خاکے۔۔ عوض سعید

الف عین

لائبریرین
پیش لفظ
خلیل الرحمن اعظمی


عوض سعید

عوض سعید نہ تو میرا بچپن كا لنگوٹیا یار ہے اور نہ آغاز شباب كی سرمستیوں كا ساتھی لیكن آج سے كئی سال پہلے جب میں نے ’’ادب لطیف ‘‘میں اس كا افسانہ ’’بیدل صاحب‘‘ پڑھا تو ایسا معلوم ہوا كہ یہ شخص اپنے ہی قبیلہ كا ہے۔ مجھے اپنی اس كمزوری كا ہمیشہ سے اعتراف رہا ہے كہ میں اچھے سے اچھا افسانہ پڑھ كر عام طور پر بھول جاتا ہوں۔ پھر اگر كوئی اس كا پلاٹ بتانے لگے اس كے واقعات كو دوہرائے اور اسكے آغاز اور نقطۂ عروج پر روشنی ڈالے تو مجھے ایسا محسوس ہوتا كہ میں یہ كہانی پہلی بار سن رہا ہوں۔ لیكن میری اس كمزوری پر بعض ایسی كہانیاں قابو حاصل كرلیتی ہیں۔ جن میں لكھنے والے نے كسی ایسے كردار كی تخلیق كی ہو جس سے بے اختیار ملنے كو جی چاہنے لگے۔ نہ جانے كیوں مجھے ایسا محسوس ہونے لگتا ہے جیسے یہ كردار میرے آس پاس ہی كہیں موجود ہے اور كسی نہ كسی دن اس سے اچانك ملاقات ہو جائے گی اور یہ ملاقات دوستی میں تبدیل ہو جائے گی۔ نئی پود كے افسانہ نگاروں میں عوض كی اس خصوصیت نے مجھے اس كی طرف كھینچا اور میں اس كے تخلیق كئے ہوئے كرداروں كے ساتھ خود اس كی شخصیت كے تصوّر میں مگن رہنے لگا۔ ایك دن اچانك مجھے معلوم ہوا كہ وہ حیدرآباد چھوڑ كر دہلی آ گیا ہے اور اب مستقل یہیں قیام كرے گالیكن اس عجیب و غریب شخص نے مجھ سے ملنے كا موقع نكالا بھی تو كب یعنی جب وہ دہلی میں كچھ عرصہ گزار كر اور وہاں كی زندگی سے اكتا كر ہمیشہ كے لیے دكن كی طرف لوٹ رہا تھا۔ پہلی نظر میں اسے دیكھ كر مجھے كچھ دھچكا سا لگا۔ یوں تو اس كے خدوخال كافی تیكھے اور جاذب نظر ہیں اور اسے دیكھ كر تھوڑی دیر كے لیے عظمت اللہ خان كی دلادیز نظم ’’آندھرا دیش كی سندرپتری‘‘ كے بعض مصرعے یاد آنے لگتے ہیں لیكن وہ كچھ ایسا گم سم اور خاموش سا آدمی ہے كہ بالكل مٹی كا مادھو معلوم ہوتا ہے یا ایك ایسے سیاح كی مانند جو كسی اجنبی دیس میں پہنچ گیا ہو جہاں قدم قدم پر زبانِ یار من تركی كا احساس اسے ستا تا ہو۔ بہر حال اس سوئے ہوے آدمی كو جگانے میں مجھے خاصی دیر لگی۔ لیكن جب چوبیس گھنٹے گزرجانے كے بعد وہ كچھ مانوس سا ہو گیا تو اب اس كی خاموشی بھی خوبصورت معلوم ہونے لگی۔
عوض كو قریب سے دیكھنے كے بعد میرا كچھ ایسا اندازہ ہے كہ اس كے افسانے عام افسانہ نگاروں كی طرح اس كے تجربات و مشاہدات كا عكس ہی نہیں ہیں بلكہ اس كی شخصیت كی تكمیل بھی كرتے ہیں۔ عوض سعید نام كا جو آدمی ہے وہ ایك ’’ادھوری شخصیت‘‘ ہے۔ اس سے پورے طور پر ملنے كے لیے اس كے تخلیق كئے ہوئے كرداروں كے ساتھ بسر كرنا ہوگا۔ چنانچہ اس كے افسانہ ’’خون صدہزار انجم‘‘ كا بہاری ’’پہلی تنخواہ كا عبدالصمد كمپونڈر’’نیكی كا بھوت‘‘ كا وہ كردار جس كانام اس نے حرامی ركھا ہے ’’ریت كے محل‘‘ كا بدصورت كارٹونسٹ، ’’كوئلہ جلبھٹی و راكھ‘‘ كا ٹیوٹر اور ’’كفارہ‘‘ كاٹرومین یہ سب خود اپنی جگہ پر ایك مستقل كردار اور كسی نہ كسی سماجی قدر كے نمائندہ ہیں۔ لیكن اس كے باوجود عوض سعید نام كے افسانہ نگار كی شخصیت كا پس منظر بھی ہیں۔
اُردو كے پرانے اور نئی نسل كے بہت سے افسانہ نگاروں كی كہانیاں میرے زیرِ مطالعہ رہی ہیں۔ مجھے كچھ ایسا لگتا ہے كہہ ہمارے بعض فنكار افسانہ نگار سے زیادہ ’’منشی‘‘ اور مضمون نگار‘‘ ہیں۔ كہانیوں سے كاٹ كر كہانی بنانا، واقعات كی كھتولی تیار كرنا، اہم سیاسی اور سماجی مسائل پر واعظانہ قسم كے مكالمے یا تقریریں اپنے افسانوی اشخاص كی زبان سے ادا كرنا، جنسی زندگی كے بارے میں ممنوعہ لٹریچر سے حاصل كی ہوئی معلومات پیش كر كے اس پر كچے ذہن كے نوجوانوں كی طرح للچانا یہ سب ایسی باتیں ہیں جن كی وجہ سے رسالوں میں چھپنے والے افسانوں كا مطالعہ میرے لیے ہمیشہ ایك آزمائش كا مرحلہ رہا ہے۔ كم ہی ایسی كہانیاں ملتی ہیں جنھیں شروع كر دینے كے بعد ختم كرنے كو جی چاہے اور جب ختم ہو جائیں تو اس افسانہ نگار كی دوسری كہانی كا انتظار شروع ہو جائے۔ ایسے افسانہ نگاروں كی ’’ذات‘‘ ممكن ہے قریب سے دیكھنے پر دل چسپ نظر آئے لیكن ان كی تحریریں پڑھ كر ہمیں كسی بھی ’’شخصیت‘‘ كا سراغ نہیں ملتا اور نہ ہی انھیں ڈھونڈنے كو جی چاہتا ہے۔ عوض ایك ایسا افسانہ نگار ہے جس كی كہانیاں پڑھنے والوں كو اسے ڈھونڈنے پر اكساتی ہیں اور جب ملنے پر بھی اس سے ملاقات نا مكمل رہ جاتی ہے تو پھر اس كی تحریروں میں اسے دوبارہ تلاش كرنے كو جی چاہتا ہے۔
 
Top