز چینل خبر سے جان چھڑاتے ہیں، وہ اطلاع کو ہی پیش کرکے آگے بڑھ جاتے ہیں جس سے ان کو خاطر خواہ نتائج نہیں مل پاتے

خبرکو برتنا ایک بہت ہی دلچسپ فن ہے، فاکس نیوز نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی نیوز مسلسل کئی دنوں تک چلائی، کیا اس ایشو کے علاوہ دنیا میں اس وقت کوئی واقعہ نہیں ہورہا تھا؟ یقیناً سب کچھ ویسے ہی ہورہا تھا، اگر اس وقت چینل اس ایشو سے ہٹتا تو یہ خبر کو برتنے کے خلاف ہوتا، ان دنوں فاکس نیوز کی ریٹنگ ٹاپ پر تھی، کسی ایک دن ناظرین نے یکسانیت محسوس نہیں کی، چینل نے اس وقت دو کام کیے، ایک تو عوامی رائے عامہ کو لے کر چلا تو دوسری جانب عوامی رائےعامہ کو ہموار کیا، خبربرتنے کے دوران یہ بہت اہم چیز ہے کہ چینل اگر عوامی رائے عامہ کے خلاف چلے گا تو نیوز کا یہ برتنا اس کے گلے بھی پڑسکتا ہے، نیوز کو برت کر رائےعامہ ہموار بھی کی جاسکتی ہے، رائے عامہ ہموار کرنے میں اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ اگر پیش کیے جانے والے مخصوص ایشو کے مخالف طبقے کو آزادی اظہار کی کھلی آزادی ہے تو رائے عامہ غیر محسوس انداز میں ہموار کی جائے، اس صورتحال میں چینل کو پارٹی نہیں بننا چاہیے، ملالہ یوسف زئی کہ ایشو پر پاکستان کے چینلز نے پارٹی بننے کی کوشش کی، سوشل میڈیا پر ملالہ یوسف زئی کے حوالے سے ہونے والے اقدامات پر شدید مخالفت تھی، مخالفین کھل کر اظہار رائے کررہے تھے، نتیجتاً ملالہ ایشو کو برتنا بعض چینلز کی ساکھ کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا، سوشل میڈیا اس وقت اظہار رائے کا ایک اہم پلیٹ فارم ہے، نیوز ڈیسک سے وابستہ افراد کو یہاں کے رجحانات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے خبر اور اس کو برتنے کے حوالےسے اقدامات کرنے چاہیں، رائے عامہ کو ہموارکرتے ہوئے تو خاص طور پر سوشل میڈیا کا جائزہ لیا جائے، کسی ایشو پر بغیر پارٹی بنے بھی رائے عامہ ہموار کی جاسکتی ہے تو پارٹی بننے کی کیا ضرورت ہے، تمام طبقات میں چینل یا اخبار کی اچھی ساکھ سب سے زیادہ اہم ہے
ازقلم:عثمان غازی
 
Top